سلمان کی سٹوری



                                                       #سلمان کی سٹوری

میرا نام سلمان ہے . 4 بہنوں کا اکلوتا بھائی ہوں . جن میں سے 2 مجھ سے بڑی ہیں یعنی مہرین اور نورین . 2 بہنیں مجھ سے چھوٹی اور جڑواں ہیں امبرین اور ثمرین . میری ایک چچا زا د کزن صباء ہے جو میری دودھ شریک بہن بھی ہے . میری پیدائش پر میری امی کچھ بیمار ہو گئی تھیں تو صباء کی امی نے مجھے دودھ پلایا تھا . اِس طرح وہ بھی میری بہن بن گئی

ہمارا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے جہاں خاندان سے باہر شادیاں نہیں کرتے . خاندان میں اگر مناسب لڑکا نا ملے تو اکثر لڑکیوں کو مجبورا کسی شادی شدہ مرد سے ہی شادی کرنی پڑ جاتی ہے . میری بہنوں كے لیے بھی خاندان میں کوئی مناسب لڑکا نہیں مل سکا اِس لیے وہ بھی اب تک کنواری ہیں اور شاید ہمیشہ کنواری ہی رہیں .

میری تعلیم پر شروع سے ہی ابّا نے بہت توجہ دی اور پرائمری پاس کرتے ہی مجھے آگے پڑھنے كے لیے اپنے چچا کے پاس لندن بھیج دیا گیا جو 3 سال پہلے ہی لندن شفٹ ہوئے تھے . ظاہر ہے میری دودھ شریک بہن صباء بھی وہیں تھی . سو میرا دِل وہاں بھی لگ گیا . صباء شروع سے ہی میرے ساتھ بہت بے تکلف تھی اور اب تو ہمارا ہر پل کا ساتھ تھا . ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے اور ہمیشہ اکٹھے ہی رہتے . پڑھائی بھی اکٹھے ہی کرتے اور اکثر پڑھتے پڑھتے ایک ہی روم میں سو بھی جاتے .

جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے ہماری آپس کی بے تکلفی بڑھتی گئی اور اب ہم کھل کر ایک دوسرے کے پرائیویٹ پارٹس پر بھی کمنٹ کرنے لگ گئے تھے . اس کے بوبز ابھی چھوٹے تھے مگر بہت سیکسی لگتے تھے . میں اکثر آتے جاتے اس كے بوبز پریس کر دیا کرتا اور وہ بھی میرا لن کھینچ دیا کرتی تھی .

 

صباء كے لیے چچا جان نے انٹرنیٹ بھی لگوایا ہوا تھا جس پر وہ ہر وقت کچھ نا کچھ کرتی ہی رہتی تھی . ایک بار اس نے مجھے ایک انٹرسٹنگ چیز بتائی کہ اگر ہم اپنے پی سی مسلز کی ٹھیک سے ورزش کریں ( یعنی جن مسلز سے ہم اپنا پیشاب وغیرہ روک سکتے ہیں ) اور ان مسلز کو اسٹرونگ کر لیں تو سیکس كے وقت ہم زیادہ سے زیادہ ٹائم انجوئے کر سکتے ہیں . اسی دن سے ہی اس نے مجھے پی سی مسلز کی نیٹ پر بتائی ہوئی ورزش کرنے پہ لگا دیا تھا اور واقعی 2 مہینے كے اندر اندر میرے پی سی مسلز بہت اسٹرونگ ہو چکے تھے . اور اب میں ان مسلز کو 2 گھنٹے تک ٹائیٹ رکھ سکتا تھا . میں نے اسے اپنی اِس کامیابی كے بارے میں بتایا تو وہ بھی بہت خوش ہوئی اور ایک رات تو اس نے کمال ہی کر دیا .

پڑھائی سے فارغ ہوتے ہی اس نے کمرے کا دروازہ لوک کر کے مجھ سے کہا کہ اب تمہارے پی سی مسلز کا امتحان ہو جائے اپنا لن باہر نکالو . میں اس کے منہ سے یہ سن کے حیران رہ گیا . آج تک ہمارے درمیان ہر طرح کا مذاق ہوتا رہا تھا مگر ہم نے کبھی ایک دوسرے کے پرائیویٹ پارٹس دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی . ہمارے ذہن میں ہمیشہ یہ بات رہتی تھی کہ ہم بہن بھائی ہیں اور ہمارے درمیان سیکس وغیرہ جیسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہئے . مگر اس کی یہ بات مجھے حیران کرنے كے ساتھ ساتھ پریشان بھی کر رہی تھی کہ کہیں وہ مجھ سے سیکس تو نہیں کرنا چاہتی .

خیر میں نے اس کے انسسٹ کرنے پر پینٹ کھول کر نیچے کر دی اور انڈرویئر بھی نیچے کر دیا . میرا لن اب اس کے سامنے ننگا تھا جسے اس نے فوراً ہاتھ میں لے لیا اور اسے ہلانے لگی . کچھ ہی دیر میں میرا لن کھڑا ہو گیا تو وہ اٹھی اور اپنے بیڈ کی سائڈ ٹیبل سے موسچریزنگ لوشن اٹھا لائی اور تھوڑا سا لوشن میرے لن کی ٹوپی پہ گرا کر ہاتھ سے اسے پورے لن پہ مل دیا اور پِھر میری مٹھ لگانے لگی .

میں نے زندگی میں پہلے کبھی مٹھ نہیں لگائی تھی نا ہی میرا کبھی کسی لڑکی سے کوئی سیکشوئل انٹرکورس ہوا تھا . صباء كے علاوہ تو میں کسی لڑکی کی طرف غور سے دیکھتا ہی نہیں تھا اور اب وہی میرا لن ننگا کر كے اس کی مٹھ لگا رہی تھی . میرے اندر عجیب سا نشہ اور سرورلہریں لینے لگا . زندگی میں پہلی بار مجھے ایسا مزہ آ رہا تھا . دِل چاہتا تھا وہ اسی طرح میرے لن کی مٹھ لگاتی رہے اور میں مزے کی وادیوں میں کھویا رہوں .

20 منٹ یوں ہی گزر گئے اور اب مجھے لگنے لگا کہ میرے لن سے کچھ نکلنے والا ہے . پہلے بھی 3 ، 4 بار سوتے میں میرا احتلام ہو چکا تھا اِس لیے میں سمجھ گیا کہ میرا احتلام ہی ہونے لگا ہے . میں نے اسے بتایا کہ میرا احتلام ہونے والا ہے تو اس نے کہا روک لو جیسے پیشاب روکتے ہیں . پی سی مسل ٹائیٹ کر لو . میں نے ایسا ہی کیا اور اپنے پی سی مسلز فل ٹائیٹ کر لیے اور مجھے صاف طور پہ محسوس ہوا کہ میرے اندر سے جو بھی نکلنے والا تھا وہ اندر ہی رک گیا ہے .

صباء نے اسی طرح مٹھ لگانا جاری رکھا اور اسی طرح 1 گھنٹہ گزر گیا . اب مجھ سے برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا . میں نے اس کا ہاتھ ہٹا دیا اور اسے بتایا کہ اب برداشت نہیں ہو رہا . وہ چُپ چاپ سائڈ پہ ہو گئی اور یوں لاپرواہی سے کوئی انگلش گانا گنگنانے لگی جیسے ابھی کچھ دیر پہلے کچھ ہوا ہی نا ہو . کچھ دیر گزری تو میں نے خود کو کچھ ایزی محسوس کیا اور ریلکس ہو كے بیڈ پہ تقریباً لیٹ سا گیا مگر اپنے پی سی مسلز کو ریلیز نہیں کیا . مجھے پتہ تھا اگر میں نے ایسا کیا تو یہیں سیلاب آ جائے گا .

تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بَعْد اس نے پِھر سے میرا لن پکڑ لیا اور پِھر سے مٹھ لگانی شروع کر دی . اِس بار میں نے بھی تہیہ کر لیا تھا کہ اِس بار زیادہ سے زیادہ ٹائم نکا لنا ہے اور میری اسی کوشش کی وجہ سے مزید 45 منٹ یوں گزر گئے کہ پتہ بھی نا چلا اور میں سرور میں ڈوبا انجوئے کرتا رہا اور جب 45 منٹ گزرنے پر مجھے محسوس ہوا کہ اب روکنا مشکل ہے تو میں نے اسے روک دیا . اِس بار اس نے خود ہی مجھے باتْھ روم کی طرف اشارہ کر دیا اور میں اپنی پینٹ اور انڈرویئر سنبھالے باتْھ روم کی طرف بڑھ گیا . وہاں پہنچنے تک بڑی مشکل سے روکا اور پِھر کموڈ کے پاس کھڑے ہو کر اپنے پی سی مسلز ریلیز کر دیئے . میرے اندر سے لاوا سا پھوٹ پڑا اور پورے 2 منٹ تک جھٹکوں سے میری منی نکلتی رہی اور کموڈ میں گرتی رہی . اور جب منی نکلنا بند ہو گئی تو میں نے گہری سانس لیتے ہوئے خود کو بہت پر سکون محسوس کیا اور انڈر وئیر اور پینٹ پہن کر دوبارہ کمرے میں آ گیا . صباء اپنے بیڈ پر ٹانگیں نیچے لٹکائے آنکھیں بند کیے لیٹی تھی اور اِس طرح اس كے بوبز بہت سیکسی لگ رہے تھے .

میں اس کے پاس ہی بیڈ پر لیٹ گیا اور اس کے بوبز پریس کرنے لگا . اس نے آنکھیں کھول كے مجھے دیکھا اور مسکرا دی . میری ہمت بڑھی اور میں نے آگے ہو کے اس کے ہونٹ چومنے شروع کر دیے . وہ بھی میرا ساتھ دینے لگی اور ساتھ ساتھ میری کمر پہ ہاتھ پھیرنے لگی . اس كے بوبز میرے سینے سے لگے ہوئے تھے اور مجھے مزید جوش چڑھا رہے تھے . میرا لن جو کچھ دیر پہلے ڈھیلا پڑ چکا تھا ، اب پِھر سے کھڑا ہو کر ٹائیٹ ہونے لگا . میرے ھاتھوں نے اس کے ممے اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھے اور وہ ہلکا ہلکا کراہتے ہوئے کس کرنے میں میرا ساتھ دے رہی تھی .

" صباء ! سیکس کریں پلیز " مجھ سے رہا نہیں گیا تو میں اس کی آنكھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ گیا . اس کی آنکھوں میں بھی سیکس کی پیاس نظر آ رہی تھی مگر چہرے سے ہلکی سی بے بسی بھی چھلک رہی تھی . جیسے وہ سیکس کرنا چاہتی تو ہو مگر کسی وجہ سے مجبور بھی ہو .

" ابھی نہیں . میری شادی کے بَعْد کریں گے . " کچھ دیر سوچنے کے بَعْد اس نے کہا تو میں خوش ہو گیا اور پِھر سے اسے کس کرنے لگا . اس کی شادی میں اب زیادہ عرصہ نہیں رہا تھا . انفیکٹ چچا جان نے تو اس کے لیے ایک پاکستانی فیملی کا لڑکا بھی پسند کر لیا تھا جس کے ساتھ کچھ دنوں میں اس کی انگیجمنٹ بھی ہونے والی تھی . ویسے بھی وہ 19‎ سال کی ہو چکی تھی اور یہ عمر انگلینڈ جیسے ملک میں بڑی خطرناک سمجھی جا سکتی تھی . یہ صباء کی ہی ہمت تھی کہ اس نے اب تک خود کو سنبھالے رکھا تھا اور کنواری رہی تھی .

آدھے گھنٹے تک ہم یوں ہی ایک دوسرے سے لپٹے ایک دوسرے سے کس کرتے رہے اور پِھر میں اسے آخری کس کر کے اٹھا اور اپنے کمرے میں آ گیا . ساری رات اس کا حَسِین جِسَم اور خوبصورت رسیلے ہونٹ میری آنكھوں کے سامنے چھائے رہے اور میں ایک پل کے لیے بھی سو نا سکا . اگلے دن وہ بھی کچھ شرمائی گھبرائی سی لگ رہی تھی اور اس کی آنكھوں کے سرخ دوڑے بھی رت جگے کا اظہار کر رہے تھے . خیر اس دن کے بَعْد ہم روز رات کو یوں ہی کچھ دیر کسسنگ وغیرہ کرتے اور اپنے کمرے میں آ کے مستقبل کے سہانے سپنے سجانے لگتے . ایک دو بار تو میرے اصرار پہ اس نے قمیض اور برا بھی اتار دی تھی اور میں نے کافی دیر تک اس کے بوبز چومے اور چاٹے تھے جسے اس نے بھی بہت انجوئے کیا تھا . مگر پِھر ہمیں یہ خطرناک لگا کہ اِس سے سیکس کی پیاس اور بڑھ جاتی تھی . اِس لیے ہم نے دوبارہ نہیں کیا .

خیر وقت گزرتا رہا . 3 منتھس کے بَعْد اس کی انگیجمنٹ ہو گئی اور 1 سال بَعْد شادی . شادی کے بَعْد وہ تو اپنے شوہر کے گھر چلی گئی اور میں اس کی یاد میں روز رات کو گھنٹوں مٹھ لگاتا رہتا مگر اِس احتیاط کے ساتھ کہ مزہ بھی اپنے عروج کو نا پہنچے اور احتلام بھی نا ہو . یہ ادھوری سی مٹھ بھی عجیب سا مزہ دیتی اور میں بنا منی نکالے خود کو گویہ تنہائی کی سزا دیتا رہتا شادی کے ایک ہفتے بَعْد وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہنی مون منانے سوئٹزرلینڈ چلی گئی اور وہاں سے پاکستان چلی گئی . پہلے اپنے شوہر کے رشتےداروں کے ہاں رہیاور پِھر کچھ دن ہمارے گاؤں میں میری بہنوں کے ساتھ ہماری حویلی میں بھی رہی . اِس طرح 3 منتھس بَعْد وہ لندن واپس آئی تو شوہر سے اِجازَت لے کے اپنے ابّا کے گھر رہنے آ گئی .

رات کے انتظار میں ہم دونوں بے قرار تھے اور آخر کار رات ہو ہی گئی . روم لوک کر کے ہم دونوں 1 گھنٹے تک صرف بیڈ پہ لیٹے ایک دوسرے کو کس ہی کرتے رہے . پِھر اس نے اپنے کپڑے اتا رنے شروع کیے تو میں نے بھی اپنے کپڑے اتار دیئے . اس کے بوبز کو ننگا دیکھ کر میں ان پہ ٹوٹ پڑا اور جی بھر کے اُنہیں چُوما اور چاٹا . ایک دو بار تو ہلکا ہلکا بائٹ بھی کیا جسے صباء بھی انجوئے کرتی رہی . پِھر اس نے اپنی ٹانگیں کھول کے مجھے درمیان میں آنے کا اشارہ کیا اور میں نے اس کے حکم کی تعمیل کی . میرا لن کھڑا ہو چکا تھا اور اندر جانے کے لیے بےتاب ہو رہا تھا . اس نے سائڈ ٹیبل سے لوشن اٹھا کے میرے لن پہ ملا اور پِھر مجھے او کے کا سگنل دے دیا .

میں زندگی میں پہلی بار سیکس کرنے والا تھا . اِس لیے ہچکچاتے ہوئے اس کی پھدی کے سوراخ کی طرف اپنا لن بڑھایا اور پِھر سوراخ سے لن ٹچ ہوتے ہی جہاں مجھے ایک عجیب سا کرنٹ لگا ، وہاں وہ بھی اپنی جگہ اُچھل پڑی . ہم دونوں کی نظریں ملیں اور پِھر دونوں ہی ہنس پڑے . میں دوبارہ لن اس کی پُھدی پہ لے گیا اور پِھر سوراخ پہ ایڈجسٹ کرتے ہوئے ہلکا سا پُش کیا تو لوشن کی وجہ سے پھسل کے ایک چوتھائی اندر چلا گیا .

مجھے بہت مزہ آیا . اب تک مٹھ لگانے سے بھی اتنا مزہ نہیں آیا تھا جتنا یوں ایک چوتھائی ہی پُھدی میں ڈال کے آ رہا تھا . کتنی ہی دیر تک تو میں وہاں سے ہلا ہی نہیں . پِھر صباء نے آنكھوں ہی آنكھوں میں پوچھا کہ کیا ہوا تو مجھے ہوش آیا اور میں نے مزید پُش کیا اور آدھا لن اندر چلا گیا . اب آگے پُھدی ٹائیٹ محسوس ہو رہی تھی اور لن پھنس پھنس کے اندر جا رہا تھا . مگر میں نے پُش کرنا جاری رکھا اور آخر کار پورا لن اندر پہنچ گیا .

صباء : تمہارا لن میرے شوہر کے لن سے بڑا بھی ہے اور موٹا بھی . مجھے پہلی بار اتنا مزہ آیا ہے اندر لینے میں .

میں : اور میں تو پہلی بار کر رہا ہوں . میرے مزے کی تو انتہا ہی نہیں ہے .

صباء : پلیز اب جلدی ڈسچارج نا ھونا . روحیل ( اس کا شوہر ) تو 10 منٹ میں ہی فارغ ہو کے سو جاتا ہے . میں سلگتی رہ جاتی ہوں .

میں : میں بھی پوری رات تم سے پیار کرنا چاہتا ہوں میری جان . فکر مت کرو . میں تمھیں پورا مزہ دوں گا . کتنے انتظار کے بَعْد تو یہ رات آئی ہے . اسے میں ہمیشہ کے لیے یادگار بنا دوں گا .

صباء : اوہ سنی . آئی لو یو جان . اب مجھے مزہ دو پلیز . آگے پیچھے ہو کے زور زور سے جھٹکے لگاؤ . میں تمہارے پیار کے لیے ترس رہی ہوں . مجھے جی بھر کے پیار کرو . میں نے اس کے کہنے كے مطابق آگے پیچھے ھونا اور جھٹکے لگانا شروع کر دیا اور مجھے اور بھی مزہ آنے لگا . تقریباً آدھا گھنٹہ ہم نے اِس پوزیشن میں سیکس کیا اور پِھر میں نے لن باہر نکال لیا . میں نہیں چاہتا تھا کہ ابھی میں کلائیمیکس تک پہنچوں . اِس لیے کچھ دیر اس کے ساتھ لیٹ کے کسسنگ کرتا رہا . وہ بھی شاید سمجھ گئی تھی کہ میں اِس رات کو بھرپور طریقے سے انجوئے کرنا چاہتا ہوں . ہم دونوں 5 منٹ تک کس کرتے رہے پِھر میں نے اس کے بوبز سک کرنے شروع کر دیئے . ایک طرف کا بوب سک کرتا اور دوسری طرف کے بوب کو ہاتھ سے پریس کرتا . اِس طرح آدھا گھنٹہ اور گزر گیا . پِھر میں نے اسے دوسری طرف کروٹ لینے کو کہا اور اس کی اوپر والی ٹانگ کو ذرا سا آگے کو سرکایا تو پُھدی کا راسته بن گیا . میں نے لن پِھر پُھدی میں ڈالا اور اندر باہر کرنے لگا . تقریباً آدھا گھنٹہ گزرنے کے بَعْد ایک بار پِھر میں نے لن باہر نکال لیا . اِس طرح میں نے اس رات تقریباً 6 ، 7 بار کیا . ہر بار کلائیمیکس پر پہنچنے سے پہلے ہی لن باہر نکال لیتا اور 5 منٹ کسسنگ کرنے اور اس کے بَعْد اس کے بوبز سک کرنے کے بَعْد دوسری پوزیشن میں اس کے ساتھ سیکس کرنے لگتا . اِس طرح ہم نے مختلف پوزیشنز میں بھرپور سیکس کیا اور فل انجوئے کیا . پِھر ہم دونوں ہی کیونکہ تھک چکے تھے اِس لیے ہم نے فیصلہ کر لیا کہ اِس بار رکنا نہیں ہے . میں نے بیڈ پہ خود لیٹ کر اسے اپنے لن پہ بیٹھنے کو کہا اور وہ دونوں ٹانگیں میرے ارد گرد پھیلا کر اپنی پُھدی میں میرا لن ڈالتے ہوئے میرے اوپر بیٹھ گئی اور اوپر نیچے ہوتے ہوئے میرا لن اندر باہر کرنے لگی . میں بھی نیچے سے جھٹکے مار رہا تھا اور بھرپور انجوئے کر رہا تھا

اِس پوزیشن میں کافی دیر سیکس کرنے كے بَعْد میں نے وال کلاک پہ ٹائم دیکھا تو مزید 45 منٹ گزر چکے تھے . ہم دونوں نے ہی اپنے پی سی مسلز ٹائیٹ کیے ہوئے تھے اور اپنے کلائیمیکس کو فل انجوئے کر رہے تھے . صباء میرے لن پہ زور زور سے اُچھل رہی تھی اور ساتھ ہی اس کے بوبز بھی اچھل رہے تھے اور بڑا سیکسی نظارہ پیش کر رہے تھے . میں بھی نیچے سے جوش سے بھرپور دھکے لگا رہا تھا . آخِر ہم دونوں کی برداشت کی حد ایک ساتھ ختم ہو گئی . اُدھر صباء کا جسم اکڑنے لگا اور ادھر میرے اندر جیسے لاوا ابل پڑنے اور تباہی مچانے کو مچلنے لگا . ہم دونوں کی آنکھیں ملیں اور پِھر دونوں ہی ایک ساتھ ڈسچارج ہو گئے . میرے لن پہ لکویڈ گر رہا تھا اور میرا بھی کم زور دَا ر جھٹکوں سے نکل رہا تھا . صباء میرے اوپر لیٹ گئی تھی . ہم دونوں تقریباً 30 سیکنڈ تک ڈسچارج ہوتے رہے . اور پِھر میرا لن اس کی پُھدی سے نکلا تو وہ نڈھال سی ہو کے میرے ساتھ لیٹ گئی . میں نے ہاتھ بڑھا کے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور ہم دونوں عجیب سے نشے میں سرشار نا جانے کتنی دیر ایک دوسرے سے لپٹے رہے اور پِھر پتہ نہیں کب ہم دونوں کو ہی نیند آ گئی .صبح پانچ بجے صباء نے مجھے جھنجھوڑ كے جگایا . وہ نہا چکی تھی اور اس کے بالوں سے پانی کی بوندیں ٹپک رہی تھیں . میں نے اٹھ کے اسے گلے سے لگا لیا اور ایک بھرپور کس کی .

میں : تھینکس صباء . یہ رات مجھے ہمیشہ یاد رہے گی .

صباء : مجھے بھی . تم نے مجھے وہ مزہ دیا ہے جو شاید مجھے زندگی میں پِھر کبھی نا مل سکے .

میں : کیوں ؟ کیا پِھر کبھی نہیں آؤ گی اپنے ابّا كے گھر ؟

صباء : آؤں گی . مگر پِھر شاید تم یہاں نہیں ہو گے . تایا ابّا ( میرے ابّا ) میری خاندان سے باہر شادی پہ بہت ناراض ہوئے ہیں . اب تمہاری اسٹیڈز بھی کمپلیٹ ہو چکی ہیں . گریجوایشن کر چکے ہو . شاید کچھ دن میں ہی تمہارا بلاوا آ جائے اور تمھیں واپس پاکستان جانا پڑے . اِس لیے شاید یہ ہمارا پہلا اور آخری سیکس تھا .

میں : تم آج ہی چلی جاؤ گی اپنے گھر ؟

صباء : ہاں مجھے آج ہی جانا ہو گا . مگر تمھیں میری ایک بات ماننی ہو گی . پلیز وعدہ کرو .

میں : ہاں کہو . زندگی کی اِس سب سے یادگار رات کے بدلے میں اپنی زندگی کا ہر پل تمہارے نام کر سکتا ہوں .

صباء : مجھے یقین ہے جانو . اور یہ بھی یقین ہے کہ اگر یہ رات ہمارے درمیان نا آئی ہوتی تب بھی تم مجھ سے اتنا پیار کرتے ہو کہ میری ہر بات مان لیتے . یہ رات تو ہماری عمر بھر کی محبت کی یادگار تھی جسے ہم دونوں کبھی بھول نہیں پائیں گے . مگر پِھر بھی مجھے تم سے وعدہ لینا ہے . وعدہ لیے بغیر مجھے یقین نہیں آئے گا کہ تم میری وہ بات مانو گے یا نہیں .

میں : کہو نا میری جان . میں وعدہ کرتا ہوں . جو مانگو گی بنا سوچے سمجھے تمہاری نظر کر دوں گا .

صباء : سنی میری جان . تمہاری بہنوں کو تمہاری ضرورت ہے . وہ چاروں جوان ہو چکی ہیں . ان کی بھی وہی ضرورتیں ہیں جو ہر نوجوان لڑکا لڑکی کی ہوتی ہیں . اور ان پہ ظلم یہ ہے کہ ان میں سے کسی کی بھی شادی کا کوئی امکان نہیں . مایوسی کی انتہا پہ پہنچ کے وہ کوئی بھی قدم اٹھا سکتی ہیں . بلکہ مہرین کو تو میں نے محلے کے ایک لڑکے کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھتے پا کے ٹوکا بھی تھا . اسے امید اور یقین بھی دلایا تھا کہ ان چاروں بہنوں کی ہر ضرورت ان کا بھائی یعنی تم پوری کرو گے . یقین کرو سنی وہ میری بات سن كے پہلے تو گھبرا گئی تھی پِھر میرے یقین دلانے پہ اتنی خوش ہوئی کہ مجھ سے لپٹ کے رونے لگی . میں نے اس سے وعدہ لیا تھا کہ وہ تمہارے سوا کسی کا خیال بھی اپنے دِل میں نہیں آنے دے گی اور باقی 3 بہنوں کو بھی ادھر اُدھر نہیں بھٹکنے دے گی بلکہ تمہاری امانت سمجھ كے سب کو سنبھا ل كے رکھے گی . اب میرے وعدے کی لاج تم نے رکھنی ہے سنی . ورنہ عمر بھر کی بدنامی تمہارے خاندان کی قسمت بن جائے گی .

صباء کی بات پہ غور کرنے پہ واقعی میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے . 4 جوان لڑکیاں جنہیں اپنی شادی سے مایوسی ہو چکی ہو اور بے راہ روی کا رستہ ان کے سامنے کھلا ہوا ہو . ایک ذرا سا موقع ملنے پہ بھی وہ اپنی عزت کسی سے بھی لٹوانے کو تیار ہو جائیں گی . اور جس مرد سے وہ صحبت کریں گی اس سے بات دوسروں کو بھی پتا چلے گی اور پِھر پورے گاؤں میں شہرت پھیل جائے گی . پورے گاؤں میں ہمارا خاندان رنڈیوں کا خاندان مشھور ہو جائے گا . نہیں . یہ نہیں ھونا چاہئے .

مجھے خود ہی ان کی پیاس بجھانی ہو گی . اُنہیں ادھر اُدھر بھٹکنے سے بچانا ہو گا . اِس لیے نہیں کہ صباء نے ان سے وعدہ کیا ہے ، بلکہ اِس لیے کہ وہ میری بہنیں ہیں اور ان کی عزت میری بھی عزت ہے . دِل میں ایک فیصلہ کرتے ہوئے میں نے صباء کو پِھر گلے لگا لیا .

میں : تھینکس صباء . تم نے بہت اچھا کیا جو آپی سے وعدہ لے لیا اور اُنہیں میری طرف سے یقین دلا دیا کہ میں ان کے ساتھ . . . . . میں اپنی بہنوں کو کہیں بھٹکنے نہیں دوں گا . سب کی پیاس بجھاؤں گا . ان کے دِل کی ہر حسرت نکال دوں گا . اتنا پیار دوں گا اُنہیں کہ کبھی کسی اور کی طرف دیکھنے کا سوچنا بھی نہیں چاہیں گی .

صباء : میں جانتی تھی میری جان . تم یہ سب جاننے کے بَعْد اُنہیں نظر اندازِ کرنے کا سوچو گے بھی نہیں . اسی لیے تو میں نے تمہاری طرف سے انہیں یقین دلایا تھا . اب میں تو آج جا رہی ہوں . 3 ، 4 دن میں تمہاری بھی ٹکٹ آجائے گی پاکستان کی اور فون تو شاید آج ہی آ جائے . اِس لیے مجھے تو آج ہی الوداع کہہ دو . ہو سکتا ہے پِھر کبھی ہماری ملاقات ہی نا ہو .

ہم دونوں کتنی ہی دیر ایک دوسرے سے لپٹے رہے اور تھوڑی تھوڑی دیر بَعْد کس بھی کرتے رہے . پِھر باہر ہلکی ہلکی روشنی پھیلنے لگی تو میں اسے الودائی نظروں سے دیکھتے ہوئے اس سے الگ ہوا اور اس کے کمرے سے نکل آیا . اپنے کمرے میں جا کے میں نے ٹھنڈے پانی سے باتْھ لیا اور پِھر باہر نکل آیا . چچا اور چچی بھی اٹھ چکے تھے . ہم سب کافی دیر باتیں کرتے رہے . پِھر صباء بھی کمرے سے نکل آئی . سب نے اکٹھے ناشتہ کیا اور ناشتے کے بَعْد صباء کا شوہر اسے لینے آ گیا تو ہم نے اسے الوداع کہہ دیا . یہ شاید ہماری آخری ملاقات تھی .

اسی شام مجھے پاکستان سے ابّا جان کا فون آ گیا اور انہوں نے مجھے فوراً واپس آنے کا حکم دیا . میری ٹکٹ بھی وہ فیکس کر چکے تھے جو مجھے کچھ دیر میں ملنے والی تھی . میں نے چچا جان کو بتایا تو وہ بھی اُداس ہو گئے 3 4 دن ان کے ساتھ گزا ر کے میں نے بل آخِر اُنہیں الوداع کہا اور پاکستان کے لیے فلائٹ لے لی جس کی ٹکٹ مجھے ابّا جان نے بھیجی تھی . اب مجھے اپنی بہنوں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچانا تھا .

اپنے گھر آ كے اپنی بہنوں کو اتنے سالوں بَعْد دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا . چاروں ایک سے بڑھ کے ایک حَسِین تھیں . بڑی دونوں تو بھرپور جوان ہو چکی تھیں . جبکہ چھوٹی دونوں جو جڑواں تھیں ، وہ ابھی کم عمر اور معصوم لگتی تھیں . اور واقعی وہ دونوں بہت معصوم تھیں . مجھے دیکھتے ہی مجھ سے لپٹ گئیں اور تب تک نہیں چھوڑا جب تک امی نے ڈانٹ کے مجھے چھوڑنے کو نہیں کہا . ان کی اِس محبت کو میں چاہ کے بھی کوئی غلط معنی نہیں پہنا سکا کہ یہ تو ان کی مجھ سے محبت کا بے ساختہ اظہار تھا اور ان کی اِس حرکت میں بھی ان کی معصومیت جھلکتی تھی . اِس کے بار عکس بڑی دونوں بہنیں کچھ جھجکی سی اور مجھ سے دور ہی رہیں . دور سے ہی سلام دعا اور حال احوال پوچھا اور پِھر سب بڑے حال کمرے میں بیٹھے تب بھی وہ دونوں دور ہی بیٹھیں . جبکہ چھوٹی دونوں یہاں بھی مجھ سے جڑی بیٹھی مجھ سے لندن کے حالات پوچھ سن رہی تھیں . مجھے چھوٹی دونوں بہنوں کی معصومیت کے ساتھ ساتھ بڑی دونوں بہنوں کی جھجک اور گریز پہ بھی پیار آنے لگا اور میں نے تہیہ کر لیا کہ ان چاروں پہ خود سیکس مسلط کرنے کی بجائے صرف ان کی ضرورت پوری کروں گا . ان کی خواہشات جو حسرتیں بن چکی ہوں گی ، اُنہیں پوری کرنے کی کوشش کروں گا . چاھے مجھے اِس كے لیے کسی بھی حد تک جانا پڑے .

 

صباء نے مہرین آپی کے دِل میں میرے متعلق جو بات ڈال دی تھی اس کا اثر میں ان کے علاوہ نورین آپی پہ بھی دیکھ رہا تھا . وہ دونوں میری طرف دیکھتے ہوئے بھی گھبرا رہی تھیں کہ کہیں میں اُنہیں بھائی کی نظروں سے نا دیکھتے ہوئے سیکس کی نظروں سے تو نہیں دیکھ رہا . جبکہ ثمر ین اور امبرین ان باتوں سے انجان اپنی معصومانہ بے ساختگی سے مجھ سے جڑی بیٹھی تھیں . اُنہیں یہ پرواہ ہی نا تھی کہ وہ دونوں بھی اب جوان ہو گئی ہیں اور اپنے جوان بھائی سے لگی بیٹھی ہیں . میں ان کے لیے شاید ابھی تک بھائی ہی تھا ، ابھی اُنہیں شاید کسی جوان لڑکے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی . اور یہ ان كے لیے بہت اچھی بات تھی کہ ابھی تک وہ اپنی فطری خواہشات کی تڑپ اور نفس کی طلب سے بچی ہوئی تھیں .

اپنی چھوٹی بہنوں کی معصومیت کے ذکر سے آپ یہ مت سمجھیے گا کہ بڑی دونوں بہنوں کی نگاہوں میں غلاظت یا گندگی آ چکی تھی یا وہ سیکس کی آگ میں تڑپ رہی تھیں یا مجھے سیکس کی بھوکی نظروں سے دیکھ رہی تھیں . نہیں . ایسا ہرگز ہرگز نہیں تھا . مشرق کی وہ بیٹیاں ابھی تک مشرقی ہی تھیں اور اپنی شرم و حیا کو انہوں نے ابھی تک رخصت نہیں ہونے دیا تھا . انہوں نے مجھے اب تک کسی اور نظر سے ہرگز نہیں دیکھا تھا بلکہ ان کے ہر اندازِ سے گھبراہٹ جھلک رہی تھی کہ کہیں میں تو اُنہیں اِس نظر سے نہیں دیکھ رہا . اور مجھے ان کا یہ گریز ، یہ گھبراہٹ اچھی لگ رہی تھی . اپنی بہنوں کی شرافت اور پاکیزگی نے مجھے متاثر کیا تھا . نفسانی خواہشات تو ان کی بھی ہوں گی مگر انہوں نے ابھی تک اپنے نفس کو بے لگام نہیں ہونے دیا تھا . اور اور مجھے یہی کوشش کرنی تھی کہ نفس ان پہ اتنا حاوی نا ہو جائے کہ وہ اپنی شرم و حیا رخصت کر بیٹھیں . اگر فطری تقاضے اُنہیں کچھ زیادہ ہی بے قابو کر دیتے تو مجھے ان کا رخ اپنی طرف موڑنا تھا . ورنہ تب تک اُنہیں صرف ایک بھائی ، ایک ہم عمر دوست کی رفاقت مہیا کرنی تھی . ان کے پرابلمز شیئر کرنے تھے ، ان پرابلمز کا سلوشن نکلنا تھا اور ان کی گھبراہٹ دور کرتے ہوئے اُنہیں مجھ پہ اعتبار کرنے پہ مجبور کرنا تھا . اور اعتبار کبھی ایک دن میں قائم نہیں ہوتا . اِس کے لیے طویل کوشش اور عمل کرنا پڑتا ہے . اور مجھے اِس کا آغاز آج سے ہی کرنا تھا .

ہماری باتوں کی محفل اسی حال کمرے میں رات ہونے تک جاری رہی . پِھر امی ابّا نے ہم سب کو سونے کا حکم دے کے اٹھا دیا تو میں بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا . مگر اب مجھے اپنا کمرہ یاد نہیں آ رہا تھا کہ کونسا ہے . حویلی میں ویسے ہی بہت سے کمرے تھے اور اتنے برسوں بَعْد آنے کی وجہ سے میں الجھ سا گیا تھا کس کمرے کا رخ کروں . اتنے میں قریب سے مہرین آپی گزریں تو مجھے دیکھ کے رک گئیں اور پوچھا کہ یہاں کیوں کھڑے ہو . کمرے میں کیوں نہیں جاتے ؟ میں نے بتایا کہ میں کمرہ بھول گیا ہوں تو کچھ دیر تو مجھے شک بھری نظروں سے دیکھتی رہیں پِھر مجھے اپنے پیچھے آنے کا کہہ کے آگے بڑھ گئیں . ایک ہی رو میں آمنے سامنے بنے ہوئے 8 کمروں میں سے میرا کمرہ سب سے آخر میں دائیں طرف تھا . مہرین آپی نے کمرے کی طرف اشارہ کیا تو میں ان کا گریز محسوس کرتے ہوئے تھینکس کہہ کے کمرے کے دروازے کی طرف بڑھ گیا . دروازہ کھولتے ہوئے پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہ سامنے والے کمرے میں داخل ہو رہی تھیں . اگلے ہی لمحے ان کے کمرے کا لوک لگنے کی آواز آئی تو مجھے شرمندگی سی ہونے لگی . وہ مجھ سے اتنا گھبرا گئی تھیں کہ اپنے کمرے کا دروازہ بھی کھلا نہیں چھوڑا تھا کہ کہیں میں دروازہ کھلا دیکھ کے کوئی بری حرکت نا کر گزروں . یہ بے اعتباری کی انتہا تھی . اور میں نے ان کا اعتبار بَحال کرنا تھا اِس لیے چُپ چاپ اپنے کمرے میں داخل ہو گیا اور اپنے پلنگ پہ لیٹ گیا .

کافی دیر تک کافی دیر تک نیند نہیں آئی اور میں صباء کے ساتھ گزرا وقت یاد کرتا رہا . ہمارا کئی برسوں کا ساتھ تھا جس کا ہر لمحہ ایک خوشگوار یاد بن کے ہمیشہ کے لیے میرے تصور کی اسکرین پہ نقش ہو چکا تھا . انہی خوشگوار یادوں کو تصور میں لیے نا جانے کب میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا .

اگلی صبح امبرین اور ثمر ین کے جھنجھوڑنے پہ ہی میری آنکھ کھلی . 8 بج چکے تھے اور آدھے گھنٹے میں ناشتہ لگنے والا تھا . اور یہ بات تو مجھے شروع سے ہی یاد تھی اور کل رات کو امی نے بھی بتایا تھا کہ صبح کا ناشتہ 8 : 30 پہ سب اکٹھے کرتے ہیں . میں نے فٹافٹ اٹھ کے باتْھ روم کا رخ کیا اور نہا دھو کے کپڑے تبدیل کر کے باہر نکل آیا . امبرین اور ثمر ین وہیں بیٹھی میری منتظر تھیں . ان کے ساتھ میں کھانے کے کمرے میں پہنچا تو امی ابّا کے علاوہ بڑی دونوں بہنیں بھی آ چکی تھیں . كھانا لگ چکا تھا اور شاید ہمارا ہی انتظار ہو رہا تھا .ناشتے کے بَعْد ابّا جان زمینوں پہ نکل گئے اور امی نے صحن میں ارد گرد کے گھروں سے آنے والی خواتیں کی محفل جما لی امبرین اور ثمر ین کے اصرار پہ میں ان کے ساتھ ان کے کمرے کی طرف چل پڑا تو دونوں بڑی بہنیں بھی پیچھے پیچھے چلی آئیں . شاید اُنہیں مجھ پہ شک تھا کہ میں کوئی نا کوئی غلط حرکت ضرور کروں گا . ان کے ساتھ نہیں تو چھوٹی بہنوں کے ساتھ ہی سہی . مگر میرے دِل میں کیونکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی اِس لیے میں نے ان کی پرواہ ہی نہیں کی اور امبرین اور ثمر ین کے ساتھ ان کے کمرے میں پہنچ گیا .

یہاں دو پلنگ اور ایک بڑے صوفے کے علاوہ کارپیٹ پہ 6 کاوچ بھی پڑے ہوئے تھے . میں ان ہی میں سے ایک پہ بیٹھ گیا اور وہ دونوں بھی میرے دائیں بائیں کاوچ پہ بیٹھ گئیں . مہرین آپی اور نورین آپی نے صوفے پہ نشست جما لی اور میری نگرانی کا فرض پورا کرنے لگیں . میں نے اپنی اور صباء کی بچپن کی شرارتوں کے واقعات سنانے شروع کر دیے اور امبرین اور ثمر ین دلچسپی سے سننے لگیں . بار بار ان کی ہنسی کسی پُھلْجَھڑی کی طرح چھوٹ جاتی تھی اور کمرے میں جیسے زندگی سی دوڑ جاتی تھی . مہرین آپی اور نورین آپی بھی کافی دیر سنجیدہ رہنے كے بَعْد آخر کار ان باتوں پہ ہنسنے لگیں تو مجھے بھی اطمینان سا ہوا . ان کی خوامخواہ کی سنجیدگی اور گھبراہٹ مجھے بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی . اور اب جبکہ وہ دونوں بھی دلچسپی لے رہی تھیں اور میری اور صباء کی شرارتوں کو سن کے ہنس رہی تھیں تو مجھے بھی اب سنانے میں مزہ آنے لگا تھا

میں اپنی بہنوں کا دیوانہ..

کافی دیر تک میں اپنے پرانے قصے سناتا رہا اور پِھر بول بول کر میرا گلا خشک ہونے لگا تو امبرین میرے لیے پانی لینے چلی گئی اور ثمر ین ڈرائی فروٹس لینے امی کی طرف . کمرے میں اب میرے علاوہ بس دونوں بڑی بہنیں ہی تھیں جو میرے ساتھ اکیلی رہ جانے پہ ایک بار پِھر گھبرانے لگی تھیں . آخر میں نے بات کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا

میں : آپ دونوں تو مجھ سے یوں گھبرا رہی ہیں جیسے میں کھا جاؤں گا آپ کو . یقین کریں میں آدم خور نہیں ہوں .

مہرین آپی : ننن . . . نہیں تو . میں تو نہیں گھبرا رہی تم سے . کیوں نورین . تمھیں ڈر لگ رہا ہے ؟

نورین آپی : نہیں تو . . . بھلا . . مم . . . . مجھے کیوں ڈر لگے گا . بھائی سے کیسا ڈر .

میں : یہ بات آپ دونوں قسم کھا کے کہہ سکتی ہیں کہ مجھ سے آپ دونوں کو کسی بات کا ڈر نہیں ؟

میری اِس بات پہ دونوں کے سَر جھک گئے اور دونوں میں سے کوئی بھی میری بات کا جواب نہیں دے سکی .

میں : میں جانتا ہوں آپ دونوں کو مجھ سے کس بات کا ڈر ہے . آپ دونوں کو مجھ پہ ذرا سا بھی اعتبار نہیں ہے . آپ دونوں میرے قریب بیٹھنے سے بھی کتراتی ہیں . مجھے اپنی طرف دیکھتا پا کے خود کو پہلے سے بھی زیادہ اپنی چادر میں چھپانے کی کوشش کرتی ہیں . کمرے میں میرے ساتھ تنہا رہ جانے پہ آپ دونوں کی جان نکل رہی ہے . اتنی واضح علامت دیکھ کے تو کوئی بیوقوف بھی سمجھ جائے گا كہ آپ دونوں کو مجھ سے کیا خوف ہے . میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا ؟

میرے اتنے سہی اندازے پہ دونوں پہلے سے بھی زیادہ گھبرا گئیں اور بے اختیار ہی دونوں کے سَر ہاں میں ہل گئے . بَعْد میں دونوں کو ہی اپنی بیوقوفی کا احساس ہوا تو نا میں سَر ہلانے لگیں . اور ان دونوں کی اِس معصومانہ حرکت پہ بہت ضبط کے باوجود بھی میری ہنسی چھوٹ گئی .

اتنے میں امبرین اور ثمر ین ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں تو مجھے ہنستے دیکھ کے وہ بھی مسکرانے لگیں . پانی کا جگ اور گلاس امبرین نے مجھے پکڑا دیا . ثمر ین ڈرائی فروٹ دو پلیٹس میں لائی تھی جن میں سے ایک اس نے مہرین آپی کو پکڑا دی اور دوسری ہم تینوں کے درمیان رکھ دی . میں پانی پی کے فارغ ہوا تو امبرین مجھ سے میرے ہنسنے کی وجہ پوچھنے لگی .

میں : کچھ نہیں گڑیا . مہرین آپی نے ہاتھی اور چیونٹی والا لطیفہ اتنی سنجیدگی سے سنایا کہ لطیفے کی مٹی پلید ہوتی دیکھ کے میری ہنسی چھوٹ گئی . ویسے تمھیں بھی اِنھوں نے کبھی کوئی لطیفہ سنایا ہے ؟

امبرین : نہیں بھائی . کبھی نہیں سنایا . آپَس میں ایک دوسری کو سنایا ہو تو اور بات ہے . ہمیں تو کبھی نہیں سنایا .

میں : تو پِھر آج رات مہرین آپی ہم چاروں کو لطیفے سنائیں گی اور وہ بھی اپنے کمرے میں . ہے نا آپی ؟

میرے فیصلہ کن اندازِ پہ مہرین آپی جو پہلے ہی گھبرائی ہوئی تھیں ، فوراً ہاں کر بیٹھیں تو نورین آپی نے بھی خوامخواہ ان کی ہاں میں ہاں ملانا ضروری سمجھا جس پہ ایک بار پِھر مجھے ہنسی آنے لگی جسے میں نے بڑی مشکلوں سے ضبط کیا اور امبرین اور ثمر ین سے باتیں کرنے لگا .

وہ سارا دن ہم پانچوں بہن بھائی نے اکٹھے ہی گزارا . بیچ میں دوپہر کے کھانے اور پِھر رات کے کھانے پہ بھی سب اکٹھے ہی رہے . اور پِھر رات کو سب مہرین آپی کے کمرے میں ان کے پلنگ پہ جا بیٹھے اور ان سے لطیفوں کی فرمائش ہونے لگی . میں نے کچھ سوچتے ہوئے اپنا موبائل نکا ل كے اپنے گھٹنے کے پاس اِس طرح رکھ لیا کہ اگر ہمارے جانے کے بَعْد مہرین آپی لیٹنے کی کوشش کرتی تو وہ ان کی پنڈلیوں کے نیچے آ جاتا . یہ میں نے کسی گندی سوچ کے تحت نہیں کیا تھا بلکہ مہرین آپی کو ایک شوک دینا ضروری سمجھتے ہوئے ایسا کیا تھا . مجھے یقین تھا کہ اگر میرا پلان کامیاب ہوا تو اُنہیں تھوڑا بہت جھٹکا تو ضرور لگے گا .

مہرین آپی نے ہم سب کے مجبور کرنے پہ پتا نہیں کس کس سے سنے ہوئے دس بڑے لطیفے بڑی مشکلوں سے سنائے اور پِھر نیند آنے کا بہانہ کرنے لگیں تو ہم سب ان کے پلنگ سے اٹھ کھڑے ہوئے . میں تو اپنے منصوبے کے مطابق رک کے ادھر اُدھر کچھ ڈھونڈنے کی ایکٹنگ کرنے لگا جبکہ اتنی دیر میں نورین آپی اور چھوٹی دونوں کمرے سے جا چکی تھیں . مہرین آپی نے ٹانگیں سیدھی کر کے لیٹتے ہوئے مجھے شک بھری نظروں سے دیکھا مگر میں نظر اندازِ کرتا ہوا اپنی تلاش میں لگا رہا . پلنگ کے نیچے اور چاروں طرف کارپیٹ پہ تلاش کر کے میں بظاہر اپنی تلاش سے مایوس سا ہو گیا تو مہرین آپی کی ٹانگوں کی طرف دیکھنے لگا . میری اِس حرکت پہ مہرین آپی نے فوراً اپنی چادر ٹانگوں پہ پھیلا کے گویا خود کو میری بری نظر سے بچانے کی کوشش کی جو ظاہر ہے ان کی خام خیالی ہی تھی .

" آپی ذرا ٹانگیں تو اٹھائیں . "

میں نے ان کی ٹانگوں کی طرف اوپر نیچے نظریں دوڑاتے ہوئے بہت دھیمی آواز میں اور ایسے اندازِ میں کہا جیسے کوئی بہت ہی پرائیویٹ قسِم کی بات کرنی ہو اور میری اِس حرکت پہ نورین آپی کی وہ حالت ہوئی کے چہرہ ہی سفید پڑ گیا .

" نن . . . نا . . . نہیں . . . . . سنی . . . . . . .. . . . خدا کے لیے . . . ننن . . نہیں . . . . میرے ساتھ کچھ . . . خدا کے لیے نہیں سنی " ڈر اور گھبراہٹ میں ان کی حالت غیر ہوئی جا رہی تھی جس پہ مجھے ترس آنے لگا .

میں : ارے آپ اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں ؟ میرا موبائل نہیں مل رہا . میں نے شاید یہیں کہیں رکھا تھا . آپ ٹانگیں اٹھائیں گی تو شاید مل جائے کیونکہ میں اسی جگہ بیٹھا ہوا تھا . ویسے آپ کو اپنی ٹانگوں کے نیچے کچھ محسوس نہیں ہوا ؟

آپی : ہاں . . . ہاں . . . شاید کچھ ہے . . لیکن پلیز مجھے چھونا نہیں . میں دوسری طرف ہو جاتی ہوں . تم اپنا موبائل ڈھونڈ کے چلے جانا .

میں : ہاں تو میں کونسا آپ کو چھو رہا ہوں . آپ کو چھونا ہوتا تو آپ سے ٹانگیں اُٹھانے کو کیوں کہتا ؟ مجھے پتا ہے آپ مجھ پہ کس قسِم کا شک کرتی ہیں . اسی لیے تو آپ کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور آپ سے ٹانگیں اُٹھانے کو کہا تھا .

میری بات سن کے وہ اتنی شرمندہ ہوئی کہ ان کی آنکھیں بھر آئیں . پِھر بھی خود کو سنبھا لتے ہوئے وہ پلنگ کی دوسری طرف ہوئی تو میرا موبائل سامنے ہی پڑا نظر آ گیا جسے اٹھا کے میں نے اپنی پاکٹ میں ڈال لیا اور شکوہ بھری نظروں سے اُنہیں دیکھتے ہوئے کمرے سے نکل کے سامنے اپنے کمرے میں چلا آیا . فل حال ان كے لیے اتنا شوک کافی تھا .

-----------------------------------------------------------------

اگلی صبح ناشتے پہ مہرین آپی میرے سامنے والی کرسی پہ بیٹھی تھیں اور خاصی شرمندہ اور پہلے سے زیادہ گھبرائی ہوئی لگ رہی تھیں . ناشتہ کرتے ہوئے ان کے ھاتھوں کی کپکپاہٹ امی اور ابو نے بھی نوٹ کی تھی اور ان کے پوچھنے پہ انہوں نے بتایا کہ رات کو بد ہضمی کی وجہ سے ایک دو بار قے کی تھی جس سے کمزوری ہو گئی ہے . امی نے فوراً ایک ملازمہ سے ہاضمے کا چورن منگوا كے تھوڑا سا آپی کی ہتھیلی پہ ڈالا جسے اُنہیں مجبورا كھانا پڑا . میں جانتا تھا کہ اُنہیں کوئی بدہضمی کا مسئلہ نہیں تھا . اصل بدہضمی تو مجھ سے شرمندگی تھی اور اب میں سمجھ رہا تھا کہ ان کی اصل پریشانی بھی یہی ہے کہ مجھ سے معافی کیسے مانگیں گی .

ناشتے كے بَعْد میں جان بوجھ کے اپنا موبائل لینے کے بہانے اپنے کمرے میں چلا آیا اور دروازہ کھلا چھوڑ کے خوامخواہ اپنی الماری کھول کے کپڑے ادھر اُدھر کرنے لگا . کچھ ہی دیر بَعْد میرے اندازے کی تصدیق دروازے پہ ہونے والی دستک نے کر دی . کھلے دروازے کے عین درمیان وہ سَر جھکائے کھڑی تھیں اور آنسو ان کی گالوں پہ پھسل رہے تھے .

میں : آپی اِس وقت کمرے میں اور کوئی نہیں ہے . آپ بَعْد میں آئیے گا جب آپ میرے ساتھ اکیلی نا ہوں .

آپی : اب اور کتنا شرمندہ کرو گے سنی . معاف کر دو نا . وہ . . . صباء نے بات ہی کچھ ایسی کی تھی كہ . .

میں : کیا کہا تھا صباء نے ؟ یہ کہ میں لوفر لفنگا ہو چکا ہوں اور کسی لڑکی کی عزت مجھ سے محفوظ نہیں ہے ، اِس لیے آپ بھی مجھ سے بچ کے رہیں ؟ یا یہ کہا تھا کہ میں ایک عادی عورت باز ہوں اور یہاں اپنی عادت آپ سے پوری کروں گا اور موقع ملتے ہی آپ کی عزت لوٹ لوں گا ؟ یا یہ کہا تھا کہ میری نظر میں بہن بھائی کا رشتہ کوئی معنی نہیں رکھتا ، جب بھی آپ سے تنہائی میں ملا آپ پہ ٹوٹ پڑوں گا ؟ ایسا ہی کچھ کہا تھا صباء نے ؟

 

آپی : نن . . . . . . . ں . نہیں سنی . اس نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا . وہ . . . وہ تو . . . . . . . اب کیسے بتاؤں .

میں : مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے مزید کچھ جاننے میں . آپ چلی جا ئیں . ورنہ اگر نورین آپی نے دیکھ لیا تو آپ کو تو ابھی تک شک ہے ، اُنہیں یقین ہو جائے گا کہ میں ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا .

آپی : سنی . . . خدا کے لیے اب معاف بھی کر دو . میں ڈر گئی تھی کہ کہیں صباء نے تمھیں کچھ اُلٹا سیدھا . . . خدا کی قسم میں ایسی نہیں ہوں . میرا دامن بے داغ ہے . میرا کسی کے ساتھ . . . کوئی . . . کچھ نہیں ہے . . بس میں ڈر رہی تھی کہ کہیں صباء کی بات سن کے تم مجھے ایسی ویسی لڑکی نا سمجھ لو . . . مجھے لگا تم یا تو مجھ سے نفرت کا اظہار کرو گے یا پِھر مجھ سے فائدہ اُٹھانے کی . . . کوشش کرو گے . . بس اسی لیے میں تم سے کترا رہی تھی . نورین کو بتایا تو وہ مجھ سے بھی زیادہ ڈر گئی . اسے تو لگتا تھا کہ تم اتنا عرصہ ایک آزاد ملک كے بے راہ رَو لوگوں میں رہ کے رشتوں کا تقدس بھی بھول چکے ہو گے . کہیں میرے ساتھ ساتھ اسے بھی ایسی لڑکی سمجھ کے . . . . لیکن خدا کی قسم ہم دونوں ایسی نہیں ہیں سنی . ہم نے تو کبھی کسی کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی . بس ایک غیر محسوس سی غلطی میری آنكھوں سے ہو گئی تھی جس کا احساس مجھے صباء کے ٹوکنے پہ ہوا . یقین کرو اس کے بَعْد تو میں اور نورین چھت پہ بھی نہیں گئیں .

میں : میں نے آپ سے کوئی صفائی نہیں مانگی آپی . 22 دن سے آپ کے سامنے ہوں . کچھ کہا آپ سے میں نے ؟ اب بھی میں اِس کے سوا کچھ نہیں کہہ رہا کہ آپ اِس وقت اکیلی ہیں . کسی کے ساتھ آئیے گا یا جب میرے ساتھ کوئی اور ہو تب آئیے گا . اب جائیے . اگر نورین آپی نے دیکھ لیا تو ان کا شک یقین میں بَدَل جائے گا . بلکہ وہ تو یہ سمجھیں گی کہ میں نے آپ کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے . میری تو خیر ہے مگر آپ ان کی نظروں سے گر جائیں گی . اور میں یہ نہیں چاہتا .

آپی : اب اور کتنا ذلیل کرو گے سنی ؟ اب کیا پاؤں پڑوں تمہارے ؟ کیسے اپنی شرمندگی کا اظہار کروں کہ تمھیں یقین آ جائے ؟ میں خود نورین سے بات کروں گی . اسے سمجھاؤں گی کہ تم ایسے نہیں ہو جیسا ہم نے سمجھا تھا . خدا كے لیے ایک بار میرا یقین کر لو .

میں : ٹھیک ہے . میں نے آپ کو معاف کیا . میرا خدا بھی آپ کو معاف کرے . اب جائیے یہاں سے . نورین آپی آ گئیں تو آپ کی ہر صفائی دھری رہ جائے گی . میرا کریکٹر ویسے ہی بڑا مشکوک ہے .

آپی : بس دھکے دینے کی کسر رہ گئی ہے . اپنی بہن کو کسی بھائی نے اپنے کمرے سے یوں کبھی نہیں نکالا ہو گا .

میں : مجبوری ہے . اگر آج پکڑا گیا تو کل کون مجھ پہ یقین کرے گا . ابھی تو آپ کو جانا ہی ہو گا .

آپی : ٹھیک ہے جا رہی ہوں . کبھی تو کمرے سے باہر نکلو گے . باہر تو کوئی شک نہیں کرے گا . مگر یہ بات میں نے ایک بار تو ضرور صاف کرنی ہے . چاھے تم کتنا ہی ذلیل کر لو . اپنی طرف سے تمہارا ذہن ضرور صاف کرنا ہے .

میں : ضرور . جب آپ چاہیں .

آپی کسی حد تک مطمئن ہوتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گئیں . اب تک جتنی بھی باتیں ہمارے درمیان ہوئی تھیں وہ انہوں نے دروازے کے پاس ہی کھڑی ہو کے کی تھیں . نا انہیں اندر آنے کی ہمت ہوئی تھی نا میں نے انہیں اندر آنے دیا تھا . ان کے جانے کے بَعْد میں بھی اپنی الماری بند کر کے باہر نکلنے کے لیے دروازے کی طرف بڑھا تو مہرین آپی ایک بار پِھر اندر آ رہی تھیں . اور اِس بار ان كے پیچھے نورین آپی بھی تھیں . گویا نورین آپی نے ہماری پوری یا ادھوری باتیں سن لی تھیں اور اگر انہوں نے ادھوری باتیں سنی تھیں تو یہ زیادہ خطرناک بات تھی کہ اِس طرح ان کا شک اور بھی مضبوط ہو جاتا . اور یہ جاننے کا فوری طریقہ میرے ذہن میں موجود تھا .

میں : ارے نورین آپی آپ ؟ تو مہرین آپی نے آپ کو بھی منا ہی لیا . میں نے منع بھی کیا تھا کہ نورین آپی کو ابھی پتا نہیں چلنا چاہئے مگر . . . خیر . . اب تو آپ کو بھی . .

. . نورین آپی : میرے سامنے زیادہ ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں ہے . میں نے سب کچھ سن لیا ہے . یہ جب تمہارے کمرے میں پہنچی تھیں تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے آ رہی تھی . پِھر تم دونوں کی باتیں سننے کے لیے جان بوجھ کے باہر کھڑی رہی تھی . اور خدا کا شکر ہے کہ سچ جلدی سامنے آ گیا . میری بھی غلط فہمی دور ہو گئی . اب مجھے بھی تم سے کوئی ڈر ، خوف ، کوئی شکایت نہیں . نورین آپی کی بات سن کے میں نے بھی دِل ہی دِل میں شکر کیا . دِل سے جیسے ایک بوجھ سا ہٹ گیا تھا اور میں تھوڑا اور بھی ریلکس ہو گیا تھا .

میں : ارے آپ غلط سمجھ رہی ہیں نورین آپی . مہرین آپی اور میں جان بوجھ کے ایسی باتیں کر رہے تھے کہ اگر کوئی سن لے تو ہمیں غلط نا سمجھے . ورنہ یہاں تو کچھ اور ہی چل رہا تھا .

نورین آپی : ہاں ہاں جانتی ہوں . مہرین آپی دروازے کے پاس کھڑی تھیں اور تم اپنی الماری میں کچھ تلاش کرنے کا ناٹک کر رہے تھے . دیکھ چکی ہوں میں جو بھی چل رہا تھا یہاں . اتنی آسانی سے میری بھی غلط فہمی دور نہیں ہوئی . میں نے جھانک کے دیکھا تھا اور میرے تمام شک دور ہو گئے تھے .

میں : آپ پتا نہیں کیا سمجھ رہی ہیں آپی . میں تو مہرین آپی کا شک دور کر کے آپ کو پٹانے کے پلان بنا رہا تھا . آپ ویسے بھی ان سے زیادہ سیکسی اور اٹریکٹِو ہیں . میں نے سوچا تھا پہلے آپ کو اپنے جال میں پھنسا لوں . پِھر مہرین آپی خود ہی مان جائیں گی .

میں نے یہ بات نورین آپی کے پاس جا کے ان کے کان میں اِس طرح کہی تھی کہ قریب کھڑی مہرین آپی بھی پوری بات سن سکتی تھیں اور یقینا انہوں نے سن بھی لی تھی . تبھی تو انہوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا تھا .

نورین آپی : اچھا ؟ پہلے بتانا تھا نا . میں آپی کے جانے کا انتظار کر لیتی اور پِھر تمہارے پاس آتی . پِھر ہم جو چاھے کر لیتے . مگر اب بھی کیا بگڑا ہے ؟ آپی کو تو ویسے بھی سب پتا چل ہی گیا ہے . تم نے میرے ساتھ جو بھی کرنا ہے ان کے سامنے بھی کر لو گے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا . انہوں نے کونسا کسی کو بتانا ہے . بَعْد میں ان کا چانس بھی تو بن رہا ہے نا .

میں تو ویسے ہی دونوں کو تنگ کرنے کے لیے ان کی ٹانگ کھینچ رہا تھا مگر اب نورین آپی نے جوابی حملہ کیا تو مجھے سنبھل جانا پڑا . لوفر پن کی اتنی کامیاب اداکاری کر رہی تھیں کہ اگر مجھے پہلے سے سب کچھ پتا نا ہوتا تو میں یہ سب سچ سمجھ لیتا . مہرین آپی بھی پاس کھڑی مسکراتے ہوئے نورین کا جوابی حملہ انجوئے کر رہی تھیں .

میں : بس میں نے ہار مان لی . آپ ٹانگ کھینچنے میں میری بھی استاد ہیں . آئندہ میری توبہ جو آپ سے پنگا لوں .

مہرین آپی : اب جب کوئی غلط فہمی نہیں رہی تو ہم گلے مل سکتے ہیں نا ؟ سچ کتنا دِل چاہتا تھا اپنے بھائی سے گلے ملنے کو مگر . . . . . ہم سے تو اچھی وہ چھوٹی دونوں ہی رہیں جنہیں کسی کا ڈر خوف بھی نہیں تھا . سب کے سامنے گلے بھی لگ جاتی ہیں اور اپنی فرمائشیں بھی منوا لیتی ہیں .

مہرین آپی کے دِل کی حسرت نے مجھے بھی اندر سے تڑپا کے رکھ دیا تھا مگر میں اِس خوشگوار ماحول کو ختم نہیں کرنا چاہتا تھا اِس لیے جان بوجھ کے اپنے چہرے پہ گھبراہٹ طاری کر لی .

میں : ارے نہیں آپی . وہ دونوں تو معصوم ہیں . بے ساختگی میں جو بھی کرتی اور کہتی ہیں ، ان پہ بس پیار ہی آتا ہے . مگر آپ دونوں . . . . آپ دونوں پہ پیار آیا تو گڑبڑ ہو جائے گی . ویسے بھی آپ دونوں کچھ زیادہ ہی . . . کہیں میں بہک گیا تو . . .

مہرین آپی : مجھے نہیں پتا . مجھے تم سے گلے ملنا ہے تو بس ملنا ہے .

یہ کہتے ہوئے مہرین آپی نے آگے بڑھ کے میرے گلے میں اپنی بانہیں ڈال کے یوں جکڑا جیسے سارے گزرے برسوں کی کسر نکا لنا چاہتی ہوں . ان کے سیکسی بوبز میرے سینے سے دب کے میرے اندر طوفان مچا رہے تھے جنہیں میں بڑی مشکل سے اندر دبانے میں کامیاب ہوا تھا .

کچھ دیر بَعْد وہ میرے گال پہ کس کرتے ہوئے مجھ سے الگ ہوئی تو نورین آپی مجھ سے لپٹ گئیں . اب ایک اور امتحان مجھے درپیش تھا . ان کے تو بوبز بھی ٹائیٹ تھے اور میرے اندر تباہی مچانے پہ تلے ہوئے تھے . بڑی مشکل سے میں نے اپنے آپ پہ قابو پایا تھا ورنہ دِل تو چاہتا تھا ابھی ان بوبز پہ ٹوٹ پڑوں . مگر مجھے اپنی بہنوں کا اعتبار بَحال رکھنا تھا . کسی بھی حالت میں مجھے اِس اعتبار کو ٹوٹنے نہیں دینا تھا . ویسے بھی میں دِل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ ان سے قربت بس ان کی مر ضی اور خوشی کے مطابق ہی ہو گی اور جس حد تک وہ چاہیں گی اس سے میں ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھوں گا .

میں : اب بس کر دیں . کیوں میرے اندر کے شیطان کو جگانے پہ تل گئی ہیں . ویسے بھی آپ اتنی سیکسی ہیں کہ بس . نورین آپی ہنستے ہوئے میرے کندھے پہ ایک مکا رسید کرتے ہوئے مجھ سے الگ ہو گئیں تو میری بھی جان میں جان آئی . مہرین آپی بھی میرے ان کمنٹس پہ ہنس رہی تھیں . ظاہر ہے نورین آپی کے بوبز کو انہوں نے اکثر فیل کیا ہو گا اور وہ جانتی تھیں کہ ایسے ٹائیٹ قسِم کے بوبز کسی لڑکے کے جذبات میں کیسی ہلچل مچا سکتے ہیں .

اتنے میں کمرے کے باہر امبرین کی آواز سنائی دی جو مجھے پُکار رہی تھی . ثمر ین بھی یقینا اس کے ساتھ ہی تھی کیونکہ وہ دونوں تو ایک دوسری کا سایہ تھیں . کبھی الگ ہوتی ہی نہیں تھیں . میں نے آواز دے کے اسے بتایا کہ میں اپنے کمرے میں ہوں ادھر ہی آ جاؤ .

ثمر ین : آپ تینوں یہاں ہیں . ہمیں بھی بلا لیا ہوتا . کتنی دیر سے بور ہو رہی ہیں . اور بھائی آپ تو موبائل لینے آئے تھے نا کمرے میں ؟ اتنی دیر لگتی ہے موبائل اٹھا کے جیب میں ڈالنے میں ؟ ثمر ین کی شکایت پہ میں نے مسکراتے ہوئے مہرین آپی اور نورین آپی کی طرف دیکھا تو وہ دونوں ایک بار پِھر ہنس پڑیں اِس عجیب سی صورت حال کو اب وہ بھی انجوئے کرنے لگی تھیں .

میں : بیٹھ جاؤ گڑیا . آج ہماری محفل یہیں جمے گی . تم میں سے کسی نے انگلش فلمیں تو نہیں دیکھی ہوں گی نا . میں آج تم چاروں کو ایک انگلش فلم کی کہانی سناتا ہوں . وہ دونوں انتہائی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے میرے پلنگ پہ مجھ سے جڑ کے بیٹھ گئیں . مہرین آپی اور نورین آپی بھی اِس بار فاصلہ رکھنے کی بجائے میرے پلنگ پہ ہی میرے سامنے بیٹھ گئیں اور پِھر میں نے ایک ایڈونچر فلم کی کہانی سنانی شروع کر دی . وہ چاروں اِس کہانی میں یوں گم ہوئے کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نا رہا . اسٹوری ختم کر کے ہم سب نے ایک ساتھ وال کلاک کی طرف دیکھا جس پہ دن کے 11 بج رہے تھے .

مہرین آپی : بس بھائی مجھے تو اب جانا ہے . امی آج کل مجھے كھانا پکانے میں ماہر کرنے پہ تلی ہوئی ہیں . کل کو جب باورچی خانے ( کچن ) کی ذمہ داری مجھ پہ آ جائے گی تو پِھر میرے ہی ھاتھوں کے کھانے تم سب کو زہر مار کرنا پڑیں گے .

امبرین : ارے نہیں آپی . اتنا اچھا تو آپ پکا لیتی ہیں . امی نے بتایا تھا کہ رات کو شامی کباب آپ نے ہی بنائے تھے . اتنے اچھے بنے تھے قسم سے . مجھے تو اتنے اچھے لگے تھے کہ اکٹھے 3 کھا گئی تھی .

امبرین کی اِس معصومانہ حوصلہ افزائی پہ ہم سب مسکرا دیئے . پِھر مہرین آپی اٹھ گئیں تو نورین آپی بھی ساتھ ہی چلی گئیں . امبرین اور ثمر ین بھی دلچسپی محسوس کر كے ان کے ساتھ ہی چلی گئیں تو میں کمرے میں اکیلا رہ گیا . پِھر میں نے سوچا کہ کمرے میں بور ہونے کی بجائے شہر کا ایک چکر لگا لینا چاہئے . کچھ شاپنگ ہی ہو جائے . بہنوں کے لیے بھی کچھ لینے کو دِل چاہ رہا تھا . سو امی سے اِجازَت لے کے جیپ نکالی اور شہر کی طرف چل پڑا .شہر کی ایک مشہور بوتیک میں مجھے کچھ ریشمی ڈریسز بہت اچھے لگے تو میں نے چاروں بہنوں کے لیے خریدنے کا فیصلہ کر لیا . ان ڈریسز کی یہ خاصیت تھی کہ قمیض کی بیک سائڈ پہ 3 ڈوریاں لگی ہوئی تھیں جن سے سائز ایڈجسٹ ہو جاتا تھا یعنی اگر فٹنگ زیادہ کرنی ہو تو سمپلی پیچھے سے ڈوریاں ٹائیٹ کر لو اور فٹنگ ہو گئی . سیلز گرل سے پوچھنے پہ پتا چلا کہ یہ ڈریسز 3 رنگو ں ( ریڈ ، گرین اور بلو ) میں میسر تھے اور ہر رنگ میں 4 ، 4 اِس وقت موجود تھے . میں نے بنا کچھ بھی مزید سوچے سمجھے ان سب کو خرید کے پیک کروا لیا . ریڈ کلر کے ڈریسز میں نے الگ پیک کروائے اور باقی دونوں کلرز کے ڈریسز کو اِس طرح پیک کروایا کہ ایک گرین اور ایک بلو ڈریس کو ایک پیکنگ میں رکھتے ہوئے 4 شاپنگ بیگ الگ پیک کروا لیے .

ریڈ ڈریسز کو میں نے کسی خاص دن کے لیے الگ رکھا تھا . باقی دونوں کلرز کے ڈریسز میں اُنہیں آج ہی دے دیتا . اسی لیے میں نے ریڈ کلر کے ڈریسز کسی کو نا دکھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے الگ پیک کروایا تھا . گھر پہنچ کے میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور ریڈ ڈریسز والا شاپنگ بیگ نیچے والے خانے میں رکھ کے لوک کر دیا . جب کہ باقی چاروں شاپنگ بیگس اوپر والے خانے میں ہی رہنے دیئے . اپنے لیے جو ڈریسز میں نے لیے تھے وہ میں نے شاپنگ بیگس سے نکال کے اپنے ڈریسز میں رکھ دیئے . اِس کام سے فارغ ہو کے میں ابھی کمرے سے نکلنے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ امبرین اور ثمر ین کو کمرے میں آتے دیکھ کے رک گیا . وہ مجھے دوپہر کے کھانے کے لیے بلانے آئی تھیں . میں ان کے ساتھ کھانے کے کمرے میں چلا گیا اور امی اور ہم پانچوں بہن بھائی نے ایک ساتھ كھانا کھایا . کھانے كے بعد جب امی اٹھ گئیں تو میں نے چاروں بہنوں کو اپنے کمرے میں آنے کا کہا اور ان کو لے کے اپنے کمرے میں آ گیا . پِھر الماری کھول کے میں نے چاروں کو ان کے ڈریسز والے شاپنگ بیگس دے دیے .

میں : میری طرف سے تم چاروں کے لیے تحفہ . اپنے لیے شاپنگ کرنے گیا تھا تو لیڈیز سیکشن میں یہ ڈریسز مجھے بے حد اچھے لگے . سو میں نے تم چاروں کے لیے لے لیے .

مہرین آپی ڈریسز نکلتے ہوئے ) یہ تو دونوں ہی ریشمی ہیں . خاصے مہنگے ہوں گے نا ؟

میں : تحفے کی قیمت نہیں دیکھی جاتی آپی .

امبرین : بہت شکریہ بھائی . ہمارے پاس تو ریشمی کپڑے تھے ہی نہیں . امی لے کے ہی نہیں دیتی ہیں .

ثمر ین : جی بھائی . بہت اچھے ہیں . میں تو آج ہی پہنوں گی . ہیں نا امبرین ؟

امبرین : ہاں اور کیا . مگر امی کو پتا نہیں چلنا چاہیے . کیا پتا اُنہیں ہمارا ریشمی کپڑے پہننا اچھا نا لگے

میں اپنی بہنوں کا دیوانہ..

نورین آپی : امبرین ٹھیک کہہ رہی ہے . امی کو واقعی ہمارا ریشمی کپڑے پہننا اچھا نہیں لگے گا . اسی لیے آج تک لے کر نہیں دیئے .

مہرین آپی : تم دونوں اپنی سالگرہ پہ پہن لینا . اگلے مہینے ہی تو آ رہی ہے تم دونوں کی سالگرہ . اور پِھر لڑکیوں نے ہی تو دیکھنا ہے . امی منع نہیں کریں گی .

مہرین آپی کا مشورہ دونوں کو پسند آیا اور وہ اپنے ڈریسز اپنے کمرے میں رکھنے چلی گئیں . اب کمرے میں میرے علاوہ مہرین آپی اور نورین آپی رہ گئی تھیں .

 

میں : آپی آخر وجہ کیا ہے ؟ امی آپ سب کو ریشمی کپڑے کیوں نہیں لے کر دیتی ہیں ؟

مہرین آپی : وہ ٹھیک ہی کرتی ہیں سنی . ہم چاروں اب جوان ہو چکی ہیں . اِس عمر میں اپنے جذبات پہ قابو رکھنا ویسے ہی بڑا مشکل ہوتا ہے . ہر وقت دِل چاہتا ہے کوئی ہمیں دیکھنے اور سراہنے والا ہو ، جو ہمارے حسن کی تعریف کرے . اور اِس طرح کے کپڑے تو ویسے بھی ان جذبات میں ہلچل مچا دیتے ہیں . اِس لیے شاید ہم دونوں تو یہ کپڑے نا پہن سکیں . ان دونوں کی تو خیر ہے . ابھی معصوم اور نا سمجھ ہیں . ابھی اِس عذاب سے واقف نہیں ہیں جس سے ہمیں دو چار ہونا پڑتا ہے .

میں : آپ شاید یہ کہنا چاہتی ہیں کہ میں آپ کے کسی کام کا نہیں ہوں . آپ کی کسی بھی خواہش کو پُورا کرنے کی اہلیت مجھ میں نہیں ہے . آپ کی زندگی میں کسی بھی قسِم کی کمی ہو ، میں اسے پوری نہیں کر سکتا . ہے نا ؟

مہرین آپی : ( میری باتوں پہ جھنجھلا کر ) تم ہمارے بھائی ہو سنی .

میں : دوست بھی تو بن سکتا ہوں . اور دوست سے تو اپنی ہر ضرورت کہہ دیا کرتے ہیں . بنا کسی جھجک کے . اپنا راز کھلنے کا خوف بھی نہیں ہوتا . کیا میں آپ دونوں کا دوست نہیں بن سکتا ؟ ایک بار آزما کے تو دیکھیں . آپ کی ہر خواہش پوری نا کر دوں تو میرا وجود بھلا کس کام کا ؟

نورین آپی : ( کسی قدر گھبراتے ہوئے ) ٹی ٹی . . ٹی ٹی . . تم . . . کہنا کیا چاہتے ہو ؟

میں : اپنا ہر دکھ مجھے سونپ دیں ، اپنی ہر خواہش مجھ سے کہہ ڈالیں . آپ کی ہر خواہش پوری کرنا میری ذمہ دا ری .

مہرین آپی : ( غصے سے ) یعنی ہم تمہارے ہاتھوں کا کھلونا بن جائیں .

میں : آپی آپ نے صباء کی باتوں کا بھی غلط مطلب ہی لیا تھا اور اب میری باتوں کا بھی غلط مطلب ہی لے رہی ہیں . میں نے اپنی خواہشات کا نہیں آپ کی خواہشات کا کہا ہے . اور ظاہر ہے آپ کی خواہش یہ تو نہیں ہو سکتی کہ آپ میرے ہاتھوں کا کھلونا بن كے رہ جائیں . اور یہ تو میں بھی کبھی نہیں چاہوں گا . میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ میری بہنوں کے دِل میں کوئی حسرت نا رہ جائے .

نورین آپی : تم سچ کہہ رہے ہو نا ؟ ہماری کسی کمزوری کا فائدہ تو نہیں اٹھاؤ گے ؟ دیکھو ہم ایسی لڑکیاں نہیں ہیں .

مہرین آپی : ہاں . . . اگر تم واقعی سچ کہہ رہے ہو تو قسم کھا کے کہو کہ کبھی ہماری کسی کمزوری کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرو گے . ہمیں اپنے نفس کی تسکین کا ذریعہ نہیں سمجھو گے .

میں : آپ میری بہنیں ہیں آپی . کوئی طوائف نہیں ہیں کہ اپنے نفس کی تسکین کے لیے آپ کو استعمال کروں گا . پِھر بھی آپ کی یقین دہانی کے لیے میں قسم کھاتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنے نفس کی تسکین کے لیے آپ چاروں میں سے کسی کو بھی استعمال نہیں کروں گا . ہمارے درمیان جو بھی ہو گا وہ بس آپ کی خواہش کی تکمیل ہو گی . چاھے وہ میرے لیے کتنی بھی مشکل ہو .

نورین آپی : مکر تو نہیں جاؤ گے ؟

میں : آزما كے دیکھ لیں .

مہرین آپی : ( ہچکچاتے ہوئے ) اگر میں کہوں کہ . . . نورین کے سامنے . . . . میرے ہونٹوں کو چوموں تو . .

. . مہرین آپی کی بات سن کے جہاں میں اندر ہی اندر ایکسایٹڈ ہو رہا تھا وہاں نورین آپی کا رنگ اُڑنے لگا تھا . ہم دونوں میں سے کسی کو بھی مہرین آپی سے اِس بات کی امید نہیں تھی .

میں : پہلے ان دو بیچاریوں کو اندر بلا لیں جو کب سے باہر کھڑی ہماری پرائیویٹ قسِم کی باتیں ختم ہونے کا انتظار کر رہی ہیں . میری بات سن کے دونوں ایک ساتھ چلا اٹھیں " کیا . . . . . . . . . . . "

مہرین آپی : تمھیں کیسے پتا ؟ تم نے دیکھا ہے اُنہیں ؟

نورین آپی : آپی اگر انہوں نے کچھ سن لیا ہوا تو . . . ہماری ان کی نظروں میں کیا عزت رہ گئی ہو گی ؟

میں : ظاہر ہے تھوڑا بہت تو سنا ہی ہو گا . وہ دونوں صرف کپڑے رکھنے اپنے کمرے میں گئی تھیں . اِس کام میں اتنی دیر نہیں لگتی کہ اب تک واپسی نا ہو سکتی ہو . یقینا وہ باہر ہی کھڑی ہیں . شاید ہماری باتیں سن لینے کے بعد ہچکچا رہی ہیں کہ اندر جانا چاہیے یا نہیں .

میری بات سن کے دونوں نے ایک دوسری کی طرف دیکھا اور پِھر صورت حال کی سنگینی محسوس کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ كے رونے لگیں . جبکہ میں اُنہیں روتا چھوڑ كے کمرے کے دروازے کی طرف بڑھ گیا جہاں ثمر ین اور امبرین دروازے کے باہر قریب ہی کھڑی تھیں اور دونوں کے سَر جھکائے ہوئے تھے . یعنی میرا اندازہ درست تھا کہ دونوں کافی دیر سے وہاں کھڑی ہے اور سب کچھ سن رہی ہیں .

میں نے اُنہیں اندر آنے کو کہا اور دوبارہ اندر آ گیا . اب مہرین آپی اور نورین آپی صوفے پہ ایک دوسری سے لپٹی بیٹھی تھیں اور دونوں ہی بری طرح سے کانپ رہی تھیں . دونوں چھوٹی بہنوں کی نظروں سے گر جانے کا تصور شاید ان دونوں کے لیے ہی بہت تشویشناک تھا

.

امبرین : ہمیں معاف کر دیں آپی . ہم نے جان بوجھ کے کچھ نہیں سنا . میں نے تو ثمر ین کو اسی لیے باہر روک لیا تھا کہ کہیں آپ تینوں کوئی ذاتی قسِم کی باتیں نا کر رہے ہوں . ہمارا اِرادَہ آپ کی باتیں سننے کا نہیں تھا مگر آپ لوگ اتنی اونچی آواز میں بات کر رہے تھے کہ باہر آسانی سے آواز آ رہی تھی . اب تو ہم یہاں سے جانے کا سوچ رہی تھیں کہ بھائی کو ہمارے باہر ہونے کا پتا چل گیا . ہمیں معاف کر دیں آپی . یقین کریں ہم نے کسی کو کچھ نہیں بتایا اور نا ہی کسی کو بتائیں گی . بس ایک بار معاف کر دیں .

میں : تم دونوں کو ہم سے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے گڑیا . ہماری زاتی قسِم کی باتیں تم دونوں کی ذات سے بھی تعلق رکھتی ہیں . میں نے ان سے بھی یہی کہا تھا کہ مجھے بھائی سے زیادہ دوست سمجھیں اور اپنی ہر خواہش اپنا حق سمجھتے ہوئے مجھ سے کہیں . اسے پُورا کرنا میرے ذمے ہو گا . وہ تو مہرین آپی کی خواہش ہی کچھ . . . . . خیر چھوڑو . اب یہ بات پانچوں کے درمیان طے ہو گئی کہ ہم اپنی آپس کی باتیں کسی سے نہیں کہیں گے . ہیں نا . . .

میری بات سن کے دونوں نے زور سے ہاں میں سر ہلایا تو مہرین آپی اور نورین آپی کی بھی جان میں جیسے جان آئی اور میں بھی مطمئن ہو گیا .

ثمر ین : بھائی آپ واقعی مہرین آپی کی خواہش پہ . . . .

میں : مجبوری ہے گڑیا . یہ خواہش ان کی حسرت بن گئی ہے کہ کوئی لڑکا ان کے ہونٹ چومے . اگر ان کی شادی ہوتی تو یہ سب ان کا شوہر کرتا . مگر شادی تو شاید آپ چاروں میں سے کسی کی بھی نا ہو . اِس لیے اب مجھے ہی ان کی خواہش پوری کرنی ہو گی . ورنہ اگر کہیں مایوس ہو کے انہوں نے باہر کسی لڑکے سے . . . یہ نا میرے لیے قابل قبول ہوتا نا ہمارے خاندان کے لیے . ہماری تو ہر طرف بدنامی ہو جانی تھی نا . اسی لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ چاروں کی ہر خواہش میں پوری کروں گا . چاھے وہ میرے لیے کتنی ہی مشکل کیوں نا ہو .

میری باتیں سن کے مہرین آپی نے ایک بار پِھر شرمندگی سے سَر جھکا لیا . شاید اپنی خواہش ظاہر کر کے اب وہ پچھتانے بھی لگی تھیں . اور شاید اب اپنی خواہش سے دستبردار بھی ہونے کا فیصلہ کر چکی تھیں . اور فل حال ان کے لیے یہی ٹھیک تھا کہ ابھی وہ اپنی خواہش کو بھول ہی جائیں . مگر بعد میں موقع ملنے پہ مجھے ان کی یہ خواہش پوری ضرور کرنی تھی

مہرین آپی : ( اپنی جگہ سے اٹھ کے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے ) میں اب چلتی ہوں سنی .

ان کی بات سن کے میں بھی دروازے کی طرف بڑھا اور جیسے ہی وہ دروازے پہ پوھنچیں میں بھی ان کے قریب پہنچ گیا .

میں : ( ان کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے ) رات کو 111 بجے . وہ گرین والا ڈریس پہن لینا .

میری بات سن کے وہ یوں گھبرا کے باقی تینوں کی طرف دیکھنے لگیں کہ کہیں کسی نے کچھ سن نا لیا ہو . مگر ان کے یوں چونک کے دیکھنے پہ باقی تینوں حیران تھیں کہ انہیں اچانک کیا ہوا جو اتنا گھبرا گئیں . میں نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے جانے کا اشارہ کیا تو وہ فوراً کمرے سے نکل گئیں .

مہرین : بھائی . آپی ناراض ہو گئی ہیں نا ؟

میں : ارے نہیں گڑیا . وہ کیوں ناراض ہوں گی . بس ذرا شرمندگی محسوس کر رہی ہیں . اِس لیے سب کا سامنا نہیں کر پا رہیں . اگر سب نارمل رہیں گے تو وہ بھی ٹھیک ہو جائیں گی .

نورین آپی : میں بات کروں ان سے ؟

میں : جی ضرور کیوں نہیں .

نورین آپی بھی شاید تھوڑی بہت شرمندگی محسوس کر رہی تھیں اور بھاگنے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھیں . میری بات سن کے وہ بھی کمرے سے نکل گئیں . اب کمرے میں میرے ساتھ امبرین اور ثمر ین رہ گئی تھیں .

ثمر ین : بھائی کیا یہ بھی شرمندگی محسوس کر رہی تھیں ؟ انہوں نے تو اپنی خواہش بھی ظاہر نہیں کی تھی .

میں : یار اب اتنی راز کی باتیں تو نا پوچھو . وہ دونوں پہلے ہی گھبرائی ہوئی ہیں .

ثمر ین : ( ہنستے ہوئے ) ٹھیک ہے نہیں پوچھتی . آئیں بیٹھیے نا یہاں .

میں ان دونوں کے ساتھ اپنے پلنگ پہ بیٹھ گیا اور امبرین کے اصرار پہ ایک اور انگلش مووی کی اسٹوری سنانے لگا . وہ دونوں معصومیت بھرے انداز میں میرے دائیں بائیں کندھے سے لگ کے کہانی سنتی رہیں .

پِھر ہم رات کے کھانے کے وقت تک کمرے سے نہیں نکلے . کھانے کے بعد ہم سب نے اکٹھے کچھ دیر چہل قدمی کی اور پِھر سونے کے لیے اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئے . مجھے تو ابھی سونا نہیں تھا . رات 11 بجے کا انتظار جو تھا

رات 11 بجنے سے 100 منٹ پہلے ہی میں اپنے کمرے سے نکل آیا . پہلے پوری حویلی کا ایک رائونڈ لگایا اور سب کے سونے کا یقین ہونے کے بعد ٹھیک 11 بجے میں مہرین آپی کے کمرے کے دروازے پہ کھڑا تھا . دروازہ آج اندر سے لوک نہیں تھا . ہینڈل گھماتے ہی دروازہ کھل گیا . سامنے ہی مہرین آپی گرین کلر کے ریشمی ڈریس میں اپنے پلنگ پہ گھبرائی ہوئی سی بیٹھی تھیں . ان کی نظریں دروازے پہ جمی ہوئی تھیں . یقینا میرا ہی انتظار تھا اُنہیں .

میں : تھینکس آپی . میری اتنی سی خواہش مان کے آپ نے میرا دِل خوش کر دیا .

آپی : سنی . کسی کو پتا تو نہیں چلے گا نا ؟ مطلب اگر کسی کو پتا چلا کہ تم رات کو میرے کمرے میں آئے تھے تو غلط تو نہیں سمجھے گا نا ؟

میں : بے فکر رہیں آپی . سب سو رہے ہیں . میں کمرے کا دروازہ بھی لوک کر دیتا ہوں . کوئی آئے گا تو پتا چل جائے گا .

میں نے مڑ کے دروازہ لوک کیا اور پِھر ان کی طرف بڑھ گیا .

آپی : سنی تم کچھ . . . کچھ غلط تو نہیں کرو گے نا ؟

میں : ( آپی کو تسلّی دیتے ہوئے ) میں کچھ نہیں کروں گا آپی . جو بھی کرنا ہو گا آپ ہی کریں گی . شاید اسی طرح آپ کو مجھ پہ یقین آ جائے .

آپی : برا نا ماننا سنی . دراصل پہلی بار ہے نا . ڈر لگ رہا ہے .

میں نے آپی کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور آگے بڑھ کے ان کے پاس ان کے پلنگ پہ بیٹھ گیا . آپی کافی دیر تک گھبرائی ہوئی سی بیٹھی رہیں . پِھر کچھ ہمت کر کے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے میرا ہاتھ پکڑ لیا .

آپی : سنی . . مجھے اپنی بانہوں میں لے لو . مم . . . . مجھ سے نہیں ہو گا .

میں : ( کچھ سوچتے ہوئے ) آپی . . . . لیٹ کے کریں ؟

میری بات پہ آپی نے ہچکچاتے ہوئے ہاں میں سَر ہلایا تو میں اسی طرح ٹانگیں نیچےلٹکائے پلنگ پہ لیٹ گیا اور اُنہیں اپنے اوپر کھینچ لیا . پہلے تو وہ کچھ گھبرا سی گئیں اور خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی رہیں مگر پِھر انہوں نے خود کو میری بانہوں میں ڈھیلا چھوڑ دیا . میں نے کچھ دیر اُنہیں یونہی بانہوں میں جکڑے رکھا اور وہ میرے کندھے پہ سَر رکھے خاموش اور پر سکون سی میرے اُوپر لیٹی رہیں . پِھر میں نے دونوں ہاتھوں میں ان کا چہرہ پکڑ کے ان کے ہونٹ اپنے ہونٹوں سے لگائے اور ان کو ہونٹوں کو چومنا اور چوسنا شروع کر دیا . کچھ دیر تو وہ مدھوش اور سا کت ( اسٹل ) رہیں لیکن پِھر انہوں نے بھی میرا ساتھ دینا شروع کر دیا اور بڑے مزے سے میرے ہونٹ چومنے لگیں . ہم کافی دیر ایک دوسرے کے ہونٹ چومتے رہے . ان کے ہونٹوں میں عجیب سا نشہ تھا . ایسا نشہ کہ ایک بار اُنہیں چومنے کے بعد کبھی چھوڑنے کو دِل نہیں کرتا تھا . یوں لگتا تھا کوئی رس ٹپک رہا ہو ان ہونٹوں سے جو مجھے مزے اور سرور کی دنیا کی سیر کرا رہا تھا . میں بھی مدھوش سا ہو گیا تھا . ہوش تب آیا جب آپی اچانک ہی مجھ سے الگ ہو کے سائڈ پہ ہو گئیں .

اور یہ دیکھ کے میرے تو ہوش ہی اڑ گئے کہ وہ اپنی قمیض نیچے کر رہی تھیں جو نا جانے کب اور کیسے شاید مجھ سے ہی اوپر ہو گئی تھی اور ان کا برا بھی اپنی جگہ پہ نہیں تھا جسے انہوں نے خود ہی ٹھیک کیا تھا . پتا نہیں ان کے ہونٹوں کی لذت میں سرشار میں نے کب ان کی قمیض اوپر کر کے ان کے بوبز پہ سے برا ہٹا دیا تھا . اور اب ان کا سرخ چہرہ ، چڑھتی ہوئی سانسیں ، جھکی ہوئی نظریں اور کانپتے ہوئے ہاتھ مجھے ندامت اور شرمندگی کے سمندر میں غرق کر رہے تھے .

میں : سوری آپی . مجھے پتا نہیں یہ کیسے ہو گیا . مگر قسم سے میں نے یہ جان بوجھ کے نہیں کیا . پتا نہیں کیسے ہو گیا یہ سب مجھ سے . میں تو آپ کے ہونٹ چومتے ہوئے نشے کی سی کیفیت میں تھا . پتا نہیں کب یہ سب ہو گیا .

آپی : ( کانپتی ہوئی آواز میں ) ٹھیک ہے . تم جاؤ . اور کسی کو پتا نہیں چلنا چاہیے کہ تم یہاں تھے .

میری معذرت انہوں نے قبول کر تو لی تھی مگر پِھر بھی میں اپنے اندر ندامت محسوس کر رہا تھا . مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا . ابھی آپی اِس کے لیے ذہنی طور پہ تیار نہیں تھیں اور میری یہ حرکت ان کی نظروں سے مجھے ہمیشہ کے لیے گرا سکتی تھی ، میرا اعتبار ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتی تھی . پتا نہیں میں یہ سب کیوں اور کیسے کر بیٹھا تھا .

اپنے کمرے میں پہنچ کے بھی میں کافی دیر تک شرمندگی محسوس کرتے ہوئے بے چینی سے ادھر اُدھر ٹہلتا رہا . پِھر تھک کے اپنے پلنگ پہ گر سا گیا اور پِھر نا جانے کب مجھے نیند آ گئی .اگلی صبح آنکھ کھلنے سے پہلے ہی مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا سَر کسی کی نرم گود میں ہے اور کوئی اپنی نرم انگلیوں سے میرے بال سہلا رہا ہے . یقینا یہ میری بہنوں میں سے ہی کوئی ایک تھی . آنکھ کھولی تو مہرین آپی کا مسکراتا ہوا چہرہ میرے سامنے تھا . انہوں نے اب تک وہی رات والے گرین کلر کے ریشمی کپڑے پہن رکھے تھے اور ان کی آنكھوں کے سرخ دوڑے ظاہر کر رہے تھے کہ ساری رات وہ بالکل نہیں سوئیں

میں : آپی آپ ؟ آپ مجھ سے ناراض نہیں ہیں نا ؟ قسم سے میں نے جان بوجھ کے کچھ نہیں کیا تھا . پتا نہیں کیسے ہو گیا

آپی : میں جانتی ہوں یہ سب کیسے ہو گیا . اِس میں تمہارا اتنا قصور نہیں تھا جتنا میرا تھا .

میں : کیا مطلب ؟

آپی : تم جب میرے ہونٹ چوم رہے تھے تو میں نے تمہارے ھاتھوں کو اپنی چھاتی ( بوبز ) کے پاس محسوس کیا تھا . پہلے تو میں کچھ سمجھی نہیں . پِھر سوچا شاید تمھیں کچھ چُبھ رہا ہے تو میں ذرا اوپر اٹھ گئی . اور میرے اوپر ہوتے ہی تم نے میری چھاتی ( بوبز ) کو سہلانا اور دبانا شروع کر دیا . پہلے تو مجھے عجیب سا لگا . پِھر مزہ آنے لگا . میں نے سوچا اگر ایسے اتنا مزہ آ رہا ہے تو قمیض کے بغیر کتنا مزہ آئے گا . اسی لیے میں نے قمیض اوپر کر دی تھی .

میں : آپ نے خود . . ؟

آپی : ہاں . . . لیکن صرف قمیض . برا تم نے خود . . . . اور اسی لیے تو میں گھبرا کے تم سے الگ ہو گئی تھی کہ کہیں کچھ . . .

آپی کی بات سن کے میں بے اختیار سَر پکڑ کے رہ گیا . انجانے میں مجھ سے یہ کیسی حرکت سرزد ہو گئی تھی . اگر آپی سچ مچ ناراض ہو جاتیں تو اُنہیں منانا میرے لیے کتنا مشکل ہو جاتا . کیا پِھر وہ کبھی میرا یقین کر پاتیں ؟

میں : سوری آپی . یہ سب انجانے میں ہوا ہو گا . میں نے جان بوجھ کے نہیں کیا . میں تو نشے کی سی کیفیت میں تھا . آپ کے ہونٹ اتنے رسیلے اور دلکش ہیں کہ . . . پِھر کچھ ہوش ہی نہیں رہتا .

میں نے آپی کا ہاتھ پکڑ کے ایک بار پِھر معافی مانگتے ہوئے اپنی بےخودی کی وجہ بتائی تو شرم سے آپی کا چہرہ سرخ پڑ گیا . ہونٹوں پہ بھی بڑی پیاری سی مسکراہٹ سج گئی . آپی یوں شرما رہی تھیں جیسے شوہر کے تعریف کرنے پہ بِیوِی شرماتی ہے . اور انجانے میں شاید میں ان کی اِس فطری خواہش کی بھی تسکین کر گیا تھا .

ابھی کل ہی تو ان سے سنا تھا کہ ان کا دِل چاہتا تھا کوئی اُنہیں دیکھنے اور سراہنے والا ہو ، کوئی ان کے حسن کی تعریف کرے . اور ابھی ان سے معذرت کرتے ہوئے میں ان کے ہونٹوں کی ایسی تعریف کر گیا تھا کہ اچھی بھلی بولڈ لڑکی بھی شرما جاتی .

آپی : تمھیں واقعی میرے ہونٹ اتنے اچھے لگتے ہیں سنی ؟ دِل رکھنے کے لیے تو نہیں کہہ رہے نا ؟

میں : نہیں آپی قسم سے . میرا تو رات کو دِل ہی نہیں کر رہا تھا کہ اپنے ہونٹ آپ کے ہونٹوں سے الگ ہونے دوں . اتنا مزہ آ رہا تھا کہ میں بھلا ہی بیٹھا تھا کہ میں کہاں ہوں اور کیا کر رہا ہوں . اسی لیے تو مجھ سے وہ حرکت ہو گئی .

آپی : کوئی بات نہیں . میں ناراض نہیں ہوں . اور پِھر میری بھی تو غلطی تھی . تم شرمندہ مت ہو .

میں : تو اِس خوشی میں منہ تو میٹھا کر دیں .

میری بات سن کے آپی پہلے تو کچھ نہیں سمجھیں اور الجھن بھری نظروں سے مجھے دیکھتی رہیں پِھر ان کی آنكھوں میں جیسے اچانک ہی چمک سی آ گئی . وہ میری بات کا مفہوم سمجھ گئی

اور ان کے ہونٹوں کی مسکراہٹ اِس بات کا واضح اشارہ دے رہی تھی . اگلے ہی لمحے انہوں نے اپنا سَر جھکایا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے چپکا دیے اور میں ایک بار پِھر نشے کی سی کیفیت میں خود کو فضاؤں میں اڑتا ہوا محسوس کرنے لگا . مگر اِس بار میں نے اپنے ھاتھوں کو اپنی کمر کے نیچے دبا لیا تھا کہ کہیں پِھر کوئی ایسی حرکت نا ہو جائے جو بَعْد میں مجھے ان سے شرمندہ کر دے . نا جانے کتنی دیر ہم دونوں یوں ہی ایک دوسرے کے ہونٹوں سے ہونٹ چپکائے مستی میں ڈوبے رہے . ہوش تب آیا جب دروازے پہ دستک کے ساتھ نورین آپی کی آواز سنائی دی اور ان کی آواز سن کے آپی فوراً ہی مجھ سے الگ ہو کے بیٹھ گئیں .

نورین آپی : آپی یہ آپ کیا کر رہی تھیں ؟ اگر میری جگہ کسی اور نے دیکھ لیا ہوتا تو . . . جانتی ہیں کتنا بڑا طوفان کھڑا ہو سکتا تھا ؟

مہرین آپی : مجھے خوامخواہ ڈرانے کی کوشش نا کرو لڑکی . تمھیں اچھی طرح پتا ہے کہ امی ابّا اتنی صبح صبح اِس طرف

کا رخ نہیں کرتے . اور تم تینوں تو اپنے رازدار ہو . ہمارے سب دکھ سکھ سانجھے ہیں . اگر تمہارے علاوہ ثمر ین اور امبرین بھی دیکھ لیتیں تو بھی کوئی پریشانی کی بات نہیں تھی . مہرین آپی کے پر اعتماد اندازِ پہ مجھے حیرت ہو رہی تھی . ورنہ میری تو اب تک بری حالت تھی . زندگی میں پہلی بار رنگے ھاتھوں پکڑا گیا تھا اور وہ بھی اپنی ہی بہن کے ساتھ . ( کسی غیر لڑکی سے میں کبھی قریب بھی نہیں ہوا تھا . ) اگر نورین آپی کی جگہ کسی ملازمہ نے جھانک لیا ہوتا تو اب تک شاید پوری حویلی میں تباہی مچ گئی ہوتی .

\

 

نورین آپی : خدا کی بندی . دروازہ ہی بند کر لیتیں . اگر ہم تینوں کی بجائے کسی ملازمہ نے جھانک لیا ہوتا تو ؟

نورین آپی کو بھی وہی خدشہ تھا جو مجھے تھا . اور ان کی یہ بات سن کے تو مہرین آپی کو بھی صورت حال کی سنگینی کا

احساس ہوا تھا . اب ان کے چہرے کا رنگ بھی اڑا ہوا تھا .

مہرین آپی : تم ٹھیک کہہ رہی ہو نورین . مجھ سے واقعی بڑی غلطی ہو گئی . بس خیال ہی نہیں رہا . سنی کو جگانے آئی تھی تو اس وقت تو موڈ نہیں تھا . اِس لیے دروازہ بھی کھلا چھوڑ دیا . بَعْد میں اچانک ہی . . .

نورین آپی : خدا کے لیے احتیاط کیا کریں آپی . ایسے کاموں کے لیے یہ وقت بالکل مناسب نہیں ہے اور پِھر ایسی

لاپرواہی . . . . آئندہ اگر کچھ نا بھی کرنا ہو تو اکیلے میں دروازہ بند کر لیا کریں . بلکہ میں تو کہتی ہوں کہ سنی کے ساتھ جب بھی ہم چاروں میں سے کوئی ایک یا چاھے سب ایک ساتھ بھی ہوں تو دروازہ بند ہی ھونا چاہیے

مہرین آپی : پکا وعدہ . آئندہ ایسی کوئی شکایت نہیں ہو گی .

نورین آپی : ٹھیک ہے . آپ جا کے ثمر ین اور امبرین کو جگہ دیں . میں ابھی آتی ہوں .

مہرین آپی : اب میرے سامنے بھی شرماؤ گی ؟

نورین آپی : نہیں آپ جائیے . میں اتنی بے شرم نہیں ہوں .

نورین آپی کی بات سن کے مجھے پہلی بار اندازہ ہوا کہ وہ بھی اِس وقت کسی خاص موڈ میں آئیں تھیں . اور مہرین آپی بھی یہی بات محسوس کر کے معنی خیز اندازِ میں مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئیں تو نورین آپی نے آگے بڑھ کے کمرے کا دروازہ بند کر کے لوک کر دیا .

میں : ( کچھ گھبراتے ہوئے ) آپی آپ کیا کرنے لگی ہیں ؟

آپی : تمہاری جان کیوں نکلی جا رہی ہے ؟ فکر مت کرو . تمہاری عزت نہیں لوٹنے لگی . بس تم سے ایک بات کرنی ہے

میں : تو بات کرنے کے لیے دروازہ لوک کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟

آپی : میں آپی کی طرح لاپرواہی کا مظاہرہ نہیں کر سکتی . یہ ضروری تھا . اب ادھر بیٹھو اور بات سنو میری وہ میرے ساتھ میرے پلنگ پہ بیٹھ گئیں . اور کافی دیر تک اپنی انگلیاں مروڑتے ہوئے شاید کچھ کہنے کے لیے ہمت جمع کرتی رہیں .

آپی : سنی ! تمھیں میں کیسی لگتی ہوں ؟ مطلب اگر تم مجھے ایک مرد کی نظروں سے دیکھو تو . . . .

میں : آپ کسی بھی مرد کا آئیڈیل ہو سکتی ہیں آپی . بری لگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا .

آپی : ہم چاروں کی قسمت میں کسی مرد کا آئیڈیل بننا نہیں لکھا سنی . تمہاری نظروں میں اپنے لیے پسندیدگی دیکھی تو اپنے دِل کی بات کہنے کی ہمت کر رہی ہوں . دیکھو ناراض مت ھونا . اگر برا لگے تب بھی پیار سے منع کر دینا . تمہاری ناراضگی میں برداشت نہیں کر پاؤں گی .

میں : آپ کھل کے کہیں آپی . میں وعدہ کرتا ہوں ناراض نہیں ہوں گا .

آپی : ( ہچکچاتے ہوئے ) میں تم سے . . . سح . . . . . . . شادی . . . کرنا . . شادی کرنا چاہتی ہوں .

میں : ( حیران ہو کر ) کیا ؟ مگر آپ سے میری شادی کیسے ہو سکتی ہے ؟ بہن بھائی کا نکاح نہیں ہو سکتا .

آپی : نکاح سب کے سامنے ہوتا ہے ، جو نہیں ہو سکتا . مگر سہاگ رات تو . . . سب سے چھپ کے ہوتی ہے نا . . وہ تو . . .

میں ان کی اِس بات پہ بوكھلا کے رہ گیا تھا . مجھے امید نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی مجھ سے یہ خواہش کر بیٹھیں گی . مجھے

یہ اندازہ تو تھا کہ اپنی شادی سے مایوسی نے میری بڑی دونوں بہنوں کو اپنے ارمان کچلنے پہ مجبور کر دیا ہے . اور اب جب کہ میں نے انہیں ہر خواہش پوری کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی تو یقینا اُنہیں اپنی مردہ زندگی میں امید کی کرن نظر آنے لگی تھی . مگر مجھے ہرگز یہ اندازہ نہیں تھا کہ نورین آپی اپنی شکستہ تمناؤں کی آگ میں اتنی جل رہی ہیں کہ کچھ دن بھی صبر نہیں کر پائیں گی اور خود مجھ سے کہہ بیٹھیں گی .

میں : ایک بار پِھر اچھی طرح سوچ لیں آپی . یہ آپ کا آخری فیصلہ ہے ؟ بَعْد میں پچھتائیں گی تو نہیں ؟

آپی : دیکھو تم انکار کا حق رکھتے ہو . ظاہر ہے اگر تمہارا دِل نہیں مانتا تو میں تمھیں مجبور نہیں کر سکتی . میں نے بس اِس لیے کہہ دیا تھا كہ شاید تم میری ان شکستہ آرزو ں کی تکمیل کر سکو . ورنہ عمر بھر اِس آگ میں جلنا تو ویسے ہی نا صرف میرا ، بلکہ ہم چاروں بہنوں کا مقدر ہے .

میں : میں سمجھتا ہوں آپی . ابھی امبرین اور ثمر ین تو معصوم ہیں . مگر آپ دونوں کے جذبات ، آپ کی خواہشات جو حسرت بن کے آپ کو تڑپا رہی ہیں ، میں سب جانتا ہوں . اور میں دِل میں تہیہ کر چکا تھا کہ اپنی چاروں بہنوں کے دِل کی ہر تمنا خود پوری کروں گا . مگر مجھے یہ امید نہیں تھی کہ آپ اتنی جلدی . . . . . مجھے تو لگتا تھا مہرین آپی ہی زیادہ ترسی ہوئی ہیں اور آپ ان کی نسبت خود پہ زیادہ قابو رکھتی ہیں . مگر یہاں تو معاملہ ہی اُلٹا نکلا .

آپی : میں نے آپی سے بھی کبھی اپنے دِل کی بات نہیں کی سنی . مگر انہوں نے مجھ سے اپنے دِل کی کوئی بھی بات کبھی نہیں چھپائی . اُنہیں بس اتنی حسرت تھی کہ کوئی اُنہیں دیکھ کے سراہے ، ان کی تعریف کرے . وہ مرد کے پیار کو ترسی ہوئی ہیں . ایسا پیار جو ہوس سے پاک ہو . جیسا کہانیوں میں ہوتا ہے . اور جس دن انہیں یقین ہو گیا کہ کوئی انہیں ویسا ہی پیار کرتا ہے تو یقین کرو وہ اسے ہی اپنا سب کچھ سونپ دیں گی . سوچنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگائیں گی میں : آپ کو ایسے پیار کی خواہش نہیں تھی ؟

آپی : تمہاری نظروں میں وہ پیار چھلکتا میں نے پہلے دن سے ہی محسوس کر لیا تھا . جو شخص مجھے میری مر ضی سے چاھے . اس کے پیار میں کیسا شک ؟

میں : تعریف کے لیے شکریہ . اور آپ کی خواہش پہ آج رات ہی عمل ہو گا . لیکن 12 بجے کے بَعْد . 11 بجے مہرین آپی سے پیار کرنے کا وقت طے ہے .

آپی : کوئی بات نہیں . میں انتظار کروں گی .

آپی یہ کہہ کے جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تو میں نے ہاتھ پکڑ کے انہیں روک لیا . وہ بنا کچھ پوچھے دوبارہ بیٹھ گئیں تو

میں اٹھ کے الماری کی طرف بڑھ گیا اور الماری کھول کے وہ اِسْپیشَل شاپنگ بیگ نکالا جس میں اسی مقصد کے لیے لیے ہوئے سرخ ریشمی کپڑے تھے . میں نے ان میں سے ایک ڈریس نکال کے باقی اسی طرح واپس رکھ کے الماری بند کر دی اور وہ ڈریس پلنگ کے پاس آ کے نورین آپی کو پکڑا دیا .

میں : آپ کا عروسی لباس . امید ہے پسند آئے گا .

آپی : ( حیران ہو کر ) تم نے پہلے سے لیا ہوا تھا ؟

میں : انہی کپڑوں کے ساتھ ہی لیا تھا ، سب کے لیے ایک ایک . مگر اسی خاص موقع پر دینے کے لیے الگ رکھ لیا تھا

آپی : یعنی تم جانتے تھے کہ ہم چاروں باری باری اپنے نفس کے ھاتھوں مجبور ہو کے تم سے ضرور کہیں گی ؟

.

میں : یہ تو انسان کی فطری ضرورت ہے . جب اِس ضرورت کو پورا کرنے کا ذریعہ سامنے موجود ہو تو کون بیوقوف انکار کر کے خود پہ ظلم کرنا پسند کرے گا ؟ میری بات سن کے آپی مسکراتے ہوئے پلنگ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور پِھر مجھے شکریہ کہہ کے دروازے کی طرف بڑھ گئیں . آج رات میری اپنی بہنوں میں سے ایک سے سہاگ رات ہونی تھی اور مجھے صبح سے ہی یہ دن گزارنا مشکل لگ رہا تھا .آج کا دن بھی تقریباً پچھلے دن کی طرح ہی گزرا . یعنی چاروں بہنوں کے ساتھ اپنے کمرے میں ہی وقت گزارا . اُنہیں 2 ، 3 فلموں کی کہانیاں سنائیں . درمیان میں بس کھانے کا وقفہ ہوا ، ورنہ ہم پانچوں بہن بھائی سارا دن ہی اکٹھے رہے . بہنوں نے اور خاص طور پہ چھوٹی دونوں نے تو خوب انجوئے کیا ہو گا . جب کہ مہرین آپی ، نورین آپی اور میں بس مارے بندھے ہی وقت کاٹ رہے تھے . ہم تینوں کو ہی رات ہونے کا انتظار بڑی شدت سے تھا . اور مجھے تو کچھ زیادہ ہی شدت سے انتظار تھا کہ مجھے ایک ہی رات میں دو مزے ملنے والے تھے . مہرین آپی کے سیکسی جِسَم سے لپٹ کے ان سے کس کرنا تھا اور نورین آپی کے ساتھ تو آج میری سہاگ رات تھی . مجھے سہاگ رات کا اتنا انتظار نہیں تھا جتنا ان کے بوبز کا مزہ لینے کا دِل کر رہا تھا . آج تک کسی بھی لڑکی کے اتنے ٹائیٹ بوبز میں نے نا دیکھے تھے ، نا سنے تھے . اور محسوس تو میں نے صرف اپنی بہنوں کے بوبز ہی کیے تھے سو یہ بات تو میں کہہ ہی سکتا تھا کہ میری چاروں بہنوں میں صرف نورین آپی کے بوبز ہی اتنے ٹائیٹ اور سیکسی تھے . دن میں ایک آدھ بار موقع ملنے پر مہرین آپی نے مجھے آج پِھر رات 11 بجے ان کے کمرے میں آنے کی یاد دہانی کروا دی تھی اور نورین آپی کی آنكھوں سے چھلکتی مستی تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں چھوڑ رہی تھی . خیر خدا خدا کر کے وہ دن گزرا ، شام ہوئی اور پِھر رات کو سب اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے . آج کی رات ہم 3 افراد کو نیند نہیں آنے والی تھی ، یعنی میں ، مہرین آپی اور نورین آپی . ٹھیک 11 بجے میں سب تسلّی کرنے کے بعد مہرین آپی کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ آج بلو ریشمی ڈریس میں تھیں اور ڈریس کی ڈوریاں آج پہلی بار انہوں نے ٹائیٹ کر کے باندھی تھیں جس سے ان کے سیکسی بوبز واضح ہو رہے تھے . ( پہلے جب انہوں نے گرین ڈریس پہنا تھا تو فٹنگ والی ڈوریاں انہوں نے ٹائیٹ نہیں کی تھیں ، اِس لیے بوبز باہر سے زیادہ محسوس نہیں ہو رہے تھے ) میں جیسے ہی دروازہ لوک کر کے ان کے پلنگ کے نزدیک پہنچا ، انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کے کھینچا اور خود پلنگ پہ لیٹ کے مجھے اپنے اوپر گرا لیا . آج ان کے انداز میں وہ کل والی جھجک نہیں تھی اور نا ہی انہیں ڈر تھا کہ کہیں میں حد سے گزر کے کچھ گڑبڑ نا کر دوں

میں بھی باتوں میں وقت ضائع نا کرتے ہوئے سیدھا ان کے ہونٹوں پہ ٹوٹ پڑا . میں نے اتنی چاہت اور شدت سے ان کے ہونٹ چومنے اور چوسنے لگا کہ پِھر دنیا کی ہر شہ میرے ذہن سے خارج ہو گئی . اب یہی ہونٹ میرے لیے کل کائنات تھے . آپی نے اپنے بازؤں سے مجھے جکڑا ہوا تھا اور ان کے ہاتھ مجھے اپنی جانب یوں کھینچ رہے تھے جیسے وہ مجھے اپنے وجود میں سما لینا چاہتی ہوں . وہ میرے نیچے دبی ہوئی ہونے کے باوجود ہلکی سی بھی تکلیف کا اظہار نہیں کر رہی تھیں اور نا ہی سانس رکنے کی سی کیفیت میں لگ رہی تھیں . بلکہ اتنی پر سکون تھیں جیسے یہ سب ان کی دیرینہ خواہش کی تکمیل ہو . میں تو ان کے ہونٹ چومتے ہوئے یوں مدھوش تھا کہ شاید ساری رات بھی لگا رہتا تو وقت گزرنے کا احساس ہی نا رہتا . مگر پِھر انہوں نے خود ہی میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کے الگ کیا تو مجھے ہوش آیا . میں نے سرشار سی نظروں سے انہیں دیکھا تو ان کی آنكھوں میں بھی سب کچھ پا لینے کی خوشی کی چمک نظر آ رہی تھی .

آپی : بس کرو سنی . ورنہ میں خود پہ اختیار کھو دوں گی . اب جاؤ .

ان کا حکم تھا جو مجھے ماننا ہی تھا . سو میں ان کے اوپر سے اٹھا اور پِھر پلنگ سے اتر کے کھڑا ہو گیا . وہ بھی میرے ساتھ

ہی کھڑی ہو گئیں اور پِھر میرے ساتھ دروازے تک میرے ساتھ ہی آئیں . میں دروازے سے باہر نکلا تو انہوں نے مجھے گلے لگانے کے بعد رخصت کیا . میرے قدم نشے کی سی کیفیت میں لڑکھڑا رہے تھے اور اب مجھے نورین آپی کے کمرے میں بھی جانا تھا .نورین آپی کے کمرے کا دروازہ لوک نہیں تھا . ہینڈل گھماتے ہی دروازہ کھل گیا اور میری نظروں نے اپنے سامنے قیامت کا نظارہ دیکھا . چاروں بہنوں کے لیے سرخ ریشمی کپڑے لیتے ہوئے میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ لباس کسی کو ایسا قیامت خیز حسن دے سکتا ہے . میرے سامنے اِس وقت واقعی قیامت ہی موجود تھی . نورین آپی سرخ ریشمی لباس میں سامنے پلنگ پہ بیٹھی میری ہی منتظر تھیں اور واقعی اِس وقت قیامت لگ رہی تھیں . قمیض کی فٹنگ والی ڈوریاں انہوں نے کچھ زیادہ ہی ٹائیٹ کی ہوئی تھیں جس سے ان کا قیامت خیز حسن کچھ اور بھی قیامت لگ رہا تھا اور اس پہ سب سے بڑی قیامت . . . . . . . . ہائے . . . . . . کیا بتاؤں . . . . . . . . انہوں نے نیچے سے برا نہیں پہنا ہوا تھا . اور برا کے بغیر ان کے ٹائیٹ بوبز سرخ ریشمی قمیض کے اندر قیامت کا منظر پیش کر رہے تھے . اور ان کے نپلز بھی واضح محسوس ہو رہے تھے . بوبز تو اتنے ٹائیٹ تھے اور قمیض ان سے یوں چپکی ہوئی تھی جیسے ان کے اندر رکھ کے ٹائیٹ سیل پیک کر دیا گیا ہو . ہائے میں مر جاؤں ایسی قیامت کا منظر تھا کہ ہوش گم ہوئے جا رہے تھے .بڑی مشکل سے میں نے کانپتے ہوئے ھاتھوں سے کمرے کا دروازہ لوک کیا اور پِھر اپنی لڑکھڑاتی ہوئی ٹانگوں کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے ان کے پلنگ تک پہنچا اور پلنگ پہ جیسے گر سا گیا . میری ٹانگوں سے جان ہی نکلی جا رہی تھی . ایسا کوئی منظر دیکھنے کے لیے میں شاید ذہنی طور پہ تیار نہیں تھا . مجھے پتا ہی نا تھا کہ میری بہن ایسے قیامت خیز حسن کی ما لک ہے جو کسی کے بھی ہوش اُڑانا تو معمولی بات ہے ، کسی کو ہارٹ اٹیک بھی کروا سکتا تھا .

میں : کیوں جان لینے پہ تلی ہوئی ہیں آپی . میں ایسے جلووں کی تاب نا لا سکا تو ؟

آپی : یہ رات میری بہت بڑی حسرت ہے سنی . آج یہ رات مجھے ملی ہے تو میں کوئی کمی کیسے چھوڑ سکتی تھی .

میں : کامی . . . . . ارے ما ر ڈالنے میں کیا کسر چھوڑی ہے آپ نے ؟ اب تک ہوش اڑے ہوئے ہیں . یقین ہی نہیں آ رہا کہ یہ قیامت میرے ہی سامنے موجود ہے . کہاں چھپا رکھا تھا اتنا قیامت خیز حسن آپ نے ؟

آپی : تعریف کا شکریہ . مگر اب اپنے دِل کو سنبھالو. ابھی ہمیں بہت سے مرحلوں سے گزرنا ہے اور رات گزرتی چلی

جا رہی ہے .

میں : میں یہاں لیٹ جاؤں ؟

میرے اِجازَت طلب کرنے پہ آپی نے مسکراتے ہوئے سَر ہلا کہ گویا اِجازَت دے دی تو میں جوتے اتار کے ان کے قریب سیدھا لیٹ گیا اور پِھر وہ بھی میرے قریب ہی لیٹ گئیں . ان کے جِسَم کی خوشبو مجھے پاگل کیے دے رہی تھی اور ایک قیامت کو اپنے پہلو میں لٹائے میں گویا جان کنی کی سی کیفیت میں تھا . کافی دیر لگی مجھے اپنے آپ کو سنبھالنے میں اور پِھر میں نے ہاتھ بڑھا کے انہیں اپنی طرف کھینچا تو وہ خود ہی میرے اوپر آ لیٹیں . ان کے ٹائیٹ بوبز میرے سینے میں ایسے کھب گئے تھے جیسے پسلیاں توڑ کے اندر گھس رہے ہوں . میرے دِل کی دھڑکنیں پِھر سے بے ترتیب ہونے لگیں . میں نشے کے سمندر میں ڈوبتا جا رہا تھا اور سہارا لینے کے لیے میں نے آپی کی کمر کو جکڑ لیا تھا جس سے ان کے بوبز مزید میرے سینے میں گھس گئے تھے . مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے ان کے بوبز میرے دِل کی دیواروں کے آر پا ر ہو گئے ہوں . مجھے کچھ پتا نہیں میں کب تک یوں ہی بے سدھ سا اُنہیں اپنے اوپر لٹائے بے حرکت لیتا رہا کہ آپی نے خود ہی میرے ہونٹ چومتے ہوئے مجھے ہوش کی دنیا میں واپس آنے پہ مجبور کر دیا . پِھر مجھے پتا نہیں کیا ہوا کہ میں اُنہیں اپنے اوپر سے ہٹا کے خود ان کے اوپر آیا اور ان کے بوبز پہ ( قمیض کے اوپر سے ہی ) ٹوٹ پڑا . میں نے قمیض کے اوپر سے ہی ان کے بوبز کو اتنا سک کیا کہ آپی کی لذت آمیز کراہیں مجھے صاف سنائی دینے لگیں

آپی : سنی . . . قمیض اتار دوں ؟

میں : نہیں . . . ایسے ہی رہنے دیں . کیا پتا وہ جلوہ میں برداشت نا کر پاؤں

میری بات سن کے وہ ہنس پڑیں اور میں پِھر سے ان کے بوبز کو قمیض کے اوپر سے سک کرنے لگا . یہاں تک کہ ان کی قمیض وہاں سے پوری گیلی ہو گئی تو میں رک گیا . میرے خیال میں اب وہ مر حلہ آ گیا تھا کہ اصل کام کی شروعات کی جا سکے . میں نے ان کے بوبز سے بمشکل نظر ہٹا کے کسی آئل یا لوشن کی تلاش میں آس پاس نظریں دوڑائیں تو سائڈ ٹیبل پہ ہی مجھے لوشن کی بوتل نظر آ گئی . شاید آپی نے پہلے سے ہی یہ سب سوچ رکھا تھا اور انتظام پورا رکھا تھا . میں نے لوشن اٹھا کے آپی کو دیکھا تو ان کی آنكھوں میں بے تابی سی نظر آئی . گویا کہہ رہی ہوں اتنی دیر کیوں کر رہے ہو . جلدی کرو .

میں : آپی . . . پہلی بار کرنے سے بہت دَرْد بھی ہو گا اور خون بھی نکلے گا . آپ کے اندر ایک پردہ ہو گا جو پھٹ جائے گا . آپ تیار ہیں نا ؟

میرے سوال پہ آپی نے فوراً ہاں میں سَر ہلا دیا جیسے اُنہیں سب پتا ہو اور وہ اِس کے لیے ذہنی طور پہ تیار ہوں . ( آگے بتانے سے پہلے میں یہ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے دیس میں آنے سے پہلے لندن میں ، میں ہمیشہ پینٹ شرٹ ، یا ٹراؤزر شرٹ پہنتا تھا . جبکہ یہاں آنے کے بَعْد میں نے شلوار قمیض پہننا شروع کر دیا تھا اور اب بھی میں شلوار قمیض میں ہی تھا . ) میں اُنہیں وہیں لیٹا چھوڑ کے خود اٹھ کے ان کی ٹانگوں کے قریب آیا اور پِھر اپنی شلوار کھول کے پوری اتار دی اور اِس کے بَعْد آپی کی شلوار بھی اتار دی . ان کی چوت پہ ایک بھی بال نہیں تھا . شاید آج ہی صاف کیے تھے اور اِس رات کے لیے وہ پورے اہتمام سے تیار ہوئی تھیں . ان کی چوت کے دیکھتے ہی میرا لن تن کے کھڑا ہو گیا جس پہ میں نے ڈھیر سارا لوشن لگا کے اچھی طرح ملا اور کچھ لوشن اپنی انگلی پہ لگا کے ان کی چوت کے اندر کی طرف لگایا تو اُنہیں جیسے جھٹکا سا لگا .

میں : کیا ہوا آپی ؟

آپی : کچھ نہیں میری جان . پہلی بار کسی مرد نے چھوا ہے . کرنٹ تو لگنا ہی تھا .

میں ان کی بات سن کے مسکرایا اور پِھر اُنہیں تیار رہنے کا کہتے ہوئے ان کی ٹانگیں کھول کے ٹانگوں کے درمیان آ گیا .

دونوں ھاتھوں سے ان کی ٹانگیں اٹھا کے میں ان کی چوت کے قریب ہوا تو انہوں نے اپنی ٹانگیں میری کمر کے گرد لپیٹ کے میری مشکل آسان کر دی . اب میں آسانی سے اپنے ہاتھ پلنگ پہ ان کے دائیں بائیں رکھتے ہوئے آگے کو جھکا تو میرا لن ان کی چوت سے ٹکرانے لگا . ذرا سا اوپر نیچے ہونے پہ ہی لن ان کی چوت کے سوراخ پہ آ گیا جسے میں نے جھٹکا لگا کے اندر کیا تو صرف ٹوپی ہی اندر جا سکی . ساتھ ہی آپی کی ہلکی سی آہ . . کی آواز بھی نکلی جس پہ میں نے کوئی خاص توجہ نا دیتے ہوئے مزید زور لگایا تو ایک تہائی لن ان کی چوت کے اندر پہنچ گیا . آپی کو دَرْد تو اِس بار بھی ہوا تھا مگر انہوں نے کوئی آواز نہیں نکالی تھی . دَرْد برداشت کرنے کی کوشش میں انہوں نے بستر کی چادر کو مضبوطی سے بھینچ لیا تھا اورنچلا ہونٹ بھی دانتوں سے دبا رکھا تھا .

میں : آپی . . ابھی بہت دَرْد برداشت کرنا ہے . اگر آپ سے برداشت نہیں ہو رہا تو میں . . .

آپی : نہیں . . . میری فکر مت کرو . . . . اور رکے بنا آگے کرتے رہو . میں برداشت کر لوں گی .

ان کے یقین دلانے پہ میں نے اپنا لن تھوڑا سا پیچھے کھینچ کے ایک بھرپور جھٹکا لگایا تو میرا لن آگے موجود ان کی سیل کو چیرتا ہوا تین چوتھائی اندر چلا گیا . آپی کے منہ سے اِس بار آہ . . . . . . سی . سی . آہ . . . . کی آوازیں نکلیں . مگر بس ایک دو بار . اِس کے بَعْد انہوں نے اپنی آواز پِھر دبا لی . مگر آنكھوں سے اب بھی تکلیف کا اظہار ہو رہا تھا .

میں : بس آپی . جو تکلیف ہونی تھی ہو گئی . کچھ دیر میں یہ تکلیف ختم ہو جائے گی .

آپی : ہاں . . . . . پتا ہے . . . . تم رکو مت . . . . . میری تکلیف کی پرواہ مت کرو . . . . زور لگا کے اور آگے کرو .

میرا دِل تو نہیں چاہ رہا تھا کہ اُنہیں ایک پل کی بھی تکلیف مزید دوں مگر ان کے اصرار پہ مجھے مزید زور لگانا پڑا . اِس بار پُورا لن اندر چلا گیا . اور حیرت کی بات یہ تھی کہ ان کی چوت کی بھی یہی آخری حد تھی . یعنی میرا لن ان کی چوت سے بالکل پرفیکٹ فٹ تھا . . . . . وائو پرفیکٹ فٹ . کچھ دیر رک کے میں نے ان کی حالت اعتدال پہ آنے کا انتظار کیا اور پِھر دھیرے دھیرے آگے پیچھے ھونا شروع کر دیا . ان کی چوت نے جیسے میرے لن کو جکڑا ہوا تھا جس سے میرا لن بہت پھنس پھنس کے اندر باہر ہو رہا تھا . مگر مزہ بہت آ رہا تھا . میں نے کسی نا خوشگوار صورت حال سے بچنے کے لیے فوراً اپنے پی سی مسلز کو ٹائیٹ کر لیا تاکہ کہیں انجانے میں بھی میری منی اندر نا گرے . آپی کو بھی شاید اسی وقت ہی خیال آیا تھا کہ ہم نے کوئی پروٹیکشن تو لی ہی نہیں . میری آنكھوں میں دیکھتے ہوئے ان کی آنكھوں میں جو سوال تھا وہ الفاظ کا محتاج نہیں تھا .

میں : بے فکر رہیں آپی . کچھ نہیں ہو گا .

آپی : کیسے بے فکر رہوں سنی . . . ہم نے کوئی انتظام بھی نہیں کیا ہوا . کہیں کچھ ہو گیا . . . . مجھے . . . . . . . . حمل . . . میرا مطلب . . . . بچہ . . . .

میں : میں نے کہا نا آپی . کچھ نہیں ہو گا . اگر میں 22 گھنٹے بھی اندر باہر کرتا رہوں گا تب بھی کچھ نہیں ہو گا .

آپی : یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ میں نے کئی شادی شدہ لڑکیوں سے سنا ہے کہ مرد بس 15 منٹ ہی نکال سکتا ہے . پِھر . . . میں : آپ اِس الجھن میں مت پڑیں آپی . یہ میرا مسئلہ ہے . آپ کا جب تک دِل نہیں بھرے گا ، میں آپ کا ساتھ دوں گا .

آپی : ماننے والی بات تو نہیں ہے . مگر تم ٹھیک ہی کہہ رہے ہو گے . خیر تم رک کیوں گئے . کرو نا . . مجھے مزہ آ

رہا تھا . میں ان کی بات پہ مسکراتا ہوا اور زور سے لن آگے پیچھے کرنے لگا . اور آپی بھی مزہ لیتے ہوئے ہلکی ہلکی آوازیں نکا لنے لگیں . . آہ . . . . آں . . . . . مم . . . . . . . . آہ . . . . . . . . . آہ . . .

یوں ہی دھیرے دھیرے آگے پیچھے کرتے ہوئے میں کافی دیر تک لگا رہا اور اِس دوران دو بار مجھے آپی کے ڈسچارج

ہونے کا پتا چلا . ان کے اندر کا لکویڈ فوارے کی طرح میرے لن پہ گرتا اور میرے لن میں بھی گدگدی سی ہونے لگتی دونوں بار میں نے بڑی مشکل سے خود کو ڈسچارج ہونے سے روکا اور تھوڑا تھوڑا وقفہ دے کے لگا رہا . تیسری بار جب وہ ڈسچارج ہوئیں تو انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور گہرے گہرے سانس لینے لگیں . میں نے کچھ سوچتے ہوئے مزید کرنا مناسب نا سمجھا اور وہیں رکا رہا . کافی دیر انتظار کرتا رہا کہ شاید اب آپی آنکھیں کھول کے مجھے مزید کرنے یا پِھر بس کرنے کو کہیں گی مگر انہوں نے نا آنکھیں کھولیں نا کچھ کہا تو مجھے خود ہی اُنہیں مخاطب کرنا پڑا .

میں : آپی . . . آپی . . . باہر نکال لوں ؟

آپی : ( آنکھیں کھول کے مجھے دیکھتے ہوئے ) ہوں . . . . ہاں . . . اب بس . . . اب مزید ہمت نہیں ہے .

میں نے لن باہر نکالا اور اٹھ کے جوتا پہن کے باتْھ روم چلا گیا . وہاں فلش کے پاس کھڑے ہو کے میں نے پی سی مسلز ریلیز کر دیئے اور میں ڈسچارج ہونے لگا . کافی دیر جھٹکے لیتے ہوئے میں ڈسچارج ہوتا رہا اور پِھر ٹشو سے اپنا

لن صاف کر کے میں دوبارہ اندر آیا تو آپی شلوار پہن چکی تھیں اور اب بستر کی خون آلود چادر اتار رہی تھیں . مجھے دیکھ کے وہ بڑے پیار بھرے اندازِ میں مسکرا دیں اور پلنگ پہ بیٹھ گئیں . میں نے آگے بڑھ کے اپنی شلوار اٹھا کے پہنی اور ان کے قریب بیٹھ گیا .

میں : آپی آپ خوش ہیں نا ؟

آپی : ہاں میری جان . بہت خوش . اتنی خوش کے تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے .

میں : آپی . . . وہ . . . اگر . . آپ کو اعتراض نا ہو تو . . . . میں کبھی کبھی آپ کے . . . .

میری نظروں کو اپنے بوبز پہ دیکھ کے وہ ہنس پڑیں شاید وہ سمجھ گئی تھیں کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں .

آپی : تمھیں حق ہے میری جان . یہ حق میں اپنی خوشی سے تمھیں دے رہی

میں : ( خوش ہو کر ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ) بہت بہت شکریہ آپی . آپ بہت اچھی ہیں .

آپی : اچھے تو تم ہو سنی . جو میری خوشی ، مجھے میری ہی رضامندی سے دینے کے لیے بھی اِجازَت مانگ رہے ہو . میں تو اپنا پُورا وجود تمہارے نام کر چکی ہوں . جب چاہو اپنا حق سمجھ کے آ جانا .

میں : جانے کا دِل چاھے گا تو آنے کا سوچوں گا نا آپی ؟ آپ کے پاس سے تو جانے کو ہی دِل نہیں کر رہا .

آپی : دِل تو میرا بھی نہیں چاہتا کہ تم یہاں سے جاؤ . مگر مجبوری ہے . تمھیں جانا تو ہو گا .

میں : پِھر . . . کل آ جاؤں ؟

آپی : کہا نا میری جان . جب تمہارا دِل چاھے . لیکن بس تمہاری خوشی پوری کرنے کے لیے . کم سے کم ایک ہفتہ تو میں اِس رات کو یادگار رکھنا چاہتی ہوں . ویسے بھی یہ کام روز نہیں ھونا چاہئیے . ان کا اشارہ یقینا سیکس کی طرف تھا . یعنی وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ایک ہفتے سے پہلے ہم دوبارہ سیکس کریں . جبکہ اپنے بوبز سے مزہ لینے کی انہوں نے کھلی اِجازَت دے دی تھی . مجھے اور کیا چاہئیے تھا . ویسے بھی سیکس کرنے میں مجھے وہ مزہ نہیں آتا تھا جو مہرین آپی کے ہونٹوں اور نورین آپی کے بوبز میں تھا . اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ہر وقت ان دونوں بہنوں کے ہونٹ اور بوبز چوستا رہتا . کبھی چھوڑتا ہی نہیں . مگر اِس کے لیے رات کا انتظار کرنے پہ مجبور تھا . اور اگلی رات اب ایک پُورا دن گزرنے کے بَعْد ہی آنی تھی . اور یہ دن گزارنا اب مجھے کتنا مشکل لگتا تھا ، یہ میرا دِل ہی جانتا تھا . آپی کو ایک الوداعی کس کر کے میں اٹھا اور ان کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آ گیا . اب نیند تو آنی نہیں تھی . سو میں اپنے پلنگ پہ لیٹ کر اِس یادگار رات کا ایک ایک لمحہ اپنے تصور کی اسکرین پہ دیکھ کے خوش ہوتا رہا .اگلی صبح میری حیرت کی انتہا نا رہی جب کوئی مجھے ناشتے کے لیے بلانے نہیں آیا . مہرین آپی اور نورین آپی کا تو میں سمجھ سکتا تھا کہ شاید نیند پوری نا ہونے کی وجہ سے اب تک سو رہی ہوں . مگر امبرین اور ثمر ین کو کیا ہوا . ایک بار بھی میرے کمرے میں کسی نے جھانکا تک نہیں ؟ آخر ہوا کیا ہے ؟

پتا نہیں کیا بات تھی . بہر حال سب کا سامنا تو کرنا ہی تھا . میں نے اٹھ کے باتْھ لیا اور کپڑے تبدیل کر کے ناشتے کے

لیے کھانے کے کمرے میں پہنچ گیا جہاں امی ابو کے علاوہ امبرین اور ثمر ین بھی موجود تھیں . میرے سلام کا جواب صرف امی ابو نے ہی دیا . امبرین اور ثمر ین نے تو مجھے نگاہ اٹھا کے دیکھا تک نہیں . شاید کسی بات پہ وہ مجھ سے ناراض ہو گئی تھیں . مگر کس بات پہ ؟ انہیں میری کونسی بات اتنی بری لگی کہ وہ میری طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتیں ؟ کہیں انہیں کچھ پتا تو نہیں چل گیا ؟ اندر ہی اندر پریشان ہوتا میں ان کی ناراضگی کے مختلف اسباب سوچتا رہا اور چُپ چاپ ناشتہ ختم کر کے اٹھ گیا . اب میرا رخ اپنے کمرے کی طرف نہیں بلکہ امبرین اور ثمر ین کے کمرے کی طرف تھا . ہر وقت ایک دوسری کا سایہ بنی رہنے والی وہ جڑواں بہنیں سوتی بھی ایک ہی کمرے میں تھیں .

کافی دیر تک میں پلنگ پہ بیٹھا ان دونوں کا انتظار کرتا رہا . آخر وہ دونوں اپنے کمرے کا دروازہ کھول کے اندر داخل ہوئیں تو مجھے پہلے سے موجود دیکھ کے وہیں رک گئیں .

امبرین : آپ شاید بھول رہے ہیں بھائی . یہ مہرین آپی یا نورین آپی کا کمرہ نہیں ہے . یہاں ہم دونوں ہی ہوتی ہیں .

ثمر ین : شاید آپ ہمیں رازداری کا وعدہ یاد دلانے آئے ہیں . بے فکر رہیں ہم کسی سے کچھ نہیں کہیں گی .

میں : بات کیا ہے ؟ کچھ پتا بھی تو چلے کہ میری کس بات پہ تم دونوں مجھ سے اتنی ناراض ہو ؟

میری بات سن کے پہلے تو وہ دونوں مجھے غصے سے گھورتی رہیں اور پِھر ثمر ین نے اپنے پلنگ کی سائڈ ٹیبل کی دراز سے

ایک منی ٹپ ریکارڈر نکال کے پلے کا بٹن دباتے ہوئے ٹپ ریکارڈر میرے ہاتھ میں تھما دیا اور پِھر کچھ نامانوس سی آوازوں کے بَعْد مہرین آپی کی آواز سن کے تو میرے ھاتھوں کے طوطے اڑ گئے .

" بس کرو سنی . ورنہ میں خود پہ اختیار کھو بیٹھوں گی . اب جاؤ . " یہ بات تو انہوں نے کل رات ہی مجھ سے کہی تھی جب میں ان کے کمرے میں تھا . اور کیا کر رہا تھا ، یہ مجھے یاد کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی . یقینا یہ نامانوس سی آوازیں بھی اسی دوران ریکارڈ ہو گئی تھیں . مگر یہ ریکارڈنگ ہوئی کیسے ؟ کیا ان دونوں کو پہلے سے مجھ پہ شک تھا کہ میں ایسا کروں گا .

میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ امبرین نے ایک دوسرا منی ٹپ ریکارڈر میرے ہاتھ میں تھما دیا اور پہلا میرے ہاتھ سے لے کر ثمر ین کو دے دیا . اور یہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ اِس کیسٹ میں کل رات کی میری اور نورین آپی کی باتیں اور آوازیں ریکارڈ تھیں . شرمندگی اور گھبراہٹ سے میرے جِسَم سے پسینے کی دھاریں پھوٹ پڑیں اور ہاتھ پاؤں کانپنے لگے . میں نے تو اپنی طرف سے ہر قسِم کی احتیاط کی تھی کہ کسی کو پتا نا چلے کہ میں مہرین آپی اور پِھر نورین آپی کے کمرے میں گیا تھا . مگر شاید ان دونوں کو پہلے سے کچھ شک ہو گیا تھا جو انہوں نے پہلے سے ہی انتظامات کر رکھے تھے . دونوں کمروں میں یقینا پہلے سے ٹپ ریکارڈر چھپا دیئے گئے تھے اور اب ہماری پچھلی رات کی کاروائی کا ثبوت میرے ھاتھوں میں تھا .

ثمر ین : اب تو آپ کو پتا چل ہی گیا ہو گا کہ بات کیا ہے ؟

[امبرین : یہ ٹپ ریکارڈر ہمیں صباء آپی نے تحفے کے طور پہ دیے تھے . ہمیں کیا پتا تھا یہ ایسے کام آئیں گے .

یہ کہتے ہوئے امبرین نے میرے کانپتے ھاتھوں سے ٹپ ریکارڈر لے کے بند کر دیا . اور اب میں ڈرتے ہوئے دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ پتا نہیں اب میرے ساتھ کیا سلوک ہو گا . یہ ناراضگی کیا لمبی چلے گی ؟ یا پِھر یہ معاملہ امی ابّا کے سامنے لایا جائے گا ؟ نہیں . . یہ نہیں ھونا چاہئیے .

ثمر ین : میں جانتی ہوں آپ کو ہم پہ ذرا سا بھی اعتبار نہیں ہے . ورنہ اتنی رازداری سے یہ معاملات نا طے کیے جاتے .

بہر حال . آپ چاہیں تو اپنے ان كارناموں کے ثبوت اپنے ھاتھوں ضایع کر سکتے ہیں . ہم نے امی ابو کو سنانے کے لیے یہ کیسٹ ریکارڈ نہیں کیے تھے . لیکن اگر آپ یہ کیسٹ ہم پہ اعتبار کرتے ہوئے ہمیں واپس کر دیں تو یہ آپ کا ہم پہ احسان ہو گا . ہمارے پاس ان کے علاوہ اور کوئی کیسٹ نہیں ہیں .

میں : ( ڈرتے ڈرتے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے ) معافی کی کوئی صورت نہیں ؟

امبرین : ایک شرط پہ معافی ملے گی .

میں : کیا ؟ جلدی بتاؤ . میں تم دونوں کی ناراضگی دور کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں .

امبرین : آپ آج سارا دن اور آج کی ساری رات ہم دونوں کے ساتھ گذاریں گے . مہرین آپی اور نورین آپی کی آج چھٹی .

میں : ( بوكھلا کے پلنگ سے اٹھ کے کھڑا ہوتے ہوئے ) ٹوٹ . ٹی . ٹی . . . . . . . تم دونوں کے ساتھ . . . . مطلب ؟

ثمر ین : مطلب وہ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں . مانا کہ ہم بھی جوان ہو چکی ہیں مگر اِس جوانی نے ہمیں اتنا تنگ نہیں کیا ہوا کہ خود کو پلیٹ میں سجا کے آپ کو پیش کر دیں . ہماری بھی آخر کچھ عزت نفس ہے .

میں : خدا کے لیے کھل کے بتاؤ . میں پریشان ہو رہا ہوں .

امبرین : اِس پہ ایک شعر عرض کرتی ہوں .

بٹھا کے رات بھر پہلو میں یار کو غالب

جو لوگ کچھ نہیں کرتے وہ کمال کرتے ہیں

تو آپ کو آج وہی کمال کرنا ہے ..امبرین کے منہ سے غالب کا شعر سن کے میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا . صباء نے پاکستان سے آ کے اتنا تو بتایا تھا کہ میری چاروں بہنیں گاؤں کے گرلز ہائی اسکول میں میٹرک تک پڑھی ہوئی ہیں مگر اتنا نہیں پتا چل پایا تھا کہ اتنی معمولی تعلیم حاصل کرنے پہ بھی ان کا شاعری کا ذوق اتنا اچھا ہو گا . اب تک کسی نے بھی اپنے اندازِ گفتگو سے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کہ انہوں نے تھوڑی بہت بھی تعلیم حاصل کر رکھی ہے ، نا کبھی کسی نے انگلش کا کوئی لفظ بولا تھا اور نا ہی عام گفتگو میں کوئی مشکل لفظ استعمال کیا تھا ، جس سے میں سمجھ پا تا کہ میری بہنیں بھی تھوڑا بہت پڑھی لکھی ہیں . انگلش کے عام الفاظ یعنی سوری ، تھینک یو وغیرہ تو آج کل ان پڑھ لوگ بھی بول لیتے ہیں ، مگر میں نے یہ الفاظ بھی ان چاروں کے منہ سے اب تک نہیں سنے تھ

یہ پہلا موقع تھا کہ ان میں سے کسی نے مجھے اپنے تھوڑا بہت تعلیم یافتہ ہونے کا احساس دلایا تھا .

ثمر ین : اتنا حیران کیوں ہو رہے ہیں ؟ آپ کو پتا نہیں کہ ہم چاروں نے میٹرک تک پڑھا ہے ؟ ابو جان نے چاھے فون یا خط میں نا بتایا ہو ، صباء آپی نے تو یہاں سے جا کے بتایا ہی ہو گا .

میں : ہاں شاید سرسری سا ذکر ہوا تھا . مگر تم لوگوں کے منہ سے کبھی کوئی ایسی بات ہی نہیں سنی کہ میں سمجھ پا تا کہ کسی پڑھے لکھے شخص سے بات کر رہا ہوں .

امبرین : یعنی اپنی تہذیب کے دائرے میں رہنا ہی ہمارے ان پڑھ ہونے کی دلیل بن گیا . آپ کو شاید پتا نہیں کہ ابو جان کی سختی سے تاکید ہے کہ گھر میں انگلش کا کوئی لفظ نا بولا جائے . جب اپنی زُبان میں بات کی جا سکتی ہے تو

خوامخواہ منہ ٹیڑھا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے .

ثمر ین : ان باتوں میں الجھ کے آپ اصل بات سے ہٹ نہیں سکتے . آپ کو وعدہ کرنا ہو گا کہ آج کا پورا دن اور پِھر پوری رات آپ ہم دونوں کے ساتھ گذاریں گے .

ثمر ین کی دوبارہ یاد دہانی پہ میں مسکرا دیا . موضوع سے ہٹنا شاید اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا اور وہ مجھ سے وعدہ لیاد چاہتی تھی .

میں : ٹھیک ہے جناب . جیسے آپ کا حکم . مگر ان دونوں کو بتانے کی اِجازَت تو ہے نا کہ آج ان کے پاس نہیں آؤں گا ؟

امبرین : ( شاہانہ اندازِ میں گردن اکڑا کے ) اِجازَت ہے . مگر کوئی الٹی سیدھی بات کہنے کی اِجازَت نہیں ہے . میں نہیں چاہتی وہ دونوں ہمیں بھی جوان سمجھنا شروع کر دیں . بچے بنے رہنے میں بہت فائدہ ہے .

میں اس کی بات سن کے ایک بار پِھر بوكھلا کے رہ گیا . یعنی وہ جان بوجھ کےبچی اور معصوم بنی رہتی تھیں ؟ اگر ایسا تھا

تو واقعی یہ دونوں بہت کامیاب ایکٹریس تھیں .

میں : اِس کی تشریح بھی کر دو اب .

ثمر ین : کوئی خاص معرفت کی بات تو نہیں ہے جو سمجھ میں نا آئے . اپنی ہم عمر شادی شدہ سہیلیوں سے ان کی شادی شدہ زندگی کے احوال سن کے ہم جیسی لڑکیاں انجان اور معصوم تو رہ نہیں سکتی تھیں . مگر خدا کا شکر ہے کہ نفس ہمارے قابو میں ہے اور ہمیں تنگ نہیں کرتا . ہم نے خود کو ذہنی طور پہ اتنا مضبوط کر رکھا ہے کہ اگر ساری عمر بھی کنواری رہنا چاہیں تو رہ سکتی ہیں . کوئی پریشانی نہیں ہو گی ہمیں . بس ہم یہ نہیں چاہتیں کہ گھر والوں کو ہماری بلوغت کا علم ہو جائے اور لوگ ہم پہ بھی ترس کھانے لگیں کہ ھائے کتنی خوبصورت جوان لڑکیاں اور یہ ظلم ، بیچاری شادی کے بغیر بیٹھی ہیں .

میں : چلو یہ معصوم بنے رہنے کی ایکٹنگ تو سمجھ آ گئی مگر یہ رات بھر پہلو میں بٹھانے کا کیا مقصد ہے ؟ یہ بھی تو سمجھا دو یار .

امبرین : بس تھوڑی سی دِل پشوری . خدا خدا کر کے تو ایک ہینڈسم لڑکا ملا ہے . تھوڑا دِل ہی بہلا لیں گے .

ثمر ین : ہاں ویسے بھی ہمیں آپ کے لائے ہوئے ریشمی کپڑے پہننے کے لیے کسی موقع کا انتظار ہے . آپ کو پہن کے

دکھائیں گی تو تھوڑی بہت تعریف ہی سننے کو مل جائے گی . اگر زُبان سے تعریف نہیں کریں گے تو آنکھیں ہی کچھ نا کچھ کہہ دیں گی . ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے . بس اسے جوانی کا تقاضہ سمجھنے سے پرہیز کیجیے گا . بچیوں کو بھی اچھے کپڑے پہن کے دکھانے کا شوق ہوتا ہے .

میں : اور اگر . . . فرض کرو . . . اگر مجھ سے ان بچیوں کو جوان سمجھنے کی بھول ہو گئی تو . . . ویسے بھی ریشمی کپڑوں میں لڑکی کا فگر کچھ زیادہ ہی سیکسی ہو جاتا ہے

. ثمر ین : اسی موقع پر تو ہم دونوں کی اتفاق کی برکت کام آئے گی . ورنہ جہاں وہ دونوں آپ کے دام الفت کا شکار ہو گئیں ، تو ہم معصوم بچیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں .

میں : یار دو دن سے بچیاں سمجھ کے ہی تو دِل پہ جبر کر رہا ہوں . اب اگر تم لوگ بھی دِل پشوری کرنا چاہتی تو تھوڑی

بہت آنکھیں سینکنے کا حق تو مجھے بھی ھونا چاہئیے . ویسے بھی اب تک میں نے بچی پٹانے کا تجربہ نہیں کیا . جو مجھ سے میری بڑی بہنوں نے کرنے کو کہا ، میں نے کر دیا . اب ایک ساتھ دو بچیاں پٹانے کا موقع مل رہا ہے تو چانس ما ر لینے دو . تم دونوں کا کیا جائے گا بچے کا دِل ہی خوش ہو جائے گا . میں جان بوجھ کے ان دونوں سے لوفروں والے اندازِ میں بات کر رہا تھا تاکہ میری اِس حرکت پہ گھبرا کے وہ دونوں مجھے رات میں بلانے کا اِرادَہ ترک کر دیں . مگر وہ دونوں بھی اتنی بھولی نہیں تھیں کہ میری چالاکی نا سمجھ پاتیں .

امبرین : اگر آپ اپنی حد میں رہیں گے تو جتنا جی چاھے چانس ما ر لیں . ہمیں اعتراض نہیں ہو گا .

ثمر ین : اور حد سے آگے بڑھنے کی تب تک کوشش بھی مت کیجیے گا جب تک ہم خود ایسا نا چاہیں .

میں : اب یہ حد بھی بتا دو کہ کہاں تک ہو گی . کہیں بے خبری میں بچیاں ہاتھ سے نکل ہی نا جائیں .

امبرین : اتنے ننھے کاکے ( بچے ) نہیں ہیں آپ کہ آپ کو یہ بھی پتا نا ہو . آپ نے ہمارے نسوانی اعضاء ( لڑکیوں کے پرائیویٹ باڈی پارٹس ) کو نہیں چھیڑنا . ہم اگر معصومیت بھرے اندازِ میں آپ سے لپٹ بھی جائیں تو آپ کو اپنے ھاتھوں اور . . . خود پہ قابو رکھنا ہو گا . ورنہ یقینی طور پہ یہ بچیاں ہاتھ سے نکل جائیں گی .

میں : پِھر سوچ لو یار . مجھے نہیں لگتا کہ مجھے رات کے وقت تم دونوں کے کمرے میں آنا چاہئیے . رات کے وقت ویسے بھی لڑکی لڑکا اگر کمرے میں تنہا ہوں تو ان کے ساتھ شیطان بھی ہوتا ہے . اگر میرے ساتھ ساتھ تم دونوں بھی ایک ساتھ ہی خود پہ اختیار کھو بیٹھیں تو بڑی گڑبڑ ہو جائے گی یار .

میں نے ایک بار پِھر سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے کہا تاکہ اُنہیں اپنے فیصلے پہ نظر ثانی ( سیکنڈ تھوٹ ) کا موقع ملے مگر ان کے چہروں کی مسکراہٹ سے لگتا نہیں تھا کہ میری کسی بات کا ان پہ کوئی اثر ہو رہا ہے .

ثمر ین : فرض کریں اگر ایسا ہو بھی گیا تو کیا ہماری ہونے والی شادیاں ٹوٹ جائیں گی ؟ لڑکے والے ہمارا رشتہ ٹھکرا

دیں گے ؟ ہمارے ہونے والے شوہر ہمیں شادی سے پہلے ہی طلاق دے ڈالیں گے ؟ جب ہماری شادیاں ہی نہیں ہونی تو ہم ایسی انہونی باتوں سے کس لیے ڈریں ؟ اگر اتنا ہی آپ پہ شیطان سوار ہے کہ اپنی چھوٹی بہنوں کی معصومیت کو

روند کے ہی جان چھوڑے گا تو یہ بھی کر کے دیکھ لیں . کم اَز کم میں تو آپ کو نہیں روکوں گی . امید ہے اب تو آپ کو

رات کو ہمارے کمرے میں آنے پہ کوئی اعتراض نہیں ہو گا .

میں : اچھا بابا . تم دونوں جیتیں میں ہارا . پکا وعدہ کرتا ہوں کہ آج پورا دن اور پوری رات میں تم دونوں کے ساتھ ہی گزاروں گا اور اپنی حد سے آگے بھی نہیں بڑھوں گا . اب خوش ؟ میری بات سن کے دونوں خوش ہو کے مجھ سے لپٹ گئیں .

امبرین : بہت شکریہ بھائی .

ثمر ین : آپ بہت اچھے ہیں بھائی . ہماری ناراضگی ختم .

میں : اچھا اب مجھے امتحان میں مت ڈالو . یہ جاننے کے بَعْد کہ تم دونوں جوان ہو گئی ہو ، میرے جذبات میں تم دونوں کی قربت سے ہلچل مچانے لگتی ہے . یہ کہتے ہوئے میں ان دونوں کو ساتھ لے كے دوبارہ پلنگ پہ بیٹھ گیا .

امبرین : کوئی بات نہیں بھائی . آپ شوق سے ہمیں جوان سمجھتے رہیں . بس اپنا وعدہ نا بھولیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا .

میں : اچھا کمر پہ تو ہاتھ لگا سکتا ہوں نا ؟

ثمر ین : ( امبرین سے ) یار اگر لڑکا کمر پہ ہاتھ پھیرے تو کیا ہوتا ہے ، سونیا نے بتایا تھا نا ؟

امبرین : ہاں ہاں . بہت خطرناک بات ہے . بھائی آپ کہیں بھی ہاتھ نہیں لگائیں گے .

میں : یار یہ نئی پابندی لگا دی تم دونوں نے . اِس سے پہلے تو صرف نسوانی اعضاء کی بات ہوئی تھی .

ثمر ین : سمجھا کریں نا بھائی . اتنا نرم و نازک جوان جِسَم اگر کسی لڑکے کی قربت میں ہو تو لڑکا خود بخود ہی بہکنے لگے گا . ہم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتیں .

میں : یہ ظلم مت کرو یار . میں وعدہ کر چکا ہوں نا کہ حد سے آگے نہیں بڑھوں گا . اب اتنی سی اِجازَت تو دے دو .

امبرین : بھائی کہیں آپ سچ مچ تو ہمیں جوان نہیں سمجھنے لگے ؟

میں : ہاں یار . لگتا تو کچھ کچھ ایسا ہی ہے . جب سے تم نے بتایا ہے کہ تم دونوں بھی جوان ہو گئی ہو ، میرے دِل میں تم

دونوں کی قربت سے ہلچل سی مچنے لگی ہے .

ثمر ین : ( امبرین سے ) یار اب تو مجھے بھی ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں میرے دِل میں بھی ہلچل نا مچنے لگے . چلو باہر چلتے ہیں . رات کی رات کو دیکھی جائے گی . اِس وقت میں یہ خطرہ مول نہیں لے سکتی .

میں : سوچ لو . اگر باہر کسی نے مجھے تم دونوں کو تاڑتے ہوئے دیکھ لیا تو . . .

امبرین : نا بابا نا . . مجھے باہر نہیں جانا . میں تو یہیں بیٹھی ہوں . چاھے جو بھی ہو جائے .

ثمر ین : ( امبرین سے ) اور تمھیں یوں خطرے میں چھوڑ کے میں بھی باہر نہیں جاؤں گی . اب جو ہو گا دیکھا جائے گا . اب تک میرے مذاق میں اُنہیں تنگ کرنے پہ وہ دونوں بھی اسی ٹون میں جواب دیتی جا رہی تھیں . اور شاید میری طرح انجوئے بھی کر رہی تھیں . آخر مجھے ہی ہار ماننا پڑی .

میں : اچھا بس اب مذاق ختم . چلو دوستی کر لیتے ہیں . میری طرف سے پکا وعدہ کہ باتوں میں چاھے میں کتنی ہی بے شرمی کا مظاہرہ کروں ، تم دونوں کی رضامندی کے بغیر تم دونوں میں سے کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا .

ثمر ین : ٹھیک ہے . پِھر آپ کو ہر طرح کی بے شرم گفتگو کی اِجازَت ہے .

امبرین : ( ثمر ین سے ) اور اِس بے شرمی کی گفتگو سے تمہارے دِل میں ہلچل نہیں مچے گی ؟

ثمر ین : ( امبرین سے ) صبر کرو یار . پہلے بات طے تو ہو لینے دو . یہ مذاق بَعْد میں بھی ہوتا رہے گا .

میں : اس کی بات پہ تھوڑی بہت توجہ تو دو یار . ہو سکتا ہے اس کی بات میں تھوڑا بہت وزن ہو .

ثمر ین : ( مسکراتے ہوئے ) آپ مجھے اِس سے زیادہ نہیں جان سکتے بھائی . ہم دونوں ایک دوسری کا عکس ہیں . اسے بھی پتا ہے کہ اِس کی بات میں کوئی وزن نہیں . اور مجھے بھی پتا ہے کہ اِس نے مذاق میں ہی یہ بات کی ہے . اِس لیے فضول بحث میں پڑے بغیر ہمارے درمیان جو بات طے ہو رہی تھی اسے مکمل کر لیتے ہیں .

میں : اب اِس میں کونسی بات طے ہونی رہ گئی ہے یار . سب کچھ طے ہو تو چکا ہے .

امبرین : نہیں . ابھی آپ کو یہ وعدہ بھی کرنا ہے کہ آپ مہرین آپی اور نورین آپی کو کچھ نہیں بتائیں گے . نا یہ کہ ہمارے درمیان کیا طے ہوا ہے اور نا یہ کہ خیر سے بچیاں جوان ہو گئی ہیں .

میں : ٹھیک ہے وعدہ . لیکن ان کے ساتھ وقت گزا رنے کی اِجازَت تو ہے نا ؟ میرا مطلب . . .

ثمر ین : ہاں ہاں پتا ہے کیا مطلب ہے آپ کا . آپ اپنا مطلب کل سے پُورا کر لیا کرنا . آج کی رات ہمارے نام ہے .

اور آئندہ بھی ہفتے میں 3 راتیں آپ ہمارے ساتھ ہی گذاریں گے . اور وہ بھی ان دونوں کو بتائے بنا .

میں : یعنی انہیں بتائے بغیر میں تم دونوں کے کمرے میں راتیں گزاروں گا ؟ اور اِس دوران اگر ان میں سے کسی نے میرے کمرے کا چکر لگا لیا تو ؟

ثمر ین : ( امبرین سے ) یار میں تو سمجھی تھی کہ خوبصورت لڑکیوں کے سامنے لڑکوں کی عقل ہمیشہ گھاس چرنے چلی جاتی ہے . مگر یہ لڑکا تو خاصا عقل مند ہے .

امبرین : ( ثمر ین سے ) لڑکا اِس وقت اپنی تعریف سن کے خوش بھی ہو رہا ہے . ایویں خوامخواہ تعریفیں نا کیے جاؤ

ثمر ین : اچھا ٹھیک ہے . آخری شرط میں نے صرف آپ کو آزمانے کے لیے رکھی تھی . ورنہ ہماری طرف سے ایسی کوئی پابندی نہیں . آپ ان دونوں کو بس اتنا بتا سکتے ہیں کہ آپ رات کو ہم دونوں کے کمرے میں سوئیں گے .

میں : یہ بات مانی جا سکتی ہے . ٹھیک ہے اب تو سب کچھ طے ہو گیا . اب میں مہرین آپی اور نورین آپی سے جا کے پوچھ

سکتا ہوں کہ وہ دونوں ابھی تک اٹھی کیوں نہیں اور ناشتہ کیوں نہیں کیا ؟

امبرین : وہ دونوں صبح سب کے اٹھنے سے پہلے ناشتہ کر کے سوئی تھیں اور ہمیں منع کر کے سوئی تھیں کہ دوپہر کے کھانے سے پہلے نا اٹھایا جائے . اِس لیے آپ بھاگ نکلنے کا کوئی اور بہانہ تلاش کریں .

میں : کون پاگل دو دو حسیناؤں کو چھوڑ کے بھاگنا چاہتا ہے . بس یہ سوچ کے پریشان تھا کہ کہیں دونوں میں سے کوئی جاگنے کے بَعْد مجھے نا ڈھونڈ رہی ہوں .

ثمر ین : ہم یہاں آنے سے پہلے دونوں کے کمروں میں جھانک چکی ہیں . یہ الگ بات ہے کہ آپ کو ہی دیکھنے گئی تھیں ویسے وہ دونوں اپنے اپنے کمروں میں ہی ہیں اور سو رہی ہیں .

میں : یعنی اب میں اطمینان سے دو دو بچیاں پھنسانے کی کوشش کر سکتا ہوں . کوئی مداخلت نہیں کرے گا .

ثمر ین : زبانی کلامی تو میں آپ سے پھنسنے کو تیار ہوں . میری بجائے آپ امبرین کو پھنسانے کی کوشش کریں .

امبرین : ( ثمر ین سے ) جب تم ہی پھنس رہی ہو تو میں کیوں نخرے دکھاؤں ؟ میں بھی تیار ہوں .

میں : یار تھوڑی بہت تو کوشش کرنے دو . تم دونوں تو پھنسنے پہ تلی بیٹھی ہو .

ثمر ین : یہ زبانی کلامی پھنسنا بھی کوئی پھنسنا ہے ؟ آپ ہمیں سچ مچ پھنسانے کی کوشش کریں . کیا پتا کبھی نا کبھی ہم بھی آپ سے سچ مچ ہی پھنس جائیں .

میں : یعنی اِس بات کا امکان بھی ہے ؟

امبرین : ابھی نہیں ہے تو کیا ہوا ؟ مایوس ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟ کبھی تو امکان ہو گا . کبھی تو ہمارا موڈ بدلے گا ؟

میں : بس تو آج سے میری ہر لمحہ یہی کوشش ہو گی کہ کسی طرح تم دونوں کا بھی موڈ بنا دوں .

ثمر ین : ( ہنستے ہوئے ) کوشش جاری رکھیں . کیا پتا کب کامیابی مل جائے .

میں : ھائے کب وہ دن آئے گا . جب دونوں کم سن حسینائیں میری بانہوں میں ہوں گی .

امبرین : یہ ذیادتی ہے بھائی . ہم نے کئی بار آپ کو گلے لگایا ہے . آپ ہی مزے لینے کے موڈ میں نہیں تھے تو اِس میں ہمارا کیا قصور ہے ؟

میں : پہلے مجھے پتا بھی تو نہیں تھا نا کہ تم دونوں اب جوان ہو گئی ہو .

ثمر ین : ( امبرین سے ) کیا خیال ہے ؟ بچے کو ایک بار اور مزہ لینے کا موقع دینا چاہئیے ؟

امبرین : ( ثمر ین سے ) نہیں یار . رات کو . ابھی ایسا کچھ نہیں کرنا . کسی بھی وقت چھاپہ پڑ سکتا ہے .

ثمر ین : اوہ یہ تو میں بھول ہی گئی تھی . چلیں آپ رات تک صبر کر لیں . مگر کوئی شیطانی نہیں ہو گی .

میں : یار مزے لینا تو انسانی حرکت ہے . شیطانی کیسے ہو گی ؟

امبرین : ( ثمر ین سے ) یہ بچہ تو کچھ زیادہ ہی گلے پڑ رہا ہے .

ثمر ین : ( امبرین سے ) ابھی کہاں گلے پڑ رہا ہے یار . ابھی تو بس بچے کا دِل کر رہا ہے گلے پڑھنے کو .

میں : یہ بچہ اِس وقت بھی گلے پڑ سکتا ہے . اگر آپ دونوں کی اِجازَت ہو تو .

امبرین : آپ سے کہا نا رات کو . ابھی کسی بھی وقت چھاپہ پڑ سکتا ہے . اور ویسے بھی کسی کو پتا نہیں چلنا چاہئیے کہ

بچیاں جوان ہو گئی ہیں

میں : یعنی تم دونوں کا بھی دِل کر رہا ہے بچے کا دِل خوش کرنے کو .

ثمر ین : آپ کی خوشی ہماری خوشی بھائی . یہ بے ضرر سی خوشی تو ہم آپ کو دے ہی سکتی ہیں .

امبرین : ( ثمر ین سے ) یار تم کہیں بچے کو بگاڑ ہی نا دینا . ابھی گلے لگانا تمھیں بے ضرر لگ رہا ہے ، کل کو ہونٹ

چومنا اور جِسَم پہ ہاتھ پھیرنا بھی بے ضرر لگنے لگے گا .

میں : ھائے سچ ؟ ایسا ہو سکتا ہے ؟

ثمر ین : منہ دھو رکھیے .

میں : یعنی منہ دھونے کے بَعْد . . . . ؟

ثمر ین : بھائی . . . آپ نے وعدہ کیا ہے .

میں : اُف . . . یہ وعدہ تو گلے میں پھنسی ھڈی بن گیا ہے . یوں لگتا ہے جیسے من و سلوی سامنے ہے اور میں نے روزہ

رکھا ہوا ہے .

امبرین : ہم نے رات کا وعدہ کیا ہے نا بھائی . رات کو ہم دونوں آپ کے لائے ہوئے ریشمی کپڑے پہن کے آپ سے لپٹ کر سوئیں گی اور ساری رات آپ کے ساتھ ہی رہیں گی .

میں : یہ تو وہ بات ہوئی کہ بچے کے ہاتھ میں لولیپوپ دے کے کہا جائے خبردار اسے چوسنا نہیں .

ثمر ین : آپ کو لولیپوپ ہی چوسنے ہیں تو ان دونوں سے رابطہ کریں . ہمارا ابھی موڈ نہیں بنا .

میں : کب بنے گا تم دونوں کا موڈ ؟

ثمر ین : کوشش جاری رکھیں . وقت کب بَدَل جائے ، کب موڈ بن جائے . کیا پتا .

میں : اچھا چھوڑو . اب کوئی اور بات کرتے ہیں .

امبرین : اور بات کرنے سے پہلے آپ یہ بتائیں . . . آپ نے نورین آپی کو سرخ رنگ کا سوٹ بھی لا کے دیا ہے ؟ وہ صبح وہی پہنے ہوئے تھیں .

میں : یار اب سہاگ رات کو دلہن سرخ جوڑا نہیں پہنے گی تو کیا سفید جوڑا پہنے گی ؟ میں نے تو چاروں کے لیے ایک ساتھ ہی لیے تھے . اب نورین آپی کو جلدی تھی تو اُنہیں پہلے دے دیا . میں بس یہ چاہتا تھا کہ جب بھی تم چاروں میں سے کوئی پہلی بار میرے ساتھ سہاگ رات منائے ، تو سرخ جوڑے میں واقعی خود کو پہلی رات کی دلہن محسوس کرے ثمر ین : ( امبرین سے ) سنبھلو یار . بچہ ہمیں بھی لالچ دے رہا ہے . کہیں ہم لالچ میں ہی بچے کے ساتھ پھنس نا جائیں

.

#سلمان کی سٹوری

قسط نمبر 4

امبرین : ( ثمر ین سے ) میں لالچ میں نہیں آ رہی . مجھے متاثر کرنے کے لیے صرف سرخ جوڑا کافی نہیں ہے .

میں : اور کیا کیا لے کے مانو گی یار ؟ مجھے بتا دو . میں آج ہی لے آتا ہوں .

امبرین : آہستہ آہستہ سمجھ جا ئیں گے آپ بھی کہ مجھے کیا چاہئیے . ابھی وقت ہی کتنا گزرا ہے . کوشش جاری رکھیں

ثمر ین : چلیں آپ کا موڈ بدلتے ہیں . میں آپ کو اپنی ایک سہیلی کی شادی کے بَعْد کے تجربات سناتی ہوں . جس کی ابھی کچھ ہی دن پہلے ایک 50 سالہ جوان بڈھے سے شادی ہوئی ہے . ثمر ین کے دلچسپ اندازِ میں بات شروع کرنے پہ میں نے بھی سننا شروع کر دیا اور پِھر ان دونوں کے ساتھ ایسی ہی دلچسپ باتوں میں وقت گزرنے کا پتا ہی نا چلا اور دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا .کھانے پہ مہرین آپی اور نورین آپی بھی امی کے ساتھ موجود تھیں . مہرین آپی تو نارمل ہی نظر آ رہی تھیں مگر نورین آپی مجھے دیکھتے ہی کسی ولیمے کی دلہن کی طرح شرمانے لگی تھیں . امی نے پتا نہیں نوٹ ہی نہیں کیا تھا یا پِھر جان بوجھ کے نظر اندازِ کر رہی تھیں ، میں اندازہ نہیں کر پا رہا تھا . وہ بظاہر نورین کی حالت سے انجان ہم سے باتیں کرتے ہوئے کھانے میں مصروف رہیں اور کھانے کے بَعْد حسب معمول صحن میں اپنا دربار لگا لیا .

مجھے امی کا یہ رویہ کچھ عجیب سا لگ رہا تھا . شک سا ہو رہا تھا کہ اُنہیں نورین آپی کی کیفیت سے کچھ نا کچھ تو پتا چل ہی گیا ہے . لیکن اگر اُنہیں پتا چل گیا تھا تو وہ مجھ سے یا نورین آپی سے غصہ تو ظاہر کرتیں . وہ تو اُنہیں شرماتے ہوئے دیکھ کے بھی انجان بنی رہی تھیں . کھانے کی ٹیبل سے اٹھ کے ہم پانچوں میرے کمرے میں آ گئے . ثمر ین اور امبرین تو بلا تکلف میرے پلنگ پہ میرے ساتھ جڑ کے بیٹھ گئی تھیں جب کہ مہرین آپی اور نورین آپی نے صوفے پہ نشست جما لی تھی .

میں : ( مہرین آپی سے ) آپی آپ نے امی کا اندازِ نوٹ کیا ؟ مجھے لگتا ہے وہ جان بوجھ کے نورین آپی کی کیفیت نظر اندازِ کر رہی تھیں .

مہرین آپی : اُنہیں پتا چل گیا ہے سنی . . . صبح جب ہم دونوں ناشتہ کرنے اٹھی تھیں تو ہم دونوں نے ہی رات والے کپڑے تبدیل نہیں کیے ہوئے تھے . امی وہاں پہلے سے ہی موجود تھیں اور اطمینان سے بیٹھی چائے پی رہی تھیں . ہم دونوں تو اُنہیں دیکھ کے گھبرا گئی تھیں مگر انہوں ہمیں نا ڈانٹا نا برا بھلا کہا . بس اتنا پوچھا کہ یہ کپڑے کس نے لا کے دیئے تھے . میں نے تمہارا نام بتا دیا . میں سوچ رہی تھی کہ اب شاید وہ ڈانٹیں گی مگر وہ نورین کی طرف دیکھ کے مسکرا دیں اور پِھر ہم دونوں سے کہا کہ اپنے بھائی کا خیال رکھا کرو . اب تم چاروں کی خوشیاں اسی سے وابستہ ہیں . بس پِھر وہ اٹھیں اور نورین کے سَر پہ ہاتھ پھیر کے اپنے کمرے میں چلی گئیں .

ثمر ین : ( معصومیت بھرے اندازِ میں ) مگر ریشمی کپڑے پہننے پہ امی کے نا ڈانٹنے سے نورین آپی کے شرمانے کا کیا تعلق ہے ؟ یہ تو یوں شرما رہی ہیں جیسے ولیمے کی دلہن ہوں .

نورین آپی : ( بوكھلا کر) نننن . . . . نا . نہیں تو . . . میں کب شرما رہی ہوں گڑیا .

امبرین : ( نورین آپی کی وضاحت کو نظر اندازِ کرتے ہوئے ) اور یہ امی نے آپ دونوں کو ہی بھائی کا خیال رکھنے کو کیوں کہا ؟ ہم دونوں بھائی کا خیال نہیں رکھ سکتیں ؟ کیوں بھائی . ہم آپ کا خیال رکھتی ہیں نا ؟

میں : ( گھبرا کر ) ہاں ہاں . بالکل رکھتی ہو .

مہرین آپی : ( دھیمی آواز میں بڑبڑاتے ہوئے ) اب میں کیسے بتاؤں کہ بھائی کا خیال رکھنے کا کیا مطلب ہے .

مہرین آپی بڑبڑاتے ہوئے بھی اپنی آواز اتنی دھیمی نہیں کر سکی تھیں کہ ثمر ین اور امبرین کے کانوں میں نا پڑے میں نے بھی صاف سن لیا تھا . مگر ہم تینوں نے ہی اِس طرح نظر اندازِ کر دیا جیسے سنا ہی نا ہو .

ثمر ین : ( مہرین آپی سے ) آپی . اب تو امی نے بھی ریشمی کپڑے پہننے کی اِجازَت دے دی ہے . آپ دونوں نے بھی پہن لیے . ہم بھی پہن لیں ؟

اس کے سوال پہ مہرین آپی کے ساتھ ساتھ نورین آپی بھی پریشان سی ہو گئی تھیں . جب کہ میں دِل ہی دِل میں اس کی چالاکی پہ مسکرا دیا تھا . اس نے بڑی چالاکی سے اپنے مطلب کا موضوع چھیڑ دیا تھا . امبرین : ( نورین آپی سے ) اور نورین آپی ! آپ نے صبح سرخ رنگ کے ریشمی کپڑے پہنے ہوئے تھے . بھائی تو ہم سب کے لیے صرف سبز اور نیلے رنگ کے کپڑے ہی لائے تھے نا ؟ پِھر وہ سرخ جوڑا آپ کے لیے کون لایا ؟

ثمر ین : ( امبرین سے ) ارے اور کون لایا ہو گا . بھائی نے ہی لا کے دیا ہو گا . ان کے علاوہ تو ان دنوں کوئی شہر گیا بھی نہیں .

امبرین : ( ثمر ین سے ) مگر نورین آپی سے ہی یہ خصوصی محبت کیوں ؟ ہم تینوں بھی تو ان کی کچھ لگتی ہیں .

ثمر ین : ( معصومیت بھرے اندازِ میں مجھ سے شکایت کرتے ہوئے ) بھائی آپ نورین آپی کے لیے ہی سرخ جوڑا کیوں لائے . ہمیں نہیں دینا تھا ، نا سہی ، مہرین آپی کو ہی لا دیتے .

میں : ( مہرین آپی سے ) آپ کو چاہئے آپی ؟ لا دوں ؟

مہرین آپی : ( گھبرا کر ) ابھی جاؤ گے ؟

ثمر ین : اِس کا مطلب آپی کو چاہئے . آپ لا دیں بھائی . آخر یہ بھی تو آپ کی بہن ہیں . نورین آپی کوئی زیادہ سگی تو نہیں ہیں جو ان سے اتنی محبت جتائی ہے آپ نے ؟

ثمر ین کی اِس بات پہ مہرین آپی تو گھبرائی ہی تھیں ، نورین آپی بھی گھبرا گئیں اور ٹٹولتی ہوئی نظروں سے ان دونوں کی طرف دیکھنے لگیں کہ کہیں ان دونوں کو کچھ پتا تو نہیں چل گیا اور یہ دونوں اُنہیں چھیڑ تو نہیں رہیں .

امبرین : ہاں بھائی . اب تو امی نے بھی اِجازَت دے دی ہے . اور پِھر مہرین آپی کا بھی دِل کر رہا ہو گا نا . آپ ابھی جا کے ان کے لیے بھی سرخ ریشمی جوڑا لا دیں .

مہرین آپی : نن . . . . . . . نہیں سنی . . . . ابھی یہ تکلیف مت اٹھاؤ . جب دوبارہ چکر لگے گا تو لے آنا .

ثمر ین : کیسی تکلیف آپی . گھر میں جیپ موجود ہے . ڈرائیونگ انہیں آتی ہے . آرام سے شہر جا کے لے آئیں گے .

میں : آپ ایسے ہی تکلف کر رہی ہیں آپی . میں آپ کے لیے بھی لایا تھا . دیا اِس لیے نہیں کہ جب آپ کا دِل چاھے گا تب دوں گا . آپ بیٹھیں میں ابھی الماری سے نکال دیتا ہوں .

میں اٹھ کے الماری کی طرف بڑھا تو وہ دونوں شیطان کی خالائیں بھی ساتھ ہی اٹھ کے میرے پیچھے آ گئیں اور جب میں نے اس اِسْپیشَل پیکٹ سے مہرین آپی کے لیے سوٹ نکال لیا تو شوپر مجھ سے ثمر ین نے جھپٹ لیا .

ثمر ین : یہ کیا . آپ ان دونوں کے لیے دو دو سرخ جوڑے لائے ہیں ؟ ہمارے لیے بھی کوئی نیلا پیلا جوڑا اور لے آتے

میں : تم دونوں یہی رکھ لو . بَعْد میں دوسرے رنگ بھی لا دوں گا .

امبرین : نا بابا نا . انہیں پہن کے تو خوامخواہ اپنا آپ دلہن سا لگنے لگے گا . ہمیں نہیں پہننے یہ کپڑے .

میں : ( انسسٹ کرتے ہوئے ) رکھ لو گڑیا . جب دِل کرے پہن لینا .

ثمر ین : ( امبرین سے ) پہننا نا پہننا بَعْد کا مسئلہ ہے امبرین . بھائی اتنا اصرار کر رہے ہیں تو لے لیتے ہیں . کہیں انہیں برا نا لگے . امی نے کہا ہے نا ان کا خیال رکھنا ہے ، انہیں خوش رکھنا ہے . انکار مت کرو .

مہرین آپی : ( گھبراتے ہوئے ) سنی . . . یہ ابھی بچیاں ہیں . یہ کیا کر رہے ہو ؟

میں : کوئی بات نہیں آپی . یہ کون سا ابھی پہننے لگی ہیں .

ثمر ین : ( مہرین آپی سے ) آپی ہم نے تو بھائی کے اصرار کرنے پہ لیے ہیں . آپ کو چاہیے تو آپ رکھ لیں . ہم نے کونسا پہننے ہیں .

مہرین آپی : ( بوكھلا کر ) نن . . . نہیں . . . مجھے اور نہیں چاہئے . رکھ لو .

ثمر ین : شکریہ آپی ، شکریہ بھائی

وہ پیکٹ ھاتھوں میں لیے واپس پلنگ پہ جا بیٹھیں . امبرین بھی اس کے ساتھ تھی . میں نے الماری بند کی اور دوبارہ ان دونوں کے درمیان پلنگ پہ بیٹھ گیا .

امبرین : ( نورین آپی سے ) نورین آپی ! آپ ناراض ہو گئی ہیں نا ہم سے ؟ شاید سرخ جوڑے والی بات آپ کو بری لگی ہے . بس ایک بار معاف کر دیں . آئندہ ایسی بات کروں تو جو چاھے سزا دے لیجیے گا .

نورین آپی : نن . نا . . نہیں گڑیا . میں ناراض نہیں ہوں .

امبرین : ( خوشی سے چلا کر ) سچ آپی ؟ ھائے آپ کتنی اچھی ہیں . ( شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے ) میں پتا نہیں کیوں آپ سے بدگمان ہو گئی اِس کمبخت سرخ جوڑے والی بات پہ . مجھے کیا پتا تھا بھائی سب کے لیے لائے ہیں .

ثمر ین : مجھے بھی معاف کر دیں آپی . کہا تو میں نے کچھ نہیں مگر سوچا وہی تھا جو اِس نے کہا .

نورین آپی : ( مسکراتے ہوئے ) میں واقعی ناراض نہیں ہوں گڑیا . تم دونوں نے جو بھی کہا ، آپی کی محبت میں کہا . پِھر میں بھلا کیوں ناراض ہوتی .

مہرین آپی : ( شرمائے ہوئے اندازِ میں سَر جھکا کر ) سنی . . . اب تو امی نے بھی اِجازَت دے دی ہے . اگر تم چاہو تو . . . .

مہرین آپی کی ادھوری بات کا مفہوم سمجھنا میرے لیے تو مشکل نہیں تھا . ظاہر ہے نورین آپی بھی سمجھ گئی تھیں . مگر ان دونوں کو شاید یہ پتا نہیں تھا کہ ثمر ین اور امبرین بھی اچھی طرح سب سمجھ رہی ہیں .

میں : ( آپی کی آفر پہ خوش ہوتے ہوئے ) جی . . جی آپی . . جیسے آپ کی خوشی . .

میری پر شوق نظریں مہرین آپی پہ جمی دیکھ کے ثمر ین نے مجھے کہنی ما ر کے متوجہ کیا تو شرمندہ سا ہو کے میں نے ان سے اپنی نظریں ہٹا لیں .

مہرین آپی : ( ثمر ین اور امبرین کے متوجہ ہونے سے انجان دھیمی آواز میں ) تو پِھر آج رات کو . . . .

میں : ( ثمر ین اور امبرین کی گھورتی نگاہوں سے گھبرا کر ) نن . . . نہیں آپی . . . آج نہیں . آج تو میں نے ثمرین اور امبرین سے وعدہ کر رکھا ہے کہ ساری رات انہیں فلموں کی کہانیاں سناؤں گا اور انہی کے کمرے میں سوؤں گا .

مہرین آپی : ( ثمر ین اور امبرین کے لیے پریشان ہو کر ) نہیں سنی . . . یہ دونوں ابھی بچیاں ہیں . ان کے ساتھ نہیں . . .

امبرین : ( مہرین آپی سے ) بچیاں ہیں تو کیا ہوا ؟ کہانیاں سننے کا شوق بچوں کو ہی ہوتا ہے نا ؟

مہرین آپی : تم دونوں سمجھ نہیں رہی ہو . . . یہ ٹھیک نہیں ہے . . . ایسا نہیں ھونا چاہئے . . . تم دونوں بچیاں ہو ابھی

ثمر ین : ( جھنجھلا کر ) آخر آپ کو ہمارے بچیاں ہونے سے کیا پریشانی ہے آپی ؟ اگر کہانیاں ڈراؤنی ہوں گی تو بھائی ہمیں نہیں سنائیں گے . ہم نے ان سے ڈراؤنی کہانیوں کی فرمائش نہیں کی ہے .

امبرین : آپی آپ کا اگر کوئی اور پروگرام ہے تو ہم کل کہانیاں سن لیں گی . آپ بھائی سے ناراض نا ہوں .

میں : نہیں گڑیا . وعدہ تو وعدہ ہے . آج رات میں تم دونوں کے ساتھ ہی گزاروں گا .

نورین آپی : ( مجھ سے منت کرتے ہوئے ) خدا کے لیے نہیں سنی . . یہ دونوں بچیاں ہیں . . . . ان کے ساتھ نہیں . ثمر ین : آخر مسئلہ کیا ہے ؟ آپ دونوں کو اگر لگتا ہے کہ ہمارا اکیلے میں بھائی سے کہانیاں سننا مناسب نہیں ہے تو آپ دونوں بھی رات کو ہمارے کمرے میں ہی آ جائیے گا . وہاں سونے کے لیے جگہ کی بھی کمی نہیں ہے . ہم پانچوں فرش پہ ہی بستر لگا لیں گے .

مہرین آپی : ( بے یقینی سے مجھے دیکھتے ہوئے ) کیا واقعی صرف کہانیاں سنانے کا ہی پروگرام ہے ؟

میں : بہت افسوس کی بات ہے آپی . آپ دونوں سے کیا میں نے کوئی زبردستی کی تھی جو ان کے ساتھ کروں گا ؟

ثمر ین : اب یہ زبردستی والی بات کہاں سے آ گئی درمیان میں ؟ آخر آپ لوگ پہیلیوں میں کیوں بات کر رہے ہیں ؟

میں : ( خراب موڈ میں ) ان دونوں سے ہی پوچھ لو . مجھے نہیں پتا .

امبرین : آپی آپ بھائی پہ کس بات کا شک کر رہی ہیں ؟ کیا کیا ہے انہوں نے آپ دونوں کے ساتھ جو آپ نہیں چاہتیں کہ یہ ہمارے ساتھ کریں ؟

امبرین نے معصومانہ اندازِ میں یہ سوال کرتے ہوئے یقینا ان دونوں کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا تھا . دونوں ہی بوكھلا کے ایک دوسری کو دیکھ کے نظر جھکا گئی تھیں . جواب دونوں ہی نا دے پائی تھیں .

میں : ان دونوں کی باتوں سے بد دل ہونے کی ضرورت نہیں گڑیا . میں نے وعدہ کیا ہے تو نبھاؤں گا .

مہرین آپی : سنی . . . ہمیں اور شرمندہ نا کرو . غلط فہمی ہو ہی جاتی ہے . . .

میں : آپی یہ غلط فہمی نہیں تھی . . . . آپ مجھ پہ سیدھا سیدھا الزام لگا رہی تھیں کہ میں ان دونوں کی معصومیت سے فائدہ اٹھاؤں گا . ان کو بہلا پھسلا کر یا پِھر زبردستی . . . . . آخر آپ نے یہ سب سوچا بھی کیسے ؟

مہرین آپی : بس ہو گئی نا غلطی . . اب معاف کر دو . . .

ثمر ین : آخر یہ ہو کیا رہا ہے ؟ بھائی آپ بتائیں نا ان دونوں کو آپ پہ کس بات کا شک ہے ؟ آخر آپ نے ان کے ساتھ ایسا کیا کیا ہے جو یہ اتنا ڈر گئی ہیں اور ہمارے ساتھ وہ نہیں ہونے دینا چاہتیں .

نورین آپی : ہم نے واقعی تمہارے ساتھ ذیادتی کی ہے سنی . جو کام کل ھونا ہے ، وہ آج ہی ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے . ہمیں ایسی بات نہیں کرنی چاہئے تھی . معاف کر دو .

امبرین : ( ثمر ین سے ) چلو یار . . . اپنے کمرے میں چلیں . ان تینوں کی شاید طبیعت ٹھیک نہیں ہے . یہ الجھی ہوئی باتیں یہ تینوں شاید ہمیں یہاں سے بھگانے کے لیے ہی کر رہے ہیں .

ثمر ین : نہیں امبرین . کوئی بات ہے ضرور جو ہم سے چھپائی جا رہی ہے . وہ بھی شاید اِس لیے کہ ہَم ابھی بچیاں ہیں ثمر ین کی اِس بات پہ جہاں مہرین آپی اور نورین آپی کے سَر شرمندگی سے جھک گئے تھے ، وہاں مجھے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہو رہا تھا . کمبخت دونوں اتنی ڈرامے باز تھیں کہ پتا ہی نہیں چلنے دے رہی تھیں کہ انہیں سب پتا ہے .

میں : فضول باتوں میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں . ان دونوں کو جو بھی وہم ہوا تھا وہ دور ہو گیا ہے . اب کوئی مسئلہ نہیں .

امبرین : ( خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ) مطلب آپ آج رات ہمارے کمرے میں گزا ر سکتے ہیں ؟

میں : ہاں بالکل . میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میں اپنا وعدہ ضرور پُورا کروں گا . بے فکر رہو .

ثمر ین : بھائی آپ کا اگر مہرین آپی اور نورین آپی سے رات کا کوئی پروگرام تھا تو آپ وہ سب ابھی کیوں نہیں کر لیتے ؟ رات کو آپ ہمیں ٹائم دے دینا .

مہرین آپی : ( بوکھلاتے ہوئے ) ابھی ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ نہیں . . . . . . سنی . . میں اِس وقت کیسے ؟ ؟

نورین آپی : ( مہرین آپی کی بوکھلاہٹ پہ مسکراتے ہوئے ) کچھ نہیں ہوتا آپی . امی نے کہا تھا نا ، بھائی کا خیال رکھنا ہے . ویسے بھی اب دن رات سے کوئی فرق نہیں پڑتا .

مہرین آپی : ول . . . . . . لیکن . . نورین . . . دن میں ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟

ثمر ین : اب مجھے آپی کی یہ دن رات کی الجھن سمجھ میں نہیں آ رہی . آخر ایسا کونسا کام ہے جو صرف رات کو ہی ہو سکتا ہے ، دن میں نہیں ہو سکتا .

امبرین : ( معصومیت سے ) ویسے سہاگ رات کے بارے میں سنا ہے کہ رات کو ہی ہوتی ہے . . . مگر بھلا آپی کا سہاگ رات سے کیا لینا دینا .

اس کی یہ بات سن کے جہاں مہرین آپی ما ر ے شرمندگی کے رونے والی ہو گئی تھیں وہاں مجھے اپنی ہنسی روکنا دشوار ہو گیا تھا اور میں کھانستے ہوئے اپنی ہنسی چھپانے کی کوشش کر رہا تھا . کمبخت دونوں اتنی معصومیت سے اگلے کی ایسی تیسی کر کے رکھ دیتی تھیں اور پِھر بھی معصوم ہی رہتی تھیں .

مہرین آپی : ( رونے والے اندازِ میں ) سنی . . . تم نے ان دونوں کو کیا بتایا ہے ؟

میں : ( انجان بنتے ہوئے ) کچھ نہیں آپی . کچھ بتانا تھا ؟

مہرین : تو پِھر یہ اِس نے . . . سہاگ رات . . . کا ذکر . . . کیسے کیا ؟

میں : آپی بچیاں ہیں ابھی . آپ دونوں کی الجھی ہوئی باتیں سمجھ نہیں پا رہی تھیں تو جو سمجھ میں آیا بول دیا .

ثمر ین : کیا ہوا آپی ؟ ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ؟ یہ امبرین بھی نا . . بنا سوچے سمجھے کچھ بھی بول دیتی ہے . آپ اِس کی بات کو دِل پہ مت لیں .

میں : آپی آپ اپنے کمرے میں چلیں . . . میں کچھ دیر میں آتا ہوں .

نورین آپی : میں بھی اپنے کمرے میں ہی جاتی ہوں . ان شیطانوں کی زُبان کے آگے تو خندق ہے . جو دِل میں آئے بول دیتی ہیں . اگلا حملہ مجھ پہ بھی ہو سکتا ہے . چلیں آپی .

نورین آپی ، مہرین آپی کا ہاتھ تھا م کے کمرے سے نکل گئیں تو ان کے جانے کے کچھ دیر بَعْد میں نے گہری سانس لیتے ہوئے ثمر ین اور امبرین کی طرف دیکھا اور پِھر ہم تینوں کی ایک ساتھ ہنسی چھوٹ گئی .

میں : پکی شیطان کی خالہ ہو تم دونوں . ارے سیدھا سیدھا سہاگ رات کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اگر ایک اور بات تم دونوں کے منہ سے ایسی اور نکل جاتی تو مہرین آپی تو یہیں رونا شروع کر دیتیں .

ثمر ین : اب ہم معصوم بچیوں کو کیا پتا کہ کب کیا کہنا ہے . معصومیت میں جو سمجھ آیا بول دیا . بات سنبھالنے کے لیے آپ ساتھ ہیں نا .

امبرین : بھائی یہ آپی کو آخر اتنی ایمرجنسی میں سہاگ رات کا شوق کیوں ہو گیا ؟ کہیں نورین آپی کو دیکھ کر تو . . .

میں : اری آفت کی پڑیا یہ بات کہیں ان کے سامنے نا کہہ دینا . وہ پہلے ہی بہت گھبرائی ہوئی ہیں کہ کہیں تم دونوں کو کچھ پتا نا چل گیا ہو .

ثمر ین : آپ بے فکر رہیں بھائی . . . . . ہم اپنی معصومیت کو مشکوک نہیں ہونے دیں گی .

امبرین : بالکل . . . . آپ جا کے آپی کی معصومیت کو مشکوک کیجیے .

میں : ( ہنستے ہوئے ) یار تم ہر بات میں کوئی نا کوئی مذاق کا پہلو کیسے نکال لیتی ہو ؟

امبرین : آپ کا حُسْن نظر ہے جناب . ورنہ بندی کس قابل ہے .

میں : تو پِھر اب میں جاؤں ؟

 

ثمر ین : امبرین روک لو یار . کہیں بچہ ہاتھ سے نکل نا جائے .

امبرین : اِس بات پہ ایک شعر عرض ہے .

وہ کہیں بھی گیا ، لوٹا تو میرے پاس آیا

بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی

میں : ( اس کے سَر پہ چپت رسید کرتے ہوئے ) شیطان کی خالہ ، باز آ جاؤ .

امبرین فوراً " آ دا ب عرض ہے " کہتی ہوئی تھوڑا سا جھک گئی تو اس کی اِس بات پہ پِھر سے میری ہنسی چھوٹ گئی .

ثمر ین : ( شرارت سے ) آپ جائیے بھائی . دلہن آپ کا انتظار کر رہی ہے .

ثمر ین کی بات پہ میں نے " تم دونوں نہیں سدھرو گی " کہتے ہوئے سَر ہلایا اور کمرے سے نکل آیا . سامنے ہی مہرین آپی کا کمرہ تھا اور یقینا وہ میرا انتظار کر رہی تھیں . . .

لوگ سہاگ رات مناتے ہیں . . . میں آج پہلی بار سہاگ دن منانے والا تھا .

آپی کے کمرے میں داخل ہو کر میں نے کمرے میں ہر طرف تلاش کرتی نظروں سے دیکھا . مگر آپی کہیں نظر نا آئیں پِھر میرا دھیان باتھ روم کی طرف گیا اور میں سمجھ گیا کہ وہ کپڑے تبدیل کر رہی ہوں گی . اور واقعی کچھ دیر بَعْد آپی سرخ ریشمی کپڑوں میں باتھ روم سے نکلیں تو میں انہیں دیکھتا ہی رہ گیا . ان کے لمبے سیاہ سلکی بال کھلے ہوئے تھے اور ان کی کمر پوری طرح ان میں چھپ گئی تھی . قمیض کی فٹنگ والی ڈوریاں آج انہوں نے اِس طرح سے ٹائیٹ کی ہوئی تھیں کہ ان کے بھرے بھرے سیکسی بوبز واضح محسوس ہو رہے تھے اور دِل کی دھڑکنوں میں طوفان اٹھا رہے تھے . اور قریب پہنچنے پہ تو ایک نہایت خوشگوار خوشبو نے مجھے اور بھی مست کر دیا . شاید انہوں نے کوئی پرفیوم لگایا تھا جس کی خوشبو نے ان کے بدن کی خوشبو سے مل کے ایک نئی مہک تخلیق ( کرئیٹ ) کر دی تھی

میرے بالکل پاس پہنچ کے انہوں نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور میری آنكھوں میں اپنے حسن کی تعریف دیکھ کے اور بھی کھل اٹھیں . ان کا چہرہ شرم سے سرخ ہو رہا تھا اور پلکیں بار بار جھک جاتی تھیں . ہونٹ بار بار کچھ کہنے کے لیے کھلتے اور پِھر شرم سے بنا کچھ کہے بند ہو جاتے . میں بھی بس پاس کھڑا اُنہیں پیار بھری نظروں سے دیکھتا ہی جا رہا تھا . دیکھنے سے ہی دِل نہیں بھر رہا تھا ، اور کچھ کرنے کا سوچتا کیسے ؟ آخر آپی نے بات کرنے کی ہمت کی .

آپی : بس دیکھتے ہی رہو گے ؟ کچھ کرو گے نہیں ؟

میں : دیکھنے سے دِل بھرے کو تو کچھ اور کروں گا نا .

آپی : دیکھنے کا موقع پِھر مل جائے گا سنی . سب کے سامنے بھی دیکھ سکتے ہو . تنہائی میں وہ کرو جو دوسروں كے سامنے نہیں کر سکتے .

میں : آپ کو جلدی کیا ہے آخر ؟ مجھے جی بھر کے اپنی دلہن دیکھنے تو دیں .

آپی نے مجھے مزید وقت ضایع کرنے کے موڈ میں دیکھ کے جھنجھلا کر پلنگ پہ دھکا دے دیا . سہارا لینے کے لیے مجھے اور تو کچھ ملا نہیں ، میرے ہاتھ میں آپی کا ہاتھ ہی آ گیا جسے میں نے مضبوطی سے پکڑ لیا . نتیجہ ظاہر ہے . میرے گرتے ہی وہ بھی میرے اوپر آ گریں اور ساتھ ہی ان کی چیخ بھی نکل گئی . ( جیسا کہ عام طور پہ لڑکیوں کی عادت ہوتی ہے ) .

میں : ( ان کے چیخنے سے گھبرا کر ) کیا کر رہی ہیں . کسی نے سن لیا تو ؟

آپی : وہ . . . میں ذہنی طور پہ تیار نہیں تھی . . . غلطی ہو گئی . . .

میں : اب تو ایسی کوئی غلطی نہیں کریں گی ؟

آپی : دِل تو بہت چاہتا ہے . . . مگر چلو معاف کیا .

میں : ویسے ایک بات تو بتائیں . آپ کے ہونٹ اتنے نشیلے کیسے ہیں ؟

آپی : صرف ہونٹ ہی نشیلے ہیں ؟ اور کچھ نہیں ؟

میں : آزماؤں گا تو پتا چلے گا نا .

میں : مگر آپ تو صرف ہونٹ چومنے تک ہی محدود رہنا چاہتی تھیں . اب کیا ہو گیا ؟

آپی : میں ڈرتی تھی سنی . . . . کہیں دوسروں کو پتا چل گیا تو . . . کہیں کچھ کرتے ہوئے کوئی بے احتیاطی ہو گئی تو . . . میں دراصل . . . تم سمجھ رہے ہو نا ؟

میں : جی میں سمجھ رہا ہوں . مگر یہ نہیں سمجھ رہا کہ اب آپ کا ڈر کیوں اتر گیا ؟

آپی : نورین نے بتایا تھا کہ تمھیں خود پہ بہت کنٹرول ہے . تم کچھ غلط نہیں ہونے دو گے .

میں : اور اگر میرا دِل کرے کچھ غلط کرنے کو تو ؟ ؟

آپی : ڈراؤ مت سنی . . . جب بھی سوچتی ہوں کہ ایسا ہو گیا تو . . ڈر کے مر ے جان نکلنے لگتی ہے .

میں : ٹھیک ہے وعدہ . اب نہیں ڈراؤں گا . اب منہ میٹھا کر دیں تو اپنے سہاگ دن کی شروعات کچھ میٹھی ہو جائے .

میری بات پہ پہلے تو آپی کچھ شرمائیں . پِھر ہمت کر کے تھوڑا سا اوپر ہوتے ہوئے میرے ہونٹوں سے ہونٹ لگا دیئے . پِھر وہی ہوا جو اب سے پہلے ہوتا رہا تھا ، یعنی میں ان کے ہونٹوں کو چومتے ہوئے نشے کی سی کیفیت میں مست ہوتا گیا . اور پِھر میرے ہاتھ بھی خود ہی ان کی کمر پہ پھسلنے لگے . . . پہلے تو کچھ دیر میں مدھوش سا لیٹا ان کی کمر پہ ہاتھ پھیرتا رہا ، پِھر ان کی برا کا ہُک میری انگلیوں سے ٹکرایا تو میں نے دیوانگی کی سی کیفیت میں دونوں ھاتھوں کو اسی کام پہ لگا دیا اور کچھ ہی دیر بَعْد ان کے برا کا ہوک کھل چکا تھا جو میرے ھاتھوں سے نکل کے زوردار آواز نکا لتا ہوا آپی کی کمر کی سائڈپہ لگا . اسی لمحے آپی کی ایک بار پِھر چیخ نکل گئی .

میں : اب کیا ہو گیا ؟ تھوڑا برداشت بھی کر لیا کریں .

آپی : ( ہلکا سا کراہتے ہوئے ) ہُک کھول کے چھوڑ کیوں دیا ؟ اتنی زور سے لگا ہے . اب تک دَرْد ہو رہی ہے .

میں : مجھے کیا پتا تھا کیسے اتا رتے ہیں . نورین آپی نے تو رات کو پہنا ہی نہیں تھا .

آپی : تم چاھے سارے کپڑے اتار لو . مگر ایسے نا کرو . انسان ہوں آخر . مجھے بھی دَرْد ہو سکتا ہے .

میں : اتنے سے دَرْد سے آپ کی چیخیں نکل رہی ہیں . جب وہ دَرْد ہو گا تو آپ کا کیا حال ہو گا ؟

آپی : بتا کے کرنا نا . میں خود کو ذہنی طور پہ تیار کر لوں گی . اب تو دونوں بار مجھے کچھ پتا ہی نہیں تھا کہ تم کرنے کیا لگے ہو .

میں : یعنی آپ سے گندی گندی باتیں کرنی پڑیں گی ؟ میں اتنا بے شرم نہیں ہوں آپی .

آپی : اچھا مجھے تیار ہونے کو تو کہہ سکتے ہو نا .

میں : ہاں . . . وہ تو کہہ سکتا ہوں . ( پِھر کچھ یاد آنے پر ) ویسے یاد آیا . آپ نے کہا تھا چاھے سارے کپڑے اتار لو .

آپی : ( شرما کر ) تو کیا سچ مچ اتارو گے ؟

میں : نہیں اگر آپ نہیں چاہیں گی تو نہیں اُتاروں گا .

آپی : اگر سارے کپڑے اتا رنے ہیں تو باتھ روم میں چلتے ہیں .

میں : یعنی وہاں آپ سارے کپڑے اتار دیں گی ؟

آپی : تم اتارو گے . میں اتنی بے شرم نہیں ہوں .

میں : تو پِھر یہیں اتار لینے دیں نا آپی . . . ابھی آپ کو چھوڑنے کو دِل نہیں کر رہا .

آپی : تو چھوڑنے کو کہا کس نے ہے . میں نے تو بس . . . . .

میں : آپ گھبرائیں نہیں آپی . . . . میں صرف شلوار اُتاروں گا .

آپی : ابھی ؟ ؟ ؟ اتنی جلدی ؟ ؟ ؟ ؟

میں : دیر کرنے پہ بھی تو آپ کو اعتراض ہے ، جلدی کرنے پہ بھی اعتراض ہے . کروں تو کیا کروں ؟

آپی : اچھا چلو اُتار لو . سائڈ ٹیبل پہ تیل کی شیشی رکھی ہے .

آپی کے بتانے پہ میں مسکرا دیا . نورین آپی کی طرح اِنھوں نے بھی پہلے سے انتظام کر رکھا تھا .

میں : اب شلوار اتا رنے پہ چیخیں گی تو نہیں ؟

آپی : نہیں . . . تم . . . . جو کرنا ہے کرو .

میں نے ہنستے ہوئے پہلے اپنی اور پِھر آپی کی شلوار اتاری اور پِھر خود پلنگ سے نیچے اتر کے آپی کی ٹانگیں اپنے دائیں بائیں سے گزرتے ہوئے اپنے بازو ان کی ٹانگوں کے نیچے سے گزار کے ہاتھ پلنگ پہ رکھ لیے . اِس طرح ان کی ٹانگیں میرے بازوؤں کے اوپر ہونے کی وجہ سے اوپر اٹھ گئیں اور چوت کے لیے رستہ بن گیا . چوت پہ ایک بھی بال نہیں تھا . شاید آپی نے صبح اٹھ کے سب سے پہلے یہ بال ہی صاف کیے تھے اور اب یہ انچھوئی کلی ، پھول بننے کی تڑپ لیے میرے بھنورے کو اپنی طرف بلا رہی تھی . پِھر مجھے خیال آیا کہ تیل تو لگایا ہی نہیں . میں نے ان کی ٹانگیں دوبارہ نیچے لٹکا کے سائڈ ٹیبل سے تیل کی شیشی اٹھائی اور تھوڑا سا تیل نکال کے اپنے لن پہ ملا اور ڈھکن بند کر کے شیشی دوبارہ سائڈ ٹیبل پہ رکھ دی . اب اپنی طرف سے میں تیار تھا . ایک بار پِھر میں نے وہی پوزیشن لی . یعنی اپنے بازو ان کی ٹانگوں کے نیچے سے گزارتے ہوئے ہاتھ پلنگ پہ رکھ لیے اور پِھر اُنہیں تیار ہونے کا اشارہ کیا تو انہوں نے سَر ہلا دیا گویا وہ تیار تھیں .

میں نے پوزیشن لیتے ہوئے لن ان کی چوت پہ ایڈجسٹ کیا اور پِھر ہلکا سا دھکا لگایا تو صرف ٹوپی ہی اندر جا سکی . آپی نے پِھر ہلکی سی چیخ ما ر ی تو میں نے اُنہیں گھور

کے دیکھا . میرے گھورنے پہ ان کے چہرے پہ ایک بار پِھر معذرت کے تاثرات نظر آنے لگے . میں نے پِھر دھکا لگایا مگر لن تقریباً ایک انچ ہی مزید اندر جا سکا . ان کی چوت نورین آپی کی چوت سے زیادہ تنگ تھی . میں بڑی مشکل سے لن اندر روکے ہوئے تھا ورنہ باہر نکل آتا . اچانک مجھے کچھ خیال آیا

میں : آپ نے ٹائیٹ تو نہیں کر لیا ؟

آپی : ہاں . . وہ دَرْد بہت ہو رہی تھی تو . . .

میں : اِس طرح زیادہ دَرْد ہو گی . ڈھیلا چھوڑ دیں . کچھ دیر دَرْد سہنا پڑے گا . پِھر کبھی دَرْد نہیں ہو گا .

آپی : سچ کہہ رہے ہو . ایک بار ہی دَرْد ہو گا نا ؟

میں : جی . . . اب ڈھیلا چھوڑیں . ورنہ میں نکالنے لگا ہوں .

آپی : نن . . . نہیں . میں ڈھیلا کر رہی ہوں . نکالنا نہیں .

انہوں نے چوت کو ڈھیلا کیا تو لن جو میرے زور دینے پہ مشکل سے اندر رکا ہوا تھا ، تھوڑا سا مزید اندر چلا گیا . اِس سے آگے مجھے وہ جھلی محسوس ہوئی جو یقینا ان کے کنوارپن کا پردہ ( سیل ) تھا . میں نے تھوڑا سا لن باہر کھینچ کے دوبارہ زور سے دھکا لگایا تو لن سیل توڑتا ہوا مزید اندر چلا گیا . اِس بار آپی نے اپنی چیخ روکنے کے لیے اپنا ہاتھ اپنے منہ پہ رکھ لیا تھا اِس لیے آواز نہیں نکلی . بہر حال تکلیف ان کی آنكھوں اور کانپتے ہوئے جِسَم سے ظاہر ہو رہی تھی . اب میرا ہالف سے کچھ زیادہ لن اندر تھا . میں نے کچھ دیر كے لیے رکے رہنا مناسب سمجھا اور ان کی ٹانگیں چھوڑ کے ان کے اوپر لیٹ گیا . میرے ہاتھ اب ان کے بوبز پہ تھے اور ہونٹ ان کے ہونٹوں پہ تھے . میں نے پہلے انہیں ہلکا سا کس کیا اور پِھر پیار سے ان کے ہونٹ چوسنے لگا . ساتھ ساتھ نیچے سے اپنے دونوں ھاتھوں سے ان کے بوبز بھی دبا رہا تھا جس سے ان کا دھیان بھی تکلیف سے ہٹ کے مزے کی طرف ہو گیا . کافی دیر تک میں یوں ہی ان کے ہونٹ چوستا اور بوبز دباتا رہا . پِھر نیچے سے لن کو مزید آگے بڑھانا شروع کر دیا . اب آگے کوئی رکاوٹ تو نہیں تھی مگر چوت اتنی ٹائیٹ تھی کہ مزید آگے کرنے کے لیے زیادہ زور لگانا پڑ رہا تھا . ویسے آپی کو اب زیادہ دَرْد نہیں ہو رہا تھا . بس چوت ٹائیٹ ہونے کی وجہ سے لن اندر جانے سے تھوڑی تکلیف ہوتی تھی جسے وہ شاید ہونٹ چوسنے اور بوبز دبانے کے مزے کی وجہ سے برداشت کر رہی تھیں . میں نے اپنا کام جاری رکھا ، ہونٹ چوستے اور بوبز دباتے ہوئے لن برابر آگے بڑھائے جا رہا تھا . آخر کافی دیر بَعْد لن ان کی چوت کی آخری حد تک پہنچ ہی گیا . اور اتفاق کی بات یہ کہ میرا لن پُورا ان کی چوت میں تھا . یعنی ان کی چوت میں بھی میرا لن بالکل فٹ آیا تھا . . . پرفیکٹ فٹ .

میں دِل ہی دِل میں ہنس دیا . کیا میری بہنوں کی پھدیاں میرے لن کے لیے ہی بنائی گئیں ہیں . اب تک دو بہنوں سے سیکس کیا تھا اور دونوں کی چوت میں میرا لن بالکل فٹ آیا تھا .

میں : ( اپنے ہونٹ آپی کے ہونٹوں سے الگ کرتے ہوئے ) اب تو دَرْد نہیں ہو رہا آپی ؟

آپی : نہیں . . . اب زیادہ دَرْد نہیں ہو رہا . مگر جب تک یہ اندر ہے . . . مجھے تنگ تو کرتا رہے گا . بڑی مشکل سے جھیل رہی ہوں اسے .

میں : ( ہنستے ہوئے ) ابھی پہلی بار ہے آپی . اور ویسے بھی آپ کی . . . . اندر سے بہت ٹائیٹ ہے . آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گی . پِھر مسئلہ نہیں ہو گا .

آپی : ویسے دَرْد کے ساتھ ساتھ کچھ کچھ اچھا بھی لگ رہا ہے . اور یہ سوچ کے تو اور بھی اچھا لگ رہا ہے کہ پُورا اندر چلا گیا ہے .

میں : اب آگے پیچھے کروں ؟ آپ تیار ہیں ؟

آپی : ٹھیک ہے . لیکن تیز تیز نہیں کرنا .

ان کی طرف سے سگنل ملنے پہ میں نے تھوڑا سا پیچھے کر کے پِھر زور لگا کے آگے کرنا شروع کر دیا . ہر بار جب میں لن باہر کی طرف کھینچتا تو ساتھ ہی آپی بھی تھوڑا سا اوپر کی طرف اٹھ جاتیں جیسے لن کے ساتھ ہی کھنچی جا رہی ہوں اور جب لن اندر کرتا تو وہ بھی نیچے ہو جاتیں اور مجھے بھی زور سے دبوچ لیتیں . ان کی ٹانگیں اب میری کمر کے گرد تھیں اور انہوں نے ٹانگوں سے میری کمر کو زور سے جکڑا ہوا تھا . آہستہ آہستہ میں نے اپنی سپیڈ بڑھانا شروع کر دی . اب بھی لن پھنس پھنس کے اندر باہر ہو رہا تھا مگر اب اتنی گنجائش پیدا ہو گئی تھی ان کی چوت میں ، کہ اب انہیں زیادہ تکلیف نہیں ہو رہی تھی . بس ہلکی ہلکی کراہیں ان کے ہونٹوں سے جاری تھیں جن میں دَرْد سے زیادہ مزہ محسوس ہو رہا تھا . جیسے جیسے میری سپیڈ بڑھتی جا رہی تھی ، ان کے کراہنے کی آوازیں بھی بلند ہونے لگی تھیں ، پِھر اچانک انہوں نے بہت زور زور سے کراھنا شروع کر دیا جیسے چیخ رہی ہوں . یقینا یہ ان کے آرگزم کی نشانی تھی . نورین آپی نے تو خود پہ خاصا قابو رکھا تھا مگر مہرین آپی کو شاید خود پہ بالکل بھی اختیار نہیں رہا تھا . اور پِھر اسی طرح کراہتے ہوئے اچانک ان کے جِسَم کو جھٹکے لگنے لگے . پہلا جھٹکا تو اتنا شدید تھا کہ اگر میں ان کے اوپر نا ہوتا تو

ہوتا تو وہ اُچھل کے پلنگ سے نیچے جا گرتیں . میں گھبرا کے رک گیا اور ان کے ڈسچارج ہونے کا انتظار کرنے لگا . ڈسچارج ہوتے ہوئے وہ مجھے بہت بری طرح نوچنے لگی تھیں . میں نے گھبرا کے ان کے دونوں ہاتھ اپنے ھاتھوں کے نیچے دبا لیے تو انہوں نے سَر کو ادھر اُدھر پٹخنا شروع کر دیا . ان کی کم مجھے اپنے لن پہ کافی دیر تک گرتی محسوس ہوتی رہی اور پِھر وہ آہستہ آہستہ ریلکس ہوتی گئیں . اور ان کے ریلکس ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی آواز بھی دھیمی ہونے لگی . آخر جب وہ بالکل پرسکون ہو گئیں تو میں نے بھی سکون کا سانس لیا . اب مجھے ایک اور فکر نے پریشان کیا . ان کے بلند آواز میں کراہنے یا دوسرے معنوں میں چیخنے کی آوازیں یقینا کمرے سے باہر بھی پہنچی ہوں گی . پتا نہیں کس کس نے سنی ہوں گی ان کی چیخیں . اب اپنی پوزیشن میں کیسے واضح کر پاؤں گا . سب کہیں گے میں نے آپی پہ ظلم کیا . میری بات کا کون یقین کرے گا .

میں : مر وا دیا آپ نے آپی . آخر اتنی بلند آواز میں چیخنے کی کیا ضرورت تھی ؟ سب ہمارے رازدار سہی مگر پِھر بھی اگر کسی نے آپ کی چیخیں سن لی ہوں گی تو میری شامت یقینی ہے . آپ کو سب مظلوم اور مجھے ظالم اور جابر سمجھیں گے .

آپی : معاف کر دو سنی . . . . میں اپنے بس میں نہیں رہی تھی . زندگی میں پہلی بار اتنا مزہ آ رہا تھا کہ خود بخود ہی حلق سے چیخیں نکل رہی تھیں . پتا ہی نہیں چلا کہ میری آوازیں کتنی بلند ہو رہی ہیں .

میں : اب باہر نکال لوں ؟ یا ابھی اور کرنے کا موڈ ہے ؟

آپی : نہیں . . . اب نکال لو . ویسے بھی بہت دیر ہو گئی ہے .

میں نے دھیرے دھیرے لن باہر نکالا تو آپی نے جلدی سے سائڈ ٹیبل کی دراز سے ٹشو نکال کے مجھے پکڑا دیا . میں نے جلدی سے لن صاف کیا اور پِھر باتْھ روم میں جا کے ریلیز ہو گیا . وہاں سے فارغ ہو کے لن کو دھو کے واپس آیا تو آپی اپنے پلنگ کی خون آلود چادر تو اُتار چکی تھیں مگر شلوار ابھی تک نہیں پہنی تھی . میں نے خود ہی ان کی شلوار اٹھا کے ان کی طرف بڑھائی تو انہوں نے شرما کے پکڑ لی اور پہننے لگیں .

میں : ایک بار منہ میٹھا کر دیں آپی . سہاگ دن کا اختتام ( اینڈ ) بھی خوشگوار ہو جائے گا .

آپی نے خود ہی آگے بڑھ کے میرے ہونٹوں کو چوم لیا اور کافی دیر تک اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے چپکائے رکھے پِھر وہ خود ہی الگ ہوئی تو ان کی آنكھوں میں سب کچھ پا لینے کی چمک اور چہرے پہ شرم کے آثار تھے . میں نے آخری پیار بھری نظریں ان پہ ڈالیں اور پِھر ان کے کمرے سے باہر نکل آیا . مگر باہر نکلتے ہی میرے قدم وہیں جم کے رہ گئے . امبرین اور ثمر ین سامنے ہی میرے کمرے کے دروازے میں کھڑی تشویش بھری نظروں سے ادھر ہی دیکھ رہی تھیں . یقینا مہرین آپی کی چیخیں انہوں نے سن لی تھیں . اور میرے خدشات كے عین مطابق شاید یہی سمجھ رہی تھیں کہ میں نے آپی سے زبردستی کی ہے ، ان پہ ظلم کیا ہے .میں ان دونوں کی نظروں میں مہرین آپی کے لیے فکر مندی دیکھ کے سخت گھبرایا ہوا تھا اور ہر حال میں اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہتا تھا . کسی بھی حالت میں مجھے ان کے ماتھے کی ہلکی سی شکن بھی گوارہ نہیں تھی . صباء کے بعد میں نے اگر کسی کو دِل سے دوست سمجھا تھا تو وہ یہ دونوں ہی تھیں . میری چاہت ان دونوں کے لیے بے غرض تھی اور اِس میں ہوس اور لذت نفس کی ملاوٹ نہیں تھی . میرے دِل میں ان کے لیے اتنی چاہت تھی کہ میں اُنہیں ناراض دیکھنے کا تصور بھی نہیں کرنا چاہتا تھا

.

#سلمان کی سٹوری

قسط نمر5

میں : کیا ہوا آپی ؟

آپی : کچھ نہیں میری جان . پہلی بار کسی مرد نے چھوا ہے . کرنٹ تو لگنا ہی تھا .

میں ان کی بات سن کے مسکرایا اور پِھر اُنہیں تیار رہنے کا کہتے ہوئے ان کی ٹانگیں کھول کے ٹانگوں کے درمیان آ گیا .

دونوں ھاتھوں سے ان کی ٹانگیں اٹھا کے میں ان کی چوت کے قریب ہوا تو انہوں نے اپنی ٹانگیں میری کمر کے گرد لپیٹ کے میری مشکل آسان کر دی . اب میں آسانی سے اپنے ہاتھ پلنگ پہ ان کے دائیں بائیں رکھتے ہوئے آگے کو جھکا تو میرا لن ان کی چوت سے ٹکرانے لگا . ذرا سا اوپر نیچے ہونے پہ ہی لن ان کی چوت کے سوراخ پہ آ گیا جسے میں نے جھٹکا لگا کے اندر کیا تو صرف ٹوپی ہی اندر جا سکی . ساتھ ہی آپی کی ہلکی سی آہ . . کی آواز بھی نکلی جس پہ میں نے کوئی خاص توجہ نا دیتے ہوئے مزید زور لگایا تو ایک تہائی لن ان کی چوت کے اندر پہنچ گیا . آپی کو دَرْد تو اِس بار بھی ہوا تھا مگر انہوں نے کوئی آواز نہیں نکالی تھی . دَرْد برداشت کرنے کی کوشش میں انہوں نے بستر کی چادر کو مضبوطی سے بھینچ لیا تھا اورنچلا ہونٹ بھی دانتوں سے دبا رکھا تھا .

میں : آپی . . ابھی بہت دَرْد برداشت کرنا ہے . اگر آپ سے برداشت نہیں ہو رہا تو میں . . .

آپی : نہیں . . . میری فکر مت کرو . . . . اور رکے بنا آگے کرتے رہو . میں برداشت کر لوں گی .

ان کے یقین دلانے پہ میں نے اپنا لن تھوڑا سا پیچھے کھینچ کے ایک بھرپور جھٹکا لگایا تو میرا لن آگے موجود ان کی سیل کو چیرتا ہوا تین چوتھائی اندر چلا گیا . آپی کے منہ سے اِس بار آہ . . . . . . سی . سی . آہ . . . . کی آوازیں نکلیں . مگر بس ایک دو بار . اِس کے بَعْد انہوں نے اپنی آواز پِھر دبا لی . مگر آنكھوں سے اب بھی تکلیف کا اظہار ہو رہا تھا .

میں : بس آپی . جو تکلیف ہونی تھی ہو گئی . کچھ دیر میں یہ تکلیف ختم ہو جائے گی .

آپی : ہاں . . . . . پتا ہے . . . . تم رکو مت . . . . . میری تکلیف کی پرواہ مت کرو . . . . زور لگا کے اور آگے کرو .

میرا دِل تو نہیں چاہ رہا تھا کہ اُنہیں ایک پل کی بھی تکلیف مزید دوں مگر ان کے اصرار پہ مجھے مزید زور لگانا پڑا . اِس بار پُورا لن اندر چلا گیا . اور حیرت کی بات یہ تھی کہ ان کی چوت کی بھی یہی آخری حد تھی . یعنی میرا لن ان کی چوت سے بالکل پرفیکٹ فٹ تھا . . . . . وائو پرفیکٹ فٹ . کچھ دیر رک کے میں نے ان کی حالت اعتدال پہ آنے کا انتظار کیا اور پِھر دھیرے دھیرے آگے پیچھے ھونا شروع کر دیا . ان کی چوت نے جیسے میرے لن کو جکڑا ہوا تھا جس سے میرا لن بہت پھنس پھنس کے اندر باہر ہو رہا تھا . مگر مزہ بہت آ رہا تھا . میں نے کسی نا خوشگوار صورت حال سے بچنے کے لیے فوراً اپنے پی سی مسلز کو ٹائیٹ کر لیا تاکہ کہیں انجانے میں بھی میری منی اندر نا گرے . آپی کو بھی شاید اسی وقت ہی خیال آیا تھا کہ ہم نے کوئی پروٹیکشن تو لی ہی نہیں . میری آنكھوں میں دیکھتے ہوئے ان کی آنكھوں میں جو سوال تھا وہ الفاظ کا محتاج نہیں تھا .

میں : بے فکر رہیں آپی . کچھ نہیں ہو گا .

آپی : کیسے بے فکر رہوں سنی . . . ہم نے کوئی انتظام بھی نہیں کیا ہوا . کہیں کچھ ہو گیا . . . . مجھے . . . . . . . . حمل . . . میرا مطلب . . . . بچہ . . . .

میں : میں نے کہا نا آپی . کچھ نہیں ہو گا . اگر میں 2 گھنٹے بھی اندر باہر کرتا رہوں گا تب بھی کچھ نہیں ہو گا .

آپی : یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ میں نے کئی شادی شدہ لڑکیوں سے سنا ہے کہ مرد بس 15 منٹ ہی نکال سکتا ہے . پِھر . . . میں : آپ اِس الجھن میں مت پڑیں آپی . یہ میرا مسئلہ ہے . آپ کا جب تک دِل نہیں بھرے گا ، میں آپ کا ساتھ دوں گا .

آپی : ماننے والی بات تو نہیں ہے . مگر تم ٹھیک ہی کہہ رہے ہو گے . خیر تم رک کیوں گئے . کرو نا . . مجھے مزہ آ

رہا تھا . میں ان کی بات پہ مسکراتا ہوا اور زور سے لن آگے پیچھے کرنے لگا . اور آپی بھی مزہ لیتے ہوئے ہلکی ہلکی آوازیں نکا لنے لگیں . . آہ . . . . آں . . . . . مم . . . . . . . . آہ . . . . . . . . . آہ . . .

یوں ہی دھیرے دھیرے آگے پیچھے کرتے ہوئے میں کافی دیر تک لگا رہا اور اِس دوران دو بار مجھے آپی کے ڈسچارج

ہونے کا پتا چلا . ان کے اندر کا لکویڈ فوارے کی طرح میرے لن پہ گرتا اور میرے لن میں بھی گدگدی سی ہونے لگتی دونوں بار میں نے بڑی مشکل سے خود کو ڈسچارج ہونے سے روکا اور تھوڑا تھوڑا وقفہ دے کے لگا رہا . تیسری بار جب وہ ڈسچارج ہوئیں تو انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور گہرے گہرے سانس لینے لگیں . میں نے کچھ سوچتے ہوئے مزید کرنا مناسب نا سمجھا اور وہیں رکا رہا . کافی دیر انتظار کرتا رہا کہ شاید اب آپی آنکھیں کھول کے مجھے مزید کرنے یا پِھر بس کرنے کو کہیں گی مگر انہوں نے نا آنکھیں کھولیں نا کچھ کہا تو مجھے خود ہی اُنہیں مخاطب کرنا پڑا .

میں : آپی . . . آپی . . . باہر نکال لوں ؟

آپی : ( آنکھیں کھول کے مجھے دیکھتے ہوئے ) ہوں . . . . ہاں . . . اب بس . . . اب مزید ہمت نہیں ہے .

میں نے لن باہر نکالا اور اٹھ کے جوتا پہن کے باتْھ روم چلا گیا . وہاں فلش کے پاس کھڑے ہو کے میں نے پی سی مسلز ریلیز کر دیئے اور میں ڈسچارج ہونے لگا . کافی دیر جھٹکے لیتے ہوئے میں ڈسچارج ہوتا رہا اور پِھر ٹشو سے اپنا

لن صاف کر کے میں دوبارہ اندر آیا تو آپی شلوار پہن چکی تھیں اور اب بستر کی خون آلود چادر اتار رہی تھیں . مجھے دیکھ کے وہ بڑے پیار بھرے اندازِ میں مسکرا دیں اور پلنگ پہ بیٹھ گئیں . میں نے آگے بڑھ کے اپنی شلوار اٹھا کے پہنی اور ان کے قریب بیٹھ گیا .

میں : آپی آپ خوش ہیں نا ؟

 

آپی : ہاں میری جان . بہت خوش . اتنی خوش کے تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے .

میں : آپی . . . وہ . . . اگر . . آپ کو اعتراض نا ہو تو . . . . میں کبھی کبھی آپ کے . . . .

میری نظروں کو اپنے بوبز پہ دیکھ کے وہ ہنس پڑیں شاید وہ سمجھ گئی تھیں کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں .

آپی : تمھیں حق ہے میری جان . یہ حق میں اپنی خوشی سے تمھیں دے رہی ہوں .

میں : ( خوش ہو کر ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ) بہت بہت شکریہ آپی . آپ بہت اچھی ہیں .

آپی : اچھے تو تم ہو سنی . جو میری خوشی ، مجھے میری ہی رضامندی سے دینے کے لیے بھی اِجازَت مانگ رہے ہو . میں تو اپنا پُورا وجود تمہارے نام کر چکی ہوں . جب چاہو اپنا حق سمجھ کے آ جانا .

میں : جانے کا دِل چاھے گا تو آنے کا سوچوں گا نا آپی ؟ آپ کے پاس سے تو جانے کو ہی دِل نہیں کر رہا .

آپی : دِل تو میرا بھی نہیں چاہتا کہ تم یہاں سے جاؤ . مگر مجبوری ہے . تمھیں جانا تو ہو گا .

میں : پِھر . . . کل آ جاؤں ؟

آپی : کہا نا میری جان . جب تمہارا دِل چاھے . لیکن بس تمہاری خوشی پوری کرنے کے لیے . کم سے کم ایک ہفتہ تو میں اِس رات کو یادگار رکھنا چاہتی ہوں . ویسے بھی یہ کام روز نہیں ھونا چاہئیے . ان کا اشارہ یقینا سیکس کی طرف تھا . یعنی وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ایک ہفتے سے پہلے ہم دوبارہ سیکس کریں . جبکہ اپنے بوبز سے مزہ لینے کی انہوں نے کھلی اِجازَت دے دی تھی . مجھے اور کیا چاہئیے تھا . ویسے بھی سیکس کرنے میں مجھے وہ مزہ نہیں آتا تھا جو مہرین آپی کے ہونٹوں اور نورین آپی کے بوبز میں تھا . اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ہر وقت ان دونوں بہنوں کے ہونٹ اور بوبز چوستا رہتا . کبھی چھوڑتا ہی نہیں . مگر اِس کے لیے رات کا انتظار کرنے پہ مجبور تھا . اور اگلی رات اب ایک پُورا دن گزرنے کے بَعْد ہی آنی تھی . اور یہ دن گزارنا اب مجھے کتنا مشکل لگتا تھا ، یہ میرا دِل ہی جانتا تھا . آپی کو ایک الوداعی کس کر کے میں اٹھا اور ان کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آ گیا . اب نیند تو آنی نہیں تھی . سو میں اپنے پلنگ پہ لیٹ کر اِس یادگار رات کا ایک ایک لمحہ اپنے تصور کی اسکرین پہ دیکھ کے خوش ہوتا رہا .اگلی صبح میری حیرت کی انتہا نا رہی جب کوئی مجھے ناشتے کے لیے بلانے نہیں آیا . مہرین آپی اور نورین آپی کا تو میں سمجھ سکتا تھا کہ شاید نیند پوری نا ہونے کی وجہ سے اب تک سو رہی ہوں . مگر امبرین اور ثمر ین کو کیا ہوا . ایک بار بھی میرے کمرے میں کسی نے جھانکا تک نہیں ؟ آخر ہوا کیا ہے ؟

پتا نہیں کیا بات تھی . بہر حال سب کا سامنا تو کرنا ہی تھا . میں نے اٹھ کے باتْھ لیا اور کپڑے تبدیل کر کے ناشتے کے

لیے کھانے کے کمرے میں پہنچ گیا جہاں امی ابو کے علاوہ امبرین اور ثمر ین بھی موجود تھیں . میرے سلام کا جواب صرف امی ابو نے ہی دیا . امبرین اور ثمر ین نے تو مجھے نگاہ اٹھا کے دیکھا تک نہیں . شاید کسی بات پہ وہ مجھ سے ناراض ہو گئی تھیں . مگر کس بات پہ ؟ انہیں میری کونسی بات اتنی بری لگی کہ وہ میری طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتیں ؟ کہیں انہیں کچھ پتا تو نہیں چل گیا ؟ اندر ہی اندر پریشان ہوتا میں ان کی ناراضگی کے مختلف اسباب سوچتا رہا اور چُپ چاپ ناشتہ ختم کر کے اٹھ گیا . اب میرا رخ اپنے کمرے کی طرف نہیں بلکہ امبرین اور ثمر ین کے کمرے کی طرف تھا . ہر وقت ایک دوسری کا سایہ بنی رہنے والی وہ جڑواں بہنیں سوتی بھی ایک ہی کمرے میں تھیں .

کافی دیر تک میں پلنگ پہ بیٹھا ان دونوں کا انتظار کرتا رہا . آخر وہ دونوں اپنے کمرے کا دروازہ کھول کے اندر داخل ہوئیں تو مجھے پہلے سے موجود دیکھ کے وہیں رک گئیں .

امبرین : آپ شاید بھول رہے ہیں بھائی . یہ مہرین آپی یا نورین آپی کا کمرہ نہیں ہے . یہاں ہم دونوں ہی ہوتی ہیں .

ثمر ین : شاید آپ ہمیں رازداری کا وعدہ یاد دلانے آئے ہیں . بے فکر رہیں ہم کسی سے کچھ نہیں کہیں گی .

میں : بات کیا ہے ؟ کچھ پتا بھی تو چلے کہ میری کس بات پہ تم دونوں مجھ سے اتنی ناراض ہو ؟

میری بات سن کے پہلے تو وہ دونوں مجھے غصے سے گھورتی رہیں اور پِھر ثمر ین نے اپنے پلنگ کی سائڈ ٹیبل کی دراز سے

ایک منی ٹپ ریکارڈر نکال کے پلے کا بٹن دباتے ہوئے ٹپ ریکارڈر میرے ہاتھ میں تھما دیا اور پِھر کچھ نامانوس سی آوازوں کے بَعْد مہرین آپی کی آواز سن کے تو میرے ھاتھوں کے طوطے اڑ گئے .

" بس کرو سنی . ورنہ میں خود پہ اختیار کھو بیٹھوں گی . اب جاؤ . " یہ بات تو انہوں نے کل رات ہی مجھ سے کہی تھی جب میں ان کے کمرے میں تھا . اور کیا کر رہا تھا ، یہ مجھے یاد کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی . یقینا یہ نامانوس سی آوازیں بھی اسی دوران ریکارڈ ہو گئی تھیں . مگر یہ ریکارڈنگ ہوئی کیسے ؟ کیا ان دونوں کو پہلے سے مجھ پہ شک تھا کہ میں ایسا کروں گا .

میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ امبرین نے ایک دوسرا منی ٹپ ریکارڈر میرے ہاتھ میں تھما دیا اور پہلا میرے ہاتھ سے لے کر ثمر ین کو دے دیا . اور یہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ اِس کیسٹ میں کل رات کی میری اور نورین آپی کی باتیں اور آوازیں ریکارڈ تھیں . شرمندگی اور گھبراہٹ سے میرے جِسَم سے پسینے کی دھاریں پھوٹ پڑیں اور ہاتھ پاؤں کانپنے لگے . میں نے تو اپنی طرف سے ہر قسِم کی احتیاط کی تھی کہ کسی کو پتا نا چلے کہ میں مہرین آپی اور پِھر نورین آپی کے کمرے میں گیا تھا . مگر شاید ان دونوں کو پہلے سے کچھ شک ہو گیا تھا جو انہوں نے پہلے سے ہی انتظامات کر رکھے تھے . دونوں کمروں میں یقینا پہلے سے ٹپ ریکارڈر چھپا دیئے گئے تھے اور اب ہماری پچھلی رات کی کاروائی کا ثبوت میرے ھاتھوں میں تھا .

ثمر ین : اب تو آپ کو پتا چل ہی گیا ہو گا کہ بات کیا ہے

امبرین : یہ ٹپ ریکارڈر ہمیں صباء آپی نے تحفے کے طور پہ دیے تھے . ہمیں کیا پتا تھا یہ ایسے کام آئیں گے .

یہ کہتے ہوئے امبرین نے میرے کانپتے ھاتھوں سے ٹپ ریکارڈر لے کے بند کر دیا . اور اب میں ڈرتے ہوئے دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ پتا نہیں اب میرے ساتھ کیا سلوک ہو گا . یہ ناراضگی کیا لمبی چلے گی ؟ یا پِھر یہ معاملہ امی ابّا کے سامنے لایا جائے گا ؟ نہیں . . یہ نہیں ھونا چاہئیے .

ثمر ین : میں جانتی ہوں آپ کو ہم پہ ذرا سا بھی اعتبار نہیں ہے . ورنہ اتنی رازداری سے یہ معاملات نا طے کیے جاتے .

بہر حال . آپ چاہیں تو اپنے ان كارناموں کے ثبوت اپنے ھاتھوں ضایع کر سکتے ہیں . ہم نے امی ابو کو سنانے کے لیے یہ کیسٹ ریکارڈ نہیں کیے تھے . لیکن اگر آپ یہ کیسٹ ہم پہ اعتبار کرتے ہوئے ہمیں واپس کر دیں تو یہ آپ کا ہم پہ احسان ہو گا . ہمارے پاس ان کے علاوہ اور کوئی کیسٹ نہیں ہیں .

میں : ( ڈرتے ڈرتے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے ) معافی کی کوئی صورت نہیں ؟

امبرین : ایک شرط پہ معافی ملے گی .

میں : کیا ؟ جلدی بتاؤ . میں تم دونوں کی ناراضگی دور کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں .

امبرین : آپ آج سارا دن اور آج کی ساری رات ہم دونوں کے ساتھ گذاریں گے . مہرین آپی اور نورین آپی کی آج چھٹی .

میں : ( بوكھلا کے پلنگ سے اٹھ کے کھڑا ہوتے ہوئے ) ٹوٹ . ٹی . ٹی . . . . . . . تم دونوں کے ساتھ . . . . مطلب ؟

ثمر ین : مطلب وہ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں . مانا کہ ہم بھی جوان ہو چکی ہیں مگر اِس جوانی نے ہمیں اتنا تنگ نہیں کیا ہوا کہ خود کو پلیٹ میں سجا کے آپ کو پیش کر دیں . ہماری بھی آخر کچھ عزت نفس ہے .

میں : خدا کے لیے کھل کے بتاؤ . میں پریشان ہو رہا ہوں .

امبرین : اِس پہ ایک شعر عرض کرتی ہوں .

بٹھا کے رات بھر پہلو میں یار کو غالب

جو لوگ کچھ نہیں کرتے وہ کمال کرتے ہیں

تو آپ کو آج وہی کمال کرنا ہے ..امبرین کے منہ سے غالب کا شعر سن کے میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا . صباء نے پاکستان سے آ کے اتنا تو بتایا تھا کہ میری چاروں بہنیں گاؤں کے گرلز ہائی اسکول میں میٹرک تک پڑھی ہوئی ہیں مگر اتنا نہیں پتا چل پایا تھا کہ اتنی معمولی تعلیم حاصل کرنے پہ بھی ان کا شاعری کا ذوق اتنا اچھا ہو گا . اب تک کسی نے بھی اپنے اندازِ گفتگو سے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کہ انہوں نے تھوڑی بہت بھی تعلیم حاصل کر رکھی ہے ، نا کبھی کسی نے انگلش کا کوئی لفظ بولا تھا اور نا ہی عام گفتگو میں کوئی مشکل لفظ استعمال کیا تھا ، جس سے میں سمجھ پا تا کہ میری بہنیں بھی تھوڑا بہت پڑھی لکھی ہیں . انگلش کے عام الفاظ یعنی سوری ، تھینک یو وغیرہ تو آج کل ان پڑھ لوگ بھی بول لیتے ہیں ، مگر میں نے یہ الفاظ بھی ان چاروں کے منہ سے اب تک نہیں سنے تھے . یہ پہلا موقع تھا کہ ان میں سے کسی نے مجھے اپنے تھوڑا بہت تعلیم یافتہ ہونے کا احساس دلایا تھا

.

#سلمان کی سٹوری

قسط نمبر 6

ثمر ین : اتنا حیران کیوں ہو رہے ہیں ؟ آپ کو پتا نہیں کہ ہم چاروں نے میٹرک تک پڑھا ہے ؟ ابو جان نے چاھے فون یا خط میں نا بتایا ہو ، صباء آپی نے تو یہاں سے جا کے بتایا ہی ہو گا .

میں : ہاں شاید سرسری سا ذکر ہوا تھا . مگر تم لوگوں کے منہ سے کبھی کوئی ایسی بات ہی نہیں سنی کہ میں سمجھ پا تا کہ کسی پڑھے لکھے شخص سے بات کر رہا ہوں .

امبرین : یعنی اپنی تہذیب کے دائرے میں رہنا ہی ہمارے ان پڑھ ہونے کی دلیل بن گیا . آپ کو شاید پتا نہیں کہ ابو جان کی سختی سے تاکید ہے کہ گھر میں انگلش کا کوئی لفظ نا بولا جائے . جب اپنی زُبان میں بات کی جا سکتی ہے تو

خوامخواہ منہ ٹیڑھا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے .

ثمر ین : ان باتوں میں الجھ کے آپ اصل بات سے ہٹ نہیں سکتے . آپ کو وعدہ کرنا ہو گا کہ آج کا پورا دن اور پِھر پوری رات آپ ہم دونوں کے ساتھ گذاریں گے .

ثمر ین کی دوبارہ یاد دہانی پہ میں مسکرا دیا . موضوع سے ہٹنا شاید اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا اور وہ مجھ سے وعدہ لیاد چاہتی تھی .

میں : ٹھیک ہے جناب . جیسے آپ کا حکم . مگر ان دونوں کو بتانے کی اِجازَت تو ہے نا کہ آج ان کے پاس نہیں آؤں گا ؟

امبرین : ( شاہانہ اندازِ میں گردن اکڑا کے ) اِجازَت ہے . مگر کوئی الٹی سیدھی بات کہنے کی اِجازَت نہیں ہے . میں نہیں چاہتی وہ دونوں ہمیں بھی جوان سمجھنا شروع کر دیں . بچے بنے رہنے میں بہت فائدہ ہے .

میں اس کی بات سن کے ایک بار پِھر بوكھلا کے رہ گیا . یعنی وہ جان بوجھ کےبچی اور معصوم بنی رہتی تھیں ؟ اگر ایسا تھا

تو واقعی یہ دونوں بہت کامیاب ایکٹریس تھیں .

میں : اِس کی تشریح بھی کر دو اب .

ثمر ین : کوئی خاص معرفت کی بات تو نہیں ہے جو سمجھ میں نا آئے . اپنی ہم عمر شادی شدہ سہیلیوں سے ان کی شادی شدہ زندگی کے احوال سن کے ہم جیسی لڑکیاں انجان اور معصوم تو رہ نہیں سکتی تھیں . مگر خدا کا شکر ہے کہ نفس ہمارے قابو میں ہے اور ہمیں تنگ نہیں کرتا . ہم نے خود کو ذہنی طور پہ اتنا مضبوط کر رکھا ہے کہ اگر ساری عمر بھی کنواری رہنا چاہیں تو رہ سکتی ہیں . کوئی پریشانی نہیں ہو گی ہمیں . بس ہم یہ نہیں چاہتیں کہ گھر والوں کو ہماری بلوغت کا علم ہو جائے اور لوگ ہم پہ بھی ترس کھانے لگیں کہ ھائے کتنی خوبصورت جوان لڑکیاں اور یہ ظلم ، بیچاری شادی کے بغیر بیٹھی ہیں .

میں : چلو یہ معصوم بنے رہنے کی ایکٹنگ تو سمجھ آ گئی مگر یہ رات بھر پہلو میں بٹھانے کا کیا مقصد ہے ؟ یہ بھی تو سمجھا دو یار .

امبرین : بس تھوڑی سی دِل پشوری . خدا خدا کر کے تو ایک ہینڈسم لڑکا ملا ہے . تھوڑا دِل ہی بہلا لیں گے .

ثمر ین : ہاں ویسے بھی ہمیں آپ کے لائے ہوئے ریشمی کپڑے پہننے کے لیے کسی موقع کا انتظار ہے . . آپ کو پہن کے

دکھائیں گی تو تھوڑی بہت تعریف ہی سننے کو مل جائے گی . اگر زُبان سے تعریف نہیں کریں گے تو آنکھیں ہی کچھ نا کچھ کہہ دیں گی . ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے . بس اسے جوانی کا تقاضہ سمجھنے سے پرہیز کیجیے گا . بچیوں کو بھی اچھے کپڑے پہن کے دکھانے کا شوق ہوتا ہے .

میں : اور اگر . . . فرض کرو . . . اگر مجھ سے ان بچیوں کو جوان سمجھنے کی بھول ہو گئی تو . . . ویسے بھی ریشمی کپڑوں میں لڑکی کا فگر کچھ زیادہ ہی سیکسی ہو جاتا ہے .

ثمر ین : اسی موقع پر تو ہم دونوں کی اتفاق کی برکت کام آئے گی . ورنہ جہاں وہ دونوں آپ کے دام الفت کا شکار ہو گئیں ، تو ہم معصوم بچیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں .

میں : یار دو دن سے بچیاں سمجھ کے ہی تو دِل پہ جبر کر رہا ہوں . اب اگر تم لوگ بھی دِل پشوری کرنا چاہتی تو تھوڑی

بہت آنکھیں سینکنے کا حق تو مجھے بھی ھونا چاہئیے . ویسے بھی اب تک میں نے بچی پٹانے کا تجربہ نہیں کیا . جو مجھ سے میری بڑی بہنوں نے کرنے کو کہا ، میں نے کر دیا . اب ایک ساتھ دو بچیاں پٹانے کا موقع مل رہا ہے تو چانس ما ر لینے دو . تم دونوں کا کیا جائے گا بچے کا دِل ہی خوش ہو جائے گا . میں جان بوجھ کے ان دونوں سے لوفروں والے اندازِ میں بات کر رہا تھا تاکہ میری اِس حرکت پہ گھبرا کے وہ دونوں مجھے رات میں بلانے کا اِرادَہ ترک کر دیں . مگر وہ دونوں بھی اتنی بھولی نہیں تھیں کہ میری چالاکی نا سمجھ پاتیں .

امبرین : اگر آپ اپنی حد میں رہیں گے تو جتنا جی چاھے چانس ما ر لیں . ہمیں اعتراض نہیں ہو گا .

ثمر ین : اور حد سے آگے بڑھنے کی تب تک کوشش بھی مت کیجیے گا جب تک ہم خود ایسا نا چاہیں .

میں : اب یہ حد بھی بتا دو کہ کہاں تک ہو گی . کہیں بے خبری میں بچیاں ہاتھ سے نکل ہی نا جائیں .

امبرین : اتنے ننھے کاکے ( بچے ) نہیں ہیں آپ کہ آپ کو یہ بھی پتا نا ہو . آپ نے ہمارے نسوانی اعضاء ( لڑکیوں کے پرائیویٹ باڈی پارٹس ) کو نہیں چھیڑنا . ہم اگر معصومیت بھرے اندازِ میں آپ سے لپٹ بھی جائیں تو آپ کو اپنے ھاتھوں اور . . . خود پہ قابو رکھنا ہو گا . ورنہ یقینی طور پہ یہ بچیاں ہاتھ سے نکل جائیں گی .

میں : پِھر سوچ لو یار . مجھے نہیں لگتا کہ مجھے رات کے وقت تم دونوں کے کمرے میں آنا چاہئیے . رات کے وقت ویسے بھی لڑکی لڑکا اگر کمرے میں تنہا ہوں تو ان کے ساتھ شیطان بھی ہوتا ہے . اگر میرے ساتھ ساتھ تم دونوں بھی ایک ساتھ ہی خود پہ اختیار کھو بیٹھیں تو بڑی گڑبڑ ہو جائے گی یار .

میں نے ایک بار پِھر سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے کہا تاکہ اُنہیں اپنے فیصلے پہ نظر ثانی ( سیکنڈ تھوٹ ) کا موقع ملے مگر ان کے چہروں کی مسکراہٹ سے لگتا نہیں تھا کہ میری کسی بات کا ان پہ کوئی اثر ہو رہا ہے .

ثمر ین : فرض کریں اگر ایسا ہو بھی گیا تو کیا ہماری ہونے والی شادیاں ٹوٹ جائیں گی ؟ لڑکے والے ہمارا رشتہ ٹھکرا

دیں گے ؟ ہمارے ہونے والے شوہر ہمیں شادی سے پہلے ہی طلاق دے ڈالیں گے ؟ جب ہماری شادیاں ہی نہیں ہونی تو ہم ایسی انہونی باتوں سے کس لیے ڈریں ؟ اگر اتنا ہی آپ پہ شیطان سوار ہے کہ اپنی چھوٹی بہنوں کی معصومیت کو

روند کے ہی جان چھوڑے گا تو یہ بھی کر کے دیکھ لیں . کم اَز کم میں تو آپ کو نہیں روکوں گی . امید ہے اب تو آپ کو

رات کو ہمارے کمرے میں آنے پہ کوئی اعتراض نہیں ہو گا .

میں : اچھا بابا . تم دونوں جیتیں میں ہارا . پکا وعدہ کرتا ہوں کہ آج پورا دن اور پوری رات میں تم دونوں کے ساتھ ہی گزاروں گا اور اپنی حد سے آگے بھی نہیں بڑھوں گا . اب خوش ؟ میری بات سن کے دونوں خوش ہو کے مجھ سے لپٹ گئیں .

امبرین : بہت شکریہ بھائی .

ثمر ین : آپ بہت اچھے ہیں بھائی . ہماری ناراضگی ختم .

میں : اچھا اب مجھے امتحان میں مت ڈالو . یہ جاننے کے بَعْد کہ تم دونوں جوان ہو گئی ہو ، میرے جذبات میں تم دونوں کی قربت سے ہلچل مچانے لگتی ہے . یہ کہتے ہوئے میں ان دونوں کو ساتھ لے كے دوبارہ پلنگ پہ بیٹھ گیا .

امبرین : کوئی بات نہیں بھائی . آپ شوق سے ہمیں جوان سمجھتے رہیں . بس اپنا وعدہ نا بھولیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا .

میں : اچھا کمر پہ تو ہاتھ لگا سکتا ہوں نا ؟

ثمر ین : ( امبرین سے یار اگر لڑکا کمر پہ ہاتھ پھیرے تو کیا ہوتا ہے ، سونیا نے بتایا تھا نا ؟

امبرین : ہاں ہاں . بہت خطرناک بات ہے . بھائی آپ کہیں بھی ہاتھ نہیں لگائیں گے .

میں : یار یہ نئی پابندی لگا دی تم دونوں نے . اِس سے پہلے تو صرف نسوانی اعضاء کی بات ہوئی تھی .

ثمر ین : سمجھا کریں نا بھائی . اتنا نرم و نازک جوان جِسَم اگر کسی لڑکے کی قربت میں ہو تو لڑکا خود بخود ہی بہکنے لگے گا . ہم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتیں .

میں : یہ ظلم مت کرو یار . میں وعدہ کر چکا ہوں نا کہ حد سے آگے نہیں بڑھوں گا . اب اتنی سی اِجازَت تو دے دو .

امبرین : بھائی کہیں آپ سچ مچ تو ہمیں جوان نہیں سمجھنے لگے ؟

میں : ہاں یار . لگتا تو کچھ کچھ ایسا ہی ہے . جب سے تم نے بتایا ہے کہ تم دونوں بھی جوان ہو گئی ہو ، میرے دِل میں تم

دونوں کی قربت سے ہلچل سی مچنے لگی ہے .

ثمر ین : ( امبرین سے ) یار اب تو مجھے بھی ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں میرے دِل میں بھی ہلچل نا مچنے لگے . چلو باہر چلتے ہیں . رات کی رات کو دیکھی جائے گی . اِس وقت میں یہ خطرہ مول نہیں لے سکتی .

میں : سوچ لو . اگر باہر کسی نے مجھے تم دونوں کو تاڑتے ہوئے دیکھ لیا تو . . .

امبرین : نا بابا نا . . مجھے باہر نہیں جانا . میں تو یہیں بیٹھی ہوں . چاھے جو بھی ہو جائے .

ثمر ین : ( امبرین سے ) اور تمھیں یوں خطرے میں چھوڑ کے میں بھی باہر نہیں جاؤں گی . اب جو ہو گا دیکھا جائے گا . اب تک میرے مذاق میں اُنہیں تنگ کرنے پہ وہ دونوں بھی اسی ٹون میں جواب دیتی جا رہی تھیں . اور شاید میری طرح انجوئے بھی کر رہی تھیں . آخر مجھے ہی ہار ماننا پڑی .

میں : اچھا بس اب مذاق ختم . چلو دوستی کر لیتے ہیں . میری طرف سے پکا وعدہ کہ باتوں میں چاھے میں کتنی ہی بے شرمی کا مظاہرہ کروں ، تم دونوں کی رضامندی کے بغیر تم دونوں میں سے کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا .

ثمر ین : ٹھیک ہے . پِھر آپ کو ہر طرح کی بے شرم گفتگو کی اِجازَت ہے .

امبرین : ( ثمر ین سے ) اور اِس بے شرمی کی گفتگو سے تمہارے دِل میں ہلچل نہیں مچے گی ؟

ثمر ین : ( امبرین سے ) صبر کرو یار . پہلے بات طے تو ہو لینے دو . یہ مذاق بَعْد میں بھی ہوتا رہے گا .

میں : اس کی بات پہ تھوڑی بہت توجہ تو دو یار . ہو سکتا ہے اس کی بات میں تھوڑا بہت وزن ہو .

ثمر ین : ( مسکراتے ہوئے ) آپ مجھے اِس سے زیادہ نہیں جان سکتے بھائی . ہم دونوں ایک دوسری کا عکس ہیں . اسے بھی پتا ہے کہ اِس کی بات میں کوئی وزن نہیں . اور مجھے بھی پتا ہے کہ اِس نے مذاق میں ہی یہ بات کی ہے . اِس لیے فضول بحث میں پڑے بغیر ہمارے درمیان جو بات طے ہو رہی تھی اسے مکمل کر لیتے ہیں .

میں : اب اِس میں کونسی بات طے ہونی رہ گئی ہے یار . سب کچھ طے ہو تو چکا ہے .

امبرین : نہیں . ابھی آپ کو یہ وعدہ بھی کرنا ہے کہ آپ مہرین آپی اور نورین آپی کو کچھ نہیں بتائیں گے . نا یہ کہ ہمارے درمیان کیا طے ہوا ہے اور نا یہ کہ خیر سے بچیاں جوان ہو گئی ہیں .

میں : ٹھیک ہے وعدہ . لیکن ان کے ساتھ وقت گزا رنے کی اِجازَت تو ہے نا ؟ میرا مطلب . . .

ثمر ین : ہاں ہاں پتا ہے کیا مطلب ہے آپ کا . آپ اپنا مطلب کل سے پُورا کر لیا کرنا . آج کی رات ہمارے نام ہے .

اور آئندہ بھی ہفتے میں 3 راتیں آپ ہمارے ساتھ ہی گذاریں گے . اور وہ بھی ان دونوں کو بتائے بنا .

میں : یعنی انہیں بتائے بغیر میں تم دونوں کے کمرے میں راتیں گزاروں گا ؟ اور اِس دوران اگر ان میں سے کسی نے میرے کمرے کا چکر لگا لیا تو ؟

ثمر ین : ( امبرین سے ) یار میں تو سمجھی تھی کہ خوبصورت لڑکیوں کے سامنے لڑکوں کی عقل ہمیشہ گھاس چرنے چلی جاتی ہے . مگر یہ لڑکا تو خاصا عقل مند ہے .

امبرین : ( ثمر ین سے ) لڑکا اِس وقت اپنی تعریف سن کے خوش بھی ہو رہا ہے . ایویں خوامخواہ تعریفیں نا کیے جاؤ

ثمر ین : اچھا ٹھیک ہے شرط میں نے صرف آپ کو آزمانے کے لیے رکھی تھی . ورنہ ہماری طرف سے ایسی کوئی پابندی نہیں . آپ ان دونوں کو بس اتنا بتا سکتے ہیں کہ آپ رات کو ہم دونوں کے کمرے میں سوئیں گے .

میں : یہ بات مانی جا سکتی ہے . ٹھیک ہے اب تو سب کچھ طے ہو گیا . اب میں مہرین آپی اور نورین آپی سے جا کے پوچھ

سکتا ہوں کہ وہ دونوں ابھی تک اٹھی کیوں نہیں اور ناشتہ کیوں نہیں کیا ؟

امبرین : وہ دونوں صبح سب کے اٹھنے سے پہلے ناشتہ کر کے سوئی تھیں اور ہمیں منع کر کے سوئی تھیں کہ دوپہر کے کھانے سے پہلے نا اٹھایا جائے . اِس لیے آپ بھاگ نکلنے کا کوئی اور بہانہ تلاش کریں .

میں : کون پاگل دو دو حسیناؤں کو چھوڑ کے بھاگنا چاہتا ہے . بس یہ سوچ کے پریشان تھا کہ کہیں دونوں میں سے کوئی جاگنے کے بَعْد مجھے نا ڈھونڈ رہی ہوں .

ثمر ین : ہم یہاں آنے سے پہلے دونوں کے کمروں میں جھانک چکی ہیں . یہ الگ بات ہے کہ آپ کو ہی دیکھنے گئی تھیں ویسے وہ دونوں اپنے اپنے کمروں میں ہی ہیں اور سو رہی ہیں .

میں : یعنی اب میں اطمینان سے دو دو بچیاں پھنسانے کی کوشش کر سکتا ہوں . کوئی مداخلت نہیں کرے گا .

ثمر ین : زبانی کلامی تو میں آپ سے پھنسنے کو تیار ہوں . میری بجائے آپ امبرین کو پھنسانے کی کوشش کریں .

امبرین : ( ثمر ین سے ) جب تم ہی پھنس رہی ہو تو میں کیوں نخرے دکھاؤں ؟ میں بھی تیار ہوں .

میں : یار تھوڑی بہت تو کوشش کرنے دو . تم دونوں تو پھنسنے پہ تلی بیٹھی ہو .

ثمر ین : یہ زبانی کلامی پھنسنا بھی کوئی پھنسنا ہے ؟ آپ ہمیں سچ مچ پھنسانے کی کوشش کریں . کیا پتا کبھی نا کبھی ہم بھی آپ سے سچ مچ ہی پھنس جائیں .

میں : یعنی اِس بات کا امکان بھی ہے ؟

امبرین : ابھی نہیں ہے تو کیا ہوا ؟ مایوس ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟ کبھی تو امکان ہو گا . کبھی تو ہمارا موڈ بدلے گا ؟

میں : بس تو آج سے میری ہر لمحہ یہی کوشش ہو گی کہ کسی طرح تم دونوں کا بھی موڈ بنا دوں .

ثمر ین : ( ہنستے ہوئے ) کوشش جاری رکھیں . کیا پتا کب کامیابی مل جائے .

میں : ھائے کب وہ دن آئے گا . جب دونوں کم سن حسینائیں میری بانہوں میں ہوں گی .

امبرین : یہ ذیادتی ہے بھائی . ہم نے کئی بار آپ کو گلے لگایا ہے . آپ ہی مزے لینے کے موڈ میں نہیں تھے تو اِس میں ہمارا کیا قصور ہے ؟

میں : پہلے مجھے پتا بھی تو نہیں تھا نا کہ تم دونوں اب جوان ہو گئی ہو .

ثمر ین : ( امبرین سے ) کیا خیال ہے ؟ بچے کو ایک بار اور مزہ لینے کا موقع دینا چاہئیے ؟

امبرین : ( ثمر ین سے ) نہیں یار . رات کو . ابھی ایسا کچھ نہیں کرنا . کسی بھی وقت چھاپہ پڑ سکتا ہے .

ثمر ین : اوہ یہ تو میں بھول ہی گئی تھی . چلیں آپ رات تک صبر کر لیں . مگر کوئی شیطانی نہیں ہو گی .

میں : یار مزے لینا تو انسانی حرکت ہے . شیطانی کیسے ہو گی ؟

امبرین : ( ثمر ین سے ) یہ بچہ تو کچھ زیادہ ہی گلے پڑ رہا ہے .

ثمر ین : ( امبرین سے ) ابھی کہاں گلے پڑ رہا ہے یار . ابھی تو بس بچے کا دِل کر رہا ہے گلے پڑھنے کو .

میں : یہ بچہ اِس وقت بھی گلے پڑ سکتا ہے . اگر آپ دونوں کی اِجازَت ہو تو .

امبرین : آپ سے کہا نا رات کو . ابھی کسی بھی وقت چھاپہ پڑ سکتا ہے . اور ویسے بھی کسی کو پتا نہیں چلنا چاہئیے کہ

بچیاں جوان ہو گئی ہیں

میں : یعنی تم دونوں کا بھی دِل کر رہا ہے بچے کا دِل خوش کرنے کو .

ثمر ین : آپ کی خوشی ہماری خوشی بھائی . یہ بے ضرر سی خوشی تو ہم آپ کو دے ہی سکتی ہیں .

امبرین : ( ثمر ین سے ) یار تم کہیں بچے کو بگاڑ ہی نا دینا . ابھی گلے لگانا تمھیں بے ضرر لگ رہا ہے ، کل کو ہونٹ

چومنا اور جِسَم پہ ہاتھ پھیرنا بھی بے ضرر لگنے لگے گا .

میں : ھائے سچ ؟ ایسا ہو سکتا ہے ؟

ثمر ین : منہ دھو رکھیے .

میں : یعنی منہ دھونے کے بَعْد . . . . ؟

ثمر ین : بھائی . . . آپ نے وعدہ کیا ہے .

میں : اُف . .. یہ وعدہ تو گلے میں پھنسی ھڈی بن گیا ہے . یوں لگتا ہے جیسے من و سلوی سامنے ہے اور میں نے روزہ

رکھا ہوا ہے .

امبرین : ہم نے رات کا وعدہ کیا ہے نا بھائی . رات کو ہم دونوں آپ کے لائے ہوئے ریشمی کپڑے پہن کے آپ سے لپٹ کر سوئیں گی اور ساری رات آپ کے ساتھ ہی رہیں گی .

میں : یہ تو وہ بات ہوئی کہ بچے کے ہاتھ میں لولیپوپ دے کے کہا جائے خبردار اسے چوسنا نہیں .

ثمر ین : آپ کو لولیپوپ ہی چوسنے ہیں تو ان دونوں سے رابطہ کریں . ہمارا ابھی موڈ نہیں بنا .

میں : کب بنے گا تم دونوں کا موڈ ؟

ثمر ین : کوشش جاری رکھیں . وقت کب بَدَل جائے ، کب موڈ بن جائے . کیا پتا .

میں : اچھا چھوڑو . اب کوئی اور بات کرتے ہیں .

امبرین : اور بات کرنے سے پہلے آپ یہ بتائیں . . . آپ نے نورین آپی کو سرخ رنگ کا سوٹ بھی لا کے دیا ہے ؟ وہ صبح وہی پہنے ہوئے تھیں .

میں : یار اب سہاگ رات کو دلہن سرخ جوڑا نہیں پہنے گی تو کیا سفید جوڑا پہنے گی ؟ میں نے تو چاروں کے لیے ایک ساتھ ہی لیے تھے . اب نورین آپی کو جلدی تھی تو اُنہیں پہلے دے دیا . میں بس یہ چاہتا تھا کہ جب بھی تم چاروں میں سے کوئی پہلی بار میرے ساتھ سہاگ رات منائے ، تو سرخ جوڑے میں واقعی خود کو پہلی رات کی دلہن محسوس کرے ثمر ین : ( امبرین سے ) سنبھلو یار . بچہ ہمیں بھی لالچ دے رہا ہے . کہیں ہم لالچ میں ہی بچے کے ساتھ پھنس نا جاھی

امبرین : ( ثمر ین سے ) میں لالچ میں نہیں آ رہی . مجھے متاثر کرنے کے لیے صرف سرخ جوڑا کافی نہیں ہے .

میں : اور کیا کیا لے کے مانو گی یار ؟ مجھے بتا دو . میں آج ہی لے آتا ہوں .

امبرین : آہستہ آہستہ سمجھ جا ئیں گے آپ بھی کہ مجھے کیا چاہئیے . ابھی وقت ہی کتنا گزرا ہے . کوشش جاری رکھیں

ثمر ین : چلیں آپ کا موڈ بدلتے ہیں . میں آپ کو اپنی ایک سہیلی کی شادی کے بَعْد کے تجربات سناتی ہوں . جس کی ابھی کچھ ہی دن پہلے ایک 50 سالہ جوان بڈھے سے شادی ہوئی ہے . ثمر ین کے دلچسپ اندازِ میں بات شروع کرنے پہ میں نے بھی سننا شروع کر دیا اور پِھر ان دونوں کے ساتھ ایسی ہی دلچسپ باتوں میں وقت گزرنے کا پتا ہی نا چلا اور دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا .کھانے پہ مہرین آپی اور نورین آپی بھی امی کے ساتھ موجود تھیں . مہرین آپی تو نارمل ہی نظر آ رہی تھیں مگر نورین آپی مجھے دیکھتے ہی کسی ولیمے کی دلہن کی طرح شرمانے لگی تھیں . امی نے پتا نہیں نوٹ ہی نہیں کیا تھا یا پِھر جان بوجھ کے نظر اندازِ کر رہی تھیں ، میں اندازہ نہیں کر پا رہا تھا . وہ بظاہر نورین کی حالت سے انجان ہم سے باتیں کرتے ہوئے کھانے میں مصروف رہیں اور کھانے کے بَعْد حسب معمول صحن میں اپنا دربار لگا لیا .

مجھے امی کا یہ رویہ کچھ عجیب سا لگ رہا تھا . شک سا ہو رہا تھا کہ اُنہیں نورین آپی کی کیفیت سے کچھ نا کچھ تو پتا چل ہی گیا ہے . لیکن اگر اُنہیں پتا چل گیا تھا تو وہ مجھ سے یا نورین آپی سے غصہ تو ظاہر کرتیں . وہ تو اُنہیں شرماتے ہوئے دیکھ کے بھی انجان بنی رہی تھیں . کھانے کی ٹیبل سے اٹھ کے ہم پانچوں میرے کمرے میں آ گئے . ثمر ین اور امبرین تو بلا تکلف میرے پلنگ پہ میرے ساتھ جڑ کے بیٹھ گئی تھیں جب کہ مہرین آپی اور نورین آپی نے صوفے پہ نشست جما لی تھی .

میں : ( مہرین آپی سے ) آپی آپ نے امی کا اندازِ نوٹ کیا ؟ مجھے لگتا ہے وہ جان بوجھ کے نورین آپی کی کیفیت نظر اندازِ کر رہی تھیں .

مہرین آپی : اُنہیں پتا چل گیا ہے سنی . . . صبح جب ہم دونوں ناشتہ کرنے اٹھی تھیں تو ہم دونوں نے ہی رات والے کپڑے تبدیل نہیں کیے ہوئے تھے . امی وہاں پہلے سے ہی موجود تھیں اور اطمینان سے بیٹھی چائے پی رہی تھیں . ہم دونوں تو اُنہیں دیکھ کے گھبرا گئی تھیں مگر انہوں ہمیں نا ڈانٹا نا برا بھلا کہا . بس اتنا پوچھا کہ یہ کپڑے کس نے لا کے دیئے تھے . میں نے تمہارا نام بتا دیا . میں سوچ رہی تھی کہ اب شاید وہ ڈانٹیں گی مگر وہ نورین کی طرف دیکھ کے مسکرا دیں اور پِھر ہم دونوں سے کہا کہ اپنے بھائی کا خیال رکھا کرو . اب تم چاروں کی خوشیاں اسی سے وابستہ ہیں . بس پِھر وہ اٹھیں اور نورین کے سَر پہ ہاتھ پھیر کے اپنے کمرے میں چلی گئیں .

ثمر ین : ( معصومیت بھرے اندازِ میں ) مگر ریشمی کپڑے پہننے پہ امی کے نا ڈانٹنے سے نورین آپی کے شرمانے کا کیا تعلق ہے ؟ یہ تو یوں شرما رہی ہیں جیسے ولیمے کی دلہن ہوں .

نورین آپی : ( بوكھلا کر) نننن . . . . نا . نہیں تو . . . میں کب شرما رہی ہوں گڑیا .

امبرین : ( نورین آپی کی وضاحت کو نظر اندازِ کرتے ہوئے ) اور یہ امی نے آپ دونوں کو ہی بھائی کا خیال رکھنے کو کیوں کہا ؟ ہم دونوں بھائی کا خیال نہیں رکھ سکتیں ؟ کیوں بھائی . ہم آپ کا خیال رکھتی ہیں نا ؟

میں : ( گھبرا کر ) ہاں ہاں بالکل رکھتی ہو .

مہرین آپی : ( دھیمی آواز میں بڑبڑاتے ہوئے ) اب میں کیسے بتاؤں کہ بھائی کا خیال رکھنے کا کیا مطلب ہے .

مہرین آپی بڑبڑاتے ہوئے بھی اپنی آواز اتنی دھیمی نہیں کر سکی تھیں کہ ثمر ین اور امبرین کے کانوں میں نا پڑے میں نے بھی صاف سن لیا تھا . مگر ہم تینوں نے ہی اِس طرح نظر اندازِ کر دیا جیسے سنا ہی نا ہو .

ثمر ین : ( مہرین آپی سے ) آپی . اب تو امی نے بھی ریشمی کپڑے پہننے کی اِجازَت دے دی ہے . آپ دونوں نے بھی پہن لیے . ہم بھی پہن لیں ؟

اس کے سوال پہ مہرین آپی کے ساتھ ساتھ نورین آپی بھی پریشان سی ہو گئی تھیں . جب کہ میں دِل ہی دِل میں اس کی چالاکی پہ مسکرا دیا تھا . اس نے بڑی چالاکی سے اپنے مطلب کا موضوع چھیڑ دیا تھا .

امبرین : ( نورین آپی سے ) اور نورین آپی ! آپ نے صبح سرخ رنگ کے ریشمی کپڑے پہنے ہوئے تھے . بھائی تو ہم سب کے لیے صرف سبز اور نیلے رنگ کے کپڑے ہی لائے تھے نا ؟ پِھر وہ سرخ جوڑا آپ کے لیے کون لایا ؟

ثمر ین : ( امبرین سے ) ارے اور کون لایا ہو گا . بھائی نے ہی لا کے دیا ہو گا . ان کے علاوہ تو ان دنوں کوئی شہر گیا بھی نہیں .

امبرین : ( ثمر ین سے ) مگر نورین آپی سے ہی یہ خصوصی محبت کیوں ؟ ہم تینوں بھی تو ان کی کچھ لگتی ہیں .

ثمر ین : ( معصومیت بھرے اندازِ میں مجھ سے شکایت کرتے ہوئے ) بھائی آپ نورین آپی کے لیے ہی سرخ جوڑا کیوں لائے . ہمیں نہیں دینا تھا ، نا سہی ، مہرین آپی کو ہی لا دیتے .

میں : ( مہرین آپی سے ) آپ کو چاہئے آپی ؟ لا دوں ؟

مہرین آپی : ( گھبرا کر ) ابھی جاؤ گے ؟

ثمر ین : اِس کا مطلب آپی کو چاہئے . آپ لا دیں بھائی . آخر یہ بھی تو آپ کی بہن ہیں . نورین آپی کوئی زیادہ سگی تو نہیں ہیں جو ان سے اتنی محبت جتائی ہے آپ نے ؟

ثمر ین کی اِس بات پہ مہرین آپی تو گھبرائی ہی تھیں ، نورین آپی بھی گھبرا گئیں اور ٹٹولتی ہوئی نظروں سے ان دونوں کی طرف دیکھنے لگیں کہ کہیں ان دونوں کو کچھ پتا تو نہیں چل گیا اور یہ دونوں اُنہیں چھیڑ تو نہیں رہیں .

امبرین : ہاں بھائی . اب تو امی نے بھی اِجازَت دے دی ہے . اور پِھر مہرین آپی کا بھی دِل کر رہا ہو گا نا . آپ ابھی جا کے ان کے لیے بھی سرخ ریشمی جوڑا لا دیں .

مہرین آپی : نن . . . . . . . نہیں سنی . . . . ابھی یہ تکلیف مت اٹھاؤ . جب دوبارہ چکر لگے گا تو لے آنا .

ثمر ین : کیسی تکلیف آپی . گھر میں جیپ موجود ہے . ڈرائیونگ انہیں آتی ہے . آرام سے شہر جا کے لے آئیں گے .

میں : آپ ایسے ہی تکلف کر رہی ہیں آپی . میں آپ کے لیے بھی لایا تھا . دیا اِس لیے نہیں کہ جب آپ کا دِل چاھے گا تب دوں گا . آپ بیٹھیں میں ابھی الماری سے نکال دیتا ہوں .

میں اٹھ کے الماری کی طرف بڑھا تو وہ دونوں شیطان کی خالائیں بھی ساتھ ہی اٹھ کے میرے پیچھے آ گئیں اور جب میں نے اس اِسْپیشَل پیکٹ سے مہرین آپی کے لیے سوٹ نکال لیا تو شوپر مجھ سے ثمر ین نے جھپٹ لیا .

ثمر ین : یہ کیا . آپ ان دونوں کے لیے دو دو سرخ جوڑے لائے ہیں ؟ ہمارے لیے بھی کوئی نیلا پیلا جوڑا اور لے آتے

میں : تم دونوں یہی رکھ لو . بَعْد میں دوسرے رنگ بھی لا دوں گا .

امبرین : نا بابا نا . انہیں پہن کے تو خوامخواہ اپنا آپ دلہن سا لگنے لگے گا . ہمیں نہیں پہننے یہ کپڑے .

میں : ( انسسٹ کرتے ہوئے ) رکھ لو گڑیا . جب دِل کرے پہن لینا .

ثمر ین : ( امبرین سے ) پہننا نا پہننا بَعْد کا مسئلہ ہے امبرین . بھائی اتنا اصرار کر رہے ہیں تو لے لیتے ہیں . کہیں انہیں برا نا لگے . امی نے کہا ہے نا ان کا خیال رکھنا ہے ، انہیں خوش رکھنا ہے . انکار مت کرو .

مہرین آپی : ( گھبراتے ہوئے ) سنی . . . یہ ابھی بچیاں ہیں . یہ کیا کر رہے ہو ؟

میں : کوئی بات نہیں آپی یہ کون سا ابھی پہننے لگی ہیں .

ثمر ین : ( مہرین آپی سے ) آپی ہم نے تو بھائی کے اصرار کرنے پہ لیے ہیں . آپ کو چاہیے تو آپ رکھ لیں . ہم نے کونسا پہننے ہیں .

مہرین آپی : ( بوكھلا کر ) نن . . . نہیں . . . مجھے اور نہیں چاہئے . رکھ لو .

ثمر ین : شکریہ آپی ، شکریہ بھائی

وہ پیکٹ ھاتھوں میں لیے واپس پلنگ پہ جا بیٹھیں . امبرین بھی اس کے ساتھ تھی . میں نے الماری بند کی اور دوبارہ ان دونوں کے درمیان پلنگ پہ بیٹھ گیا .

امبرین : ( نورین آپی سے ) نورین آپی ! آپ ناراض ہو گئی ہیں نا ہم سے ؟ شاید سرخ جوڑے والی بات آپ کو بری لگی ہے . بس ایک بار معاف کر دیں . آئندہ ایسی بات کروں تو جو چاھے سزا دے لیجیے گا .

نورین آپی : نن . نا . . نہیں گڑیا . میں ناراض نہیں ہوں .

امبرین : ( خوشی سے چلا کر ) سچ آپی ؟ ھائے آپ کتنی اچھی ہیں . ( شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے ) میں پتا نہیں کیوں آپ سے بدگمان ہو گئی اِس کمبخت سرخ جوڑے والی بات پہ . مجھے کیا پتا تھا بھائی سب کے لیے لائے ہیں .

ثمر ین : مجھے بھی معاف کر دیں آپی . کہا تو میں نے کچھ نہیں مگر سوچا وہی تھا جو اِس نے کہا .

نورین آپی : ( مسکراتے ہوئے ) میں واقعی ناراض نہیں ہوں گڑیا . تم دونوں نے جو بھی کہا ، آپی کی محبت میں کہا . پِھر میں بھلا کیوں ناراض ہوتی .

مہرین آپی : ( شرمائے ہوئے اندازِ میں سَر جھکا کر ) سنی . . . اب تو امی نے بھی اِجازَت دے دی ہے . اگر تم چاہو تو . . . .

مہرین آپی کی ادھوری بات کا مفہوم سمجھنا میرے لیے تو مشکل نہیں تھا . ظاہر ہے نورین آپی بھی سمجھ گئی تھیں . مگر ان دونوں کو شاید یہ پتا نہیں تھا کہ ثمر ین اور امبرین بھی اچھی طرح سب سمجھ رہی ہیں .

میں : ( آپی کی آفر پہ خوش ہوتے ہوئے ) جی . . جی آپی . . جیسے آپ کی خوشی . .

میری پر شوق نظریں مہرین آپی پہ جمی دیکھ کے ثمر ین نے مجھے کہنی ما ر کے متوجہ کیا تو شرمندہ سا ہو کے میں نے ان سے اپنی نظریں ہٹا لیں .

مہرین آپی : ( ثمر ین اور امبرین کے متوجہ ہونے سے انجان دھیمی آواز میں ) تو پِھر آج رات کو . . . .

میں : ( ثمر ین اور امبرین کی گھورتی نگاہوں سے گھبرا کر ) نن . . . نہیں آپی . . . آج نہیں . آج تو میں نے ثمرین اور امبرین سے وعدہ کر رکھا ہے کہ ساری رات انہیں فلموں کی کہانیاں سناؤں گا اور انہی کے کمرے میں سوؤں گا .

مہرین آپی : ( ثمر ین اور امبرین کے لیے پریشان ہو کر ) نہیں سنی . . . یہ دونوں ابھی بچیاں ہیں . ان کے ساتھ نہیں . . .

امبرین : ( مہرین آپی سے ) بچیاں ہیں تو کیا ہوا ؟ کہانیاں سننے کا شوق بچوں کو ہی ہوتا ہے

.

ر ین : ( جھنجھلا کر ) آخر آپ کو ہمارے بچیاں ہونے سے کیا پریشانی ہے آپی ؟ اگر کہانیاں ڈراؤنی ہوں گی تو بھائی ہمیں نہیں سنائیں گے . ہم نے ان سے ڈراؤنی کہانیوں کی فرمائش نہیں کی ہے .

امبرین : آپی آپ کا اگر کوئی اور پروگرام ہے تو ہم کل کہانیاں سن لیں گی . آپ بھائی سے ناراض نا ہوں .

میں : نہیں گڑیا . وعدہ تو وعدہ ہے . آج رات میں تم دونوں کے ساتھ ہی گزاروں گا .

نورین آپی : ( مجھ سے منت کرتے ہوئے ) خدا کے لیے نہیں سنی . . یہ دونوں بچیاں ہیں . . . . ان کے ساتھ نہیں . ثمر ین : آخر مسئلہ کیا ہے ؟ آپ دونوں کو اگر لگتا ہے کہ ہمارا اکیلے میں بھائی سے کہانیاں سننا مناسب نہیں ہے تو آپ دونوں بھی رات کو ہمارے کمرے میں ہی آ جائیے گا . وہاں سونے کے لیے جگہ کی بھی کمی نہیں ہے . ہم پانچوں فرش پہ ہی بستر لگا لیں گے .

مہرین آپی : ( بے یقینی سے مجھے دیکھتے ہوئے ) کیا واقعی صرف کہانیاں سنانے کا ہی پروگرام ہے ؟

میں : بہت افسوس کی بات ہے آپی . آپ دونوں سے کیا میں نے کوئی زبردستی کی تھی جو ان کے ساتھ کروں گا ؟

ثمر ین : اب یہ زبردستی والی بات کہاں سے آ گئی درمیان میں ؟ آخر آپ لوگ پہیلیوں میں کیوں بات کر رہے ہیں ؟

میں : ( خراب موڈ میں ) ان دونوں سے ہی پوچھ لو . مجھے نہیں پتا .

امبرین : آپی آپ بھائی پہ کس بات کا شک کر رہی ہیں ؟ کیا کیا ہے انہوں نے آپ دونوں کے ساتھ جو آپ نہیں چاہتیں کہ یہ ہمارے ساتھ کریں ؟

امبرین نے معصومانہ اندازِ میں یہ سوال کرتے ہوئے یقینا ان دونوں کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا تھا . دونوں ہی بوكھلا کے ایک دوسری کو دیکھ کے نظر جھکا گئی تھیں . جواب دونوں ہی نا دے پائی تھیں .

میں : ان دونوں کی باتوں سے بد دل ہونے کی ضرورت نہیں گڑیا . میں نے وعدہ کیا ہے تو نبھاؤں گا .

مہرین آپی : سنی . . . ہمیں اور شرمندہ نا کرو . غلط فہمی ہو ہی جاتی ہے . . .

میں : آپی یہ غلط فہمی نہیں تھی . . . . آپ مجھ پہ سیدھا سیدھا الزام لگا رہی تھیں کہ میں ان دونوں کی معصومیت سے فائدہ اٹھاؤں گا . ان کو بہلا پھسلا کر یا پِھر زبردستی . . . . . آخر آپ نے یہ سب سوچا بھی کیسے ؟

مہرین آپی : بس ہو گئی نا غلطی . . اب معاف کر دو . . .

ثمر ین : آخر یہ ہو کیا رہا ہے ؟ بھائی آپ بتائیں نا ان دونوں کو آپ پہ کس بات کا شک ہے ؟ آخر آپ نے ان کے ساتھ ایسا کیا کیا ہے جو یہ اتنا ڈر گئی ہیں اور ہمارے ساتھ وہ نہیں ہونے دینا چاہتیں .

نورین آپی : ہم نے واقعی تمہارے ساتھ ذیادتی کی ہے سنی . جو کام کل ھونا ہے ، وہ آج ہی ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے . ہمیں ایسی بات نہیں کرنی چاہئے تھی . معاف کر دو .

امبرین : ( ثمر ین سے ) چلو یار . . . اپنے کمرے میں چلیں . ان تینوں کی شاید طبیعت ٹھیک نہیں ہے . یہ الجھی ہوئی باتیں یہ تینوں شاید ہمیں یہاں سے بھگانے کے لیے ہی کر رہے ہیں .

ثمر ین : نہیں امبرین . کوئی بات ہے ضرور جو ہم سے چھپائی جا رہی ہے . وہ بھی شاید اِس لیے کہ ہَم ابھی بچیاں ہیں ثمر ین کی اِس بات پہ جہاں مہرین آپی اور نورین آپی کے سَر شرمندگی سے جھک گئے تھے ، وہاں مجھے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہو رہا تھا . کمبخت دونوں اتنی ڈرامے باز تھیں کہ پتا ہی نہیں چلنے دے رہی تھیں کہ انہیں سب پتا ہے .

میں : فضول باتوں میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں . ان دونوں کو جو بھی وہم ہوا تھا وہ دور ہو گیا ہے . اب کوئی مسئلہ نہیں .

امبرین : ( خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ) مطلب آپ آج رات ہمارے کمرے میں گزا ر سکتے ہیں ؟

میں : ہاں بالکل . میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میں اپنا وعدہ ضرور پُورا کروں گا . بے فکر رہو .

ثمر ین : بھائی آپ کا اگر مہرین آپی اور نورین آپی سے رات کا کوئی پروگرام تھا تو آپ وہ سب ابھی کیوں نہیں کر لیتے ؟ رات کو آپ ہمیں ٹائم دے دینا .

 

مہرین آپی : ( بوکھلاتے ہوئے ) ابھی ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ نہیں . . . . . . سنی . . میں اِس وقت کیسے ؟ ؟

نورین آپی : ( مہرین آپی کی بوکھلاہٹ پہ مسکراتے ہوئے ) کچھ نہیں ہوتا آپی . امی نے کہا تھا نا ، بھائی کا خیال رکھنا ہے . ویسے بھی اب دن رات سے کوئی فرق نہیں پڑتا .

مہرین آپی : ول . . . . . . لیکن . . نورین . . . دن میں ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟

ثمر ین : اب مجھے آپی کی یہ دن رات کی الجھن سمجھ میں نہیں آ رہی . آخر ایسا کونسا کام ہے جو صرف رات کو ہی ہو سکتا ہے ، دن میں نہیں ہو سکتا .

امبرین : ( معصومیت سے ) ویسے سہاگ رات کے بارے میں سنا ہے کہ رات کو ہی ہوتی ہے . . . مگر بھلا آپی کا سہاگ رات سے کیا لینا دینا .

اس کی یہ بات سن کے جہاں مہرین آپی ما ر ے شرمندگی کے رونے والی ہو گئی تھیں وہاں مجھے اپنی ہنسی روکنا دشوار ہو گیا تھا اور میں کھانستے ہوئے اپنی ہنسی چھپانے کی کوشش کر رہا تھا . کمبخت دونوں اتنی معصومیت سے اگلے کی ایسی تیسی کر کے رکھ دیتی تھیں اور پِھر بھی معصوم ہی رہتی تھیں .

مہرین آپی : ( رونے والے اندازِ میں ) سنی . . . تم نے ان دونوں کو کیا بتایا ہے ؟

میں : ( انجان بنتے ہوئے ) کچھ نہیں آپی . کچھ بتانا تھا ؟

مہرین : تو پِھر یہ اِس نے . . . سہاگ رات . . . کا ذکر . . . کیسے کیا ؟

میں : آپی بچیاں ہیں ابھی . آپ دونوں کی الجھی ہوئی باتیں سمجھ نہیں پا رہی تھیں تو جو سمجھ میں آیا بول دیا .

ثمر ین : کیا ہوا آپی ؟ ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ؟ یہ امبرین بھی نا . . بنا سوچے سمجھے کچھ بھی بول دیتی ہے . آپ اِس کی بات کو دِل پہ مت لیں .

میں : آپی آپ اپنے کمرے میں چلیں . . . میں کچھ دیر میں آتا ہوں .

نورین آپی : میں بھی اپنے کمرے میں ہی جاتی ہوں . ان شیطانوں کی زُبان کے آگے تو خندق ہے . جو دِل میں آئے بول دیتی ہیں . اگلا حملہ مجھ پہ بھی ہو سکتا ہے . چلیں آپی .

نورین آپی ، مہرین آپی کا ہاتھ تھا م کے کمرے سے نکل گئیں تو ان کے جانے کے کچھ دیر بَعْد میں نے گہری سانس لیتے ہوئے ثمر ین اور امبرین کی طرف دیکھا اور پِھر ہم تینوں کی ایک ساتھ ہنسی چھوٹ گئی .

میں : پکی شیطان کی خالہ ہو تم دونوں . ارے سیدھا سیدھا سہاگ رات کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اگر ایک اور بات تم دونوں کے منہ سے ایسی اور نکل جاتی تو مہرین آپی تو یہیں رونا شروع کر دیتیں .

ثمر ین : اب ہم معصوم بچیوں کو کیا پتا کہ کب کیا کہنا ہے . معصومیت میں جو سمجھ آیا بول دیا . بات سنبھالنے کے لیے آپ ساتھ ہیں نا .

امبرین : بھائی یہ آپی کو آخر اتنی ایمرجنسی میں سہاگ رات کا شوق کیوں ہو گیا ؟ کہیں نورین آپی کو دیکھ کر تو . . .

میں : اری آفت کی پڑیا یہ بات کہیں ان کے سامنے نا کہہ دینا . وہ پہلے ہی بہت گھبرائی ہوئی ہیں کہ کہیں تم دونوں کو کچھ پتا نا چل گیا ہو .

ثمر ین : آپ بے فکر رہیں بھائی . . . . . ہم اپنی معصومیت کو مشکوک نہیں ہونے دیں گی .

امبرین : بالکل . . . . آپ جا کے آپی کی معصومیت کو مشکوک کیجیے .

میں : ( ہنستے ہوئے ) یار تم ہر بات میں کوئی نا کوئی مذاق کا پہلو کیسے نکال لیتی ہو ؟

امبرین : آپ کا حُسْن نظر ہے جناب . ورنہ بندی کس قابل ہے .

میں : تو پِھر اب میں جاؤں ؟

ثمر ین : امبرین روک لو یار . کہیں بچہ ہاتھ سے نکل نا جائے .

امبرین : اِس بات پہ ایک شعر عرض ہے .

وہ کہیں بھی گیا ، لوٹا تو میرے پاس آیا

بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی

میں : ( اس کے سَر پہ چپت رسید کرتے ہوئے ) شیطان کی خالہ ، باز آ جاؤ .

امبرین فوراً " آ دا ب عرض ہے " کہتی ہوئی تھوڑا سا جھک گئی تو اس کی اِس بات پہ پِھر سے میری ہنسی چھوٹ گئی .

ثمر ین : ( شرارت سے ) آپ جائیے بھائی . دلہن آپ کا انتظار کر رہی ہے .

ثمر ین کی بات پہ میں نے " تم دونوں نہیں سدھرو گی " کہتے ہوئے سَر ہلایا اور کمرے سے نکل آیا . سامنے ہی مہرین آپی کا کمرہ تھا اور یقینا وہ میرا انتظار کر رہی تھیں . . .

لوگ سہاگ رات مناتے ہیں . . . میں آج پہلی بار سہاگ دن منانے والا تھا .

آپی کے کمرے میں داخل ہو کر میں نے کمرے میں ہر طرف تلاش کرتی نظروں سے دیکھا . مگر آپی کہیں نظر نا آئیں پِھر میرا دھیان باتھ روم کی طرف گیا اور میں سمجھ گیا کہ وہ کپڑے تبدیل کر رہی ہوں گی . اور واقعی کچھ دیر بَعْد آپی سرخ ریشمی کپڑوں میں باتھ روم سے نکلیں تو میں انہیں دیکھتا ہی رہ گیا . ان کے لمبے سیاہ سلکی بال کھلے ہوئے تھے اور ان کی کمر پوری طرح ان میں چھپ گئی تھی . قمیض کی فٹنگ والی ڈوریاں آج انہوں نے اِس طرح سے ٹائیٹ کی ہوئی تھیں کہ ان کے بھرے بھرے سیکسی بوبز واضح محسوس ہو رہے تھے اور دِل کی دھڑکنوں میں طوفان اٹھا رہے تھے . اور قریب پہنچنے پہ تو ایک نہایت خوشگوار خوشبو نے مجھے اور بھی مست کر دیا . شاید انہوں نے کوئی پرفیوم لگایا تھا جس کی خوشبو نے ان کے بدن کی خوشبو سے مل کے ایک نئی مہک تخلیق ( کرئیٹ ) کر دی تھی

یرے بالکل پاس پہنچ کے انہوں نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور میری آنكھوں میں اپنے حسن کی

تعریف دیکھ کے اور بھی کھل اٹھیں . ان کا چہرہ شرم سے سرخ ہو رہا تھا اور پلکیں بار بار جھک جاتی تھیں . ہونٹ بار بار کچھ کہنے کے لیے کھلتے اور پِھر شرم سے بنا کچھ کہے بند ہو جاتے . میں بھی بس پاس کھڑا اُنہیں پیار بھری نظروں سے دیکھتا ہی جا رہا تھا . دیکھنے سے ہی دِل نہیں بھر رہا تھا ، اور کچھ کرنے کا سوچتا کیسے ؟ آخر آپی نے بات کرنے کی ہمت کی .

آپی : بس دیکھتے ہی رہو گے ؟ کچھ کرو گے نہیں ؟

میں : دیکھنے سے دِل بھرے کو تو کچھ اور کروں گا نا .

آپی : دیکھنے کا موقع پِھر مل جائے گا سنی . سب کے سامنے بھی دیکھ سکتے ہو . تنہائی میں وہ کرو جو دوسروں كے سامنے نہیں کر سکتے .

میں : آپ کو جلدی کیا ہے آخر ؟ مجھے جی بھر کے اپنی دلہن دیکھنے تو دیں .

آپی نے مجھے مزید وقت ضایع کرنے کے موڈ میں دیکھ کے جھنجھلا کر پلنگ پہ دھکا دے دیا . سہارا لینے کے لیے مجھے اور تو کچھ ملا نہیں ، میرے ہاتھ میں آپی کا ہاتھ ہی آ گیا جسے میں نے مضبوطی سے پکڑ لیا . نتیجہ ظاہر ہے . میرے گرتے ہی وہ بھی میرے اوپر آ گریں اور ساتھ ہی ان کی چیخ بھی نکل گئی . ( جیسا کہ عام طور پہ لڑکیوں کی عادت ہوتی ہے ) .

میں : ( ان کے چیخنے سے گھبرا کر ) کیا کر رہی ہیں . کسی نے سن لیا تو ؟

آپی : وہ . . . میں ذہنی طور پہ تیار نہیں تھی . . . غلطی ہو گئی . . .

میں : اب تو ایسی کوئی غلطی نہیں کریں گی ؟

آپی : دِل تو بہت چاہتا ہے . . . مگر چلو معاف کیا .

میں : ویسے ایک بات تو بتائیں . آپ کے ہونٹ اتنے نشیلے کیسے ہیں ؟

آپی : صرف ہونٹ ہی نشیلے ہیں ؟ اور کچھ نہیں ؟

میں : آزماؤں گا تو پتا چلے گا نا .

آپی : تو آزما لو نا . کب تک ترساتے رہو گے ؟

میں : مگر آپ تو صرف ہونٹ چومنے تک ہی محدود رہنا چاہتی تھیں . اب کیا ہو گیا ؟

آپی : میں ڈرتی تھی سنی . . . . کہیں دوسروں کو پتا چل گیا تو . . . کہیں کچھ کرتے ہوئے کوئی بے احتیاطی ہو گئی تو . . . میں دراصل . . . تم سمجھ رہے ہو نا ؟

میں : جی میں سمجھ رہا ہوں . مگر یہ نہیں سمجھ رہا کہ اب آپ کا ڈر کیوں اتر گیا ؟

آپی : نورین نے بتایا تھا کہ تمھیں خود پہ بہت کنٹرول ہے . تم کچھ غلط نہیں ہونے دو گے .

میں : اور اگر میرا دِل کرے کچھ غلط کرنے کو تو ؟ ؟

آپی : ڈراؤ مت سنی . . . جب بھی سوچتی ہوں کہ ایسا ہو گیا تو . . ڈر کے مر ے جان نکلنے لگتی ہے .

میں : ٹھیک ہے وعدہ . اب نہیں ڈراؤں گا . اب منہ میٹھا کر دیں تو اپنے سہاگ دن کی شروعات کچھ میٹھی ہو جائے .

میری بات پہ پہلے تو آپی کچھ شرمائیں . پِھر ہمت کر کے تھوڑا سا اوپر ہوتے ہوئے میرے ہونٹوں سے ہونٹ لگا دیئے . پِھر وہی ہوا جو اب سے پہلے ہوتا رہا تھا ، یعنی میں ان کے ہونٹوں کو چومتے ہوئے نشے کی سی کیفیت میں مست ہوتا گیا . اور پِھر میرے ہاتھ بھی خود ہی ان کی کمر پہ پھسلنے لگے . . . پہلے تو کچھ دیر میں مدھوش سا لیٹا ان کی کمر پہ ہاتھ پھیرتا رہا ، پِھر ان کی برا کا ہُک میری انگلیوں سے ٹکرایا تو میں نے دیوانگی کی سی کیفیت میں دونوں ھاتھوں کو اسی کام پہ لگا دیا اور کچھ ہی دیر بَعْد ان کے برا کا ہوک کھل چکا تھا جو میرے ھاتھوں سے نکل کے زوردار آواز نکا لتا ہوا آپی کی کمر کی سائڈپہ لگا . اسی لمحے آپی کی ایک بار پِھر چیخ نکل گئی .

میں : اب کیا ہو گیا ؟ تھوڑا برداشت بھی کر لیا کریں .

آپی : ( ہلکا سا کراہتے ہوئے ) ہُک کھول کے چھوڑ کیوں دیا ؟ اتنی زور سے لگا ہے . اب تک دَرْد ہو رہی ہے .

میں : مجھے کیا پتا تھا کیسے اتا رتے ہیں . نورین آپی نے تو رات کو پہنا ہی نہیں تھا .

آپی : تم چاھے سارے کپڑے اتار لو . مگر ایسے نا کرو . انسان ہوں آخر . مجھے بھی دَرْد ہو سکتا ہے .

میں : اتنے سے دَرْد سے آپ کی چیخیں نکل رہی ہیں . جب وہ دَرْد ہو گا تو آپ کا کیا حال ہو گا ؟

آپی : بتا کے کرنا نا . میں خود کو ذہنی طور پہ تیار کر لوں گی . اب تو دونوں بار مجھے کچھ پتا ہی نہیں تھا کہ تم کرنے کیا لگے ہو .

میں : یعنی آپ سے گندی گندی باتیں کرنی پڑیں گی ؟ میں اتنا بے شرم نہیں ہوں آپی .

آپی : اچھا مجھے تیار ہونے کو تو کہہ سکتے ہو نا .

میں : ہاں . . . وہ تو کہہ سکتا ہوں . ( پِھر کچھ یاد آنے پر ) ویسے یاد آیا . آپ نے کہا تھا چاھے سارے کپڑے اتار لو .

آپی : ( شرما کر ) تو کیا سچ مچ اتارو گے ؟

میں : نہیں اگر آپ نہیں چاہیں گی تو نہیں اُتاروں گا .

آپی : اگر سارے کپڑے اتا رنے ہیں تو باتھ روم میں چلتے ہیں .

میں : یعنی وہاں آپ سارے کپڑے اتار دیں گی ؟

آپی : تم اتارو گے . میں اتنی بے شرم نہیں ہوں .

میں : تو پِھر یہیں اتار لینے دیں نا آپی . . . ابھی آپ کو چھوڑنے کو دِل نہیں کر رہا .

آپی : تو چھوڑنے کو کہا کس نے ہے . میں نے تو بس . . . . .

میں : آپ گھبرائیں نہیں آپی . . . . میں صرف شلوار اُتاروں گا .

آپی : ابھی ؟ ؟ ؟ اتنی جلدی ؟ ؟ ؟ ؟

میں : دیر کرنے پہ بھی تو آپ کو اعتراض ہے ، جلدی کرنے پہ بھی اعتراض ہے . کروں تو کیا کروں ؟

آپی : اچھا چلو اُتار لو . سائڈ ٹیبل پہ تیل کی شیشی رکھی ہے .

آپی کے بتانے پہ میں مسکرا دیا . نورین آپی کی طرح اِنھوں نے بھی پہلے سے انتظام کر رکھا تھا .

میں : اب شلوار اتا رنے پہ چیخیں گی تو نہیں ؟

آپی : نہیں . . . تم . . . . جو کرنا ہے کرو .

میں نے ہنستے ہوئے پہلے اپنی اور پِھر آپی کی شلوار اتاری اور پِھر خود پلنگ سے نیچے اتر کے آپی کی ٹانگیں اپنے دائیں بائیں سے گزرتے ہوئے اپنے بازو ان کی ٹانگوں کے نیچے سے گزار کے ہاتھ پلنگ پہ رکھ لیے . اِس طرح ان کی ٹانگیں میرے بازوؤں کے اوپر ہونے کی وجہ سے اوپر اٹھ گئیں اور چوت کے لیے رستہ بن گیا . چوت پہ ایک بھی بال نہیں تھا . شاید آپی نے صبح اٹھ کے سب سے پہلے یہ بال ہی صاف کیے تھے اور اب یہ انچھوئی کلی ، پھول بننے کی تڑپ لیے میرے بھنورے کو اپنی طرف بلا رہی تھی . پِھر مجھے خیال آیا کہ تیل تو لگایا ہی نہیں . میں نے ان کی ٹانگیں دوبارہ نیچے لٹکا کے سائڈ ٹیبل سے تیل کی شیشی اٹھائی اور تھوڑا سا تیل نکال کے اپنے لن پہ ملا اور ڈھکن بند کر کے شیشی دوبارہ سائڈ ٹیبل پہ رکھ دی . اب اپنی طرف سے میں تیار تھا . ایک بار پِھر میں نے وہی پوزیشن لی . یعنی اپنے بازو ان کی ٹانگوں کے نیچے سے گزارتے ہوئے ہاتھ پلنگ پہ رکھ لیے اور پِھر اُنہیں تیار ہونے کا اشارہ کیا تو انہوں نے سَر ہلا دیا گویا وہ تیار تھیں .

میں نے پوزیشن لیتے ہوئے لن ان کی چوت پہ ایڈجسٹ کیا اور پِھر ہلکا سا دھکا لگایا تو صرف ٹوپی ہی اندر جا سکی . آپی نے پِھر ہلکی سی چیخ ما ر ی تو میں نے اُنہیں گھور کے دیکھا . میرے گھورنے پہ ان کے چہرے پہ ایک بار پِھر معذرت کے تاثرات نظر آنے لگے . میں نے پِھر دھکا لگایا مگر لن تقریباً ایک انچ ہی مزید اندر جا سکا . ان کی چوت نورین آپی کی چوت سے زیادہ تنگ تھی . میں بڑی مشکل سے لن اندر روکے ہوئے تھا ورنہ باہر نکل آتا . اچانک مجھے کچھ خیال آیا

میں : آپ نے ٹائیٹ تو نہیں کر لیا ؟

آپی : ہاں . . وہ دَرْد بہت ہو رہی تھی تو . . .

میں : اِس طرح زیادہ دَرْد ہو گی . ڈھیلا چھوڑ دیں . کچھ دیر دَرْد سہنا پڑے گا . پِھر کبھی دَرْد نہیں ہو گا .

آپی : سچ کہہ رہے ہو . ایک بار ہی دَرْد ہو گا نا ؟

میں : جی . . . اب ڈھیلا چھوڑیں . ورنہ میں نکالنے لگا ہوں .

آپی : نن . . . نہیں . میں ڈھیلا کر رہی ہوں . نکالنا نہیں .

انہوں نے چوت کو ڈھیلا کیا تو لن جو میرے زور دینے پہ مشکل سے اندر رکا ہوا تھا ، تھوڑا سا مزید اندر چلا گیا . اِس سے آگے مجھے وہ جھلی محسوس ہوئی جو یقینا ان کے کنوارپن کا پردہ ( سیل ) تھا . میں نے تھوڑا سا لن باہر کھینچ کے دوبارہ زور سے دھکا لگایا تو لن سیل توڑتا ہوا مزید اندر چلا گیا . اِس بار آپی نے اپنی چیخ روکنے کے لیے اپنا ہاتھ اپنے منہ پہ رکھ لیا تھا اِس لیے آواز نہیں نکلی . بہر حال تکلیف ان کی آنكھوں اور کانپتے ہوئے جِسَم سے ظاہر ہو رہی تھی . اب میرا ہالف سے کچھ زیادہ لن اندر تھا . میں نے کچھ دیر كے لیے رکے رہنا مناسب سمجھا اور ان کی ٹانگیں چھوڑ کے ان کے اوپر لیٹ گیا . میرے ہاتھ اب ان کے بوبز پہ تھے اور ہونٹ ان کے ہونٹوں پہ تھے . میں نے پہلے انہیں ہلکا سا کس کیا اور پِھر پیار سے ان کے ہونٹ چوسنے لگا . ساتھ ساتھ نیچے سے اپنے دونوں ھاتھوں سے ان کے بوبز بھی دبا رہا تھا جس سے ان کا دھیان بھی تکلیف سے ہٹ کے مزے کی طرف ہو گیا . کافی دیر تک میں یوں ہی ان کے ہونٹ چوستا اور بوبز دباتا رہا . پِھر نیچے سے لن کو مزید آگے بڑھانا شروع کر دیا . اب آگے کوئی رکاوٹ تو نہیں تھی مگر چوت اتنی ٹائیٹ تھی کہ مزید آگے کرنے کے لیے زیادہ زور لگانا پڑ رہا تھا . ویسے آپی کو اب زیادہ دَرْد نہیں ہو رہا تھا . بس چوت ٹائیٹ ہونے کی وجہ سے لن اندر جانے سے تھوڑی تکلیف ہوتی تھی جسے وہ شاید ہونٹ چوسنے اور بوبز دبانے کے مزے کی وجہ سے برداشت کر رہی تھیں . میں نے اپنا کام جاری رکھا ، ہونٹ چوستے اور بوبز دباتے ہوئے لن برابر آگے بڑھائے جا رہا تھا . آخر کافی دیر بَعْد لن ان کی چوت کی آخری حد تک پہنچ ہی گیا . اور اتفاق کی بات یہ کہ میرا لن پُورا ان کی چوت میں تھا . یعنی ان کی چوت میں بھی میرا لن بالکل فٹ آیا تھا . . . پرفیکٹ فٹ .

میں دِل ہی دِل میں ہنس دیا . کیا میری بہنوں کی پھدیاں میرے لن کے لیے ہی بنائی گئیں ہیں . اب تک دو بہنوں سے سیکس کیا تھا اور دونوں کی چوت میں میرا لن بالکل فٹ آیا تھا .

میں : ( اپنے ہونٹ آپی کے ہونٹوں سے الگ کرتے ہوئے ) اب تو دَرْد نہیں ہو رہا آپی ؟

آپی : نہیں . . . اب زیادہ دَرْد نہیں ہو رہا . مگر جب تک یہ اندر ہے . . . مجھے تنگ تو کرتا رہے گا . بڑی مشکل سے جھیل رہی ہوں اسے .

میں : ( ہنستے ہوئے ) ابھی پہلی بار ہے آپی . اور ویسے بھی آپ کی . . . . اندر سے بہت ٹائیٹ ہے . آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گی . پِھر مسئلہ نہیں ہو گا .

آپی : ویسے دَرْد کے ساتھ ساتھ کچھ کچھ اچھا بھی لگ رہا ہے . اور یہ سوچ کے تو اور بھی اچھا لگ رہا ہے کہ پُورا اندر چلا گیا ہے .

میں : اب آگے پیچھے کروں ؟ آپ تیار ہیں ؟

آپی : ٹھیک ہے . لیکن تیز تیز نہیں کرنا .

ان کی طرف سے سگنل ملنے پہ میں نے تھوڑا سا پیچھے کر کے پِھر زور لگا کے آگے کرنا شروع کر دیا . ہر بار جب میں لن باہر کی طرف کھینچتا تو ساتھ ہی آپی بھی تھوڑا سا اوپر کی طرف اٹھ جاتیں جیسے لن کے ساتھ ہی کھنچی جا رہی ہوں اور جب لن اندر کرتا تو وہ بھی نیچے ہو جاتیں اور مجھے بھی زور سے دبوچ لیتیں . ان کی ٹانگیں اب میری کمر کے گرد تھیں اور انہوں نے ٹانگوں سے میری کمر کو زور سے جکڑا ہوا تھا . آہستہ آہستہ میں نے اپنی سپیڈ بڑھانا شروع کر دی . اب بھی لن پھنس پھنس کے اندر باہر ہو رہا تھا مگر اب اتنی گنجائش پیدا ہو گئی تھی ان کی چوت میں ، کہ اب انہیں زیادہ تکلیف نہیں ہو رہی تھی . بس ہلکی ہلکی کراہیں ان کے ہونٹوں سے جاری تھیں جن میں دَرْد سے زیادہ مزہ محسوس ہو رہا تھا . جیسے جیسے میری سپیڈ بڑھتی جا رہی تھی ، ان کے کراہنے کی آوازیں بھی بلند ہونے لگی تھیں ، پِھر اچانک انہوں نے بہت زور زور سے کراھنا شروع کر دیا جیسے چیخ رہی ہوں . یقینا یہ ان کے آرگزم کی نشانی تھی . نورین آپی نے تو خود پہ خاصا قابو رکھا تھا مگر مہرین آپی کو شاید خود پہ بالکل بھی اختیار نہیں رہا تھا . اور پِھر اسی طرح کراہتے ہوئے اچانک ان کے جِسَم کو جھٹکے لگنے لگے . پہلا جھٹکا تو اتنا شدید تھا کہ اگر میں ان کے اوپر نا ہوتا تو وہ اُچھل کے پلنگ سے نیچے جا گرتیں . میں گھبرا کے رک گیا اور ان کے ڈسچارج ہونے کا انتظار کرنے لگا . ڈسچارج ہوتے ہوئے وہ مجھے بہت بری طرح نوچنے لگی تھیں میں نے گھبرا کے ان کے دونوں ہاتھ اپنے ھاتھوں کے نیچے دبا لیے تو انہوں نے سَر کو ادھر اُدھر پٹخنا شروع کر دیا . ان کی کم مجھے اپنے لن پہ کافی دیر تک گرتی محسوس ہوتی رہی اور پِھر وہ آہستہ آہستہ ریلکس ہوتی گئیں . اور ان کے ریلکس ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی آواز بھی دھیمی ہونے لگی . آخر جب وہ بالکل پرسکون ہو گئیں تو میں نے بھی سکون کا سانس لیا . اب مجھے ایک اور فکر نے پریشان کیا . ان کے بلند آواز میں کراہنے یا دوسرے معنوں میں چیخنے کی آوازیں یقینا کمرے سے باہر بھی پہنچی ہوں گی . پتا نہیں کس کس نے سنی ہوں گی ان کی چیخیں . اب اپنی پوزیشن میں کیسے واضح کر پاؤں گا . سب کہیں گے میں نے آپی پہ ظلم کیا . میری بات کا کون یقین کرے گا .

میں : مر وا دیا آپ نے آپی . آخر اتنی بلند آواز میں چیخنے کی کیا ضرورت تھی ؟ سب ہمارے رازدار سہی مگر پِھر بھی اگر کسی نے آپ کی چیخیں سن لی ہوں گی تو میری شامت یقینی ہے . آپ کو سب مظلوم اور مجھے ظالم اور جابر سمجھیں گے .

آپی : معاف کر دو سنی . . . . میں اپنے بس میں نہیں رہی تھی . زندگی میں پہلی بار اتنا مزہ آ رہا تھا کہ خود بخود ہی حلق سے چیخیں نکل رہی تھیں . پتا ہی نہیں چلا کہ میری آوازیں کتنی بلند ہو رہی ہیں .

میں : اب باہر نکال لوں ؟ یا ابھی اور کرنے کا موڈ ہے ؟

آپی : نہیں . . . اب نکال لو . ویسے بھی بہت دیر ہو گئی ہے .

میں نے دھیرے دھیرے لن باہر نکالا تو آپی نے جلدی سے سائڈ ٹیبل کی دراز سے ٹشو نکال کے مجھے پکڑا دیا . میں نے جلدی سے لن صاف کیا اور پِھر باتْھ روم میں جا کے ریلیز ہو گیا . وہاں سے فارغ ہو کے لن کو دھو کے واپس آیا تو آپی اپنے پلنگ کی خون آلود چادر تو اُتار چکی تھیں مگر شلوار ابھی تک نہیں پہنی تھی . میں نے خود ہی ان کی شلوار اٹھا کے ان کی طرف بڑھائی تو انہوں نے شرما کے پکڑ لی اور پہننے لگیں .

میں : ایک بار منہ میٹھا کر دیں آپی . سہاگ دن کا اختتام ( اینڈ ) بھی خوشگوار ہو جائے گا .

آپی نے خود ہی آگے بڑھ کے میرے ہونٹوں کو چوم لیا اور کافی دیر تک اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے چپکائے رکھے پِھر وہ خود ہی الگ ہوئی تو ان کی آنكھوں میں سب کچھ پا لینے کی چمک اور چہرے پہ شرم کے آثار تھے . میں نے آخری پیار بھری نظریں ان پہ ڈالیں اور پِھر ان کے کمرے سے باہر نکل آیا . مگر باہر نکلتے ہی میرے قدم وہیں جم کے رہ گئے . امبرین اور ثمر ین سامنے ہی میرے کمرے کے دروازے میں کھڑی تشویش بھری نظروں سے ادھر ہی دیکھ رہی تھیں . یقینا مہرین آپی کی چیخیں انہوں نے سن لی تھیں . اور میرے خدشات كے عین مطابق شاید یہی سمجھ رہی تھیں کہ میں نے آپی سے زبردستی کی ہے ، ان پہ ظلم کیا ہے .میں ان دونوں کی نظروں میں مہرین آپی کے لیے فکر مندی دیکھ کے سخت گھبرایا ہوا تھا اور ہر حال میں اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہتا تھا . کسی بھی حالت میں مجھے ان کے ماتھے کی ہلکی سی شکن بھی گوارہ نہیں تھی . صباء کے بعد میں نے اگر کسی کو دِل سے دوست سمجھا تھا تو وہ یہ دونوں ہی تھیں . میری چاہت ان دونوں کے لیے بے غرض تھی اور اِس میں ہوس اور لذت نفس کی ملاوٹ نہیں تھی . میرے دِل میں ان کے لیے اتنی چاہت تھی کہ میں اُنہیں ناراض دیکھنے کا تصور بھی نہیں کرنا چاہتاتھا

.

#سلمان کی سٹوری

قسط نمبر7

 

ر ین : ( جھنجھلا کر ) آخر آپ کو ہمارے بچیاں ہونے سے کیا پریشانی ہے آپی ؟ اگر کہانیاں ڈراؤنی ہوں گی تو بھائی ہمیں نہیں سنائیں گے . ہم نے ان سے ڈراؤنی کہانیوں کی فرمائش نہیں کی ہے .

امبرین : آپی آپ کا اگر کوئی اور پروگرام ہے تو ہم کل کہانیاں سن لیں گی . آپ بھائی سے ناراض نا ہوں .

میں : نہیں گڑیا . وعدہ تو وعدہ ہے . آج رات میں تم دونوں کے ساتھ ہی گزاروں گا .

نورین آپی : ( مجھ سے منت کرتے ہوئے ) خدا کے لیے نہیں سنی . . یہ دونوں بچیاں ہیں . . . . ان کے ساتھ نہیں . ثمر ین : آخر مسئلہ کیا ہے ؟ آپ دونوں کو اگر لگتا ہے کہ ہمارا اکیلے میں بھائی سے کہانیاں سننا مناسب نہیں ہے تو آپ دونوں بھی رات کو ہمارے کمرے میں ہی آ جائیے گا . وہاں سونے کے لیے جگہ کی بھی کمی نہیں ہے . ہم پانچوں فرش پہ ہی بستر لگا لیں گے .

مہرین آپی : ( بے یقینی سے مجھے دیکھتے ہوئے ) کیا واقعی صرف کہانیاں سنانے کا ہی پروگرام ہے ؟

میں : بہت افسوس کی بات ہے آپی . آپ دونوں سے کیا میں نے کوئی زبردستی کی تھی جو ان کے ساتھ کروں گا ؟

ثمر ین : اب یہ زبردستی والی بات کہاں سے آ گئی درمیان میں ؟ آخر آپ لوگ پہیلیوں میں کیوں بات کر رہے ہیں ؟

میں : ( خراب موڈ میں ) ان دونوں سے ہی پوچھ لو . مجھے نہیں پتا .

امبرین : آپی آپ بھائی پہ کس بات کا شک کر رہی ہیں ؟ کیا کیا ہے انہوں نے آپ دونوں کے ساتھ جو آپ نہیں چاہتیں کہ یہ ہمارے ساتھ کریں ؟

امبرین نے معصومانہ اندازِ میں یہ سوال کرتے ہوئے یقینا ان دونوں کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا تھا . دونوں ہی بوكھلا کے ایک دوسری کو دیکھ کے نظر جھکا گئی تھیں . جواب دونوں ہی نا دے پائی تھیں .

میں : ان دونوں کی باتوں سے بد دل ہونے کی ضرورت نہیں گڑیا . میں نے وعدہ کیا ہے تو نبھاؤں گا .

مہرین آپی : سنی . . . ہمیں اور شرمندہ نا کرو . غلط فہمی ہو ہی جاتی ہے . . .

میں : آپی یہ غلط فہمی نہیں تھی . . . . آپ مجھ پہ سیدھا سیدھا الزام لگا رہی تھیں کہ میں ان دونوں کی معصومیت سے فائدہ اٹھاؤں گا . ان کو بہلا پھسلا کر یا پِھر زبردستی . . . . . آخر آپ نے یہ سب سوچا بھی کیسے ؟

مہرین آپی : بس ہو گئی نا غلطی . . اب معاف کر دو . . .

ثمر ین : آخر یہ ہو کیا رہا ہے ؟ بھائی آپ بتائیں نا ان دونوں کو آپ پہ کس بات کا شک ہے ؟ آخر آپ نے ان کے ساتھ ایسا کیا کیا ہے جو یہ اتنا ڈر گئی ہیں اور ہمارے ساتھ وہ نہیں ہونے دینا چاہتیں .

نورین آپی : ہم نے واقعی تمہارے ساتھ ذیادتی کی ہے سنی . جو کام کل ھونا ہے ، وہ آج ہی ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے . ہمیں ایسی بات نہیں کرنی چاہئے تھی . معاف کر دو .

امبرین : ( ثمر ین سے ) چلو یار . . . اپنے کمرے میں چلیں . ان تینوں کی شاید طبیعت ٹھیک نہیں ہے . یہ الجھی ہوئی باتیں یہ تینوں شاید ہمیں یہاں سے بھگانے کے لیے ہی کر رہے ہیں .

ثمر ین : نہیں امبرین . کوئی بات ہے ضرور جو ہم سے چھپائی جا رہی ہے . وہ بھی شاید اِس لیے کہ ہَم ابھی بچیاں ہیں ثمر ین کی اِس بات پہ جہاں مہرین آپی اور نورین آپی کے سَر شرمندگی سے جھک گئے تھے ، وہاں مجھے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہو رہا تھا . کمبخت دونوں اتنی ڈرامے باز تھیں کہ پتا ہی نہیں چلنے دے رہی تھیں کہ انہیں سب پتا ہے .

میں : فضول باتوں میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں . ان دونوں کو جو بھی وہم ہوا تھا وہ دور ہو گیا ہے . اب کوئی مسئلہ نہیں .

امبرین : ( خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ) مطلب آپ آج رات ہمارے کمرے میں گزا ر سکتے ہیں ؟

میں : ہاں بالکل . میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میں اپنا وعدہ ضرور پُورا کروں گا . بے فکر رہو .

ثمر ین : بھائی آپ کا اگر مہرین آپی اور نورین آپی سے رات کا کوئی پروگرام تھا تو آپ وہ سب ابھی کیوں نہیں کر لیتے ؟ رات کو آپ ہمیں ٹائم دے دینا .

 

مہرین آپی : ( بوکھلاتے ہوئے ) ابھی ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ نہیں . . . . . . سنی . . میں اِس وقت کیسے ؟ ؟

نورین آپی : ( مہرین آپی کی بوکھلاہٹ پہ مسکراتے ہوئے ) کچھ نہیں ہوتا آپی . امی نے کہا تھا نا ، بھائی کا خیال رکھنا ہے . ویسے بھی اب دن رات سے کوئی فرق نہیں پڑتا .

مہرین آپی : ول . . . . . . لیکن . . نورین . . . دن میں ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟

ثمر ین : اب مجھے آپی کی یہ دن رات کی الجھن سمجھ میں نہیں آ رہی . آخر ایسا کونسا کام ہے جو صرف رات کو ہی ہو سکتا ہے ، دن میں نہیں ہو سکتا .

امبرین : ( معصومیت سے ) ویسے سہاگ رات کے بارے میں سنا ہے کہ رات کو ہی ہوتی ہے . . . مگر بھلا آپی کا سہاگ رات سے کیا لینا دینا .

اس کی یہ بات سن کے جہاں مہرین آپی ما ر ے شرمندگی کے رونے والی ہو گئی تھیں وہاں مجھے اپنی ہنسی روکنا دشوار ہو گیا تھا اور میں کھانستے ہوئے اپنی ہنسی چھپانے کی کوشش کر رہا تھا . کمبخت دونوں اتنی معصومیت سے اگلے کی ایسی تیسی کر کے رکھ دیتی تھیں اور پِھر بھی معصوم ہی رہتی تھیں .

مہرین آپی : ( رونے والے اندازِ میں ) سنی . . . تم نے ان دونوں کو کیا بتایا ہے ؟

میں : ( انجان بنتے ہوئے ) کچھ نہیں آپی . کچھ بتانا تھا ؟

مہرین : تو پِھر یہ اِس نے . . . سہاگ رات . . . کا ذکر . . . کیسے کیا ؟

میں : آپی بچیاں ہیں ابھی . آپ دونوں کی الجھی ہوئی باتیں سمجھ نہیں پا رہی تھیں تو جو سمجھ میں آیا بول دیا .

ثمر ین : کیا ہوا آپی ؟ ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ؟ یہ امبرین بھی نا . . بنا سوچے سمجھے کچھ بھی بول دیتی ہے . آپ اِس کی بات کو دِل پہ مت لیں .

میں : آپی آپ اپنے کمرے میں چلیں . . . میں کچھ دیر میں آتا ہوں .

نورین آپی : میں بھی اپنے کمرے میں ہی جاتی ہوں . ان شیطانوں کی زُبان کے آگے تو خندق ہے . جو دِل میں آئے بول دیتی ہیں . اگلا حملہ مجھ پہ بھی ہو سکتا ہے . چلیں آپی .

نورین آپی ، مہرین آپی کا ہاتھ تھا م کے کمرے سے نکل گئیں تو ان کے جانے کے کچھ دیر بَعْد میں نے گہری سانس لیتے ہوئے ثمر ین اور امبرین کی طرف دیکھا اور پِھر ہم تینوں کی ایک ساتھ ہنسی چھوٹ گئی .

میں : پکی شیطان کی خالہ ہو تم دونوں . ارے سیدھا سیدھا سہاگ رات کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اگر ایک اور بات تم دونوں کے منہ سے ایسی اور نکل جاتی تو مہرین آپی تو یہیں رونا شروع کر دیتیں .

ثمر ین : اب ہم معصوم بچیوں کو کیا پتا کہ کب کیا کہنا ہے . معصومیت میں جو سمجھ آیا بول دیا . بات سنبھالنے کے لیے آپ ساتھ ہیں نا .

امبرین : بھائی یہ آپی کو آخر اتنی ایمرجنسی میں سہاگ رات کا شوق کیوں ہو گیا ؟ کہیں نورین آپی کو دیکھ کر تو . . .

میں : اری آفت کی پڑیا یہ بات کہیں ان کے سامنے نا کہہ دینا . وہ پہلے ہی بہت گھبرائی ہوئی ہیں کہ کہیں تم دونوں کو کچھ پتا نا چل گیا ہو .

ثمر ین : آپ بے فکر رہیں بھائی . . . . . ہم اپنی معصومیت کو مشکوک نہیں ہونے دیں گی .

امبرین : بالکل . . . . آپ جا کے آپی کی معصومیت کو مشکوک کیجیے .

میں : ( ہنستے ہوئے ) یار تم ہر بات میں کوئی نا کوئی مذاق کا پہلو کیسے نکال لیتی ہو ؟

امبرین : آپ کا حُسْن نظر ہے جناب . ورنہ بندی کس قابل ہے .

میں : تو پِھر اب میں جاؤں ؟

ثمر ین : امبرین روک لو یار . کہیں بچہ ہاتھ سے نکل نا جائے .

امبرین : اِس بات پہ ایک شعر عرض ہے .

وہ کہیں بھی گیا ، لوٹا تو میرے پاس آیا

بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی

میں : ( اس کے سَر پہ چپت رسید کرتے ہوئے ) شیطان کی خالہ ، باز آ جاؤ .

امبرین فوراً " آ دا ب عرض ہے " کہتی ہوئی تھوڑا سا جھک گئی تو اس کی اِس بات پہ پِھر سے میری ہنسی چھوٹ گئی .

ثمر ین : ( شرارت سے ) آپ جائیے بھائی . دلہن آپ کا انتظار کر رہی ہے .

ثمر ین کی بات پہ میں نے " تم دونوں نہیں سدھرو گی " کہتے ہوئے سَر ہلایا اور کمرے سے نکل آیا . سامنے ہی مہرین آپی کا کمرہ تھا اور یقینا وہ میرا انتظار کر رہی تھیں . . .

لوگ سہاگ رات مناتے ہیں . . . میں آج پہلی بار سہاگ دن منانے والا تھا .

آپی کے کمرے میں داخل ہو کر میں نے کمرے میں ہر طرف تلاش کرتی نظروں سے دیکھا . مگر آپی کہیں نظر نا آئیں پِھر میرا دھیان باتھ روم کی طرف گیا اور میں سمجھ گیا کہ وہ کپڑے تبدیل کر رہی ہوں گی . اور واقعی کچھ دیر بَعْد آپی سرخ ریشمی کپڑوں میں باتھ روم سے نکلیں تو میں انہیں دیکھتا ہی رہ گیا . ان کے لمبے سیاہ سلکی بال کھلے ہوئے تھے اور ان کی کمر پوری طرح ان میں چھپ گئی تھی . قمیض کی فٹنگ والی ڈوریاں آج انہوں نے اِس طرح سے ٹائیٹ کی ہوئی تھیں کہ ان کے بھرے بھرے سیکسی بوبز واضح محسوس ہو رہے تھے اور دِل کی دھڑکنوں میں طوفان اٹھا رہے تھے . اور قریب پہنچنے پہ تو ایک نہایت خوشگوار خوشبو نے مجھے اور بھی مست کر دیا . شاید انہوں نے کوئی پرفیوم لگایا تھا جس کی خوشبو نے ان کے بدن کی خوشبو سے مل کے ایک نئی مہک تخلیق ( کرئیٹ ) کر دی تھی

یرے بالکل پاس پہنچ کے انہوں نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور میری آنكھوں میں اپنے حسن کی

تعریف دیکھ کے اور بھی کھل اٹھیں . ان کا چہرہ شرم سے سرخ ہو رہا تھا اور پلکیں بار بار جھک جاتی تھیں . ہونٹ بار بار کچھ کہنے کے لیے کھلتے اور پِھر شرم سے بنا کچھ کہے بند ہو جاتے . میں بھی بس پاس کھڑا اُنہیں پیار بھری نظروں سے دیکھتا ہی جا رہا تھا . دیکھنے سے ہی دِل نہیں بھر رہا تھا ، اور کچھ کرنے کا سوچتا کیسے ؟ آخر آپی نے بات کرنے کی ہمت کی .

آپی : بس دیکھتے ہی رہو گے ؟ کچھ کرو گے نہیں ؟

میں : دیکھنے سے دِل بھرے کو تو کچھ اور کروں گا نا .

آپی : دیکھنے کا موقع پِھر مل جائے گا سنی . سب کے سامنے بھی دیکھ سکتے ہو . تنہائی میں وہ کرو جو دوسروں كے سامنے نہیں کر سکتے .

میں : آپ کو جلدی کیا ہے آخر ؟ مجھے جی بھر کے اپنی دلہن دیکھنے تو دیں .

آپی نے مجھے مزید وقت ضایع کرنے کے موڈ میں دیکھ کے جھنجھلا کر پلنگ پہ دھکا دے دیا . سہارا لینے کے لیے مجھے اور تو کچھ ملا نہیں ، میرے ہاتھ میں آپی کا ہاتھ ہی آ گیا جسے میں نے مضبوطی سے پکڑ لیا . نتیجہ ظاہر ہے . میرے گرتے ہی وہ بھی میرے اوپر آ گریں اور ساتھ ہی ان کی چیخ بھی نکل گئی . ( جیسا کہ عام طور پہ لڑکیوں کی عادت ہوتی ہے ) .

میں : ( ان کے چیخنے سے گھبرا کر ) کیا کر رہی ہیں . کسی نے سن لیا تو ؟

آپی : وہ . . . میں ذہنی طور پہ تیار نہیں تھی . . . غلطی ہو گئی . . .

میں : اب تو ایسی کوئی غلطی نہیں کریں گی ؟

آپی : دِل تو بہت چاہتا ہے . . . مگر چلو معاف کیا .

میں : ویسے ایک بات تو بتائیں . آپ کے ہونٹ اتنے نشیلے کیسے ہیں ؟

آپی : صرف ہونٹ ہی نشیلے ہیں ؟ اور کچھ نہیں ؟

میں : آزماؤں گا تو پتا چلے گا نا .

آپی : تو آزما لو نا . کب تک ترساتے رہو گے ؟

میں : مگر آپ تو صرف ہونٹ چومنے تک ہی محدود رہنا چاہتی تھیں . اب کیا ہو گیا ؟

آپی : میں ڈرتی تھی سنی . . . . کہیں دوسروں کو پتا چل گیا تو . . . کہیں کچھ کرتے ہوئے کوئی بے احتیاطی ہو گئی تو . . . میں دراصل . . . تم سمجھ رہے ہو نا ؟

میں : جی میں سمجھ رہا ہوں . مگر یہ نہیں سمجھ رہا کہ اب آپ کا ڈر کیوں اتر گیا ؟

آپی : نورین نے بتایا تھا کہ تمھیں خود پہ بہت کنٹرول ہے . تم کچھ غلط نہیں ہونے دو گے .

میں : اور اگر میرا دِل کرے کچھ غلط کرنے کو تو ؟ ؟

آپی : ڈراؤ مت سنی . . . جب بھی سوچتی ہوں کہ ایسا ہو گیا تو . . ڈر کے مر ے جان نکلنے لگتی ہے .

میں : ٹھیک ہے وعدہ . اب نہیں ڈراؤں گا . اب منہ میٹھا کر دیں تو اپنے سہاگ دن کی شروعات کچھ میٹھی ہو جائے .

میری بات پہ پہلے تو آپی کچھ شرمائیں . پِھر ہمت کر کے تھوڑا سا اوپر ہوتے ہوئے میرے ہونٹوں سے ہونٹ لگا دیئے . پِھر وہی ہوا جو اب سے پہلے ہوتا رہا تھا ، یعنی میں ان کے ہونٹوں کو چومتے ہوئے نشے کی سی کیفیت میں مست ہوتا گیا . اور پِھر میرے ہاتھ بھی خود ہی ان کی کمر پہ پھسلنے لگے . . . پہلے تو کچھ دیر میں مدھوش سا لیٹا ان کی کمر پہ ہاتھ پھیرتا رہا ، پِھر ان کی برا کا ہُک میری انگلیوں سے ٹکرایا تو میں نے دیوانگی کی سی کیفیت میں دونوں ھاتھوں کو اسی کام پہ لگا دیا اور کچھ ہی دیر بَعْد ان کے برا کا ہوک کھل چکا تھا جو میرے ھاتھوں سے نکل کے زوردار آواز نکا لتا ہوا آپی کی کمر کی سائڈپہ لگا . اسی لمحے آپی کی ایک بار پِھر چیخ نکل گئی .

میں : اب کیا ہو گیا ؟ تھوڑا برداشت بھی کر لیا کریں .

آپی : ( ہلکا سا کراہتے ہوئے ) ہُک کھول کے چھوڑ کیوں دیا ؟ اتنی زور سے لگا ہے . اب تک دَرْد ہو رہی ہے .

میں : مجھے کیا پتا تھا کیسے اتا رتے ہیں . نورین آپی نے تو رات کو پہنا ہی نہیں تھا .

آپی : تم چاھے سارے کپڑے اتار لو . مگر ایسے نا کرو . انسان ہوں آخر . مجھے بھی دَرْد ہو سکتا ہے .

میں : اتنے سے دَرْد سے آپ کی چیخیں نکل رہی ہیں . جب وہ دَرْد ہو گا تو آپ کا کیا حال ہو گا ؟

آپی : بتا کے کرنا نا . میں خود کو ذہنی طور پہ تیار کر لوں گی . اب تو دونوں بار مجھے کچھ پتا ہی نہیں تھا کہ تم کرنے کیا لگے ہو .

میں : یعنی آپ سے گندی گندی باتیں کرنی پڑیں گی ؟ میں اتنا بے شرم نہیں ہوں آپی .

آپی : اچھا مجھے تیار ہونے کو تو کہہ سکتے ہو نا .

میں : ہاں . . . وہ تو کہہ سکتا ہوں . ( پِھر کچھ یاد آنے پر ) ویسے یاد آیا . آپ نے کہا تھا چاھے سارے کپڑے اتار لو .

آپی : ( شرما کر ) تو کیا سچ مچ اتارو گے ؟

میں : نہیں اگر آپ نہیں چاہیں گی تو نہیں اُتاروں گا .

آپی : اگر سارے کپڑے اتا رنے ہیں تو باتھ روم میں چلتے ہیں .

میں : یعنی وہاں آپ سارے کپڑے اتار دیں گی ؟

آپی : تم اتارو گے . میں اتنی بے شرم نہیں ہوں .

میں : تو پِھر یہیں اتار لینے دیں نا آپی . . . ابھی آپ کو چھوڑنے کو دِل نہیں کر رہا .

آپی : تو چھوڑنے کو کہا کس نے ہے . میں نے تو بس . . . . .

میں : آپ گھبرائیں نہیں آپی . . . . میں صرف شلوار اُتاروں گا .

آپی : ابھی ؟ ؟ ؟ اتنی جلدی ؟ ؟ ؟ ؟

میں : دیر کرنے پہ بھی تو آپ کو اعتراض ہے ، جلدی کرنے پہ بھی اعتراض ہے . کروں تو کیا کروں ؟

آپی : اچھا چلو اُتار لو . سائڈ ٹیبل پہ تیل کی شیشی رکھی ہے .

آپی کے بتانے پہ میں مسکرا دیا . نورین آپی کی طرح اِنھوں نے بھی پہلے سے انتظام کر رکھا تھا .

میں : اب شلوار اتا رنے پہ چیخیں گی تو نہیں ؟

آپی : نہیں . . . تم . . . . جو کرنا ہے کرو .

میں نے ہنستے ہوئے پہلے اپنی اور پِھر آپی کی شلوار اتاری اور پِھر خود پلنگ سے نیچے اتر کے آپی کی ٹانگیں اپنے دائیں بائیں سے گزرتے ہوئے اپنے بازو ان کی ٹانگوں کے نیچے سے گزار کے ہاتھ پلنگ پہ رکھ لیے . اِس طرح ان کی ٹانگیں میرے بازوؤں کے اوپر ہونے کی وجہ سے اوپر اٹھ گئیں اور چوت کے لیے رستہ بن گیا . چوت پہ ایک بھی بال نہیں تھا . شاید آپی نے صبح اٹھ کے سب سے پہلے یہ بال ہی صاف کیے تھے اور اب یہ انچھوئی کلی ، پھول بننے کی تڑپ لیے میرے بھنورے کو اپنی طرف بلا رہی تھی . پِھر مجھے خیال آیا کہ تیل تو لگایا ہی نہیں . میں نے ان کی ٹانگیں دوبارہ نیچے لٹکا کے سائڈ ٹیبل سے تیل کی شیشی اٹھائی اور تھوڑا سا تیل نکال کے اپنے لن پہ ملا اور ڈھکن بند کر کے شیشی دوبارہ سائڈ ٹیبل پہ رکھ دی . اب اپنی طرف سے میں تیار تھا . ایک بار پِھر میں نے وہی پوزیشن لی . یعنی اپنے بازو ان کی ٹانگوں کے نیچے سے گزارتے ہوئے ہاتھ پلنگ پہ رکھ لیے اور پِھر اُنہیں تیار ہونے کا اشارہ کیا تو انہوں نے سَر ہلا دیا گویا وہ تیار تھیں .

میں نے پوزیشن لیتے ہوئے لن ان کی چوت پہ ایڈجسٹ کیا اور پِھر ہلکا سا دھکا لگایا تو صرف ٹوپی ہی اندر جا سکی . آپی نے پِھر ہلکی سی چیخ ما ر ی تو میں نے اُنہیں گھور کے دیکھا . میرے گھورنے پہ ان کے چہرے پہ ایک بار پِھر معذرت کے تاثرات نظر آنے لگے . میں نے پِھر دھکا لگایا مگر لن تقریباً ایک انچ ہی مزید اندر جا سکا . ان کی چوت نورین آپی کی چوت سے زیادہ تنگ تھی . میں بڑی مشکل سے لن اندر روکے ہوئے تھا ورنہ باہر نکل آتا . اچانک مجھے کچھ خیال آیا

میں : آپ نے ٹائیٹ تو نہیں کر لیا ؟

آپی : ہاں . . وہ دَرْد بہت ہو رہی تھی تو . . .

میں : اِس طرح زیادہ دَرْد ہو گی . ڈھیلا چھوڑ دیں . کچھ دیر دَرْد سہنا پڑے گا . پِھر کبھی دَرْد نہیں ہو گا .

آپی : سچ کہہ رہے ہو . ایک بار ہی دَرْد ہو گا نا ؟

میں : جی . . . اب ڈھیلا چھوڑیں . ورنہ میں نکالنے لگا ہوں .

آپی : نن . . . نہیں . میں ڈھیلا کر رہی ہوں . نکالنا نہیں .

انہوں نے چوت کو ڈھیلا کیا تو لن جو میرے زور دینے پہ مشکل سے اندر رکا ہوا تھا ، تھوڑا سا مزید اندر چلا گیا . اِس سے آگے مجھے وہ جھلی محسوس ہوئی جو یقینا ان کے کنوارپن کا پردہ ( سیل ) تھا . میں نے تھوڑا سا لن باہر کھینچ کے دوبارہ زور سے دھکا لگایا تو لن سیل توڑتا ہوا مزید اندر چلا گیا . اِس بار آپی نے اپنی چیخ روکنے کے لیے اپنا ہاتھ اپنے منہ پہ رکھ لیا تھا اِس لیے آواز نہیں نکلی . بہر حال تکلیف ان کی آنكھوں اور کانپتے ہوئے جِسَم سے ظاہر ہو رہی تھی . اب میرا ہالف سے کچھ زیادہ لن اندر تھا . میں نے کچھ دیر كے لیے رکے رہنا مناسب سمجھا اور ان کی ٹانگیں چھوڑ کے ان کے اوپر لیٹ گیا . میرے ہاتھ اب ان کے بوبز پہ تھے اور ہونٹ ان کے ہونٹوں پہ تھے . میں نے پہلے انہیں ہلکا سا کس کیا اور پِھر پیار سے ان کے ہونٹ چوسنے لگا . ساتھ ساتھ نیچے سے اپنے دونوں ھاتھوں سے ان کے بوبز بھی دبا رہا تھا جس سے ان کا دھیان بھی تکلیف سے ہٹ کے مزے کی طرف ہو گیا . کافی دیر تک میں یوں ہی ان کے ہونٹ چوستا اور بوبز دباتا رہا . پِھر نیچے سے لن کو مزید آگے بڑھانا شروع کر دیا . اب آگے کوئی رکاوٹ تو نہیں تھی مگر چوت اتنی ٹائیٹ تھی کہ مزید آگے کرنے کے لیے زیادہ زور لگانا پڑ رہا تھا . ویسے آپی کو اب زیادہ دَرْد نہیں ہو رہا تھا . بس چوت ٹائیٹ ہونے کی وجہ سے لن اندر جانے سے تھوڑی تکلیف ہوتی تھی جسے وہ شاید ہونٹ چوسنے اور بوبز دبانے کے مزے کی وجہ سے برداشت کر رہی تھیں . میں نے اپنا کام جاری رکھا ، ہونٹ چوستے اور بوبز دباتے ہوئے لن برابر آگے بڑھائے جا رہا تھا . آخر کافی دیر بَعْد لن ان کی چوت کی آخری حد تک پہنچ ہی گیا . اور اتفاق کی بات یہ کہ میرا لن پُورا ان کی چوت میں تھا . یعنی ان کی چوت میں بھی میرا لن بالکل فٹ آیا تھا . . . پرفیکٹ فٹ .

میں دِل ہی دِل میں ہنس دیا . کیا میری بہنوں کی پھدیاں میرے لن کے لیے ہی بنائی گئیں ہیں . اب تک دو بہنوں سے سیکس کیا تھا اور دونوں کی چوت میں میرا لن بالکل فٹ آیا تھا .

میں : ( اپنے ہونٹ آپی کے ہونٹوں سے الگ کرتے ہوئے ) اب تو دَرْد نہیں ہو رہا آپی ؟

آپی : نہیں . . . اب زیادہ دَرْد نہیں ہو رہا . مگر جب تک یہ اندر ہے . . . مجھے تنگ تو کرتا رہے گا . بڑی مشکل سے جھیل رہی ہوں اسے .

میں : ( ہنستے ہوئے ) ابھی پہلی بار ہے آپی . اور ویسے بھی آپ کی . . . . اندر سے بہت ٹائیٹ ہے . آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گی . پِھر مسئلہ نہیں ہو گا .

آپی : ویسے دَرْد کے ساتھ ساتھ کچھ کچھ اچھا بھی لگ رہا ہے . اور یہ سوچ کے تو اور بھی اچھا لگ رہا ہے کہ پُورا اندر چلا گیا ہے .

میں : اب آگے پیچھے کروں ؟ آپ تیار ہیں ؟

آپی : ٹھیک ہے . لیکن تیز تیز نہیں کرنا .

ان کی طرف سے سگنل ملنے پہ میں نے تھوڑا سا پیچھے کر کے پِھر زور لگا کے آگے کرنا شروع کر دیا . ہر بار جب میں لن باہر کی طرف کھینچتا تو ساتھ ہی آپی بھی تھوڑا سا اوپر کی طرف اٹھ جاتیں جیسے لن کے ساتھ ہی کھنچی جا رہی ہوں اور جب لن اندر کرتا تو وہ بھی نیچے ہو جاتیں اور مجھے بھی زور سے دبوچ لیتیں . ان کی ٹانگیں اب میری کمر کے گرد تھیں اور انہوں نے ٹانگوں سے میری کمر کو زور سے جکڑا ہوا تھا . آہستہ آہستہ میں نے اپنی سپیڈ بڑھانا شروع کر دی . اب بھی لن پھنس پھنس کے اندر باہر ہو رہا تھا مگر اب اتنی گنجائش پیدا ہو گئی تھی ان کی چوت میں ، کہ اب انہیں زیادہ تکلیف نہیں ہو رہی تھی . بس ہلکی ہلکی کراہیں ان کے ہونٹوں سے جاری تھیں جن میں دَرْد سے زیادہ مزہ محسوس ہو رہا تھا . جیسے جیسے میری سپیڈ بڑھتی جا رہی تھی ، ان کے کراہنے کی آوازیں بھی بلند ہونے لگی تھیں ، پِھر اچانک انہوں نے بہت زور زور سے کراھنا شروع کر دیا جیسے چیخ رہی ہوں . یقینا یہ ان کے آرگزم کی نشانی تھی . نورین آپی نے تو خود پہ خاصا قابو رکھا تھا مگر مہرین آپی کو شاید خود پہ بالکل بھی اختیار نہیں رہا تھا . اور پِھر اسی طرح کراہتے ہوئے اچانک ان کے جِسَم کو جھٹکے لگنے لگے . پہلا جھٹکا تو اتنا شدید تھا کہ اگر میں ان کے اوپر نا ہوتا تو وہ اُچھل کے پلنگ سے نیچے جا گرتیں . میں گھبرا کے رک گیا اور ان کے ڈسچارج ہونے کا انتظار کرنے لگا . ڈسچارج ہوتے ہوئے وہ مجھے بہت بری طرح نوچنے لگی تھیں میں نے گھبرا کے ان کے دونوں ہاتھ اپنے ھاتھوں کے نیچے دبا لیے تو انہوں نے سَر کو ادھر اُدھر پٹخنا شروع کر دیا . ان کی کم مجھے اپنے لن پہ کافی دیر تک گرتی محسوس ہوتی رہی اور پِھر وہ آہستہ آہستہ ریلکس ہوتی گئیں . اور ان کے ریلکس ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی آواز بھی دھیمی ہونے لگی . آخر جب وہ بالکل پرسکون ہو گئیں تو میں نے بھی سکون کا سانس لیا . اب مجھے ایک اور فکر نے پریشان کیا . ان کے بلند آواز میں کراہنے یا دوسرے معنوں میں چیخنے کی آوازیں یقینا کمرے سے باہر بھی پہنچی ہوں گی . پتا نہیں کس کس نے سنی ہوں گی ان کی چیخیں . اب اپنی پوزیشن میں کیسے واضح کر پاؤں گا . سب کہیں گے میں نے آپی پہ ظلم کیا . میری بات کا کون یقین کرے گا .

میں : مر وا دیا آپ نے آپی . آخر اتنی بلند آواز میں چیخنے کی کیا ضرورت تھی ؟ سب ہمارے رازدار سہی مگر پِھر بھی اگر کسی نے آپ کی چیخیں سن لی ہوں گی تو میری شامت یقینی ہے . آپ کو سب مظلوم اور مجھے ظالم اور جابر سمجھیں گے .

آپی : معاف کر دو سنی . . . . میں اپنے بس میں نہیں رہی تھی . زندگی میں پہلی بار اتنا مزہ آ رہا تھا کہ خود بخود ہی حلق سے چیخیں نکل رہی تھیں . پتا ہی نہیں چلا کہ میری آوازیں کتنی بلند ہو رہی ہیں .

میں : اب باہر نکال لوں ؟ یا ابھی اور کرنے کا موڈ ہے ؟

آپی : نہیں . . . اب نکال لو . ویسے بھی بہت دیر ہو گئی ہے .

میں نے دھیرے دھیرے لن باہر نکالا تو آپی نے جلدی سے سائڈ ٹیبل کی دراز سے ٹشو نکال کے مجھے پکڑا دیا . میں نے جلدی سے لن صاف کیا اور پِھر باتْھ روم میں جا کے ریلیز ہو گیا . وہاں سے فارغ ہو کے لن کو دھو کے واپس آیا تو آپی اپنے پلنگ کی خون آلود چادر تو اُتار چکی تھیں مگر شلوار ابھی تک نہیں پہنی تھی . میں نے خود ہی ان کی شلوار اٹھا کے ان کی طرف بڑھائی تو انہوں نے شرما کے پکڑ لی اور پہننے لگیں .

میں : ایک بار منہ میٹھا کر دیں آپی . سہاگ دن کا اختتام ( اینڈ ) بھی خوشگوار ہو جائے گا .

آپی نے خود ہی آگے بڑھ کے میرے ہونٹوں کو چوم لیا اور کافی دیر تک اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے چپکائے رکھے پِھر وہ خود ہی الگ ہوئی تو ان کی آنكھوں میں سب کچھ پا لینے کی چمک اور چہرے پہ شرم کے آثار تھے . میں نے آخری پیار بھری نظریں ان پہ ڈالیں اور پِھر ان کے کمرے سے باہر نکل آیا . مگر باہر نکلتے ہی میرے قدم وہیں جم کے رہ گئے . امبرین اور ثمر ین سامنے ہی میرے کمرے کے دروازے میں کھڑی تشویش بھری نظروں سے ادھر ہی دیکھ رہی تھیں . یقینا مہرین آپی کی چیخیں انہوں نے سن لی تھیں . اور میرے خدشات كے عین مطابق شاید یہی سمجھ رہی تھیں کہ میں نے آپی سے زبردستی کی ہے ، ان پہ ظلم کیا ہے .میں ان دونوں کی نظروں میں مہرین آپی کے لیے فکر مندی دیکھ کے سخت گھبرایا ہوا تھا اور ہر حال میں اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہتا تھا . کسی بھی حالت میں مجھے ان کے ماتھے کی ہلکی سی شکن بھی گوارہ نہیں تھی . صباء کے بعد میں نے اگر کسی کو دِل سے دوست سمجھا تھا تو وہ یہ دونوں ہی تھیں . میری چاہت ان دونوں کے لیے بے غرض تھی اور اِس میں ہوس اور لذت نفس کی ملاوٹ نہیں تھی . میرے دِل میں ان کے لیے اتنی چاہت تھی کہ میں اُنہیں ناراض دیکھنے کا تصور بھی نہیں کرنا چاہتاتھا

.

میں : ( ان کی نظروں سے گھبرا کر ) دیکھو گڑیا . . . وہ بات نہیں ہے جو تم دونوں سمجھ رہی ہو . میں نے آپی سے زبردستی نہیں کی . آپی کے چیخنے کی وجہ یہ نہیں تھی .

ثمر ین : آپ اندر آئیں . بیٹھ کے سکون سے بات کرتے ہیں .

ثمر ین نے مجھے کمرے كے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور خود رستہ دینے کے لیے سائڈ پہ ہو گئی تو میں چُپ چاپ کمرے میں داخل ہو گیا . پیچھے پیچھے وہ دونوں بھی اندر آ گئیں .

امبرین : پہلے تو اپنی گھبراہٹ دور کر لیں بھائی . ہمیں آپ پہ کوئی شک نا تھا ، نا ہے اور نا کبھی ہو گا . آپ پہ ہمیں خود سے زیادہ اعتبار ہے . آپی کے چیخنے کی آوازیں سن کے ہمارا گھبرا جانا فطری ہے . مگر اِس کی وجہ ہم آپ کو نہیں سمجھ رہیں . بلکہ ہمیں تو اِس کی وجہ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی . اسی لیے تو گھبرائی ہوئی سی دروازے میں کھڑی تھیں کہ کب دروازہ کھلے اور آپی کی خیریت پتا چلے .

میں : ( اطمینان کی سانس لیتے ہوئے ) وہ ٹھیک ہیں . ان کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں . . . . مگر میں بتا نہیں سکتا کہ ان کے چیخنے کی وجہ نہیں بتا سکتا . اتنا بے شرم نہیں ہوں میں .

ثمر ین : امبرین ! آپی کے چیخنے کی آوازیں پہلے بہت ہلکی تھیں ، پِھر آہستہ آہستہ بلند ہوتی گئیں . غور کرو تو یہ چیخیں نہیں ، شاید کراہنے کی آوازیں تھیں . شاید وہ . . . . .

اس کے بات ادھوری چھوڑنے کے باوجود مفہوم پوری طرح واضح ہو رہا تھا . امبرین کی جھکتی ہوئی گھبرائی سی نظروں سے بھی یہی پتا چل رہا تھا کہ وہ ثمر ین کی بات کا مفہوم بخوبی سمجھ گئی ہے . اور کیوں نا سمجھتی . . . آخر دونوں ایک دوسری کا سایہ تھیں .

میں : تم دونوں کے علاوہ کسی اور نے تو . . . .

ثمر ین : نہیں بھائی . اور کوئی آس پاس موجود نہیں تھا . نورین آپی بھی اپنے کمرے میں نہیں ہیں . امی جان کے ساتھ صحن میں بیٹھی ہیں . شاید اکیلے میں دِل گھبرا رہا ہو گا یا پِھر . . . .

میں : اچھا اب الٹی سیدھی سوچوں کو دماغ میں جگہ نا دو . اگر ایسی بات ہے بھی تو ہمیں اِس پہ غور نہیں کرنا چاہیے .

امبرین : بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں ثمر ین . اگر ایسا ہے بھی تو یہ فطری کمزوریاں ہیں جنہیں نظر انداز کر دینا چاہیے خوامخواہ دِل میں بات رکھنا مناسب نہیں ہے .

میں : مجھ سے تو ناراض نہیں ہو نا تم دونوں ؟ ؟ ؟

ثمر ین : کیسی بات کرتے ہیں بھائی ؟ آپ سے کیسی ناراضگی ؟ آپ تو اتنے اچھے ہیں کہ ما ر بھی ڈالیں گے تو دِل میں کوئی شکوہ نہیں آئے گا .

میں : اچھا اب مکھن مت لگاؤ . اتنا بھی اچھا نہیں ہوں .

امبرین : نہیں بھائی . آپ واقعی بہت اچھے ہیں . اتنے اچھے کہ بس ہر بات پہ پیار آ جائے .

میں : ( جذباتی ہو کر ) تم دونوں بھی مجھے جان سے زیادہ عزیز ہو . تم دونوں کی ناراضگی کے تصور سے ہی جان نکلنے لگتی ہے . خدا کے لیے کبھی مجھ سے ناراض مت ہونا . یہ میری برداشت سے باہر ہے .

ثمر ین : اتنا جذباتی ہونے کی کیا ضرورت ہے بھائی ؟ ہمیں پتا ہے آپ ہمیں کتنا چاہتے ہیں . اور ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ اِس چاہت میں لذت نفس کی ملاوٹ نہیں ہے . آپ کی چاہت بے غرض ہے . اور ہمیں اِس کا یقین ہے .

میں : بنا کسی آزمائش کے تمہیں ایسا یقین کیسے ہے گڑیا ؟

ثمر ین : آزمائش کی ویسے ضرورت تو نہیں ہے . مگر آپ خود کو آزمانا ہی چاہتے ہیں تو آج رات ہم دونوں سرخ ریشمی لباس میں آپ سے لپٹ کے سوئیں گی . ہمارے سونے کے بعد آپ اگر خود پہ قابو رکھ پائے تو ہمارا یقین سچا ہے . اور اگر آپ بہک گئے . . . تو ہمیں اپنے حسن کی قیامت خیزی پہ یقین آ جائے گا . اِس بہانے ہماری بھی سہاگ رات ہو جائے گی .

میں : ( ہنستے ہوئے ) یعنی دونوں صورتوں میں تم نے اپنا ہی فائدہ سوچ رکھا ہے ؟

امبرین : اب یہ تو آپ کی برداشت پہ ہے نا . آج ہی رات سہاگ رات منانا چاہتے ہیں یا ہمیشہ کے لیے ہمیں اپنا بنا لینا چاہتے ہیں .

میں : ( الجھن محسوس کرتے ہوئے ) کیا مطلب ؟

ثمر ین : مطلب یہ کہ اگر آپ اِس آزمائش سے سرخ رُو ہو گئے تو ہم دونوں ہمیشہ کے لیے دِل سے آپ کی ہو جائیں گی میں : مجھے ایسے لالچ دینے کی ضرورت نہیں گڑیا . میں جانتا ہوں کہ اگر ابھی بھی میں ایک اشارہ کر دوں تو تم دونوں مجھے اتنا چاہتی ہو کہ صرف میری خوشی کے لیے ابھی اپنے کپڑے اُتار دو گی . مگر یہ میری چاہت کی توہین ہو گی . میں خود کو تمہاری چاہت کے اہل ثابت کرنے کے لیے اِس امتحان سے گزرنے کے لیے تیار ہوں .

ثمر ین : یہ ہوئی نا مردوں والی بات . ویسے ہماری چاہت پہ اتنا یقین رکھنے کا شکریہ . ہم واقعی آپ کو اتنا ہی چاہتی ہیں کہ آپ کی خوشی کے لیے کچھ بھی کر گزریں گی .

امبرین : اچھا اب یہ بور باتیں بند کریں . چلیں باہر صحن میں چل کے بیٹھتے ہیں . امی جان کے پاس اِس وقت بڑی مزیدار قسِم کی خواتین بیٹھی ہوتی ہیں .

میں : ( ہنستے ہوئے ) مزیدار خواتین ؟ یار مزیدار تو لڑکیاں ہوتی ہیں . خواتین کیسے مزیدار ہو سکتی ہیں .

ثمر ین : اب آپ ہر بات کو اپنے مطلب کے مطابق تو نا لیا کریں . اِس کے کہنے کا مطلب ہے کہ ان کی باتیں بڑی مزیدار ہوتی ہیں . آپ بھی یقینا دلچسپی محسوس کریں گے .

میں : ( اٹھتے ہوئے ) ٹھیک ہے چلو .

میں ان دونوں کے ساتھ کمرے سے نکلا اور صحن میں آ گیا جہاں امی جان کے ساتھ 3 ، 4 پکی عمر کی دیہاتی خواتین موجود تھیں اور اپنے دکھڑے سنانے میں مصروف تھیں . نورین آپی بھی پہلے سے وہاں موجود تھیں . میں نے بھی امبرین اور ثمر ین کے ساتھ وہیں نشست جما لی اور ان خواتین کی باتیں سننے لگا . اور واقعی مجھے تھوڑی ہی دیر میں ان باتوں میں دلچسپی محسوس ہونے لگی کیونکہ یہ خواتین اپنے گھروں کے دکھڑے تو سنا رہی تھیں مگر ان کا انداز بہت تیکھا اور مزاحیہ تھا . گویا اپنے دکھوں کو ہنسی میں اڑا رہی ہوں . واقعی بہت بہادر اور " مزیدار " خواتین تھیں .

رات کے کھانے کے بعد میں ثمر ین اور امبرین کے ساتھ ان کے کمرے میں چلا آیا . دروازے کو اندر سے لوک کر کے وہ دونوں مجھے پلنگ پہ بیٹھنے کا کہہ کے کپڑے تبدیل کرنے کے لیے باتھ روم چلی گئیں . آج ان دونوں نے سرخ ریشمی لباس میں میرے ساتھ چپک کے سونا تھا . اپنی طرف سے تو ان دونوں نے یہ پروگرام میری آزمائش کے لیے بنایا تھا مگر میرے لیے اِس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں تھی . پتا نہیں کیوں میں ان دونوں کو سیکس کی نظر سے دیکھ ہی نہیں پتا تھا . جب بھی ان دونوں کے بارے میں سوچتا ، دِل میں ڈھیروں پیار امڈ آتا . ایسا پیار ، جس میں سیکس ، لذت نفس یا جسمانی قربت کا کوئی تصور ہی نہیں تھا . بالکل بے غرض اور سچا پیار . ویسا ہی پیار جیسا کہ ان دونوں کو یقین تھا کہ میں ان سے کرتا ہوں . یہ الگ بات ہے کہ اگر وہ دونوں زندگی میں کبھی مجھ سے اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین چاہتیں تو میں انکار بھی نا کر پا تا . مگر یہ میری خواہش ہرگز نا ہوتی . صرف ان کی ضرورت پوری کرنے کی مجبوری ہوتی . جب کہ مہرین آپی اور نورین آپی کے بارے میں میرے خیالات ایسے نہیں تھے . بہنیں ہونے کے ناتے میرے دِل میں ان دونوں کے لیے بھی بہت محبت تھی اور میں ان دونوں کی نفسانی خواہشات پوری کرنا بھی اپنا فرض سمجھتا تھا . مگر ساتھ ہی مجھے ان دونوں کے جِسَم میں اپنے لیے لذت بھی محسوس ہوتی تھی اور میں بار بار ان دونوں سے سیکس کرنا چاہتا تھا . یعنی ان دونوں سے میری محبت اور تعلق میں غرض چھپی ہوئی تھی . اس میں لذت نفس کی ملاوٹ تھی . جب کہ ثمر ین اور امبرین سے میں سچا پیار کرنے لگا تھا . میرے دِل میں دونوں کا خاص مقام بن گیا تھا . ( میری محبت ان دونوں سے بھائی بہنوں والی نہیں تھی . ) شاید میں ان دونوں کو دوستی کا اعلی ترین درجہ دے چکا تھا ، یا پِھر شاید مجھے ان دونوں سے عشق ہو گیا تھا .

ہاں شاید یہ عشق ہی تھا . ان کے ساتھ میں جتنی دیر بھی رہتا ، انہی کے رنگ میں رنگ کے رہ جاتا تھا . ویسا ہی سوچنے لگتا تھا جیسا یہ دونوں سوچتی تھیں ، وہی سب کرنے کو میرا دِل بھی چاہنے لگتا تھا جو یہ کرنا چاہتی تھیں . اور اب بھی میں ان دونوں کے پروگرام کے مطابق خود اپنی ہی آزمائش کے لیے تیار ہوا تھا تو بھی صرف اِس لیے کہ ان دونوں کا اعتبار مجھ پہ ہمیشہ کے لیے مضبوط ہو جائے . یہ دونوں مجھے ایسے چاہنے لگیں کہ ایک لمحے کے لیے بھی انہیں مجھ سے جھجک محسوس نا ہو ، دونوں کبھی مجھے اپنے وجود سے الگ نا سمجھیں بلکہ اپنے وجود کا حصہ سمجھیں . یا کم اَز کم اتنا درجہ تو دیں کہ جیسے یہ دونوں خود کو ایک دوسری کا سایہ محسوس کرتی تھیں ، مجھے بھی اپنا سایہ محسوس کرنے لگیں .

میری یہ خواہش تب سے تھی جب سے میں نے پہلی بار ایک دوسری کے لیے محبت اور انڈر اسٹیڈنگ محسوس کی تھی . اسی وقت سے میرا بھی دِل چاہنے لگا تھا کہ یہ دونوں میرے لیے بھی ایسا ہی سوچنے لگیں . مجھے اپنے وجود کا حصہ ہی محسوس کرنے لگیں . میرے دِل میں بھی وہی کچھ ہو ، جو ان دونوں کے دِل میں ہو . شاید میری یہی خواہش آہستہ آہستہ محبت کے درجے طے کرتی ہوئی عشق کی حدود کو پہنچنے لگی تھی . میں انہی خیالوں میں گم تھا کہ باتھ روم کا دروازہ کھول کے دونوں ایک ساتھ اندر آئیں . دونوں سرخ ریشمی لباس میں واقعی آفت لگ رہی تھیں مگر پِھر بھی نا جانے کیوں میرے دِل میں کوئی ہلچل نہیں مچ رہی تھی . ایسا لگتا تھا جیسے ان دونوں کو اگر بے لباس بھی دیکھوں گا تو میرے لیے نارمل سی بات ہو گی .

امبرین : ( شریر انداز میں مسکراتے ہوئے ) آپ خوامخواہ یہاں بیٹھے بور ہوتے رہے . ہم نے کونسا اندر سے کنڈی لگائی تھی . آپ بھی اندر آ جاتے .

میں : ( ہنستے ہوئے ) اِس سے بھی کوئی فرق نا پڑتا . پتا نہیں کیا بات ہے یار . تم دونوں کے پاس جب بھی آتا ہوں تو خود کو تم دونوں جیسا ہی محسوس کرنے لگتا ہوں . میرے لیے تم دونوں کا بے لباس ہونا بھی شاید نارمل بات ہوتی .

امبرین : ( دِل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ) ہاے یہ سننے سے پہلے میرے کان بند کیوں نا ہو گئے . ہمارا بھائی خود کو لڑکی سمجھنے لگا ہے . بھائی آپ نارمل تو ہیں نا ؟ میرا مطلب آپ نے سچ مچ نورین آپی اور مہرین آپی کے ساتھ . . . کہیں کوئی گڑبڑ تو نہیں ہے نا ؟

میں : یار وہاں تو سب کچھ نارمل ہی تھا . پتا نہیں تم دونوں کے پاس آ کے کیا گڑبڑ ہو جاتی ہے .

ثمر ین : ( شرارت سے مسکراتے ہوئے ) بھائی مانا کہ ہم دونوں ابھی " بچیاں " ہیں . مگر کبھی تو ہمارا بھی دِل چاھے گا جوان ہونے کو . آپ ہمارے ارمانوں پہ برف تو نا گرائیں . آپ ہی تو ہماری آخری امید ہیں .

میں : شاید تم دونوں میں ہی کوئی ٹیکنیکل فالٹ ہے . تم دونوں مجھے لڑکیاں لگتی ہی نہیں ہو . بے شرم لڑکے لگتی ہو .

امبرین : یہ دلہنوں والا رنگ پہن تو لیا ہے . فٹنگ بھی کتنی ٹائیٹ کی ہے کہ کچھ تو لڑکیاں لگیں . اب بھی نہیں لگ رہیں تو اور کیا کریں کہ آپ کی نظر کرم ہو جائے ؟

میں : کوشش جاری رکھو . کیا پتا تم دونوں کے سونے کے بعد مجھے محسوس ہونے لگے کہ واقعی تم دونوں لڑکیاں ہی ہو

ثمر ین : ہاں وہ تو کرنی ہی ہو گی . خیر یہاں ہمارے پاس دو پلنگ ہیں جو ساتھ ساتھ لگے ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک پہ آپ اِس وقت بیٹھے ہیں . اگر اسی پلنگ پہ آپ درمیان میں ہو جائیں تو ہم آپ کو دونوں طرف سے قابو کرنے کے لیے تیار ہیں .

ثمر ین نے یہ کہتے ہی پیچھے دھکیلا جب کہ امبرین نے میرے پاؤں سے جوتا نکال کے میری ٹانگیں جھٹکے سے پلنگ کے اوپر پٹخ دیں . میں اِس کاروائی پہ ہنستا ہوا چُپ چاپ درمیان میں ہو کے لیٹ گیا تو ثمر ین میرے دائیں طرف ( جس طرف دوسرا بیڈ تھا ) اور امبرین میرے بائیں طرف آ کے لیٹ گئیں . دونوں نے میرے کندھوں پہ سَر رکھ کے مجھے دونوں طرف سے جکڑ لیا اور میں دونوں کے درمیان سینڈوچ بن کے رہ گیا . دونوں نے اپنا وجود میرے ساتھ اِس طرح چپکا رکھا تھا کہ درمیان میں ہوا کے لیے بھی گنجائش نہیں چھوڑی تھی .

امبرین : اب کچھ موڈ بنا ؟

میں : یار تم بھول رہی ہو . میں یہاں تم دونوں کے ساتھ مزے لینے کا موڈ بنانے نہیں لیٹا ہوں . ایک امتحان درپیش ہے مجھے اور اب لگ رہا ہے شاید یہ امتحان کچھ سخت ہے .

ثمر ین : ہائے نہیں بھائی . ہم دونوں تو اتنی نرم و نازک ہیں . آپ کو شاید اپنا موبائل سخت لگ رہا ہے جسے آپ نے اسی سائڈ والی جیب میں ڈالا ہوا ہے .

میں : اوہو . . . میں تو بھول ہی گیا تھا . چلو تمہارے نرم و نازک بدن کا یہ فائدہ تو ہوا کہ موبائل ٹوٹنے سے بچ گیا .

ثمر ین : اب نکال بھی لیں بھائی . . .

امبرین : شش . . . . گندی گندی باتیں نا کرو . کوئی سن لے گا تو کیا کہے گا ؟

ثمر ین : ( اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ کے ) ہاں . . . یہ میں کیا کہہ گئی . .

میں : ( اس کی بات پہ ہنستے ہوئے ) اگر تمہیں اتنا ہی تنگ کر رہا ہے تو نکال لیتا ہوں .

یہ کہہ کے میں نے ثمر ین کو اٹھنے کا اشارہ کیا اور جیب میں ہاتھ ڈال کے موبائل نکال لیا . مگر جب رکھنے کے لیے سائڈ ٹیبل کی طرف جھکا تو امبرین میرے نیچے دب كے رہ گئی . میں جلدی سے سیدھا ہوا تو ثمر ین میری گھبراہٹ دیکھ کے ہنس رہی تھی . جب کہ امبرین بھی معنی خیز انداز میں مسکرا رہی تھی .

امبرین : مزہ آ گیا بھائی . ایک بار اور کریں ؟

میں : نہیں . ابھی موڈ نہیں بن رہا .

امبرین : میں خود آپ کے اوپر آ جاؤں ؟

میں : دیکھو میں دونوں کے ساتھ انصاف کرنا چاہتا ہوں . تم ایسا کرو گی تو ثمر ین کے ساتھ ذیادتی ہو جائے گی .

ثمر ین : ایک ذیادتی تو کر دی آپ نے . اِس کے اوپر لیٹ گئے . مجھے بھول گئے .

میں : غلطی ہو گئی یار . تم چاہو تو . . .

ثمر ین : چلیں معاف کیا . ابھی رہنے دیں .

امبرین : نہیں بھائی . یہ واقعی ذیادتی ہے میری بہن کے ساتھ . آپ کو اِس کا بھی کچو مر نکا لنا ہو گا .

میں : مطلب تمہارا کچو مر نکل گیا تھا ؟

امبرین : نہیں . . . . بچت ہو گئی . دراصل میں نرم و نازک ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑی لچکدار بھی ہوں .

میں : تم جو بھی ہو بڑی چیز ہو .

امبرین : آدا ب عرض ہے .

میں : ( دوبارہ ثمر ین کی طرف بازو پھیلا کر ) اب اِرادَہ بَدَل گیا کیا ؟ تم دونوں نے تو مجھ سے چپک کے سونا تھا .

ثمر ین : شکر ہے آپ کو یاد ہے . میں سمجھی شاید سارے مزے امبرین سے ہی لینے ہیں .

میں : یار اب غصہ جانے بھی دو . اگر تمہارا دِل کر رہا ہے تو میں تمہارا بھی کچو مر بنا دیتا ہوں .

ثمر ین ہنستے ہوئے دوبارہ میرے کندھے پہ سَر رکھ کے مجھ سے چپک کے لیٹ گئی .

امبرین : بھائی سچ بتائیں . آپ کو ذرا بھی مزہ نہیں آیا ؟

میں : یار غلطی ہو گئی مجھ سے جو تم سے جھجک محسوس نہیں کر سکا . آئندہ نہیں کروں گا . اِس بار معاف کر دو .

امبرین : بھائی کہیں آپ سچ مچ تو خود کو ہم جیسا محسوس نہیں کرنے لگے ہیں ؟

میں : یہ مذاق نہیں ہے گڑیا . واقعی مجھے تم دونوں اپنے جیسی ، بلکہ اپنے وجود کا حصہ ہی لگتی ہو . جیسے تم دونوں مجھ سے ہر طرح کی بات بنا جھجکے کر لیتی ہو ، ویسے ہی مجھے بھی تم دونوں سے کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی .

ثمر ین : اب یہ جذباتی باتیں ختم ہوں گی یا نہیں ؟ بور ہو گئی ہوں میں .

میں : بس ٹھیک ہے اب باتیں ختم . چُپ چاپ سو جاؤ .

امبرین : آپ کو بہت جلدی ہے ہمیں سلانے کی ؟ کیا ارادے ہیں ؟

میں : پہلے سو تو جاؤ . پِھر دیکھی جائے گی .

ثمر ین : ایسی خودکار نیند نہیں ہے ہماری کہ آپ نے کہا اور ہمیں نیند آ گئی .

میں : تو میں کیا لوری سناؤں ؟

امبرین : نہیں . بس پیار سے بانہوں میں لیے باتیں کرتے رہیں . کبھی تو نیند آئے گی .

میں : اتنا لمبا پروگرام مت بناؤ یار . ہمت کر کے اب سو ہی جاؤ .

ثمر ین : سو جاؤ یار . بھائی کا کچھ کرنے کو دِل کر رہا ہو گا . دِل خوش کر دو بچے کا .

میں : بچہ تم دونوں کو بانہوں میں لے کے بھی خوش ہے . مزید خوشی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی . اب چُپ چاپ سو جاؤ

امبرین : جو کرنا ہے کر لیں نا . ہمارے سونے کا انتظار کیوں کر رہے ہیں ؟ ہم نے کونسا آپ کو روکنا ہے .

میں : تم دونوں سونے کے موڈ میں نہیں لگ رہی ہو . مگر مجھے تو نیند آ رہی ہے . میں سونے لگا ہوں .

یہ کہتے ہوئے میں نے گہری سانس سینے سے خارج کرتے ہوئے آنکھیں موند لیں . سچی بات ہے ، ان دونوں کو بانہوں میں لے كے اتنا سکون مل رہا تھا کہ نیند خود بخود ہی آئے جا رہی تھی . بس یوں لگ رہا تھا جیسے سمندر میں ڈوبنے سے بچنے کے لیے میں نے اپنے کسی جگری دوست کا سہارا لیتے ہوئے خود کو مکمل طور پہ اس کے حوالے کر دیا ہو . اور اِس کیفیت میں جو سکون محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا دوست ہمیں بچا لے گا تو اس پہ اِس اندھے اعتماد سے جو سکون ملتا ہے ، اس سکون کی کیفیت میں خود ہی آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں . اِس وقت میری بھی یہی کیفیت ہو رہی تھی . پتا نہیں کب میں نیند کی آغوش میں پہنچ کے اپنے دائیں بائیں موجود آفتوں سے بے خبر سو گیا .

اگلی صبح میری آنکھ کھلی تو امبرین تو میرے پہلو میں موجود سوئی ہوئی تھی مگر ثمر ین نہیں تھی . اور مجھے اپنے پاؤں

پہ کسی کے ہاتھوں کی گرفت کے ساتھ ساتھ کچھ نمی بھی محسوس ہو رہی تھی . میں گھبرا کے اٹھ بیٹھا اور دیکھا تو وہ ثمرین تھی جو میرے پاؤں اپنے ہاتھوں سے پکڑے پتا نہیں کب سے رو رہی تھی .

میں : ( اس کے ہاتھ تھام کے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے ) کیا ہوا گڑیا ؟ رو کیوں رہی ہو ؟ کیا مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ؟

ثمر ین : نہیں بھائی . اور شرمندہ مت کریں . آپ نے کچھ نہیں کیا . مگر میں ساری رات آپ کے کچھ کرنے کی منتظر رہی . مجھے لگتا تھا شاید آپ ساری رات خود پہ ضبط نہیں کر پائیں گے . جوان خوبصورت لڑکی کا جِسَم خود سے اتنے نزدیک محسوس کر کے کوئی مرد خود پہ ضبط نہیں کر پاتا . میں آپ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتی تھی . اِس لیے ساری رات اتنی چوکس رہی کہ اگر آپ کی انگلی بھی ہلتی تو میں اٹھ جاتی اور پِھر خود آپ کو اپنا آپ پیش کر دیتی . مگر آپ تو یوں بے خبر سوئے رہے جیسے آپ کے پہلو میں دو حَسِین لڑکیاں نہیں ، محض تکیے رکھے ہوں جن کی موجودگی سے آپ کو کوئی فرق ہی نا پڑتا ہو . میں نے آپ کو غلط سمجھا بھائی . مجھے آپ پہ اعتبار کرنا چاہیے تھا . آپ کے وعدے پہ یقین کرنا چاہیے تھا کہ آپ ہماری رضامندی کے بغیر ہمیں ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے . پِھر میں نے کیوں ایسا سوچا ؟ میں بہت بری ہوں بھائی . مجھے معاف کر دیں .

میں : ( حیران ہو کر ) تم ساری رات نہیں سوئی گڑیا ؟ میرے لیے ؟

میرے سوال پہ ثمر ین زُبان سے کچھ نا کہہ سکی . بس اپنا جھکا ہوا سَر اثبات میں ہلا دیا تو میں نے جذباتی سا ہو کے اسے

اپنی طرف کھینچا اور گلے لگا لیا . اس کی محبت پہ میری آنکھیں بھر آئیں تھیں .

میں : تمہاری اِس محبت نے تو مجھے بھی رلا دیا گڑیا . میں اتنا چاھے جانے کے قابل کہاں ہوں ؟

ثمر ین : بھائی آپ نے معاف کر دیا نا ؟

میں : معافی تو مجھے تم سے مانگنی چاہیے گڑیا . میری محبت میں ، میرے لیے تم ساری رات جاگتی رہیں اور میں . . .

ثمر ین : نہیں بھائی . ایسا مت کہیں . آپ کے لیے تو میں ساری عمر جاگ سکتی ہوں .

میں : مجھے اتنا مت چاہو گڑیا . میں اتنا چاھے جانے کے قابل نہیں ہوں .

ثمر ین : آپ کتنا چاھے جانے کے قابل ہیں ، یہ میرا دِل جانتا ہے بھائی . آج سے ثمر ین آپ کی ہوئی بھائی . یہ کہتے ہوئے ثمر ین نے اپنے ہونٹ میرے ماتھے پہ رکھ دیئے اور اسی لمحے امبرین بھی پیچھے سے مجھ سے لپٹ گئی . پتا نہیں وہ کب اٹھ گئی تھی اور شاید اس نے ہماری باتیں بھی سن لی تھیں .

امبرین : ( جذباتی انداز اور آنسوؤں سے بھیگی آواز میں ) اپنے بارے میں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے مجھے کیوں نظر انداز کر جاتی ہو ثمر ین ؟ کیا امبرین ، ثمر ین سے کبھی الگ ہو سکتی ہے ؟

ثمر ین : یار تم کچھ دیر اور نہیں سو سکتی تھیں ؟ تھوڑی دیر تو مزہ لینے دیا ہوتا .

امبرین : ابھی بھی سوئی رہتی ؟ سارے مزے تم اکیلے ہی لوٹنے کا پروگرام بنائے بیٹھی تھیں ؟

ثمر ین : اچھا لو یار . میں چھوڑ دیتی ہوں . تم لے لو جتنے مزے لینے ہیں .

امبرین : ( مصنوعی شرم سے سَر جھکاتے ہوئے ) نہیں یار . تمہارے سامنے شرم آتی ہے .

میں : یار تم دونوں کو مجھ سے شرم کیوں نہیں آتی ؟

ثمر ین : ارے بھلا اپنے آپ سے کیسی شرم ؟ آپ اب ہم سے الگ تھوڑی ہیں ؟

امبرین : ہاں بالکل . اور اِس پہ ایک شعر عرض ہے

رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی

سدو مینو سدو رانجھا ، ہیر نا آکھے کوئی

( رانجھا رانجھا کرتی میں خود ہی رانجھا ہو گئی . اب ہر کوئی مجھے رانجھا ہی پکارے . کوئی ہیر نا کہے )

میں : یار یہ تمہارا شاعری کا ذوق کسی دن میرے دماغ کی لسی کر دے گا . اتنے مشکل شعر تمھیں یاد بھی کیسے ہوتے ہیں ؟

امبرین : تعلیم نے ایک ہی تو شوق دیا ہے . اب اسے تو برا نا کہیں .

ثمر ین : اچھا اب شاعری کی افادیت پہ لیکچر دینا نا شروع کر دینا . ناشتے کا وقت ہو رہا ہے اور ابھی کپڑے بھی

بدلنے ہیں . ورنہ وہ دونوں جوان حسینائیں ہم بچیوں کو بھی بلوغت کا سرٹیفیکیٹ دے دیں گی . چلو اٹھو . وہ دونوں اٹھ کے کپڑے تبدیل کرنے باتْھ روم چلی گئیں تو میں اٹھ کے کمرے سے باہر نکل آیا . اپنے کمرے میں آ کے میں نے شاور لیا اور کپڑے تبدیل کر کے باہر نکلا تو مہرین آپی بھی اپنے کمرے سے نکل رہی تھیں . مجھے دیکھ کے وہ وہیں رک گئیں . کل دوپہر سے جو وہ اپنے کمرے میں بند ہوئی تھیں تو اب ان کی صورت نظر آئیں تھی . رات کا كھانا بھی انہوں نے اپنے کمرے میں ہی کھایا تھا . اور اب بھی شاید سب کا سامنا کرنے کا موڈ نہیں تھا بلکہ شاید مجھ سے تازہ ترین حالات و خیالات ( ان کے متعلق ) کی رپورٹ لینا چاہ رہی تھیں .

 

آپی : سنی . . . ان دونوں نے کچھ کہا تو نہیں ؟ میرا مطلب . . . میرے چیخنے کی آوازیں سن کے ان کا رد عمل کیا تھا ؟

آپی کی فکرمندی کا سبب میں سمجھ رہا تھا . امبرین اور ثمر ین نے ان کے چیخنے کی آوازیں سن لی تھیں اور اِس بات کا آپی کو بھی پتا چل گیا تھا . اسی لیے وہ فکرمند تھیں کہ پتا نہیں ان کا رد عمل کیا ہو .

میں : آپ خوامخواہ فکرمند ہو رہی ہیں . اُنہیں کچھ پتا نہیں چلا تھا . بس وہ آپ کے چیخنے سے پریشان تھیں .

آپی : تم سے پوچھا تو ہو گا نا انہوں نے ؟ تم نے کیا بتایا ؟

اِس سوال کا جواب ظاہر ہے میں فوراً نہیں دے سکتا تھا جب تک ان دونوں سے بات نا کر لیتا . مگر اتفاق ایسا ہوا کہ اسی

وقت وہ دونوں بھی اپنے کمرے سے نکلتی دکھائی دیں . آپی کا رخ میری طرف تھا اِس لیے وہ تو نا دیکھ پائیں مگر میں

اُنہیں دیکھ چکا تھا اور وہ بھی مجھے آپی کے ساتھ دیکھ کے رک گئی تھیں ورنہ شاید بے تکلفی سے میرا ہاتھ پکڑ کے کھانے

کے کمرے میں لے جاتیں . اب میں آپی کو جو بھی جواب دیتا ، ان دونوں کے بھی علم میں ہوتا اور وہ اسی حساب سے آپی سے ڈیل کر سکتی تھیں .

میں : میں نے اُنہیں بتایا تھا کہ آپ کی کمر میں بل پڑ گیا ہے . میں آپ کی کمر پہ مالش کر رہا تھا اور اسی وجہ سے آپ کی چیخیں نکل رہی تھیں .

آپی : اور انہوں نے یقین کر لیا ؟ کچھ پوچھا نہیں ؟

میں : کیسے یقین نہیں کرتی آپی ؟ بہت چاہتی ہیں مجھے . میری ہر بات پہ آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتی ہیں .

میں نے آپی کو یقین دہانی کراتے ہوئے تیکھی نظروں سے ان دونوں کی طرف دیکھا ، وہ دونوں منہ پہ ہاتھ رکھے اپنی ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھیں . شاید میرے جھوٹ ہضم نہیں ہو رہے تھے .

آپی : شکر ہے . ورنہ میں تو پریشان ہی ہو گئی تھی .

میں : چلیں اب آپ کی فکر دور ہو گئی . آئیں ناشتہ کرتے ہیں .

آپی : نہیں سنی . . . ابھی نہیں . میں نے رات بھی طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنایا تھا . امی میری طبیعت پوچھنے آئیں تو

انہیں بتا دیا تھا . انہوں نے کچھ نہیں کہا . بس تسلّی دے کے چلی گئیں .

میں : اچھا ٹھیک ہے . آپ آرام کریں . میں آپ کا ناشتہ کمرے میں بھجوا دوں گا .

یہ کہتے ہوئے میں نے ایک بار پِھر ان دونوں کی طرف دیکھا تو وہ اب وہاں نہیں تھیں . کھانے کے کمرے کے دروازے پہ پہنچ چکی تھیں . میں ان کی سمجھ داری پہ مسکرا دیا اور آپی کو ان کے کمرے میں جانے کا کہہ کے خود بھی ناشتہ کرنے کے لیے کھانے کے کمرے میں پہنچ گیا . ناشتے کے بَعْد امی کے کہنےپہ میں ابو کے ساتھ اپنی زمینوں پہ چلا گیا . ہماری زمینیں بہت وسیع رقبے پہ پھیلی ہوئی تھیں اور ان میں مختلف موسمی فصلیں اپنی بہار دکھا رہی تھیں . مختلف باغات بھی تھے جن میں موسمی پھل لگے ہوئے تھے . میں کافی دیر تک وہاں مصروف رہا اور زمینوں اور باغات کے معاملات سمجھتا رہا . پِھر کچھ تھکن ہو گئی تو وہیں ابو کے بنائے ہوئےڈیرے پہ ایک کمرے میں کچھ دیر آرام کر کے اکیلا ہی واپس چل پڑا . واپسی میں موسم بہت خوشگوار ہو گیا تھا . بادلوں نے آسمان کو ڈھک لیا تھا اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا بھی بدن کو گدگدا رہی تھی . اور ابھی میں اپنی حویلی سے کچھ دور ہی تھا کہ موسلادھار بارش شروع ہو گئی اور میں پوری طرح بھیگ گیا . میں بھیگتا بھاگتا حویلی کے اندر پہنچا تو ایک اور دلکش منظر نے میری توجہ کھینچ لی اور پِھر میں نظر وہاں سے ہٹا نا سکا .

امبرین اور ثمر ین سبز ریشمی کپڑے پہنے صحن میں بارش میں نہا رہی تھیں . دونوں نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں

اور بانہیں پھیلائے گول گھوم رہی تھیں . قمیض کے نیچے سے دونوں نے ہی کچھ نہیں پہنا ہوا تھا ( برا بھی نہیں ) . اور دونوں کے بدن کی قیامت خیزی پہلی بار مجھ پہ عیاں ہو رہی تھی . میں جنہیں اب تک بچیاں سمجھ کے نظر اندازِ کرتا رہا تھا ، ان کے جوان جِسَم اتنے دلکش تھے کہ مجھے ان سے نظر ہٹانا مشکل ہو رہا تھا اور قدم بے اختیار ان دونوں کی طرف بڑھتے جا رہے تھے . ہوش تو تب آیا جب بے اِخْتِیاری میں ثمر ین سے ٹکرا گیا . اور وہ بھی اِس طرح کہ اس کے بارش کے پانی میں بھیگے بوبز میرے سینے سے چپک کے میرے اندر ہلچل مچا گئے .

امبرین اِس ٹکراؤ پہ کھلکھلا کے ہنس رہی تھی جب کہ ثمر ین فوراً مجھ سے الگ ہو کر اپنی بانہوں سے اپنا سینہ چھپانے

کی کوشش میں سمٹی جا رہی تھی . شرم سے اس کی نظریں زمین میں گڑی جا رہی تھیں اور اس کی یہ ادا میرے دِل کی دھڑکنوں کو اٹھا پتھل کیے دے رہی تھی .

ثمر ین : ( نظریں جھکائے اپنی بے حجابی کی وضاحت دیتے ہوئے ) بھائی معاف کر دیں . ہمیں پتا نہیں تھا آپ جلدی آ جائیں گے . میں نے کہا بھی تھا امبرین سے مگر اِس نے کہا ابھی کونسا کوئی گھر آنے والا ہے . . کوئی فرق نہیں پڑتا .

امبرین : (( میری نظریں اپنے اور ثمر ین کے بوبز پہ جمی نظروں کو محسوس کر کے ) یار تم خوامخواہ ڈر رہی ہو . مجھے تو لگتا ہے بچے کا کچھ موڈ بن رہا ہے . ثمر ین نے بھی اس کی بات سن کے نظر اٹھائی تو میری نظریں اپنے بوبز پہ گڑی دیکھ کے پِھر سے شرما کے نظریں جھکا گئی . مجھے بھی شرمندگی سی ہوئی کہ جن چھوٹی بہنوں کو میں کل تک بچی سمجھتا رہا تھا ، دوستی اور بےغرض محبت کے دعوے کرتا تھا ، اور محبت بھی ہوس سے پاک آج انہی بہنوں کے جِسَم سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا . خود پہ لعنت کرتے ہوئے میں نے بڑی مشکل سے اپنی نظریں ہٹائیں اور سَر جھکائے شرمندہ سا کھڑا رہ گیا .

میں : میں اپنی اِس حرکت پہ شرمندہ ہوں گڑیا . کل تک تو بےغرض محبت کے دعوے کرتا تھا ، اور آج . . . مجھے معاف کر دو . پتا نہیں تم دونوں کے بھیگے بدن دیکھ کے مجھے کیا ہو گیا تھا .

امبرین : بھائی آپ شرمندہ کیوں ہو رہے ہیں ؟ جب ہم دونوں نے خود کو دِل سے آپ کے نام کر دیا تو آپ جیسے چاہیں دیکھیں ، جو چاہیں ہمارے ساتھ کریں ، اپنی چیز کو حق سے دیکھا جاتا ہے . دیکھ کے نظریں نہیں جھکائی جاتیں

میں : نہیں گڑیا . میں پہلی بار اتنا بے اختیار ہوا ہوں کہ مجھے اپنی اِس حرکت کا خود پتا نہیں چلا . یقین کرو میں دروازے سے یہاں تک کب پہنچا ، مجھے کچھ پتا نہیں . یہاں ثمر ین سے ٹکرایا تو دِل میں خواہش ابھری کہ کاش یہ کبھی مجھ سے الگ ہی نا ہو . پِھر اِس نے شرما کے خود کو چھپانے کی کوشش کی تو میں کسی ایسے بھوکے بچے کی طرح اندر سے تڑپ کے رہ گیا جس کی من پسند کھانے کی چیز اس کے سامنے سے ہٹا لی گئی ہو . ایک طرف مجھے ایک دلکش نظارہ دِل کھول کے دیکھنے کو مل رہا تھا ، مگر دوسری طرف اسی کا عکس مجھ سے چھپایا جا رہا تھا ، اور میرا دِل چاہتا تھا کہ میں زبردستی اِس کے بازو ہٹا دوں اور پِھر جی بھر کے دونوں کو دیکھوں . میری شرمندگی سے ڈوبی آواز میں یہ وضاحت سن کے ثمر ین نے اپنے بازو سینے سے ہٹا کے نیچے کر لیے اور پِھر سے میرے نزدیک آ گئی تو میں نظروں میں الجھن لیے اس کی طرف دیکھنے لگا . دِل چاہتا تھا ابھی دونوں کے بوبز پہ ٹوٹ پڑوں ، باری باری دونوں کے ہونٹوں کو اتنا چوموں کہ اپنے ہونٹ ان ہونٹوں کے بغیر ادھورے محسوس ہونے لگیں . بڑی مشکل سے میں اپنی نظروں کو پِھر سے ثمر ین کے بوبز پہ جم جانے سے روک کے اس کے چہرے پہ نظر ٹکا سکا.

.

#سلمان کی سٹوری نمبر 9

آخری قسط

ثمر ین : مجھ سے ایک بار کہا تو ہوتا بھائی . میں تو سمجھ رہی تھی آپ میری اِس بے حجابی پہ ناراض ہوں گے . آپ ہم پہ کتنا حق رکھتے ہیں ، کیا آپ کا دِل نہیں جانتا ؟ آپ نے صرف میرے ہاتھ ہٹانے کا سوچا کیوں ؟ خود بڑھ کے ہٹا کیوں نہیں دیئے ؟

امبرین : یار اب تو مجھے تم پہ رشک آنے لگا ہے . بھائی مجھ پہ تو کبھی کبھی ہی نظر جماتے ہیں ، زیادہ تو تمہیں ہی دیکھ رہے ہیں . ( پِھر مجھ سے مخاطب ہو کر ) بھائی میں بھی یہیں پہ ہوں . اور میں نے خود کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی .

میں : مگر گڑیا . مجھے واقعی شرمندگی ہو رہی ہے کہ میں اپنی چاہت کو بےغرض نا رکھ سکا . اِس میں لذت نفس شامل ہو گئی ہے .

امبرین : تو کیا ہو گیا بھائی ؟ آپ خود کو مرد نہیں سمجھتے یا ہمیں جوان اور خوبصورت نہیں سمجھتے ؟ ایسی چیز دیکھ کے کسی بھی مرد کا دِل للچا سکتا ہے . آپ خوامخواہ شرمندہ ہو رہے ہیں . چلیں اندر چلتے ہیں . وہاں آپ جی بھر کے ہمیں دیکھیے گا بلکہ چاہیں تو ہنی مون بھی منا سکتے ہیں .

ثمر ین : ( امبرین کو کہنی مر تے ہوئے ) شرم کرو . کیا کہہ رہی ہو . بھائی کا جو دِل چاھے کریں مگر ہمیں اپنی شرم اپنی حیا رخصت نہیں کرنی چاہئیے . یہی عورت کا حسن ہوتی ہے . امبرین نے اس کی بات پہ مصنوعی شرمندگی ظاہر کرتے ہوئے ہونٹوں پہ شریر سی مسکراہٹ سجائے مجھے سوری کہا تو میں اس کی اِس حرکت پہ مسکرا دیا .

ثمر ین : بھائی اندر چلیں ؟

ثمر ین کے کہنے پہ میں چُپ چاپ دونوں کے ساتھ اندر چلا آیا اور پِھر ان کے کمرے میں آ کے میں نے خود ہی دروازہ لوک کر دیا . اب میں پورے حق سے کبھی ثمر ین اور کبھی امبرین کے بوبز کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا شروعات کیسے کروں . اتنے میں امبرین کو ہی کچھ سوجھا .

امبرین : چلیں بھائی باتْھ روم میں چلتے ہیں .

امبرین کی اِس بات پہ میں گڑبڑا سا گیا . دونوں کے ساتھ باتْھ روم میں بند ہونے کا مطلب میں اچھی طرح سمجھ رہا تھا . یعنی وہ میرے سامنے بے لباس ہونے کی بات کر رہی تھی . اور مجھے بھی بے لباس کرنا چاہتی تھی . ثمر ین کی خاموشی اور جواب طلب نظریں بھی یہی کہہ رہی تھیں . گویا دونوں کو میرے سامنے بے لباس ہونے اور مجھے بے لباس دیکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا . ایسا کھلا ڈلا سیکس اور وہ بھی دو بہنوں سے ایک ساتھ ، میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا ، کرنا تو دور کی بات . مگر اب مجھے اِس کی آفر ہو رہی تھی اور میں چاہ کے بھی انکار نہیں کر پا رہا تھا . انکار کرنا چاہتا بھی تھا مگر کوئی اندر سے میری زُبان پکڑ لیتا تھا اور چُپ چاپ ان دونوں کی بات مان لینے پہ ا کسا رہا تھا . مجھے پتا ہی نہیں چلا کب میرے قدم باتھ روم کی طرف اٹھ گئے . باتْھ روم میں پہنچ کے سب سے پہلے امبرین نے اپنے کپڑے اُتارے تو میری نظریں اس کے ننگے بدن پہ جم کے رہ گئیں .

پِھر اس نے خود ہی مجھے ساکت دیکھ کے میرے کپڑے اتار دیئے . اتنی دیر میں ثمر ین بھی بے لباس ہو چکی تھی اور اب میری نظریں کبھی امبرین اور کبھی ثمر ین کے ننگے وجود پہ جمی جا رہی تھیں . آخر امبرین نے ہی پہل کی اور آگے بڑھ کے میری گردن میں بانہیں ڈال دیں . اور اس کی اِس پیار بھری حرکت پہ جیسے میرے بے جان وجود میں جان آ گئی . میں نے اسے اپنی بانہوں میں یوں جکڑ لیا جیسے اپنے وجود میں سما لینا چاہتا ہوں اور پِھر اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے لگا دیئے . مگر یہ کیا ؟ اس کے ہونٹوں پہ ہونٹ رکھتے ہی مجھے ایک عجیب سا کرنٹ لگا تھا . کرنٹ بھی ایسا جو بدن کو دور نہیں جھٹکتابلکہ خود سے چمٹا لیتا ہے . میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا . میرے ہونٹ اس كے ہونٹوں سے اِس طرح چپک گئے تھے کہ میں چاہ کے بھی انہیں اس کے ہونٹوں سے جدا نہیں کر پا رہا تھا . پِھر میں نے خود کو حالات کے دھارے پہ چھوڑ دیا اور پوری چاہت سے اس كے ہونٹوں کو چومنے اور چوسنے لگا . مجھے اِس کام میں اتنی لذت کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی آج محسوس ہو رہی تھی . گرد و پیش کا مجھے کچھ ہوش نہیں رہا تھا . خود اپنا وجود بھی جیسے کہیں کھو سا گیا تھا . بس ہونٹ ہی باقی تھے جو امبرین کے ہونٹوں سے چپکے ہوئے تھے . نا جانے کتنی ہی دیر میں اس کے ہونٹ چومتا رہا ، مجھے کچھ پتا نہیں . میرے ہاتھ اس کی کمر پہ بڑی بیتابی سے گردش کر رہے تھے ، جن کی حرکت کا اندازہ مجھے تب ہوا جب میرے ہاتھ حرکت کرتے ہوئے اچانک اس کے بوبز پہ پوھنچے اور پِھر

اچانک ہی میرے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے الگ ہونے کے لیے جیسے آزاد ہو گئے اور میں اس کے بوبز پہ ٹوٹ پڑا .

میں نے اس کے بوبز کو باری باری اتنا چُوما ، چاٹا اور چوسا کہ اس کو دونوں بوبز سرخ پڑ گئے . اب میرے صبر کی حد ختم ہو گئی تھی . نیچے سے میرا لن کھڑا ہو گیا تھا اور اپنے لیے پُھدی مانگ رہا تھا جو اسے اپنے اندر دبوچ لے . میں نے جلدی سے امبرین کو چھوڑ کے ارد گرد نگاہ دوڑائی تو ثمر ین پاس ہی تیل کی بوتل لیے کھڑی نظر آئی . میں نے

جلدی سے بوتل اس كے ہاتھ سے لی اور تھوڑا سا تیل لے کر اپنے لن پہ ملا اور پِھر کچھ تیل امبرین کی پُھدی میں بھی انگلی سے لگایا . اب گویا میں امبرین کی پُھدی لینے کے لیے بالکل تیار تھا مگر سوال یہ تھا کہ یہاں کیسے کروں ؟

آخر امبرین نے ہی اِس کا حَل سوچا اور واش بیسن کی سائڈکو دونوں ھاتھوں سے تھا م کے جھک گئی . اور اس کے اِس طرح جھکنے سےاس کی پُھدی قدرے باہر کو نکل آئی . میں جلدی سے آگے بڑھا اور اس کی پُھدی پہ اپنا لن ایڈجسٹ کرنے لگا . تھوڑی سی کوشش کرنی پڑی ، کچھ جھکنے کے لیے ٹانگوں کو تھوڑا سا پھیلانا بھی پڑا مگر لن پُھدی کے سوراخ تک پہنچ گیا . اور اس وقت میں نا جانے کیوں اتنا بے رحم ہو گیا کہ میں نے بنا کچھ سوچے سمجھے پہلا ہی جھٹکا اتنا زوردار لگایا کہ لن اس کی پُھدی کی سیل توڑتا ہوا تین چوتھائی اس کی پُھدی کے اندر چلا گیا . امبرین کے منہ سے بے اختیار گھٹی گھٹی سی چیخ نکلی . شاید وہ اپنی آواز دبانے کی انتہائی کوشش کر رہی تھی . مگر مجھے اِس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا . عجیب وحشت سی سَر پہ سوار تھی . میں نے پِھر زور لگایا اور پُورا لن اندر پہنچا دیا . اور اب میں اسے کیا کہوں ، اتفاق یا قدرت ، یہی اس کی پُھدی کی آخری حد تھی . میرا لن اس کی پُھدی کی جڑ تک پہنچ گیا تھا اور اب ذرا سا بھی باہر نہیں رہا تھا . امبرین کی ایک دو ہلکی سی چیخیں پِھر نکلیں جنہیں سن کے مجھے کچھ ہوش بھی آیا اور میں شرمندہ سا بھی ہوا . پِھر میں نے اس پہ مزید ظلم کرنا مناسب نہیں سمجھا اور بہت دھیرے دھیرے لن کو اندر باہر کرنے لگا . اِس دوران ثمر ین نزدیک آ كے میرے جسم سے لگ کے کھڑی ہو گئی تھی اور اس کا جسم جیسے مجھے چیخ چیخ کے بلا رہا تھا کہ آؤ مجھے اپنی بانہوں میں لے لو . میں نے اس کے جسم کی پُکار فوراً سن لی اور اسے اپنی بانہوں میں جکڑ کے کس کرنے لگا . نیچے سے امبرین کی پُھدی میں میرا لن برابر اندر باہر ہو رہا تھا اور اوپر میں ثمر ین کو کس بھی کیے جا رہا تھا . یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے . پہلی بار مجھے پتا چلا تھا کہ دو لڑکیوں سے ایک ساتھ سیکس کرنے کا کیا مزہ ہوتا ہے . ہر لڑکی کا جسم دوسری سے جدا اور الگ ہی مزہ لیے ہوئے ہوتا ہے . یہی مزہ مجھے اِس وقت ثمر ین کے جسم سے مل رہا تھا . اس کے ہونٹ مجھے اتنے رسیلے محسوس ہو رہے تھے جیسے ان سے شہد ٹپک رہا ہو جو قطرہ قطرہ میرے وجود میں منتقل ہو رہا ہو . میں نے ان ہونٹوں کو اتنا چوسا کہ خود اپنے جبڑے دکھنے لگے . تھک کے میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے الگ کیے تو وہ بھی جیسے نشے کی سی کیفیت میں مبتلا نظر آئی . مخمور سی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور پِھر لڑکھڑا کر اور بھی میری بانہوں میں سمٹ آئی . بے اختیار میرا دِل چاہا کہ اب میں امبرین کو چھوڑ کے ثمر ین کو چود نا شروع کر دوں . اور عین اسی وقت مجھے اپنے لن پہ کچھ گرم گرم سا گرتا ہوا محسوس ہوا جو یقینا امبرین کا کم تھا . وہ ریلیز ہو گئی تھی اور یہ آئیڈیل موقع تھا اس کی پُھدی سے اپنا لن نکال لینے کا . میں نے اپنا لن اس کی پُھدی سے کھینچ کے باہر نکالا اور پِھر ثمر ین کو اشارہ کیا تو وہ امبرین کو ہٹا کے اسی کے اندازِ میں واش بیسن کو پکڑ کے جھک کر کھڑی ہو گئی . میں نے اس کی پُھدی کے اندر بھی انگلی سے تھوڑا سا تیل لگایا اور اپنے لن کو بھی تیل سے تھوڑا اور چکنا کیا اور پِھر ذرا سا جھک کے اپنا لن اس کی پُھدی کے سوراخ پہ ایڈجسٹ کر کے ایک ہلکے سے جھٹکے سے اندر پُش کر دیا . اِس بار میں نے جنونی پن کا مظاہرہ نہیں کیا تھا اِس لیے ثمر ین کسی خاص تکلیف سے محفوظ رہی . بس ہلکی سی کرا ہ اس کے منہ سے نکلی اور پِھر خاموشی . میں نے لن کو ذرا زور سے آگے دھکیلا تو ایک چوتھائی لن اس کی پُھدی میں چلا گیا . ثمر ین کے منہ سے ایک بار پِھر ہلکی سی آہ . . . کی آواز نکلی . مگر کسی خاص تکلیف میں نہیں لگی وہ مجھے . میں نے حوصلہ کر كے تھوڑا سا لن پیچھے کیا اور ایک زوردار جھٹکا ما ر ا تو میرا لن اس کی پُھدی کی سیل توڑ کے پُورا کا پُورا اندر چلا گیا اور اس کی پُھدی کی آخری حد سے جا ٹکرایا . ثمر ین کے منہ سے قدرے بلند آواز میں 3 ، 4 بار کراہنے کی آواز نکلی . آہ آہ . . . . آہ . آہ اور پِھر اس نے اپنی آواز دبا لی . میں وہیں رک کے اِس عجیب اتفاق پہ مسکرانے لگا . ثمر ین کی پُھدی میں بھی میرا لن بالکل فٹ آیا تھا . یعنی میری چاروں بہنوں کی پھدیاں شاید بنی ہی میرے لیے تھیں . ایک دم میرے لن کی لمبائی کے آئیں مطابق . پرفیکٹ فٹ

اِس دوران امبرین پِھر میرے قریب آ کھڑی ہوئی تو میں نے اسے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا اور نیچے سے ثمر ین کو ہلکے

ہلکے سے جھٹکے لگاتے ہوئے لن اس کی پُھدی کے اندر باہر کرنے لگا . اس کے منہ سے ہلکی ہلکی کراہنے کی آوازیں تو

نکل رہی تھیں مگر ان آوازوں سے تکلیف سے زیادہ لذت کا احساس ہو رہا تھا . کافی دیر تک میں ثمر ین کی پُھدی میں اپنا لن دھیرے دھیرے ، ہلکے ہلکے جھٹکوں سے اندر باہر کرتا رہا . پِھر میں نے اپنی رفتار بڑھا دی اور ساتھ ہی مجھے اپنے پی سی مسلز بھی ٹائیٹ کرنے پڑے . اب مزے کی انتہا ہو چکی تھی اور کسی بھی لمحے میں اپنی پیک پہ پہنچ کے ریلیز ہو سکتا تھا . اِس لیے کوئی رسک نا لیتے ہوئے میں نے پہلے ہی کنٹرول کر لیا . جھٹکوں کی رفتار میں نے بڑھا دی تھی تو ثمر ین کے کراہنے میں بھی مزید تیزی آ گئی تھی . اس کی آوازیں پہلے تو ہلکی ہلکی تھیں پِھر تھوڑی سی بلند ہوئی اور پِھر اچانک دھیمی پڑ کے سسکیاں سی بن کے رہ گئیں . کچھ ہی دیر بَعْد اس کے وجود کو ایک دو جھٹکے لگے اور وہ ریلیز ہو گئی . میرے لن پہ اس کی کم گری اور مجھے اندر سے سرشار کر گئی کہ میں نے آج اپنی سب بہنوں کی تشنہ آرزوئیں تکمیل کو پہنچا دی تھیں . ساتھ ہی مجھے بھی جو لذت ملی تھی اس کا بیان الفاظ کی حدود سے باہر ہے . میں نے لن ثمرین کی پُھدی سے باہر نکالا تو ثمر ین سیدھی ہو کے مجھ سے لپٹ کے رونے لگی .

ثمر ین : بہت بہت شکریہ بھائی . آپ نے ہمیں اپنا کر ہماری بھی اوقات بڑھا دی . ورنہ ہم تو آج تک خود کو بے مصرف ہی سمجھ رہی تھیں . ہمارے بے مقصد وجود پہلے کسی کام کے نہیں تھے . مگر آپ نے اتنے پیار سے ، اتنی شدت سے ہمیں یہ جسمانی لذت دی کہ ہمیں بھی اپنے اہم ہونے کا احساس ہونے لگا .

امبرین : ( منہ بناتے ہوئے ) تمہیں پیار سے کیا ہو گا . مجھ پہ تو وحشی جانور کی طرح ٹوٹ پڑے تھے . ہائے اب تک دَرْد ہو رہا ہے . امبرین نے ہاتھ سے اپنی پُھدی کو چھوا تو میں ایک بار پِھر شرمندہ ہونے لگا .

میں : سوری یار . پتا نہیں کیا ہو گیا تھا مجھے . شاید جانور ہی بن گیا تھا . کچھ ہوش ہی نہیں رہا تھا یہ سب کرتے ہوئے . تمہاری چیخیں سن کے کچھ ہوش آیا مگر جو ھونا تھا وہ ہو چکا تھا .

امبرین : ( جوش میں آ کے مجھ سے لپٹتے ہوئے ) ہائے سچ ؟ پِھر تو مجھے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہئیے کہ آپ کو میں اتنی اچھی لگی کہ میرے حسن کے جلووں نے آپ کو سدھ بدھ بھلا دی . ہائے کتنی خوش قسمت ہوں میں . اس کی اِس بات پہ میں اور ثمر ین بھی مسکرا دیے . اتنی دیر کھڑے کھڑے سیکس کرتے ہوئے ہم تھک چکے تھے . ثمر ین کے

کہنے پہ ہم کمرے میں آ گئے اور ننگے ہی پلنگ پہ لیٹ گئے . پِھر میں نے ایک بار پِھر امبرین اور اس کے بَعْد ثمر ین کے

ساتھ سیکس کیا اور نیند آنے پہ ہم تینوں ننگے ہی ایک دوسرے سے لپٹ کے سو گئے . صبح چا ر بجے ثمر ین نے ہم دونوں کو جگایا اور ہم تینوں ایک ساتھ ہی باتْھ روم میں نہانے لگے . وہاں مجھ سے صبر نہیں ہوا اور شاور کے نیچے ایک بار پِھر میں نے دونوں کو باری باری چودا اور نہا کر ہم باہر نکل آئے . صبر تو مجھ سے ابھی بھی نہیں ہو رہا تھا مگر اب نا صرف میں بلکہ وہ دونوں بھی 3 ، 3 بار ایک ہی رات میں ریلیز ہو چکی تھیں . اب اِس سے زیادہ سیکس کرنا ہم تینوں کے لیے کمزوری کا باعث ہو سکتا تھا . خیر یہ ہماری لذت بھری محبت کی شروعات تھی . اِس کے بَعْد میں نے چاروں بہنوں کے لیے دن مخصوص کر دیئے . مہرین آپی کے لیے منڈے ، نورین آپی کے لیے ویڈنیسڈے اور امبرین اور ثمر ین کے لیے 2 دن یعنی فرائیڈے اور سیچر ڈے . سنڈے ، ٹیوزڈے اور تھرسڈے میں نے جان بوجھ کے فری رکھے تھے کیونکہ ہفتے کے ساتوں دن سیکس کرنا صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا . خیر ہماری یہ محبت ، لذت کے ساتھ آج بھی جاری ہے اور ہمیں آج بھی اتنا ہی مزہ آتا ہے .

دی اینڈ

 

THE END

Post a Comment

0 Comments