امی اور مولوی
یہ آج سے پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے۔ ہمارے والد کراچی میں کام کرتے تھے اور سال میں دو بار ہی آتے تھے۔
کراچی میں بچی کے ساتھ ریپ کا مقدمہ آ گیا تھا۔ اس لیے ابا نے مولوی کو رکھ لیا جو ہمیں گھر میں ہی پڑھانے آتا تھا۔ ہمارے محلے کے دوسرے بچے بھی ہمارے گھر آتے تھے۔ میری امی مولوی سے پردہ کرتی تھی اور کبھی اُنکے سامنے نہیں آئی تھی۔
میری امی کپڑے بھی سلائی کر لیتی تھی تو اس وجہ سے امی اور مولوی کی بات چیت شروع ہو گئی۔ مولوی مجھے کپڑے دے کر میرے ذریعے امی کو پیغام بھیج دیتا کہ اس اس طرح سلائی کرنے ہے۔
کوئی ایک مہینے ایسے کرنے کے بعد امی اور اُسکی ملاقات اس طرح شروع ہوئی کہ وہ ہمیں عربی پڑھانے کے بعد امی کو بلا لیتا اور میرے سامنے ہی خود سمجھا دیتا کہ ایسے ایسے سلائی کرنے ہیں۔
جب امی اُس سے ملنے لگی تو مولوی جو پہلے کبھی کبھار مہینے میں ایک آدھ سوٹ دیتا تھا اب وہ مہینے میں پانچ چھ سوٹ لے آتا کہ اس سوٹ کی بازو ٹھیک کر دے ۔ ایسے ہی امی اور اُنکی دوستی ہو گئی اور اُسنے یہ کہہ کر امی سے فون نمبر لے لیا کہ میری بیوی آپکو خود سمجھا دیا کرے گی ۔ پھر وہ رات کو امی کو فون کرنے لگا۔
اب جب ہم عربی پڑھ کے فارغ ہوتی۔ امی آ جاتی اور میرے سامنے ہی دونوں ہنس ہنس کر باتیں کرتے۔ میں بچہ تھا تو شاید اُنکو میرا ڈر نہیں تھا۔
پھر ایسا ہونے لگا کہ امی جیسے ہی اندر جاتی کبھی امی تو کبھی وہ مُجھے کسی کام کے بہانے بھیج دیتے۔ ایسے ہی ایک بار میں جلدی آیا تو میں نے دیکھا کہ امی اور وہ بالکل ساتھ ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر باتیں کر رہے تھے اُسکا ہاتھ امی کی کمر پر تھا۔
میں اندر گیا تو مولوی اونچی آواز سے بولا کہ دم ہو گیا ہے اب آپکا سر درد ٹھیک ہو جائے گا۔
ایسے ہی ایک دِن میں سکول میں بیمار ہو گیا تو جلدی گھر آ گیا تو مولوی کی بائک ہمارے گھر کے سامنے کھڑی تھی میں بہت حیران ہوا پھر میں نے دروازے پے دستک دی لیکن دروازہ نہ کھلا ۔ میں نے تھوڑی دیر ایسے ہی دروازے پے دستک دی۔ جب دروازہ نہ کھلا تو میں ہمساوں کے گھر گیا
اُنکی چھٹ سے اپنے گھر کی چھٹ پے اُتر گیا۔ میں نیچے آیا تو کمپیوٹر پے گانے بج رہے تھے اور اسی وجہ سے امی کو میری آواز نہیں سنی۔ میں امی کے کمرے میں گیا تو وہاں پے مولوی اور امی دونوں ننگے بیٹھے تاش کھیل رہے تھے۔ وہاں میز پے بوتل لیز اور کچھ ساتھی کے پیکٹ بھی پڑے تھے ۔دو تین منٹ بعد اُنکا کھیل ختم ہو گیا تھا اُسنے امی کو لیٹایا اور امی کی پھدی بھی اپنی زبان رگڑنے لگا۔ امی کی گانڈ پے اُسکی داڑھی چھب رہی تھی اور امی کے چہرے سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ امی کو درد ہو رہی ہے امی نے اسے ایک بار بھی بھی کہا اور نہ ہی وہ رکا۔
پھر جب اُسکا دل بھر گیا تو اُسنے ویسے ہی امی کی ٹانگیں اٹھائی اور امی کی پھدی پے لن رگڑنے لگا امی نے اسے کہا کہ ساتھی پہن لو تو وہ بولا میں فارغ ہونے سے پہلے نکال لوں گا۔ اس پے امی بھی چپ ہو گئی ۔ اُسنے اَپنا لن امی کی پھدی میں ڈالا تو امی کی چیخ نکل آئی۔ امی بولی اب تو اتنی بار تیرا لن میرے اندر چلا گیا ابھی بھی درد ہوتی ہے۔ وہ کچھ نہیں بولا کوئی دو منٹ ایسے ہی چودنے کے بعد اُس نے اپنا لن باہر نکالا اور امی کو کہا کہ گھوڑی بن جاؤ امی کے گھوڑا بنتے ہی وہ امی کو وحشیوں کی طرح چودنے لگا۔ امی بھی خوب مزے سے چدوا رہی تھی اور چینخ رہی تھی۔ پھر پانچ منٹ کے بعد اس نے اپنا لن باہر نکالا اور ساتھ ہی اُسکے لن سے پچکاری نکلی اور سیدھا امی کے بالوں پے جا گری اورپھر اُسنے لن کو صاف کرنے کے لیے امی کی بنڈ پر مل دیا۔ ۔ امی بولی کہ میں نے آج نہانا نہیں تھا اب مجھے نہانا پڑے گا اور پاس پڑے کپڑے سے اپنے بال اور پھدی صاف کرنے لگی۔ اتنے میں اُسنے اسے گھوڑی کی پوزیشن میں امی کی پھدی پے منہ رکھا اور چاٹنے لگا اور تھوڑی دیر میں امی کی پھدی سے بھی پچکاری نکلی اور اُسکا سارا چہرہ بھی بڑھ گیا اور پھر امی اور وہ دونوں ہنس پرے ۔
وہ وہیں لیٹ گیا امی اٹھی اور اُسکے ساتھ لیٹ گئی اور پھر وہ باتیں کرنے لگے۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد امی نے اُسکا ہاتھ پکڑا اور اُسکے کپڑے لیے اور امی اور وہ ننگے ہی باتھروم میں چلے گئے۔
میں بھی دوسرے کمرے سے باہر آیا اور اندر جا کر لیز کھانے لگا تھوڑی دیر بعد امی ننگی ہی کمرے میں آئی مُجھے لیز کھاتا دیکھ کر وہ سمجھ گئی کہ میں نے سب کچھ دیکھ لیا لیکن میں بچہ تھا تو انکو ڈر نہیں لگا تو وہ میرے پاس آئی تو میں نے پوچھا امی آپ یہ کیا کر رہے تھے تو امی بولی مولوی صاحب میرے دم کر رہے تھے۔
اگر تم کسی کو نہیں بتاؤ گے تو روز تمہیں لیز اور بوتل دیا کروں گی۔ میں مان گیا۔
امی نے اسی شام مولوی کو بتا دیا اور اگلی شام سے ہی مولوی نے محلے کے باقی بچے ہٹا دیے۔ اب وہ صرف مجھے پڑھانے آتا تھا اور جب کبھی مُجھے سبق نہیں آتا تو امی کو بلا لیتا اور امی کو مرغی بنا دیتا اور امی بھی خوشی خوشی مرغی بن جاتی اور پھر وہ امی کی پھدی پے ہاتھ پھیرتا اور ڈنڈے مارتا۔ کبھی کبھی امی کو شلوار اُتار کے مر غی بننے کو بول دیتا۔کبھی کبھار وہ مجھے کہتا سبق یاد کرو اور خود امی کو لے کر دوسرے کمرے میں چلا جاتا۔
روز رات کو عشاء کے بعد ہمارے گھر آ جاتا اور وہ اور امی ایک ساتھ ہی سوتے اور صبح کو ہمارے گھر سے ہی فجر کی نماز پڑھانے جاتا۔
حد تو تب ہوئی جب وہ میرے سامنے ہی امی کو بلا کر اُنکو لن چسواتا اور اُنکو چودتا۔
میں قرآن پڑھ رہا ہوتا اور سامنے وہ دونوں ننگے ہوتے اور پاگلوں کی طرح چدائی کر رہے ہوتے یہ واقعہ کوئی سال چلا اور پھر ایک ایکسڈنٹ میں وہ چل بسا تب تک میرا قرآن بھی پورا ہو گیا تھا اور میں بڑا بھی ہو گیا تھا تو امی نے کسی اور کو عربی کے لیے نہیں رکھا..
0 Comments