منحوس سے معصوم تک
قسط نمبر 005
دیبا نے پھر سے ڈنڈے سے شیرو کی پٹائی کرنی چاہی مگر ماہرہ نے اسے روک لیا اور اسے اس کے کمرے میں بھیج دیا. . . . .
اس کے بعد شیرو کو سہارا دے کر اپنے کمرے میں لے آئی . . .،
دیبا نے بری طرح مارا تھا شیرو کو جس کی وجہ سے اس کا سارے جسم میں سوجن آ گئی تھی . . .
ابھی جو کچھ بھی ہوا تھا ماہرہ کو اس پر یقین نہیں تھا . . .
مگر پہلے شیرو کو سنبھالنا ضروری تھا اِس لیے ماہرہ اسے اپنے بیڈ پر لیٹا دیتی ہے اور اس کے جسم کی سکائی کے لیے پانی گرم کر کے لاتی ہے اور سکائی کرنے لگتی ہے . . .
گرم احساس ہوتے ہی شیرو کراہنے لگتا ہے اور ماہرہ اسے دلاسہ دیتی ہے . . . .
تھوڑی دیر تک اس کی سکائی کرنے کے بعد ماہرہ ہلدی والا گرم دودھ شیرو کو دیتی ہے . . . .
شیرو منع کرتا ہے لیکن ماہرہ کے زور دینے پر پینے لگتا ہے . . . .
ماہرہ :
اب بتا بات کیا ہے ؟
یہ سب کیا اور کیسے ہوا . . . . .
شیرو : (روتے ہوئے )
میں نے کچھ نہیں کیا مامی میں بےقصور ہوں وہ سب اچانک ہو گیا میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا . . . .
ماہرہ :
مجھے پوری بات بتا . . .
پھر شیرو شروع سے لے کر ساری بات بتا دیتا ہے جس سے سن کر ماہرہ کو دیبا پر غصہ آنے لگتا ہے . . . .
ماہرہ :
تو . . . تو نے باجی کے سامنے یہ سب بولا کیوں نہیں چُپ کیوں تھا تو . . .
شیرو : (روتے ہوئے )
مجھے بات پوری کرنے ہی کہاں دی اما نے . . .
ماہرہ :
تو آرام کر میں باجی سے بات کرتی ہوں جا کر . . .
ماہرہ شیرو کی چوٹوں پر مرہم لگا کر اسے آرام کرنے کا بولتی ہے اور کمرے سے نکل جاتی ہے . . . .
ماہرہ کے من میں ایک بات تھی کہ دیبا باجی نے زرا سی بات کو اتنا بڑھا کر کہ بتایا. . .
اور شیرو کا کیا حال کر دیا کوئی بہت بڑا راز ہے جو دیبا باجی بتاتی نہیں ہے . . .
اور ہر وقت شیرو پر بڑھاس نکالتی رہتی ہے مجھے پہلے یہ راز پتہ کرنا ہی ہوگا . . . . .
ماہرہ دیبا کے کمرے میں گئی تو وہ اپنے بیڈ پر بیٹھی تھی چہرے کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے غصہ ابھی بھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا . . . .
ماہرہ :
کیا باجی آپ ہمیشہ اسے کوستی رہتی ہیں . . .
اور آج تو آپ اسے مار ہی ڈالتی اگر ہم نہ آتے تو . . . . بےچارے کی کیا حالت کر دی آپ نے . . . ،
ایسا بھی کوئی کرتا ہے بھلا . . . ؟
اگر اس سے غلطی ہو گئی تھی تو آپ اس سے بات کرتی اس سے ہوچھتی پہلے . . . .
آپ نے تو سیدھا اسے مارنا پیٹنا شروع کر دیا . . . ،
کیا آپ کے دِل میں ممتا نام کی کوئی چیز نہیں اتنا معصوم ہے وہ آپ کو زرا ترس نہیں آتا اس پر ؟ . . . . .
دیبا : ( غصے میں )
معصوم ہاں معصوم کسے معصوم کہہ رہی ہے تو ؟ . . . .
معصوم نہیں منحوس ہے وہ بدقسمت
سمجھی ؟
اور ممتا کی بات کر رہی ہو تم ؟
تو سن میرے اندر کی ممتا کی موت اسی بدقسمت نے کی ہے جسے تو معصوم کہہ رہی ہے . . . . .
یہ بات سن کر ماہرہ کے سر پر جیسے بم ہی پھٹ گیا ہو . . . . ،
بھلا شیرو نے ایسا کیا کر دیا جو دیبا ایسا کہہ رہی ہے . . . .
ماہرہ : ( حیرانی سے )
کیا کہا آپ نے ؟
ایسا کیا کر دیا اس نے جس سے آپ کی ممتا مر گئی ؟ . . .
دیبا : (چیخ کر )
اسی بدقسمت کی وجہ سے میں ماں نہیں بن پائی آج تک. . . .
ماہرہ :
کیا. . . . . . شیرو کی وجہ سے آپ ماں نہیں بن پائی ؟ . . . وہ کیسے ؟ . . .
دیبا :
وہ منحوس میری ہنستی کھیلتی زندگی میں گرہن بن کر آیا اور میرا سب کچھ تباہ ہوگیا
اتنا کہہ کر دیبا رونے لگتی ہے . . . .
ماہرہ بھی حیران ہو جاتی ہے کہ آخر ایسا کیا ہوگیا شیرو کے ہاتھوں جو دیبا ماں نہیں بن پائی آج تک . . . .
ماہرہ سب کچھ جاننا چاہتی تھی مگر دیبا نے رونا شروع کر دیا تھا . . . .
ماہرہ جانتی تھی آج اگر وہ نہیں جان سکی تو شاید پھر کبھی موقع نہ ملے کیوںکہ آج دیبا غصے میں سب بتا سکتی ہے جو آج تک چھپاتی رہی ہے . . .
ماہرہ :
آخر اس نے ایسا کیا کر دیا کہ آپ ماں نہیں بن سکی . . . .
وہ تو خود معصوم سا بچہ ہے بچپن سے آپ کے پاس ہے وہ بھلا آپ کی زندگی کو کیسے بگڑ سکتا ہے. . . .
دیبا : (روتے ہوئے چیخ کر )
معصوم نہیں منحوس ہے وہ منحوس . . . ،
تمھارے لیے ہوگا وہ معصوم میرے لیے تو منحوس ہی ہے. . . .
تو جانتی ہے میں آج تک ماں کیوں نہیں بن سکی ؟. . . .
جاننا چاہتی ہے تو سن. . . .
بات تب کی ہے جب میں شادی کر کہ اِس گھر میں خوشی خوشی دلدار کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی . . . .
ہم دونوں بہت خوش تھے نائلہ باجی کا کوئی بچہ نہیں تھا اِس لیے دلدار چاہتے تھے کہ . . . .
میں جلدی سے اِس گھر کو وارث دوں تاکہ اِس گھر کا آنگن خوشیوں سے مہکے . . . ،
پھر ایک دن مجھے پتہ چلا کہ میں پریگننٹ ہوں ہم سب بہت خوش تھے . . .
اچانک ایک دن اِس بدقسمت کی سالگرہ پر ہماری ساس سسر اس کی سالگرہ منانے کے لیے گئے ہوئے تھے . . . . .
ساتھ میں دلدار بھی تھے میں پریگنینسی کی وجہ سے گھر پر ہی روکی تھی . . .
اور باجی بھی میرے ساتھ گھر تھی . . . ،
رات کو خبر آئی کہ سب کار ایکسڈینٹ میں مارے گئے ہیں بس یہ منحوس ہی بچا تھا . . . .
اپنی سالگرہ کے دن ہی یہ منحوس اپنے ماں باپ اور نانا نانی کو کھا گیا وہ تو دلدار پتہ نہیں کیسے زندہ بچ گئے . . . .
مگر آدھے ادھورے ایکسڈینٹ کی خبر سنتے ہی ہماری تو دنیا ہی اجڑ گئی میں چکر کھا کر سیڑھیوں سے گر پڑی اور میرا بچہ پیٹ میں ہی مر گیا . . . .
مجھے جب ہوش آیا میں اسپتال میں تھی ڈاکٹر نے بتایا کہ . . . .
میرا بچہ گرنے کی وجہ سے مر گیا میں بہت روئی میں کتنی خوش تھی کہ میں ماں بنوں گی مگر اِس منحوس کی وجہ سے سب اجڑ گیا . . . .
اُدھر دلدار بھی اسپتال میں ایڈمٹ تھے سرور بھئیا اِس منحوس کو گھر لے آئے . . . .
کچھ دنوں بعد جب دلدار گھر آئے اسپتال سے تو ایک اور قہر مجھ پر ٹوٹ پڑا . . . ،
دلدار نے بتایا کہ اب وہ کبھی باپ نہیں بن سکیں گے کیوںکہ ان کا لنڈ ایکسڈینٹ میں ڈیمیج ہوگیا تھا یہ سنتے ہی میں تو مر ہی گئی تھی . . . . .
تم ہی بتاؤ ایک عورت کیسے رہ سکتی ہے شوہر کے پیار کے بنا ؟ . . . .
تب سے لے کر آج تک میں کیسے جی رہی ہوں یہ صرف میں ہی جانتی ہوں ایسی کوئی رات نہیں جب میں کانٹوں پر نہ لیٹی ہوں صرف اِس منحوس کی وجہ سے. . . .
میرا بچہ مارا گیا صرف اِس منحوس کی وجہ سے. . . .
میں سہاگن ہوتے ہوئے بھی بیوہ ہو گئی صرف اِس منحوس کی وجہ سے . . . .
اسے منحوس نہیں تو کیا کہوں ؟
میرا تو جی چاہتا ہے کہ اسے جان سے مار دوں یہ تو دلدار نے اپنی قسم دے رکھی ہے ورنہ کب کی اسے مار کر پھانسی چڑھ جاتی. . . .
ماہرہ کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا دیبا کی باتیں سن کر کتنی نفرت کرتی ہے دیبا شیرو سے ان باتوں کی وجہ سے جس میں اس کا کوئی ہاتھ تھا ہی نہیں . . . ،
بھلا وہ معصوم سا بچہ کیسے کسی کا برا کر سکتا تھا . . . ،
ماہرہ ابھی دیبا کی باتوں کو سن کر اپنی ہی سوچوں میں گم تھی . . .
کچھ وقت تک دونوں خاموش رہتی ہیں تبھی ماہرہ اِس خاموشی کو توڑتی ہے . . . .
ماہرہ :
باجی دنیا میں ایسا کون سا بیٹا ہوگا جو اپنی ماں کی جان لے لے . . . بھلا کیسے کوئی اپنے ماں باپ کو مار سکتا ہے . . . ،
دنیا میں جو بھی ہوتا ہے سب قدرت کی مرضی سے ہوتا ہے اس میں کسی کا کیا قصور . . . .
آپ نے صرف اپنا دکھ دیکھا کبھی یہ نہیں سوچا تقدیر نے اس کے ماں باپ ایک جھٹکے میں چھین لیے اس معصوم کے دِل پر کیا گزری ہوگی . . . .
اگر آپ نے اپنا بچہ کھویا تھا تو آپ شیرو کو اپنا کر اسے ہی اپنا بیٹا بنا لیتی اسے بھی ماں باپ کا پیار مل جاتا . . . .
مگر آپ نے تو اسے اس جرم کے لیے مجرم مان لیا جو اس نے کیا ہی نہیں تھا . . . .
زرا سوچیں آخر وہ اس وقت خود گود میں کھیلنے والا چھوٹا بچہ تھا اسے کیا معلوم تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور آپ اسے قصور وار مانتی ہے . . . .
ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچنا آخر اس میں اس کا یا کسی کا کیا قصور ہے یہ تو سب تقدیر کا کھیل ہے . . . .
رہی بات ماں بننے کی . . . ،
وہ تو بڑی باجی بھی نہیں بن پائی اور نہ ہی میں ابھی تک بن پائی تو اس میں ہم کس کو قصور دے بتائیں ؟ . . . .
کیا ہم بھی یہی سوچیں کہ کسی اور کی وجہ سے ہم ماں نہیں بن پا رہی ؟ . . . .
یہ تو اپنی اپنی تقدیر ہے میں اور کچھ نہیں کہہ سکتی آپ خود سمجھدار ہے . . . .
ہاں مگر اتنا ضرور کہوں گی کہ آج جو آپ نے کیا وہ سراسر غلط تھا وہ بے چارہ تو آپ سے ہمارے بارے میں جاننے کے لیے آیا تھا . . . ،
غلطی تو آپ کی تھی جو آپ دروازہ کھلا چھوڑ کر کپڑے بَدَل رہی تھی . . . اور آپ نے اس پر کیسے کیسے الزام لگا دیئے اوپر سے اسے اتنی بری طرح مارا . . . .
کبھی سوچا ہے آپ نے اِس گھر کا وہ ہی تو اکیلا وارث ہے کیا ہوگا اگر وہ کسی دن آپ کے اِس برتاؤ سے تنگ آ کر گھر چھوڑ کر چلا گیا بڑی باجی تو مر ہی جائے گی اور باقی سب کا دِل بھی ٹوٹ جائے گا . . . .
پھر یہ گھر گھر نہیں رہے گا . . . .
زرا سوچنا آخر آپ اسے کس جرم کی سزا دے رہی ہیں ؟
اس نے کیا کبھی آپ کو کچھ کہا ؟ . . .
کیا اس نے آپ کو بڑی باجی کی طرح پیار نہیں دیا سوچنا ضرور . . . .
اتنا کہہ کر ماہرہ کمرے سے نکل جاتی ہے مگر اس کی باتیں ابھی بھی دیبا کے دماغ میں گھوم رہی تھی . . . .
اور اسے یاد آنے لگا کہ کیسے شیرو جب چھوٹا تھا تو اپنی توتلی زُبان میں اسے امی کہہ کر اس سے لپٹ جاتا تھا . . .
مگر وہ اسے دور ہتا دیتی تھی . . . .
کیسے بچپن سے لے کر آج تک وہ دیبا کے پیار کو ترستا رہا مگر اس نے کبھی شیرو کو پیار نہیں دیا بلکہ نفرت ہی دی . . . .
مگر پھر اسے اپنے بچے اور شوہر کے ساتھ ہوئے حادثے کی یاد آ جاتی ہے اور اس کے منہ سے نکلتا ہے . . .
‘ کوئی چاہے کچھ بھی کہے مگر میرے لیے تو وہ منحوس ہی ہے سب اسی کی وجہ سے ہوا ہے میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی ‘ . . . .
ماہرہ دیبا کے کمرے سے نکال کر نائلہ کے کمرے میں جاتی ہے جہاں نائلہ جانے کب سے روئے جا رہی تھی چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا . . . .
ماہرہ جب نائلہ کی حالت دیکھتی ہے تو جلدی سے نائلہ کو گلے لگا کر چُپ کروانے کی کوشش کرتی ہے . . . .
ماہرہ :
یہ کیا کر رہی ہیں باجی بچوں کی طرح روئے جا رہی ہے . . . . ، سنبھالیں خود کو . . .
نائلہ :
( روتے ہوئے )
یہ سب کیا ہوگیا چھوٹی تو نے دیکھا نہیں دیبا نے کیا کہا . . . ،
میرا بیٹا ایسا نہیں کر سکتا وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتا میں نے اسے پیدا نہیں کیا مگر اسے میں نے اپنے بیٹے جیسے ہی پالا ہے اس پر اٹھی ہوئی انگلی اس پر نہیں مجھ پر اٹھی ہے . . . . ،
نہیں وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتا. . . .
ماہرہ :
! چُپ ہو جائیں باجی چُپ ہو جائیں . . . .
میں جانتی ہوں وہ ایسا نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس نے ایسا کیا ہے . . . . ،
دیبا باجی کو غلط فہمی ہوئی ہے . . .
اتنا سن کر نائلہ ایکدم چُپ ہو جاتی ہے اور ماہرہ کو دیکھنے لگتی ہے . . .
ماہرہ :
ہاں باجی . . . ،
میں نے شیرو سے اور دیبا باجی سے بات کی ہے . . . . دراصل شیرو ہَم دونوں کو گھر نہ پا کر دیبا باجی سے پوچھنے گیا تھا . . . .
اور اس وقت دیبا باجی کپڑے بَدَل رہی تھی کمرے میں بس یہ سب انجانے میں ہوا حادثہ ہے اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے. . . .
نائلہ :
تو سچ کہہ رہی ہے ؟
ماہرہ :
ہاں باجی . . . ،
شیرو بھی یہی کہنا چاہتا تھا مگر آپ نے سنا ہی نہیں اور اس بےچارے کو مارنے لگ گئی . . .
نائلہ :
( روتے ہوئے )
میں نے اپنے پھول سے بچے پر ہاتھ اٹھایا میرے ہاتھ کیوں نہیں ٹوٹ گئے کتنی بری طرح مارا اسے کتنی چوٹ لگی ہوگی اسے . . . ،
کہاں ہے وہ مجھے اس کے پاس جانا ہے . . . ، مجھے اس کے پاس لے چلو . . . .
ماہرہ :
وہ یہیں ہے میرے کمرے میں ہے میں نے اسے دوا لگا دی ہے اور اسے پین کلر دے دی ہے ابھی وہ سو رہا ہے . . .
نائلہ اُٹھ کر ماہرہ کے کمرے میں بھاگتی ہوئی جاتی ہے جہاں شیرو بیڈ پر اُلٹا سو رہا تھا . . . .
نائلہ اسے لگاتار دیکھی جا رہی تھی اور آنسو بہائے جا رہی تھی . . . پیچھے پیچھے ماہرہ بھی آ جاتی ہے . . . .
ماہرہ نائلہ کو آنسو بہاتے دیکھتی ہے تو اسے چُپ کروانے لگتی ہے . . . .
رات ہونے کو آتی ہے دلدار اور سرور گھر لوٹ آتے ہیں ماہرہ اور دیبا كھانا لگا لیتی ہیں . . .
بختیار آج پھر کام کا بہانہ بنا کر نکل گیا تھا باہر سے ہی . . . . . نائلہ شیرو کے پاس ہی بیٹھی رہتی ہے . . . جب سرور شیرو کے بارے میں پوچھتا ہے تو کوئی اسے اصلیت نہیں بتاتا بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ . . . . آج وہ جلدی سو گیا . . . .
پھر ماہرہ نائلہ کو اس کے کمرے میں واپس بھیج دیتی ہے . . . یہ کہہ کر کہ . . اگر وہ نہ گئی تو سرور بھئیا کو سچ پتہ چل جائے گا جس سے گھر کا ماحول بگڑ سکتا ہے . . . . کیونکہ سرور شیرو سے بہت پیار کرتا تھا . . . . نائلہ بھی بات کو سمجھ کر اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے . . . .
مگر اس کا دِل نہیں تھا اِس لیے سرور کے سونے کے بعد وہ پھر لوٹ آتی ہے . . . .
رات بھر دونوں جاگتی رہتی ہیں اور شیرو کا دھیان رکھتی ہیں . . . .
نائلہ اپنے من میں سوچ رہی تھی کہ شیرو کیا سوچے گا اس کے بارے میں کہ . . . . میں کیسی ماں ہوں بنا اس کی بات سنے اسے مارنے لگی . . . اگر اس کی سگی ماں ہوتی تو بھلا ایسا کرتی کہیں وہ مجھ سے روٹھ تو نہیں جائے گا . . . . .
اگر وہ ناراض ہو کر مجھ سے دور چلا گیا تو میرا کیا ہوگا . . . .
‘ نہیں نہیں میں اسے کہیں نہیں جانے دوں گی وہ میرا بیٹا ہے میں اس کے بنا نہیں جی سکتی ‘
ماہرہ اپنے من میں سوچ رہی تھی کہ شیرو کتنا اچھا ہے سب کا خیال رکھتا ہے سب کی بات مانتا ہے . . . . مگر دیبا باجی اس سے کتنی نفرت کرتی ہے وہ بھی اس بات کے لیے جو شاید اسے پتہ بھی نہیں . . . . اور آج کتنا مارا بھی ہے . . . کوئی کچھ بھی کہے جب تک میں ہوں شیرو کو کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دوں گی آج سے . . . . اسے میں پروٹیکٹ کروں گی اسے سب سمجھاؤں گی سکھاؤں گی . . . . اور ہوشیار بناؤ گی . . . .
ایسے ہی رات بھی گزر جاتی ہے صبح شیرو کی آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے کہ . . . اما اس کے سر کے پاس بیٹھی سو رہی ہے وہ سمجھ جاتا ہے اما ساری رات یہیں بیٹھی رہی ہوگی . . . . پھر اس کی نظر پاؤں کی طرف جاتی ہے جہاں چھوٹی مامی سر رکھا کر سو رہی تھی . . . . .
شیرو کی آنکھیں بھر آتی ہیں دونوں کے دِل میں اپنے لیے پیار دیکھ کر وہ چُپ چاپ اٹھنے لگتا ہے . . . . مگر ماہرہ کی آنکھ کھل جاتی ہے کیوںکہ اس کا سر شیرو کے پاؤں پر ہی تھا . . . ،
وہ دیکھتی ہے کہ شیرو اٹھنا چاہ رہا ہے تو جلدی سے شیرو کو سہارا دیتی ہے . . . ماہرہ کچھ بولنے ہی والی تھی کہ شیرو اشارے سے اسے چُپ کروا دیتا ہے . . . تاکہ نائلہ کی نیند نہ خراب ہو . . . . .
ماہرہ شیرو کو سہارا دے کر کمرے سے باہر لے چلتی ہے . . . اس وقت شیرو کو چلنے میں تھوڑی تکلیف تھی کیوںکہ اس کے پاؤں اور ٹخنوں میں سوجن زیادہ تھی . . . .
شیرو کو باتھ روم جانا تھا تو ماہرہ اسے سہارا دے کر باتھ روم میں لے جاتی ہے . . . .
شیرو اپنی چوٹ اور سوجن کی وجہ سے تِین دن تک گھر سے باہر نہیں نکلتا اِس دوران ماہرہ اور نائلہ شیرو کی ہر وقت خدمت کرتی ہیں . . . . اور اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہیں . . . . تِین دن کے بعد سوجن کم ہو جاتی ہے تو شیرو کالج جانے کی تیاری کرتا ہے . . . . نائلہ منع کر رہی تھی مگر شیرو نہیں مانتا اور کالج چلا جاتا ہے . . . .
کالج میں مہوش شیرو کو بریک میں جب دیکھتی ہے تو جلدی سے اس کے پاس چلی آتی ہے اور آنسو بہانے لگتی ہے . . .
مہوش :
کہاں چلے گئے تھے آپ بنا بتائے ؟
پتہ ہے میرا کیا حَال تھا کس بات سے ناراض تھے آپ . . . ایک بار بتا تو دیتے میں نے سب سے پوچھا مگر کسی نے نہیں بتایا . . . راجو کو آپ کے گھر بھی بھیجا مگر آپ وہاں بھی نہیں ملے . . . .
شیرو :
وہ میں اچانک کسی ضروری کام سے شہر چلا گیا تھا جلدی میں بتا نہیں سکا . . . ، کل ہی واپس آیا ہوں . . .
مہوش :
یہ آپ کے چہرے پر سوجن کیسی ہے ؟ . . . .
شیرو :
وہ میں وہ گر گیا تھا زرا سی چوٹ ہے بس . . . .
مہوش :
آپ سچ بول رہے ہیں نہ ؟ . . .
شیرو :
کیا تمہیں یقین نہیں مجھ پر ؟ . . .
مہوش :
خود سے زیادہ ہے . . .
اتنے میں بیل بج جاتی ہے مہوش ملنے کا پوچھتی ہے . . . مگر شیرو ابھی ملنا نہیں چاہتا تھا. . . کیوںکہ ابھی مہوش کو اس کی چوٹوں کا پتہ چل سکتا تھا اِس لیے منع کر دیتا ہے . . . . مہوش مایوس ہو کر کلاس میں چلی جاتی ہے . . . .
کالج کے بعد شیرو راجو کے پاس جاتا ہے . . .
راجو :
یار کہاں غائب تھا میں تیرے گھر بھی گیا تھا ؟ . . . .
مہوش سے ملا کہ نہیں بےچاری کتنی پریشان تھی ؟ . . . .
شیرو :
ہاں اس سے ملا تھا کالج میں . . . ،
میں زرا ضروری کام سے کہیں گیا تھا باہر ماما کے ساتھ تو کل ہی آیا ہوں . . . .
تو سنا تجھے جو بولا تھا وہ کیا ؟ . . .
راجو :
ہاں وہ کام ہوگیا سمجھ یہ مینا تو رنڈی ہے کمینی میں نے اپنے ایک دوست کو اُس پر نظر رکھنے کا بولا تھا . . . جو اس کے گھر کے ساتھ رہتا ہے . . . اس نے بتایا ہے کہ مینا پہلے کھیتوں میں مزدوری کے لیے جاتی تھی مگر اب نہیں جاتی . . . اور اس کے رشتے کا کوئی بھائی اس سے ملنے بہت آتا ہے آج کل . . . تو بالکل سہی ٹائم پر آیا ہے آج اس کا وہ بھائی آنے والا ہے آج ہم رات کو سب چھپ کر دیکھیں گے . . . . .
میرا وہ دوست کہہ رہا تھا کہ کمینہ ہر پندرہ دن میں آتا ہے تین یا چار دن کے لیے . . . اور جب وہ آتا ہے مینا کا گھر والا رات کھیتوں میں رہتا ہے . . . . اور پیچھے دونوں رات کو مزے کرتے ہیں . . . . .
شیرو : (حیرانی سے )
کیا مطلب ؟ مینا اپنے بھائی کے ساتھ بھی چدائی کرتی ہے . . . .
راجو :
یار رات کو سب پتہ چل جائے گا تو آ جانا میرے پاس مل کر چلتے ہیں اور پتہ کرتے ہیں . . . . کمینی آخر کرتی کیا پھیرتی ہے . . . .
شیرو :
مگر رات کو اما آنے نہیں دے گی . . .
راجو :
یار ایسا موقع ہاتھ سے جانا نہیں چاہیے تو کسی بھی طرح کرکے آ جانا . . . .
شیرو :
ٹھیک ہے میں ساڑھے نو بجے آ جاؤں گا . . . .
پھر شیرو گھر لوٹ جاتا ہے ایسے ہی شام ہو جاتی ہے . . . . بختیار شام کو گھر آ جاتا ہے . . . شیرو جانتا تھا آج چھوٹے ماما گھر پر ہوں گے اس کا مطلب تھا راجو کی خبر پکی تھی. . . .
رات ساڑھے نو بجے جب سب اپنے کمروں میں سونے چلے گئے تو . . . شیرو چُپ چاپ گھر سے نکل جاتا ہے مگر دو آنکھیں اسے دیکھ رہی تھی . . . .
گھر سے نکل کر شیرو سیدھا راجو کی طرف جاتا ہے . . . . جو اسے باہر ہی مل جاتا ہے اور دونوں دوست مل کر مینا کے گھر کی طرف چل پڑتے ہیں کھیتوں کے راستے. . . .
راستہ سنسان تھا مگر شیرو کو تو آج جیسے کسی بات کی پرواہ نہیں تھی وہیں راجو کی گانڈ پھٹ رہی تھی . . . مگر شیرو کے ساتھ ہونے سے وہ بھی شیر بنا ہوا تھا . . . .
تھوڑی دیر میں دونوں دوست مینا کے گھر کے پاس پہنچ جاتے ہیں جہاں راجو کا دوست ان کا انتظار کر رہا تھا . . . . راجو اسے دیکھتے ہی جیب سے شراب کی بوتل نکالتا ہے جسے دیکھ کر وہ لڑکا خوش ہو جاتا ہے . . . .
لڑکا :
واہ راجو بھائی آپ آ گئے میں کب سے انتظار کر رہا تھا. . . .
راجو :
یہ لے تیرے لیے ہے جا موج کر اور سن وہ مینا ابھی کدھر ہے . . .
لڑکا :
وہ ابھی اس جھونپڑی میں ہے اس کا مرد کھیتوں میں ہے آج اس کا وہ بھائی آیا ہوا ہے . . .
راجو :
اچھا تو جا میں دیکھتا ہوں . . . .
لڑکا :
شکریہ راجو بھائی اور کوئی کام ہو تو بتانا . . . .
اتنا کہہ کر وہ لڑکا بوتل لے کر نکل جاتا ہے اپنے راستے . . . .
شیرو :
کمینے یہ کیا تو شراب کا کام کب سے کرنے لگا . . .
راجو :
یار چُپ کر یہ سب تو اپنا کام کروانے کی قیمت ہے اور کچھ نہیں . . . اب تو چُپ کر پہلے اپنا کام کرتے ہیں پھر بات کر لینا . . .
دونوں دوست پھر جھونپڑی کے پاس چلے جاتے ہیں . . . اور اندر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں . . . ،
جھونپڑی کے اندر لالٹین جل رہی تھی زمین پر بستر بچھا ہوا تھا. . . جس پر مینا کمر سے نیچے ننگی لیٹی ہوئی تھی اس کے اوپر ایک آدمی چڑھا ہوا تھا وہ بھی کمر سے نیچے ننگا تھا . . . .
مینا :
آہ . . . س س س . . . زور سے کرو . . . اور زور سے اوہ . . . .
آدمی :
زور سے ہی تو کر رہا ہوں میری رنڈی تیری چوت تو کمینی ہر وقت گیلی ہی رہتی ہے کتنی آگ ہے تیرے اندر . . . . .
مینا :
کیا کروں . . . . آہ . .یہ آگ . . اف ف . . . بجھتی ہی نہیں . . . آہ . . . .
آدمی :
کیوں تیرے پاس تو یہاں دو دو مرد ہیں ایک تیرا شوہر اور دوسرا وہ بھڑوا مالک . . .
مینا :
کیسے مرد کمینے دونوں بھڑوے ہیں . . آہ . . او . . زور سے کرو . . .
ایک تو کھیتوں میں مزدوری کر کے تھک جاتا ہے اور آ کر سو جاتا ہے . . . . دوسرا وہ بھڑوا مالک آگ تو بجھا نہیں پتہ اُلٹا اور بڑھکا کر چلا جاتا ہے . . . ہر بار انگلی کرنی پڑتی ہے بعد میں . . . .
آہ . . . اور زور سے . . آہ . . ایسے ہی آہ . . . .
آدمی :
کیوں اس کے لنڈ میں دم نہیں ہے کیا . . .
مینا :
لنڈ ہے ہی کہاں اس کے پاس پانچ انچ کی لولی ہے . . . لنڈ تو تیرے پاس ہے . . . آہ . . . اور زور سے . . .
آدمی :
تو کیوں جاتی ہے پھر اس کے پاس . . . .
مینا :
تو بھی بھڑوا ہے کمینہ اگر اس کے پاس نہیں جاوں گی تو اسے چوتیا کیسے بناؤں گی . . . .آہ . . س س . . . کمینہ باپ بننے کے قابل ہے نہیں اور بچہ ڈھونڈتا پھیرتا ہے میں یہ بات سمجھ گئی تھی . . . . بس اسی لیے اس کے نیچے لیٹ گئی. . . اب دیکھنا تیرے بچے کو اس کا بچہ بتا کر میں اس کے حصے کی جائیداد اپنے بچے کے نام کروا لوں گی . . . .
یعنی کہ ہمارے نام پھر دیکھنا ہم بھی امیر ہو جائیں گے پھر سب بیچ کر کہیں دور چلے جائیں گے . . . . اور نئی زندگی شروع کریں گے . . . .
آہ . س س س . . اور تیز ز ز . . . میرا ہونے والا ہے ایسے ہی اف ف . . اوئی . . . ماں . . .
آدمی :
کمینی کتنی بڑی رنڈی ہے تو سب کو چوتیا بنا رہی ہے اگر اسے پتہ چل گیا تو . . . . .
مینا :
کسی کو پتہ نہیں چلے گا کون بتائے گا بول کیا کبھی تیرے بارے میں کسی کو پتہ چلا ہے . . . آں . . . اوئی . . . اب باتیں بند کر اور دھکے مار تیز . . . س س س . . . ایسے ہاں . . . .آہ . . .
ایسے ہی تھوڑی دیر میں چدائی پروگرام ختم ہو جاتا ہے . . . مگر شیرو تو کہیں گم سا ہوگیا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے چھوٹی مامی کا چہرہ گھوم رہا تھا بےچاری کی زندگی برباد ہو جائے گی . . . .
راجو تو اپنا لنڈ ہلا رہا تھا اندر کا چدائی سین دیکھ کر مگر . . . . شیرو اپنے ہی خیالوں میں کھویا تھا اور آگے کی پلاننگ کر رہا تھا کہ کیا کیا جائے . . . .
دونوں دوست چُپ چاپ وہاں سے نکل کر واپس گھر آ جاتے ہیں . . . . شیرو چپ چاپ بنا کوئی آواز کئے اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے . . . . جہاں پہلے سے ہی کوئی اس کا انتظار کر رہا تھا . . . . جیسے ہی شیرو اپنے کمرے میں گھستا ہے سامنے دیکھ کر ہڑبڑا جاتا ہے . . . .
سامنے چھوٹی مامی بیڈ پر بیٹھی شیرو کا ہی انتظار کر رہی تھی جسے دیکھ کر شیرو ہڑبڑا گیا . . . .
شیرو کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ . . . . اب مامی کے سوالوں کا کیا جواب دے گا . . . ،
وہیں ماہرہ من میں یہ سوچ رہی تھی کہ اتنی رات کو گھر سے باہر چوروں کی طرح جانے کا کیا وجہ ہے . . . . کہیں شیرو کچھ غلط تو نہیں کر رہا جو بھی ہو آج پوچھنا ہی پڑے گا . . . . کیا پتہ ایسا کب سے چل رہا ہے. . . .
ماہرہ :
اتنی رات کو کہاں گیا تھا ؟
تو کب سے راتوں کو باہر جانے لگ گیا ہے ؟ ایسا کون سا کام ہے جو تو رات کے اندھیرے میں کرنے لگ گیا ہے ؟ . . .
شیرو :
وہ میں . . . وہ . وہ باہر گھومنے گیا تھا میرے پیٹ میں گیس ہو رہی تھی . . . .
ماہرہ :
اچھا گیس ہو رہی تھی . . . ، ، اب مجھ سے جھوٹ بولے گا کیا اتنی ہی عزت رہ گئی ہے میری اب ؟
سچ سچ بتا کہاں تھا کس کے ساتھ تھا ؟
شیرو :
مامی ایسا نہ کہو میں آپ کی کتنی عزت کرتا ہوں میرے دِل سے پوچھو . . .
ماہرہ :
تو سچ کیوں نہیں بتاتا . . . . ، بول کہاں گیا تھا ؟
شیرو : (سنجیدہ ہوتے ہوئے )
مامی پلیز ایسا مت کہیں میں آپ کو سب سچ سچ بتاوں گا . . . . مگر ابھی نہیں بتا سکتا آپ کو میری قسم ابھی کوئی سوال مت پوچھیں میں وقت آنے پر خود بتا دوں گا وعدہ کرتا ہوں بس اتنا سن لیجیے میں کچھ بھی غلط نہیں کر رہا ہوں جو کر رہا ہوں اِس گھر کی بھلائی کے لیے کر رہا ہوں . . .
ماہرہ شیرو کی آنکھوں میں سچائی اور سنجیدگی دیکھ کر چُپ کر جاتی ہے . . . اور کمرے سے بنا کوئی بات کرے نکل جاتی ہے . . . ، شیرو سوچنے لگتا ہے کہ مامی پتہ نہیں کیا کیا سوچے گی میرے بارے میں لیکن انہیں سچائی بھی تو نہیں بتا سکتا . . . اگر انہیں سچائی پتہ لگی تو ان کا دِل ٹوٹ جائے گا . . . .
مگر اس مینا کا مجھے جلد ہی کچھ کرنا پڑے گا کیسے چھوٹے ماما کو بےوقوف بنا کر انہیں لوٹ رہی ہے . . . . ،
یونہی سوچتے سوچتے شیرو کی آنکھ لگ جاتی ہے . . .
دوسری طرف ماہرہ بھی پریشان تھی مگر اسے اِس بات کی تسلّی تھی کہ . . . . . شیرو کچھ غلط نہیں کر رہا ہے مگر بات ضرور کوئی بڑی ہے جو اس نے اپنی قسم دے دی سوال نہ پوچھنے کے لیے . . . .
صبح صبح شیرو اپنی روٹین سے اکھاڑے چلا جاتا ہے گھر میں ماہرہ تیار ہو کر نائلہ کے کمرے میں جاتی ہے . . . .
ماہرہ :
باجی آپ تیار ہیں ؟ جلدی کیجیے ہم کہیں لیٹ نہ ہو جائیں . . . .
نائلہ اپنے بیڈ پر چادر تان کر لیٹی ہوئی تھی . . . . ماہرہ کی آواز سن کر ماہرہ کی طرف موڑتی ہے. . . .
نائلہ :
ارے چھوٹی مجھے معاف کرنا میں نہیں جا سکوں گی تیرے ساتھ . . . آج نہاتے وقت پاؤں پھسل گیا تھا زرا پاؤں میں موچ آ گئی ہے . . . تو دیبا کو لے جا ساتھ . . . . .
ماہرہ نائلہ کی آواز سے اندازہ لگا لیتی ہے واقعی وہ تکلیف میں تھی . . . .
ماہرہ :
باجی یہ کیسے ہوگیا آپ نے مجھے آواز کیوں نہیں دی . . .
نائلہ :
بس اچانک پاؤں پھسل گیا تھا اور آواز کیا دیتی تب تمھارے جیٹھ جی یہیں تھے وہی مجھے یہاں تک لے آئے . . . ، تو میری فکر نہ کر میں نے گولی کھا لی ہے تو دیبا کے ساتھ چلی جا . . . .
ماہرہ :
نہیں باجی آپ کو دیکھ بھال کی ضرورت ہے . . . . میں آپ کو ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتی ہم پھر چلے جائیں گے جب آپ ٹھیک ہو جائیں گی . . . .
نائلہ :
نہیں چھوٹی تو جا ایسے کاموں میں دیر نہیں کرتے میں اپنا دھیان رکھ لوں گی تو جا یہ میرا حکم ہے . . . .
ماہرہ :
اگر دیبا باجی بھی میرے ساتھ چلے گی تو گھر کا كھانا کون دیکھے گا ؟ . . . .
آپ کا دھیان کون رکھے گا ؟
نہیں نہیں آپ رہنے دیجیئے . . . .
نائلہ :
نہیں چھوٹی تیرا جانا ضروری ہے تو ایک کام کر تو شیرو کو ساتھ لے جا اس کو بول آج کالج سے چھٹی کر لے . . . .
ماہرہ :
لیکن باجی . . . .
نائلہ :
لیکن ویکن کچھ نہیں تو ابھی اسے جا کر بول دے دیکھ آ گیا ہوگا وہ بھی . . . .
ماہرہ :
اچھا باجی میں دیکھتی ہوں . . . .
ماہرہ شیرو کے کمرے میں جاتی ہے جہاں شیرو یونیفارم پہن کر تیار ہو رہا تھا کالج کے لیے . . . . .
ماہرہ اسے جا کر بتا دیتی ہے کہ کپڑے بَدَل لے . . . .
آج کالج سے چھٹی کر آج تجھے میرے ساتھ شہر جانا ہے . . . ،
اتنا کہہ کر ماہرہ کچن میں شیرو کو ناشتہ بنا کر دینے چلی جاتی ہے . . . .
شیرو : ( من میں )
لگتا ہے چھوٹی مامی کل رات کی بات کے لیے غصہ ہے. . . . اور مجھ سے آج اسی کے بارے میں بات کرے گی اب کیسے سمجھاؤں ان کو جو میں کر رہا ہوں انہی کے لیے کر رہا ہوں . . . .
تھوڑی دیر میں شیرو کپڑے بَدَل کر کچن میں ناشتہ کرتا ہے . . . . اور ماہرہ اسے جلدی کرنے کو کہتی ہے . . . ،
دونوں جلدی سے بس اسٹاپ جاتے ہیں اور شہر کے لیے بس پکڑ لیتے ہیں . . . . بس میں ابھی ہجوم نہیں تھا سو دونوں کو سیٹ مل جاتی ہے . . . . اور دونوں شہر کو نکل جاتے ہیں . . . .
راستے میں دونوں میں سے کوئی بات نہیں کر رہا تھا پھر اِس خاموشی کو شیرو ہی ٹورتا ہے . . . .
شیرو :
ہم ایسے اچانک کہاں جا رہے ہیں مامی ؟
سب ٹھیک تو ہے ؟
ماہرہ :
ہاں ہاں سب ٹھیک ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے . . . ،
اصل میں آج باجی جانے والی تھی میرے ساتھ مگر ان کے پاؤں میں موچ آ گئی صبح صبح اِس لیے ان کی جگہ تمہیں لے جا رہی ہوں . . . .
اتنا سن کر شیرو سکون کی سانس لیتا ہے پھر اچانک اس کا دھیان موچ پر جاتا ہے . . . . اور ہڑبڑا کر پوچھتا ہے . . . .
شیرو :
کیا اما کو موچ آ گئی مگر کیسے ؟
کسی نے مجھے بتایا کیوں نہیں . . . .
ماہرہ :
مجھے بھی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی بتایا انہوں نے . . . ، وقت نہیں تھا اِس لیے نہیں بتا پائی . . . ، ویسے گھبرانے والی بات نہیں ہے . . . . تو فکر مت کر گھر پر دیبا باجی ہیں ان کے پاس . . . .
شیرو :
ویسے ہم شہر کس لیے جا رہے ہیں اگر اما کو موچ آ گئی تھی رہنے دیتے شہر جانا . . . . .
ماہرہ :
میں نے تو کہا تھا مگر باجی نہیں مانی . . . ،
اصل میں پچھلی بار ہم دونوں جب شہر آئے تھے . . . . ڈاکٹر نے میرا چیک اپ کرنے کے لیے ٹیسٹ کئے تھے. . . آج ان کی رپورٹس دینی تھی انہوں نے اس لئے جانا ضروری تھا. . . ، اس لیے باجی نے تجھے ساتھ لے جانے کو کہہ دیا . . . .
شیرو : (فکر مندی سے پوچھتا ہے )
آپ کو کیا ہوا ہے کس چیز کا ٹیسٹ کروایا تھا آپ نے ؟ . . . . .
ماہرہ :
ارے کچھ نہیں ہوا مجھے بس ہے کوئی ٹیسٹ وہ میں نہیں بتا سکتی تجھے اب بس کوئی اور بات کرو . . . .
دونوں ایسے ہی ادھر اُدھر کی باتیں کرتے شہر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے رکشہ کر کے دونوں ڈاکٹر کے کلینک پہنچ جاتے ہیں . . . . آدھے گھنٹے کے انتظار کے بعد ماہرہ کو ڈاکٹر کیبن میں بلاتی ہے . . . . یہ ایک لیڈی ڈاکٹر تھی جو بےاولاد لوگوں کا علاج کرتی تھی . . . . ماہرہ شیرو کو باہر ہی روکنے کا بول کر اندر چلی جاتی ہے . . . .
ڈاکٹر . :
آئیں ماہرہ بیٹھیں . . . .
ماہرہ :
گڈ مارننگ ڈاکٹر پلیز بتائیں میری رپورٹس کیسی ہیں ؟
میں ماں تو بن سکتی ہوں نہ . . . .
ڈاکٹر :
ارے بیٹھیں تو سہی . . . .
دیکھیں میں نے آپ کی ساری رپورٹس چیک کرلی ہیں آپ بالکل پرفیکٹ ہیں آپ میں کوئی کمی نہیں ہے آپ پوری طرح سے صحت مند ہے . . . . .
مجھے لگتا ہے کہ کمی آپ کے شوہر میں ہے آپ ایک بار انہیں میرے کلینک لے آئیں ہم ان کو چیک کرلیں گے . . . .
ماہرہ :
اپنی رپورٹس کے بارے میں سن کر خوش ہو جاتی ہے کہ . . . . . وہ ماں بن سکتی ہے مگر ڈاکٹر کی دوسری بات سن کر اس کا چہرہ اُتَر جاتا ہے . . . .
"نہیں ڈاکٹر وہ کبھی نہیں مانے گے بھلا کون مرد اپنی کمزوری مانے گا . . . . اور میرے شوہر تو ویسے بھی بہت ضدی ہے" . . .
ڈاکٹر :
دیکھیں میڈم آپ کی رپورٹس کے مطابق مجھے سو فیصد یقین ہے کمی آپ میں نہیں آپ کے شوہر میں ہے . . . . ایسے میں ماں بننے کے دو ہی راستے ہیں آپ کے پاس . . . .
ماہرہ :
بتائیں ڈاکٹر میں کچھ بھی کروں گی پلیز آپ مجھے ماں بنا دیجیئے . . . . بتائیں کتنے پیسے لگیں گے . . . .
ڈاکٹر :
دیکھیں یہ تو ظاہر ہے کہ . . . . آپ کے شوہر کے اسپرم میں جراثیم کی کمی ہوگی . . . . اس لیے آپ ماں نہیں بن پا رہی ایسے میں سیکنڈ اوپشن یہی ہوتا ہے کہ . . . . کسی دوسرے کے اسپرم کو آپ کی بچہ دانی میں شامل کر کے آپ کو ماں بنایا جائے . . . . اور اِس کام کے لیے میڈیکل سائنس نے آج کل بہت ترقی کر لی ہے. . . . .
ایک چھوٹے سے آپْریشَن کے ذریعے آپ کی بچہ دانی میں اسپرم ڈالا جائے گا اور آپ کو پریگننٹ کیا جائے گا . . . . .
ماہرہ :
ڈاکٹر اس میں کوئی رسک تو نہیں ہوتا ؟ . . . .
ڈاکٹر :
نہیں رسک والی کوئی بات نہیں . . . ،
ہاں کئی بار ایک بار کی کوشش سے کچھ عورتیں مس بھی ہو جاتی ہیں تو انہیں پھر سے ایک موقع دیا جاتا ہے . . . .
ماہرہ :
ڈاکٹر اس سے بچہ تو سہی ہوتا ہے نہ . . . . میرا مطلب . . . .
ڈاکٹر :
میں سمجھ گئی . . . دیکھیں بچے میں فطرت تو اس کے ماں باپ سے ہی آتی ہے . . . ، جیسی فطرت اس کے ماں باپ کی ہوگی . . . . ویسے ہی بچے میں ہوگی . . . اب ہم اس کے بارے میں تو گارنٹی نہیں دے سکتے نہ . . .
ماہرہ :
ڈاکٹر اس میں کتنا خرچ آئے گا ؟ . . .
ڈاکٹر :
یہی کوئی دو لاکھ سے چار لاکھ روپے . . . .
ماہرہ ڈاکٹر سے آپْریشَن کی فیس سن کر حیران ہو جاتی ہے اور اسے سوچ کر بتانے کا کہہ کر باہر نکل آتی ہے . . . ، ،
باہر شیرو مامی کاانتظار کر رہا تھا جب وہ باہر آتی ہے تو شیرو چپ چاپ اس کے ساتھ چل پڑتا ہے . . . .
ماہرہ خاموشی سے فکرمندی میں ڈوبی چلی جا رہی تھی ساتھ میں شیرو بھی چلا جا رہا تھا . . . . ،
شیرو نے ڈاکٹر کی کیبن کے باہر کھڑے ہو کر ڈاکٹر کی باتیں سن لی تھی . . . . مگر وہ ظاہر نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی سوال کرتا ہے . . . . وہ جانتا تھا مامی ٹینشن میں ہے اس لئے وہ مامی کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کہتا ہے . . . .
شیرو :
کیا مامی آپ بھی بس بھاگے جا رہی ہیں آئیں کچھ کھا لیتے ہیں . . . .
ماہرہ :
نہیں شیرو میرا موڈ نہیں ہے تجھے بھوک لگی ہے تو تو کھا لے . . .
شیرو :
ایسے کیسے موڈ نہیں ہے آپ کو بھی میرے ساتھ چلنا ہوگا . . . ،
بھول گئی آپ اُس دن آپ نے کیا کہا تھا ؟
ماہرہ :
کب ؟ کیا کہا تھا ؟
شیرو :
ارے میری سالگرہ پر آپ نے کہا تھا نہ کہ آپ کو پارٹی چاہیے !
آج تو موقع ہے چلیں آج میں پارٹی دیتا ہوں اپنے خاص دوست کو . . . .
ماہرہ :
نہیں شیرو پھر کبھی آج ہم گھر چلتے ہیں . . . .
شیرو نہیں مانتا اور اپنی قسم دے کر ماہرہ کو ساتھ لے جاتا ہے . . . ایک ریسٹورانٹ میں ماہرہ بھی اس کا من رکھنے کے لیے چل پڑتی ہے . . . .
جہاں دونوں ہلکا پھلکا کھا لیتے ہیں پھر شیرو ماہرہ کو لے کر مارکیٹ میں چلا جاتا ہے . . . . جہاں اسے اپنی پسند کی خوبصورت سی چپل لے کر دیتا ہے . . . . جب دونوں شاپ پر چپل لینے جاتے ہیں تو دوکاندار شیرو سے کہتا ہے. . . .
آئیں بھائی صاحب اپنے لیے لیں گے یا بھابھی کی لیے . . . . .
شیرو شرما جاتا ہے مگر ماہرہ بات سنبھل لیتی ہے . . . .
اصل میں شیرو پہلوانی کرنے کی وجہ سے اپنی عمر سے بڑا لگتا تھا . . . . جسم سے بڑی عمر کا نظر آتا تھا . . . . اور ماہرہ ابھی چوبیس پچیس سال کی دکھتی تھی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے . . .
اس کے بعد دونوں بس اسٹاپ بس پکڑنے چلے آتے ہیں . . . . ،
ماہرہ اپنے من میں شیرو کی وجہ سے بہت خوش تھی کہ . . . .
وہ کتنا اچھا کتنا کیئرنگ ہے کیسے اپنی باتوں میں لگا کر اس نے ساری ٹینشن ہی بھلا دی . . . . اور اسے پتہ ہے کہ اپنے ساتھی کو کیسے خوش رکھنا ہے کتنی انڈر اسٹیڈنگ نیچر ہے . . . . کاش بختیار بھی ایسا ہوتا . . . .
کچھ دیر بعد دونوں بس میں سوار ہو جاتے ہیں . . . بس میں بہت بھیڑ تھی دونوں کو سیٹ نہیں ملتی مجبوری میں کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا ہے . . . .
ماہرہ :
دیکھا میں نے کہا تھا نہ واپس چلتے ہیں اب دیکھ کتنی رش ہے اگر اس وقت آتے تو رش نہ ہوتی . . . .
شیرو :
مامی جی یہ رش تو ہر بس میں ملے گی ہی . . . ،
زرا سوچیں ہم نے آج کیا کیا . . .كھانا پینا بھی ہوگیا شاپنگ بھی اور باتیں بھی . . . .
ماہرہ :
رہنے دے رہنے دے مجھے مت سمجھا ویسے تھینکس میں بہت خوش ہوں . . . . تو نے مجھے شاپنگ کروائی اور كھانا بھی کھلایا ریسٹورانٹ میں . . .
شیرو :
ارے کیا مامی ہم تو دوست بھی ہیں نہ تو اس میں تھینکس کیسا . . . آپ کو پارٹی تو دینی ہی تھی . . . .
دونوں ایسے باتیں کرتے رہتے ہیں پھر اگلے اسٹاپ سے اور لوگ بس میں گھس آتے ہیں . . . رش بڑھ جاتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی شیرو پیچھے سے ماہرہ کے ساتھ چپک جاتا ہے . . . . ،
ماہرہ بھی سمجھتی ہے کہ رش ہی اتنی ہے تو کوئی کیا کرے . . . .
ایسے بس چلتی رہتی ہے بس کو جھٹکا لگتا ہے جس کی وجہ سے شیرو ماہرہ کے اوپر گرنے کو ہوتا ہے . . . . ،
ماہرہ شیرو کے وزن سے تھوڑا آگے جھک جاتی ہے . . . . اور شیرو کا لنڈ ماہرہ کے چوتڑوں کے درمیان پہنچ جاتا ہے . . . . دونوں جب سیدھے ہوتے ہیں تو شیرو کا لنڈ ماہرہ کو اپنی گانڈ کے دراڑ میں محسوس ہوتا ہے . . . .
گانڈ کی گرمی سے شیرو کا لنڈ اٹھ گیا تھا . . . . مگر شیرو کا ابھی اِس طرف دھیان نہیں گیا تھا . . . . .
ماہرہ من میں سوچنے لگتی ہے کہ اب کیا کرے . . . اسے شرم آنے لگتی ہے شیرو کو کیسے کہے . . . . دھیرے دھیرے شیرو کے لنڈ میں سختی بڑھتی جاتی ہے . . . اور وہ پُورا لوہے کی روڈ جیسا سخت سیدھا ماہرہ کی گانڈ کی بیچ میں گھس رہا تھا . . . .
ماہرہ لنڈ کی سختی سے چُداسی ہونے لگتی ہے . . . . آخر کتنے ہفتوں سے وہ چدی نہیں تھی . . . . لنڈ کی گرمی پا کر پھدی نے رونا شروع کر دیا تھا . . .
ماہرہ سے گرمی برداشت نہیں ہوتی نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ہوس کے سمندر میں بہنے لگتی ہے . . . .
ماہرہ اپنی گانڈ کو تھوڑا اوپر اٹھانے کے لیے پاؤں کی ایڑیاں اٹھا لیتی ہے . . . اور آگے کو تھوڑا جھکنے کی کوشش کرتے ہوئے پھدی کو لنڈ کے منہ پر سیٹ کرتی ہے . . .
شیرو کو بھی اپنے لنڈ پر جب دباو محسوس ہوتا ہے تو . . . .اسے خیال آتا ہے کہ اس کا لنڈ پُوری طرح کھڑا ہے . . . .
اور مامی کے چوتڑوں میں گھسا ہوا ہے . . . .
شیرو پسینے میں بھیگنے لگتا ہے اور من میں ڈرنے لگتا ہے کہ . . . .
مامی کیا سوچے گی کتنا گندا ہوں میں جو ایسے ان کا فائدہ اٹھا رہا ہوں . . . . مگر لاکھ کوششوں کے بعد بھی شیرو کا اپنے آپ پر قابو نہیں تھا اس کا لنڈ تو جیسے بغاوت پر اُتَر آیا تھا . . . .
ماہرہ اپنی چوت پر دامدار لوڑے کو محسوس کر کہ لگاتار دباو بنائے جا رہی تھی . . . اسے تو کسی بھی قیمت پر چدائی چاہیے تھی . . . . ایک دامدار لنڈ سے اپنی چوت کی ٹھکائی چاہتی تھی وہ . . . اس کا شوہر تو اسے ہاتھ بھی نہیں لگا رہا تھا . . . . آخر وہ کرے تو کیا کرے . . .
شیرو خود کو روک نہیں پا رہا تھا اِس لیے اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی . . . مگر اندر ہی اندر اسے بھی مزہ آنے لگا تھا اور اس نے بھی اپنی کمر کو آگے دھکیلنا شروع کر دیا تھا . . . . ایسے ہی دونوں ہوس میں ڈوبتے جا رہے تھے . . . ماہرہ سے اب برداشت نہیں ہو رہا تھا اور کچھ ہی پل میں اس کی چوت کا بندھ ٹوٹ گیا . . . . اس کی پینتی اس کی پھدی کے پانی سے بھیگ گئی . . . اس کا جسم جھٹکے کھانے لگا اور اسے کھڑا رہنا مشکل ہوگیا . . . . تبھی ساتھ والی سیٹ خالی ہو جاتی ہے اور ماہرہ بےسدھ سی وہیں سیٹ پر گر جاتی ہے . . . .
ماہرہ اپنے اِس مزے کا سواد لے رہی تھی اس کی آنکھیں بند تھی اور منہ سے دبی دبی سسکیاں چھوٹ رہی تھی . . . .
شیرو بس حیرانی سے اسے دیکھے جا رہا تھا . . . . منہ پر پسینہ دیکھ کر شیرو فکرمندی سے پوچھتا ہے مامی آپ ٹھیک تو ہے . . . .
ماہرہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیتی ہے . . . .
‘ ہاں میں ٹھیک ہوں بس کھڑے کھڑے تھک گئی تھی تو زرا چکر آ گیا ‘ . . . .
کچھ لمحے میں ماہرہ نارمل ہو جاتی ہے لیکن اس کی پینٹی سے اس کی منی بہنے لگتی اور اس کی رانوں اور چوتڑوں کو چپچپا کر دیتی ہے . . . . ،
ماہرہ کے من میں کئی ساری باتیں چل رہی تھی جو اسے سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہی تھی . . . .
ایک طرف اس ڈاکٹر کی باتیں یاد آ رہی تھی کھ . . . . کمی اس کے شوہر میں ہے . . . ، آپْریشَن پر چار لاکھ خرچ آئے گا جو وہ اکھٹا نہیں کر پائے گی . . . اگر کر بھی لیا تو اتنی بڑی رقم کیا کہہ کر دے گی اس کا شوہر پکڑ لے گا . . . .
اوپر سے پتہ نہیں کس آدمی کا اسپرم ڈالیں گے . . . کیسی اولاد ہوگی پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہی تھی . . .
پھر اس کا من شیرو کا معائنہ کرنے لگتا ہے کہ . . . شیرو کتنا اچھا ہے ہینڈسم ہے . . .
کتنا گھبرو جوان ہے کتنا کیئرنگ ہے ہر ایک گن اس میں ہے جو ایک پرفیکٹ لڑکے میں ہونے چاہیے . . . . اگر شیرو کا اسپرم مل جائے تو اس کا اور شیرو کا بچہ کتنا کیوٹ ہوگا کتنا سمجھدار ہوگا . . . . .
اتنا سوچتے ہی اسے شیرو کے لنڈ کا احساس اپنی چوت پر ہونے لگتا ہے. . . اور وہ سوچتی ہے کہ اگر شیرو کا ہی اسپرم شامل کروانا ہے تو ڈاکٹر کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے . . . .
کیوں نہ میں خود شیرو کا اسپرم ڈائریکٹ اپنے اندر لے لوں . . . . اس طرح پیسے بھی بچ جائیں گے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا . . . .
مگر شیرو کبھی نہیں مانے گا وہ تو میری اتنی عزت کرتا ہے . . .
ماہرہ :
ہائے ہائے یہ میں کیا سوچنے لگی یہ غلط ہے . . . ایسا نہیں ہو سکتا یہ گناہ ہے . . . چھی . . .
شیرو بھی اپنے من میں بہت سی باتیں سوچ رہا تھا . . . . مینا کی باتوں اور ڈاکٹر کی باتوں سے ایک بات کنفرم تھی کہ بختیار ماما باپ نہیں بن سکتے . . . . ایسے میں ماہرہ مامی بےچاری کی زندگی بانْجھ کے تانوں کو سن سن کر تباہ ہو جائے گی . . . . اوپر سے ماما باہر منہ مارتا پھیرتا ہے . . . .
پھر شیرو کے دماغ میں آئیڈیا آتا ہے کہ . . .
بختیار کا مینا کے پیچھے جانے کی وجہ شاید بچہ نہ ہونا ہے . . . . کیوں نہ ماما کو کسی طرح راضی کیا جائے کہ . . . وہ مامی کا اور اپنا علاج کروائیں . . . . اپنا تو وہ مانے گے نہیں مامی کا ہی کروا دیں . . . . تو کم سے کم ایک آپْریشَن سے مامی ماں بن جائے گی اور پھر ماما بھی مینا کے چکر میں نہیں پھنس پائیں گے . . . .
ایسے ہی دونوں اپنی اپنی سوچوں میں کھوئے گھر پہنچ جاتے ہیں . . .
گھر آنے کے بعد تھوڑی دیر آرام کر کے شیرو راجو سے ملنے کے لیے نکل جاتا ہے . . . . . اور ماہرہ بھی نائلہ کے پاس چلی جاتی ہے . . . .
نائلہ :
چھوٹی کیا کہا ڈاکٹر نے ؟
ماہرہ :
کچھ نہیں باجی ڈاکٹر نے کہا ہے کہ . . . میں ماں بن سکتی ہوں مجھ میں کوئی کمی نہیں ہے کمی بختیار میں ہی ہے . . . .
نائلہ :
سچ ؟ اس کا مطلب تم ماں بن سکتی ہو . . . .
ماہرہ :
کہاں باجی . . . . ،
بختیار ہی جب مجھے ماں نہیں بنا سکتے تو میں اکیلی ماں کیسے بن سکتی ہوں . . .
نائلہ :
ارے اس کا کوئی علاج تو بتایا ہوگا ڈاکٹر نے . . . .
ماہرہ :
آپ کو تو پتہ یہ مانے گے نہیں . . . .
نائلہ : کیسے نہیں مانے گا . . . ، میں سمجھاؤں گی اسے . . . تیرے جیٹھ جی سے کہلواتی ہوں . . . ، بچے کے نام پر دیکھنا کیسے نہیں مانتا . . . .
ماہرہ من میں . . . .
( نہیں باجی وہ نہیں مانے گا اب تو وہ مجھے ہاتھ بھی نہیں لگاتا پتہ نہیں کہاں جاتا ہے رات رات)
اُدھر شیرو راجو سے مل کر مینا کو کیسے قابو کرنا ہے اس پر مشورہ کرنے لگتے ہیں . . . مگر کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا انہیں . . . .
ایسے ہی رات ہونے لگتی ہے سب اپنے اپنے کمروں میں كھانا کھا کر سونے لگتے ہیں . . . .
بختیار ابھی گھر نہیں آیا تھا . . .
شیرو سوچتا ہے کہ کیوں نہ اما کی طبیعت کا پتہ کروں . . . . ان کے پاؤں میں موچ آئی ہے کم سے کم ان کی مالش تو کر ہی سکتا ہوں . . . .
اکھاڑے میں کسی نہ کسی کو موچ تو آتی رہتی ہے . . . استاد جی نے جو سکھایا ہے اس کا استعمال گھر پر بھی تو کیا جا سکتا ہے . . . .
اسی سوچ سے شیرو تیل کی بوتل ساتھ لیے نائلہ کے کمرے میں چلا جاتا ہے . . . . .
جاری ہے . . . .
منحوس سے معصوم تک
قسط نمبر 006
سامنے چھوٹی مامی بیڈ پر بیٹھی شیرو کا ہی انتظار کر رہی تھی جسے دیکھ کر شیرو ہڑبڑا گیا . . . .
شیرو کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ . . . . اب مامی کے سوالوں کا کیا جواب دے گا . . . ،
وہیں ماہرہ من میں یہ سوچ رہی تھی کہ اتنی رات کو گھر سے باہر چوروں کی طرح جانے کا کیا وجہ ہے . . . . کہیں شیرو کچھ غلط تو نہیں کر رہا جو بھی ہو آج پوچھنا ہی پڑے گا . . . . کیا پتہ ایسا کب سے چل رہا ہے. . . .
ماہرہ :
اتنی رات کو کہاں گیا تھا ؟
تو کب سے راتوں کو باہر جانے لگ گیا ہے ؟ ایسا کون سا کام ہے جو تو رات کے اندھیرے میں کرنے لگ گیا ہے ؟ . . .
شیرو :
وہ میں . . . وہ . وہ باہر گھومنے گیا تھا میرے پیٹ میں گیس ہو رہی تھی . . . .
ماہرہ :
اچھا گیس ہو رہی تھی . . . ، ، اب مجھ سے جھوٹ بولے گا کیا اتنی ہی عزت رہ گئی ہے میری اب ؟
سچ سچ بتا کہاں تھا کس کے ساتھ تھا ؟
شیرو :
مامی ایسا نہ کہو میں آپ کی کتنی عزت کرتا ہوں میرے دِل سے پوچھو . . .
ماہرہ :
تو سچ کیوں نہیں بتاتا . . . . ، بول کہاں گیا تھا ؟
شیرو : (سنجیدہ ہوتے ہوئے )
مامی پلیز ایسا مت کہیں میں آپ کو سب سچ سچ بتاوں گا . . . . مگر ابھی نہیں بتا سکتا آپ کو میری قسم ابھی کوئی سوال مت پوچھیں میں وقت آنے پر خود بتا دوں گا وعدہ کرتا ہوں بس اتنا سن لیجیے میں کچھ بھی غلط نہیں کر رہا ہوں جو کر رہا ہوں اِس گھر کی بھلائی کے لیے کر رہا ہوں . . .
ماہرہ شیرو کی آنکھوں میں سچائی اور سنجیدگی دیکھ کر چُپ کر جاتی ہے . . . اور کمرے سے بنا کوئی بات کرے نکل جاتی ہے . . . ، شیرو سوچنے لگتا ہے کہ مامی پتہ نہیں کیا کیا سوچے گی میرے بارے میں لیکن انہیں سچائی بھی تو نہیں بتا سکتا . . . اگر انہیں سچائی پتہ لگی تو ان کا دِل ٹوٹ جائے گا . . . .
مگر اس مینا کا مجھے جلد ہی کچھ کرنا پڑے گا کیسے چھوٹے ماما کو بےوقوف بنا کر انہیں لوٹ رہی ہے . . . . ،
یونہی سوچتے سوچتے شیرو کی آنکھ لگ جاتی ہے . . .
دوسری طرف ماہرہ بھی پریشان تھی مگر اسے اِس بات کی تسلّی تھی کہ . . . . . شیرو کچھ غلط نہیں کر رہا ہے مگر بات ضرور کوئی بڑی ہے جو اس نے اپنی قسم دے دی سوال نہ پوچھنے کے لیے . . . .
صبح صبح شیرو اپنی روٹین سے اکھاڑے چلا جاتا ہے گھر میں ماہرہ تیار ہو کر نائلہ کے کمرے میں جاتی ہے . . . .
ماہرہ :
باجی آپ تیار ہیں ؟ جلدی کیجیے ہم کہیں لیٹ نہ ہو جائیں . . . .
نائلہ اپنے بیڈ پر چادر تان کر لیٹی ہوئی تھی . . . . ماہرہ کی آواز سن کر ماہرہ کی طرف موڑتی ہے. . . .
نائلہ :
ارے چھوٹی مجھے معاف کرنا میں نہیں جا سکوں گی تیرے ساتھ . . . آج نہاتے وقت پاؤں پھسل گیا تھا زرا پاؤں میں موچ آ گئی ہے . . . تو دیبا کو لے جا ساتھ . . . . .
ماہرہ نائلہ کی آواز سے اندازہ لگا لیتی ہے واقعی وہ تکلیف میں تھی . . . .
ماہرہ :
باجی یہ کیسے ہوگیا آپ نے مجھے آواز کیوں نہیں دی . . .
نائلہ :
بس اچانک پاؤں پھسل گیا تھا اور آواز کیا دیتی تب تمھارے جیٹھ جی یہیں تھے وہی مجھے یہاں تک لے آئے . . . ، تو میری فکر نہ کر میں نے گولی کھا لی ہے تو دیبا کے ساتھ چلی جا . . . .
ماہرہ :
نہیں باجی آپ کو دیکھ بھال کی ضرورت ہے . . . . میں آپ کو ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتی ہم پھر چلے جائیں گے جب آپ ٹھیک ہو جائیں گی . . . .
نائلہ :
نہیں چھوٹی تو جا ایسے کاموں میں دیر نہیں کرتے میں اپنا دھیان رکھ لوں گی تو جا یہ میرا حکم ہے . . . .
ماہرہ :
اگر دیبا باجی بھی میرے ساتھ چلے گی تو گھر کا كھانا کون دیکھے گا ؟ . . . .
آپ کا دھیان کون رکھے گا ؟
نہیں نہیں آپ رہنے دیجیئے . . . .
نائلہ :
نہیں چھوٹی تیرا جانا ضروری ہے تو ایک کام کر تو شیرو کو ساتھ لے جا اس کو بول آج کالج سے چھٹی کر لے . . . .
ماہرہ :
لیکن باجی . . . .
نائلہ :
لیکن ویکن کچھ نہیں تو ابھی اسے جا کر بول دے دیکھ آ گیا ہوگا وہ بھی . . . .
ماہرہ :
اچھا باجی میں دیکھتی ہوں . . . .
ماہرہ شیرو کے کمرے میں جاتی ہے جہاں شیرو یونیفارم پہن کر تیار ہو رہا تھا کالج کے لیے . . . . .
ماہرہ اسے جا کر بتا دیتی ہے کہ کپڑے بَدَل لے . . . .
آج کالج سے چھٹی کر آج تجھے میرے ساتھ شہر جانا ہے . . . ،
اتنا کہہ کر ماہرہ کچن میں شیرو کو ناشتہ بنا کر دینے چلی جاتی ہے . . . .
شیرو : ( من میں )
لگتا ہے چھوٹی مامی کل رات کی بات کے لیے غصہ ہے. . . . اور مجھ سے آج اسی کے بارے میں بات کرے گی اب کیسے سمجھاؤں ان کو جو میں کر رہا ہوں انہی کے لیے کر رہا ہوں . . . .
تھوڑی دیر میں شیرو کپڑے بَدَل کر کچن میں ناشتہ کرتا ہے . . . . اور ماہرہ اسے جلدی کرنے کو کہتی ہے . . . ،
دونوں جلدی سے بس اسٹاپ جاتے ہیں اور شہر کے لیے بس پکڑ لیتے ہیں . . . . بس میں ابھی ہجوم نہیں تھا سو دونوں کو سیٹ مل جاتی ہے . . . . اور دونوں شہر کو نکل جاتے ہیں . . . .
راستے میں دونوں میں سے کوئی بات نہیں کر رہا تھا پھر اِس خاموشی کو شیرو ہی ٹورتا ہے . . . .
شیرو :
ہم ایسے اچانک کہاں جا رہے ہیں مامی ؟
سب ٹھیک تو ہے ؟
ماہرہ :
ہاں ہاں سب ٹھیک ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے . . . ،
اصل میں آج باجی جانے والی تھی میرے ساتھ مگر ان کے پاؤں میں موچ آ گئی صبح صبح اِس لیے ان کی جگہ تمہیں لے جا رہی ہوں . . . .
اتنا سن کر شیرو سکون کی سانس لیتا ہے پھر اچانک اس کا دھیان موچ پر جاتا ہے . . . . اور ہڑبڑا کر پوچھتا ہے . . . .
شیرو :
کیا اما کو موچ آ گئی مگر کیسے ؟
کسی نے مجھے بتایا کیوں نہیں . . . .
ماہرہ :
مجھے بھی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی بتایا انہوں نے . . . ، وقت نہیں تھا اِس لیے نہیں بتا پائی . . . ، ویسے گھبرانے والی بات نہیں ہے . . . . تو فکر مت کر گھر پر دیبا باجی ہیں ان کے پاس . . . .
شیرو :
ویسے ہم شہر کس لیے جا رہے ہیں اگر اما کو موچ آ گئی تھی رہنے دیتے شہر جانا . . . . .
ماہرہ :
میں نے تو کہا تھا مگر باجی نہیں مانی . . . ،
اصل میں پچھلی بار ہم دونوں جب شہر آئے تھے . . . . ڈاکٹر نے میرا چیک اپ کرنے کے لیے ٹیسٹ کئے تھے. . . آج ان کی رپورٹس دینی تھی انہوں نے اس لئے جانا ضروری تھا. . . ، اس لیے باجی نے تجھے ساتھ لے جانے کو کہہ دیا . . . .
شیرو : (فکر مندی سے پوچھتا ہے )
آپ کو کیا ہوا ہے کس چیز کا ٹیسٹ کروایا تھا آپ نے ؟ . . . . .
ماہرہ :
ارے کچھ نہیں ہوا مجھے بس ہے کوئی ٹیسٹ وہ میں نہیں بتا سکتی تجھے اب بس کوئی اور بات کرو . . . .
دونوں ایسے ہی ادھر اُدھر کی باتیں کرتے شہر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے رکشہ کر کے دونوں ڈاکٹر کے کلینک پہنچ جاتے ہیں . . . . آدھے گھنٹے کے انتظار کے بعد ماہرہ کو ڈاکٹر کیبن میں بلاتی ہے . . . . یہ ایک لیڈی ڈاکٹر تھی جو بےاولاد لوگوں کا علاج کرتی تھی . . . . ماہرہ شیرو کو باہر ہی روکنے کا بول کر اندر چلی جاتی ہے . . . .
ڈاکٹر . :
آئیں ماہرہ بیٹھیں . . . .
ماہرہ :
گڈ مارننگ ڈاکٹر پلیز بتائیں میری رپورٹس کیسی ہیں ؟
میں ماں تو بن سکتی ہوں نہ . . . .
ڈاکٹر :
ارے بیٹھیں تو سہی . . . .
دیکھیں میں نے آپ کی ساری رپورٹس چیک کرلی ہیں آپ بالکل پرفیکٹ ہیں آپ میں کوئی کمی نہیں ہے آپ پوری طرح سے صحت مند ہے . . . . .
مجھے لگتا ہے کہ کمی آپ کے شوہر میں ہے آپ ایک بار انہیں میرے کلینک لے آئیں ہم ان کو چیک کرلیں گے . . . .
ماہرہ :
اپنی رپورٹس کے بارے میں سن کر خوش ہو جاتی ہے کہ . . . . . وہ ماں بن سکتی ہے مگر ڈاکٹر کی دوسری بات سن کر اس کا چہرہ اُتَر جاتا ہے . . . .
"نہیں ڈاکٹر وہ کبھی نہیں مانے گے بھلا کون مرد اپنی کمزوری مانے گا . . . . اور میرے شوہر تو ویسے بھی بہت ضدی ہے" . . .
ڈاکٹر :
دیکھیں میڈم آپ کی رپورٹس کے مطابق مجھے سو فیصد یقین ہے کمی آپ میں نہیں آپ کے شوہر میں ہے . . . . ایسے میں ماں بننے کے دو ہی راستے ہیں آپ کے پاس . . . .
ماہرہ :
بتائیں ڈاکٹر میں کچھ بھی کروں گی پلیز آپ مجھے ماں بنا دیجیئے . . . . بتائیں کتنے پیسے لگیں گے . . . .
ڈاکٹر :
دیکھیں یہ تو ظاہر ہے کہ . . . . آپ کے شوہر کے اسپرم میں جراثیم کی کمی ہوگی . . . . اس لیے آپ ماں نہیں بن پا رہی ایسے میں سیکنڈ اوپشن یہی ہوتا ہے کہ . . . . کسی دوسرے کے اسپرم کو آپ کی بچہ دانی میں شامل کر کے آپ کو ماں بنایا جائے . . . . اور اِس کام کے لیے میڈیکل سائنس نے آج کل بہت ترقی کر لی ہے. . . . .
ایک چھوٹے سے آپْریشَن کے ذریعے آپ کی بچہ دانی میں اسپرم ڈالا جائے گا اور آپ کو پریگننٹ کیا جائے گا . . . . .
ماہرہ :
ڈاکٹر اس میں کوئی رسک تو نہیں ہوتا ؟ . . . .
ڈاکٹر :
نہیں رسک والی کوئی بات نہیں . . . ،
ہاں کئی بار ایک بار کی کوشش سے کچھ عورتیں مس بھی ہو جاتی ہیں تو انہیں پھر سے ایک موقع دیا جاتا ہے . . . .
ماہرہ :
ڈاکٹر اس سے بچہ تو سہی ہوتا ہے نہ . . . . میرا مطلب . . . .
ڈاکٹر :
میں سمجھ گئی . . . دیکھیں بچے میں فطرت تو اس کے ماں باپ سے ہی آتی ہے . . . ، جیسی فطرت اس کے ماں باپ کی ہوگی . . . . ویسے ہی بچے میں ہوگی . . . اب ہم اس کے بارے میں تو گارنٹی نہیں دے سکتے نہ . . .
ماہرہ :
ڈاکٹر اس میں کتنا خرچ آئے گا ؟ . . .
ڈاکٹر :
یہی کوئی دو لاکھ سے چار لاکھ روپے . . . .
ماہرہ ڈاکٹر سے آپْریشَن کی فیس سن کر حیران ہو جاتی ہے اور اسے سوچ کر بتانے کا کہہ کر باہر نکل آتی ہے . . . ، ،
باہر شیرو مامی کاانتظار کر رہا تھا جب وہ باہر آتی ہے تو شیرو چپ چاپ اس کے ساتھ چل پڑتا ہے . . . .
ماہرہ خاموشی سے فکرمندی میں ڈوبی چلی جا رہی تھی ساتھ میں شیرو بھی چلا جا رہا تھا . . . . ،
شیرو نے ڈاکٹر کی کیبن کے باہر کھڑے ہو کر ڈاکٹر کی باتیں سن لی تھی . . . . مگر وہ ظاہر نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی سوال کرتا ہے . . . . وہ جانتا تھا مامی ٹینشن میں ہے اس لئے وہ مامی کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کہتا ہے . . . .
شیرو :
کیا مامی آپ بھی بس بھاگے جا رہی ہیں آئیں کچھ کھا لیتے ہیں . . . .
ماہرہ :
نہیں شیرو میرا موڈ نہیں ہے تجھے بھوک لگی ہے تو تو کھا لے . . .
شیرو :
ایسے کیسے موڈ نہیں ہے آپ کو بھی میرے ساتھ چلنا ہوگا . . . ،
بھول گئی آپ اُس دن آپ نے کیا کہا تھا ؟
ماہرہ :
کب ؟ کیا کہا تھا ؟
شیرو :
ارے میری سالگرہ پر آپ نے کہا تھا نہ کہ آپ کو پارٹی چاہیے !
آج تو موقع ہے چلیں آج میں پارٹی دیتا ہوں اپنے خاص دوست کو . . . .
ماہرہ :
نہیں شیرو پھر کبھی آج ہم گھر چلتے ہیں . . . .
شیرو نہیں مانتا اور اپنی قسم دے کر ماہرہ کو ساتھ لے جاتا ہے . . . ایک ریسٹورانٹ میں ماہرہ بھی اس کا من رکھنے کے لیے چل پڑتی ہے . . . .
جہاں دونوں ہلکا پھلکا کھا لیتے ہیں پھر شیرو ماہرہ کو لے کر مارکیٹ میں چلا جاتا ہے . . . . جہاں اسے اپنی پسند کی خوبصورت سی چپل لے کر دیتا ہے . . . . جب دونوں شاپ پر چپل لینے جاتے ہیں تو دوکاندار شیرو سے کہتا ہے. . . .
آئیں بھائی صاحب اپنے لیے لیں گے یا بھابھی کی لیے . . . . .
شیرو شرما جاتا ہے مگر ماہرہ بات سنبھل لیتی ہے . . . .
اصل میں شیرو پہلوانی کرنے کی وجہ سے اپنی عمر سے بڑا لگتا تھا . . . . جسم سے بڑی عمر کا نظر آتا تھا . . . . اور ماہرہ ابھی چوبیس پچیس سال کی دکھتی تھی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے . . .
اس کے بعد دونوں بس اسٹاپ بس پکڑنے چلے آتے ہیں . . . . ،
ماہرہ اپنے من میں شیرو کی وجہ سے بہت خوش تھی کہ . . . .
وہ کتنا اچھا کتنا کیئرنگ ہے کیسے اپنی باتوں میں لگا کر اس نے ساری ٹینشن ہی بھلا دی . . . . اور اسے پتہ ہے کہ اپنے ساتھی کو کیسے خوش رکھنا ہے کتنی انڈر اسٹیڈنگ نیچر ہے . . . . کاش بختیار بھی ایسا ہوتا . . . .
کچھ دیر بعد دونوں بس میں سوار ہو جاتے ہیں . . . بس میں بہت بھیڑ تھی دونوں کو سیٹ نہیں ملتی مجبوری میں کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا ہے . . . .
ماہرہ :
دیکھا میں نے کہا تھا نہ واپس چلتے ہیں اب دیکھ کتنی رش ہے اگر اس وقت آتے تو رش نہ ہوتی . . . .
شیرو :
مامی جی یہ رش تو ہر بس میں ملے گی ہی . . . ،
زرا سوچیں ہم نے آج کیا کیا . . .كھانا پینا بھی ہوگیا شاپنگ بھی اور باتیں بھی . . . .
ماہرہ :
رہنے دے رہنے دے مجھے مت سمجھا ویسے تھینکس میں بہت خوش ہوں . . . . تو نے مجھے شاپنگ کروائی اور كھانا بھی کھلایا ریسٹورانٹ میں . . .
شیرو :
ارے کیا مامی ہم تو دوست بھی ہیں نہ تو اس میں تھینکس کیسا . . . آپ کو پارٹی تو دینی ہی تھی . . . .
دونوں ایسے باتیں کرتے رہتے ہیں پھر اگلے اسٹاپ سے اور لوگ بس میں گھس آتے ہیں . . . رش بڑھ جاتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی شیرو پیچھے سے ماہرہ کے ساتھ چپک جاتا ہے . . . . ،
ماہرہ بھی سمجھتی ہے کہ رش ہی اتنی ہے تو کوئی کیا کرے . . . .
ایسے بس چلتی رہتی ہے بس کو جھٹکا لگتا ہے جس کی وجہ سے شیرو ماہرہ کے اوپر گرنے کو ہوتا ہے . . . . ،
ماہرہ شیرو کے وزن سے تھوڑا آگے جھک جاتی ہے . . . . اور شیرو کا لنڈ ماہرہ کے چوتڑوں کے درمیان پہنچ جاتا ہے . . . . دونوں جب سیدھے ہوتے ہیں تو شیرو کا لنڈ ماہرہ کو اپنی گانڈ کے دراڑ میں محسوس ہوتا ہے . . . .
گانڈ کی گرمی سے شیرو کا لنڈ اٹھ گیا تھا . . . . مگر شیرو کا ابھی اِس طرف دھیان نہیں گیا تھا . . . . .
ماہرہ من میں سوچنے لگتی ہے کہ اب کیا کرے . . . اسے شرم آنے لگتی ہے شیرو کو کیسے کہے . . . . دھیرے دھیرے شیرو کے لنڈ میں سختی بڑھتی جاتی ہے . . . اور وہ پُورا لوہے کی روڈ جیسا سخت سیدھا ماہرہ کی گانڈ کی بیچ میں گھس رہا تھا . . . .
ماہرہ لنڈ کی سختی سے چُداسی ہونے لگتی ہے . . . . آخر کتنے ہفتوں سے وہ چدی نہیں تھی . . . . لنڈ کی گرمی پا کر پھدی نے رونا شروع کر دیا تھا . . .
ماہرہ سے گرمی برداشت نہیں ہوتی نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ہوس کے سمندر میں بہنے لگتی ہے . . . .
ماہرہ اپنی گانڈ کو تھوڑا اوپر اٹھانے کے لیے پاؤں کی ایڑیاں اٹھا لیتی ہے . . . اور آگے کو تھوڑا جھکنے کی کوشش کرتے ہوئے پھدی کو لنڈ کے منہ پر سیٹ کرتی ہے . . .
شیرو کو بھی اپنے لنڈ پر جب دباو محسوس ہوتا ہے تو . . . .اسے خیال آتا ہے کہ اس کا لنڈ پُوری طرح کھڑا ہے . . . .
اور مامی کے چوتڑوں میں گھسا ہوا ہے . . . .
شیرو پسینے میں بھیگنے لگتا ہے اور من میں ڈرنے لگتا ہے کہ . . . .
مامی کیا سوچے گی کتنا گندا ہوں میں جو ایسے ان کا فائدہ اٹھا رہا ہوں . . . . مگر لاکھ کوششوں کے بعد بھی شیرو کا اپنے آپ پر قابو نہیں تھا اس کا لنڈ تو جیسے بغاوت پر اُتَر آیا تھا . . . .
ماہرہ اپنی چوت پر دامدار لوڑے کو محسوس کر کہ لگاتار دباو بنائے جا رہی تھی . . . اسے تو کسی بھی قیمت پر چدائی چاہیے تھی . . . . ایک دامدار لنڈ سے اپنی چوت کی ٹھکائی چاہتی تھی وہ . . . اس کا شوہر تو اسے ہاتھ بھی نہیں لگا رہا تھا . . . . آخر وہ کرے تو کیا کرے . . .
شیرو خود کو روک نہیں پا رہا تھا اِس لیے اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی . . . مگر اندر ہی اندر اسے بھی مزہ آنے لگا تھا اور اس نے بھی اپنی کمر کو آگے دھکیلنا شروع کر دیا تھا . . . . ایسے ہی دونوں ہوس میں ڈوبتے جا رہے تھے . . . ماہرہ سے اب برداشت نہیں ہو رہا تھا اور کچھ ہی پل میں اس کی چوت کا بندھ ٹوٹ گیا . . . . اس کی پینتی اس کی پھدی کے پانی سے بھیگ گئی . . . اس کا جسم جھٹکے کھانے لگا اور اسے کھڑا رہنا مشکل ہوگیا . . . . تبھی ساتھ والی سیٹ خالی ہو جاتی ہے اور ماہرہ بےسدھ سی وہیں سیٹ پر گر جاتی ہے . . . .
ماہرہ اپنے اِس مزے کا سواد لے رہی تھی اس کی آنکھیں بند تھی اور منہ سے دبی دبی سسکیاں چھوٹ رہی تھی . . . .
شیرو بس حیرانی سے اسے دیکھے جا رہا تھا . . . . منہ پر پسینہ دیکھ کر شیرو فکرمندی سے پوچھتا ہے مامی آپ ٹھیک تو ہے . . . .
ماہرہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیتی ہے . . . .
‘ ہاں میں ٹھیک ہوں بس کھڑے کھڑے تھک گئی تھی تو زرا چکر آ گیا ‘ . . . .
کچھ لمحے میں ماہرہ نارمل ہو جاتی ہے لیکن اس کی پینٹی سے اس کی منی بہنے لگتی اور اس کی رانوں اور چوتڑوں کو چپچپا کر دیتی ہے . . . . ،
ماہرہ کے من میں کئی ساری باتیں چل رہی تھی جو اسے سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہی تھی . . . .
ایک طرف اس ڈاکٹر کی باتیں یاد آ رہی تھی کھ . . . . کمی اس کے شوہر میں ہے . . . ، آپْریشَن پر چار لاکھ خرچ آئے گا جو وہ اکھٹا نہیں کر پائے گی . . . اگر کر بھی لیا تو اتنی بڑی رقم کیا کہہ کر دے گی اس کا شوہر پکڑ لے گا . . . .
اوپر سے پتہ نہیں کس آدمی کا اسپرم ڈالیں گے . . . کیسی اولاد ہوگی پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہی تھی . . .
پھر اس کا من شیرو کا معائنہ کرنے لگتا ہے کہ . . . شیرو کتنا اچھا ہے ہینڈسم ہے . . .
کتنا گھبرو جوان ہے کتنا کیئرنگ ہے ہر ایک گن اس میں ہے جو ایک پرفیکٹ لڑکے میں ہونے چاہیے . . . . اگر شیرو کا اسپرم مل جائے تو اس کا اور شیرو کا بچہ کتنا کیوٹ ہوگا کتنا سمجھدار ہوگا . . . . .
اتنا سوچتے ہی اسے شیرو کے لنڈ کا احساس اپنی چوت پر ہونے لگتا ہے. . . اور وہ سوچتی ہے کہ اگر شیرو کا ہی اسپرم شامل کروانا ہے تو ڈاکٹر کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے . . . .
کیوں نہ میں خود شیرو کا اسپرم ڈائریکٹ اپنے اندر لے لوں . . . . اس طرح پیسے بھی بچ جائیں گے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا . . . .
مگر شیرو کبھی نہیں مانے گا وہ تو میری اتنی عزت کرتا ہے . . .
ماہرہ :
ہائے ہائے یہ میں کیا سوچنے لگی یہ غلط ہے . . . ایسا نہیں ہو سکتا یہ گناہ ہے . . . چھی . . .
شیرو بھی اپنے من میں بہت سی باتیں سوچ رہا تھا . . . . مینا کی باتوں اور ڈاکٹر کی باتوں سے ایک بات کنفرم تھی کہ بختیار ماما باپ نہیں بن سکتے . . . . ایسے میں ماہرہ مامی بےچاری کی زندگی بانْجھ کے تانوں کو سن سن کر تباہ ہو جائے گی . . . . اوپر سے ماما باہر منہ مارتا پھیرتا ہے . . . .
پھر شیرو کے دماغ میں آئیڈیا آتا ہے کہ . . .
بختیار کا مینا کے پیچھے جانے کی وجہ شاید بچہ نہ ہونا ہے . . . . کیوں نہ ماما کو کسی طرح راضی کیا جائے کہ . . . وہ مامی کا اور اپنا علاج کروائیں . . . . اپنا تو وہ مانے گے نہیں مامی کا ہی کروا دیں . . . . تو کم سے کم ایک آپْریشَن سے مامی ماں بن جائے گی اور پھر ماما بھی مینا کے چکر میں نہیں پھنس پائیں گے . . . .
ایسے ہی دونوں اپنی اپنی سوچوں میں کھوئے گھر پہنچ جاتے ہیں . . .
گھر آنے کے بعد تھوڑی دیر آرام کر کے شیرو راجو سے ملنے کے لیے نکل جاتا ہے . . . . . اور ماہرہ بھی نائلہ کے پاس چلی جاتی ہے . . . .
نائلہ :
چھوٹی کیا کہا ڈاکٹر نے ؟
ماہرہ :
کچھ نہیں باجی ڈاکٹر نے کہا ہے کہ . . . میں ماں بن سکتی ہوں مجھ میں کوئی کمی نہیں ہے کمی بختیار میں ہی ہے . . . .
نائلہ :
سچ ؟ اس کا مطلب تم ماں بن سکتی ہو . . . .
ماہرہ :
کہاں باجی . . . . ،
بختیار ہی جب مجھے ماں نہیں بنا سکتے تو میں اکیلی ماں کیسے بن سکتی ہوں . . .
نائلہ :
ارے اس کا کوئی علاج تو بتایا ہوگا ڈاکٹر نے . . . .
ماہرہ :
آپ کو تو پتہ یہ مانے گے نہیں . . . .
نائلہ : کیسے نہیں مانے گا . . . ، میں سمجھاؤں گی اسے . . . تیرے جیٹھ جی سے کہلواتی ہوں . . . ، بچے کے نام پر دیکھنا کیسے نہیں مانتا . . . .
ماہرہ من میں . . . .
( نہیں باجی وہ نہیں مانے گا اب تو وہ مجھے ہاتھ بھی نہیں لگاتا پتہ نہیں کہاں جاتا ہے رات رات)
اُدھر شیرو راجو سے مل کر مینا کو کیسے قابو کرنا ہے اس پر مشورہ کرنے لگتے ہیں . . . مگر کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا انہیں . . . .
ایسے ہی رات ہونے لگتی ہے سب اپنے اپنے کمروں میں كھانا کھا کر سونے لگتے ہیں . . . .
بختیار ابھی گھر نہیں آیا تھا . . .
شیرو سوچتا ہے کہ کیوں نہ اما کی طبیعت کا پتہ کروں . . . . ان کے پاؤں میں موچ آئی ہے کم سے کم ان کی مالش تو کر ہی سکتا ہوں . . . .
اکھاڑے میں کسی نہ کسی کو موچ تو آتی رہتی ہے . . . استاد جی نے جو سکھایا ہے اس کا استعمال گھر پر بھی تو کیا جا سکتا ہے . . . .
اسی سوچ سے شیرو تیل کی بوتل ساتھ لیے نائلہ کے کمرے میں چلا جاتا ہے . . . . .
سرور :
آؤ بیٹے کیسے آنا ہوا اِس وقت ؟
شیرو :
میں تو اما کے پاؤں کی موچ ٹھیک کرنے آیا ہوں بابا . . ، میرے ہوتے ہوئے اما کے پاؤں میں موچ آ جائے کیا فائدہ میری پہلوانی کا . . . میں ابھی مالش کر کے ٹھیک کر دوں گا . . . .
سرور : (ہنستے ہوئے )
دیکھ لینا کہیں پہلوانی والی مالش کر کے پاؤں کو توڑ ہی نہ دینا . . . . عورتیں نازک ہوتی ہیں پہلوان . . . .
نائلہ :
کیسی باتیں کرتے ہے آپ ایک بیٹا بھلا ماں کو چوٹ پہنچا سکتا ہے . . . اور میرا بیٹا تو لاکھوں میں ایک ہے . . . ، کتنی فکر ہے اسے میری . . . .
سرور :
ہاں بھائی اسے ہی فکر ہے اور تو کسی کو ہے نہیں . . . .
شیرو :
ارے بابا آپ یہ کیا کہہ رہے ہے میں تو آپ دونوں کی ہی فکر کرتا ہوں بولو تو آپ کی بھی مالش کر دیتا ہوں . . . .
سرور :
ارے نہیں بھائی میں ٹھیک ہوں تو مجھے معاف کر . . . بس اپنی اما کی خدمت کر
اتنا کہہ کر سرور دوسری طرف منہ کر کے لیٹ جاتا ہے . . . . اور شیرو نائلہ کے پاؤں کے پاس بیٹھ جاتا ہے . . . .
شیرو :
اما شلوار تھوڑا اوپر کر لو تیل سے خراب نہ ہو جائے . . . .
نائلہ اپنی شلوار کو تھوڑا اوپر کھینچ لیتی ہے . . . . اور شیرو پاؤں میں تیل لگا کر مالش شروع کر دیتا ہےدونوں ہاتھوں سے . . . .
نائلہ نے پاؤں میں پائل ڈالی ہوئی تھی جو اس کے سُندر پاؤں کو چار چاند لگا رہی تھی . . . رنگ گورا ہونے سے شیرو کو یہ نظارہ بہت ہی پیارا لگ رہا تھا . . . حالاںکہ اس کے من میں کوئی گندا خیال نہیں تھا . . . .
نائلہ کو بھی مالش سے سکون ملتا ہے تھوڑی دیر کی مالش کے بعد وہ شیرو کو اب سونے کا بول دیتی ہے . . . . ،
شیرو نائلہ کے کمرے سے نکلتا ہے تو اسے بختیار ماما نشے میں جھومتا اپنے کمرے میں جاتا ہوا نظر آتا ہے . . . . ،
شیرو کے من میں جانے کیا آتا ہے کہ . . . وہ بختیار ماما کے کمرے کے پاس ان کی باتیں سننے چلا جاتا ہے . . .
ماہرہ :
آپ شراب پی کر آئے ہو ؟
اب یہ بھی کام شروع کر دیا آپ نے ؟
بختیار :
چُپ کمینی بانْجھ کہیں کی تیرے باپ کے پیسوں سے نہیں پی ہے اپنے پیسوں سے پی ہے . . . . وہ تو کمینہ فقیر ہے مادر چود بھڑوے بڈھے نے میری زندگی برباد کر دی . . . .
بانْجھ کو میرے پلے باندھ دیا ہے . . .
یہ سن کر ماہرہ رونے لگتی ہے. . . .
ماہرہ : (روتے ہوئے )
میرے ماں باپ کو کیوں گالی دیتے ہے آپ ؟
ان کا کیا قصور ہے اگر میں ماں نہیں بنی تو قصور آپ کا بھی تو ہے . . . . .
بختیار :
کیا کہا میرا قصور ہے . . . ، ، کمینی کتیا زُبان چلاتی ہے . . .
اتنا کہہ کر تین چار تھپڑ ماہرہ کے گالوں پر رکھ دیتا ہے . . . .
شیرو سے برداشت نہیں ہوتا وہ اندر جانا چاہتا تھا . . . . مگر اِس وقت کسی کے بیڈروم میں میاں بِیوِی کے درمیان جانا بھی سہی نہیں تھا . . .
بختیار :
کمینی کمی تجھ میں ہی ہے جتنا میں نے تجھے چودا ہے اگر بھینس کو بھی چودتا تو وہ ماں بن جاتی . . . . تو مجھ میں قصور نکالتی ہے . . .
روک جا تھوڑے دن پھر اِس گھر میں بیٹا آئے گا جو میرے خون سے میرے لنڈ کے دھر سے پیدا ہونے والا ہے . . . ، ،
تو تو کمینی بانجھ ہے مگر دنیا کی سب عورتین بانجھ نہیں ہے . . . . میں نے اپنے لیے دوسری ڈھونڈ لی ہے اور جلد ہی وہ میرے بیٹے کو پیدا کرنے والی ہے . . . .
ایک بار میرا بیٹا آ جائے پھر تجھے اِس گھر سے لات مار کر نکال دوں گا . . . .
ماہرہ بختیار کی باتوں کو برداشت نہیں کر پاتی . . . اسے لگتا ہے کہ اب اس کی دنیا لوٹ گئی ہے . . . سب ختم ہوگیا اب وہ جی کر کیا کرے گی . . . تھوڑی دیر روتی رہتی ہے پھر اچانک وہ اپنی زندگی کو ختم کرنے کے ارادے سے کمرے سے باہر نکال کر بھاگتی ہے . . . .
بختیار کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی وہ آرام سے بیڈ پر سو جاتا ہے . . . .
شیرو کمرے میں دونوں کی بات چیت ختم سمجھ کر ابھی اپنے کمرے کی طرف جا ہی رہا تھا کہ . . . . اسے باہر کا دروازہ کھلنے کی آواز آتی ہے وہ اچانک پلٹ کر دیکھتا ہے تو اسے چھوٹی مامی باہر جاتے نظر آتی ہے . . . .
شیرو جلدی سے سیڑھیاں اتر کر باہر کی طرف بھاگتا ہے . . . اسے تھوڑی ہی دور مامی بھاگتی ہوئی نظر آ جاتی ہے . . . شیرو جلدی سے اس کے پیچھے بھاگتا ہے . . . . .
ماہرہ روتے روتے بھاگتے جا رہی تھی اس کی تو دنیا ہی اجڑ گئی تھی اب وہ کس منہ سے اِس گھر میں رہے گی . . . . تھوڑے دنوں میں بختیار اسے گھر سے ویسے بھی نکالنے والا ہے تو وہ کہاں جائے گی . . . . وہ بےآسرا بےچاری بس مرنے کے لیے نہر کی طرف بھاگے جا رہی تھی . . . .
شیرو اسے روکنے کے لیے آواز دیتا ہے . . . . مگر ماہرہ کو تو جیسے کوئی آواز سن ہی نہیں رہی تھی . . . .
شیرو تیزی سے اس کا پیچھا کر رہا تھا مگر دونوں میں جو فاصلہ تھا وہ اتنا جلدی طے نہیں ہونے والا تھا . . . پھر بھی شیرو پُورا زور لگا رہا تھا . . . .
جیسے ہی ماہرہ نہر کے کنارے پہنچتی ہے اور چھلانگ لگانے لگتی ہے . . . . شیرو پیچھے سے اسے پکڑ لیتا ہے . . . .
شیرو :
یہ کیا کر رہی ہو مامی آپ کا دماغ خراب ہوگیا ہے کیا . . .
ماہرہ : (روتے ہوئے )
چھوڑ مجھے جانے دے مجھے . . . ،
میں جینا نہیں چاہتی میں اجڑ گئی میں لوٹ گئی . . . میں ایک بانْجھ ہوں مجھے مر جانے دے . . . .
شیرو :
پاگل مت بنو مامی یہ کیا الٹی سیدھی بکواس کئے جا رہی ہو . . . کون کہتا ہے آپ بانجھ ہو . . . بھول گئی ڈاکٹر نے کیا کہا تھا ؟
آپ ماں بن سکتی ہو . . . .
ماہرہ :
وہ سب جھوٹ ہے ڈاکٹر کچھ نہیں جانتا . . . میں بس مر جانا چاہتی ہوں تو مجھے جانے دے . . .
شیرو مامی کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوتا دیکھ کر ایک تھپڑ زور سے مار دیتا ہے . . . . اور ماہرہ اتنا زور کا تھپڑ پڑنے سے بےہوش ہو جاتی ہے . . . .
شیرو گھبرا جاتا ہے اور نہر سے پانی لے کر ماہرہ کے منہ پر ڈالتا ہے . . . جلدی ہی ماہرہ ہوش میں آ جاتی ہے . . . .
شیرو :
مجھے معاف کر دو مامی . . . مگر میں کیا کرتا آپ ہوش میں نہیں تھی . . . .
ماہرہ : (سسکتے ہوئے )
تو نے مجھے کیوں روکا شیرو . . . اب میرا سب کچھ لوٹ گیا ہے میں جینا نہیں چاہتی . . . .
شیرو :
آپ کو میری قسم آپ پرسکون ہو جائیں . . . اور خبردار اگر دوبارہ مرنے کی بات کی تو . . . کیا ایک پل بھی آپ نے سوچا کہ میرا کیا ہوگا . . . . اما کا کیا ہوگا گھر کی کتنی بدنامی ہوگی . . . آپ بس چلی آئی مرنے . . . .
ویسے تو مجھے دوست کہتی ہو کیا اتنا بھی بھروسہ نہیں تھا مجھ پر . . . . ،
ارے ماما تو نشے میں الٹا سیدھا بول رہے تھے آپ تو ہوش میں ہو . . . .
ماہرہ شیرو کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگتی ہے . . . .
شیرو :
میں نے سب سن لیا ہے . . . ،
اور میں پہلے سے جانتا تھا یہ سب . . . . مگر ایک بات آپ بھی سن لو بختیار ماما ایک سازش کا شکار ہے . . . وہ جسے اپنا بچہ سمجھ رہے ہیں وہ ان کا نہیں کسی اور کا ہے . . . . اور کل رات میں اسی بات کا پتہ لگانے گیا تھا باقی باتیں میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا پہلے آپ گھر چلو . . . .
ماہرہ شیرو کی باتوں کو سن کر حیران تھی . . . ،
شیرو کو سب کچھ پتہ ہے پہلے ہی اور یہ بھی کہ . . . . بختیار جسے اپنا بچہ سمجھ رہا ہے وہ بختیار کا نہیں . . . . ، ،
ماہرہ کے من میں کئی سوال تھے مگر فی الحال وہ چُپ چاپ شیرو کے ساتھ گھر لوٹ آتی ہے . . . . مگر اس کا اپنے کمرے میں جانے کا دِل نہیں کرتا اسے نفرت ہو گئی تھی بختیار سے . . . . آج اس نے نہ صرف اسے گالیاں دی تھی نہ صرف اس پر ہاتھ اٹھایا تھا . . . . بلکہ اس کے ماں باپ کو بھی گالیاں دی تھی جو کوئی بھی لڑکی برداشت نہیں کرتی . . . .
اس لئے ماہرہ شیرو کے ساتھ اس کے کمرے میں چلی جاتی ہے . . . . ،
شیرو بہت کوشش کرتا ہے مگر ماہرہ نہیں مانتی . . . .
شیرو ہار کر اس لئے بھی مان جاتا ہے کہیں وہ پھر سے نہ باہر بھاگ جائے . . . .
شیرو اور ماہرہ دونوں شیرو کے کمرے میں آتے ہیں . . . .
کمرے میں آ کر شیرو چھوٹی مامی کو بیڈ پر بیٹھاتا ہے . . . ، اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ . . . وہ ان حالات میں مامی کو کیسے سمجھائے . . . ، زندگی میں پہلی بار آج اس نے چھوٹی مامی کو روتے ہوئے دیکھا تھا وہ چہرہ جو آج تک ہمیشہ ہنستا ہی دیکھا تھا اس نے . . . . آج اسے دیکھ کر شیرو کا دِل دَرْد میں ڈوب گیا تھا . . . .
کتنی سچائی تھی ماہرہ کی آنکھوں میں . . . . اس کی ایک ایک بات سچ تھی . . . . ، آخر بختیار ماما کی طرف سے اسے گھر سے نکالے جانے کی صورت میں اس کے پاس کوئی اور ٹھکانا بھی تو نہیں تھا . . . ، ،
اس کے ماں باپ پہلے ہی کتنے غریب ہیں . . . . ، شیرو کو مینا پر تو غصہ تھا ہی اب اسے بختیار ماما بھی کسی مجرم سے کم نہیں لگ رہے تھے . . . مگر اب جو حالات بن گئے تھے ان سے کیسے نپٹا جائے . . . . ،
اگر مینا کا کوئی علاج ڈھونڈ بھی لیا جائے تو اس کا کیا بھروسہ کہ . . . . بختیار ماما پھر کسی دوسری عورت کے پیچھے نہیں جائے گا . . . . ،
ویسے بھی اتنا آسَان نہیں ہوگا اس سے پیچھا چھوڑانا . . . . ماما تو اس کے پیٹ میں جو بچہ ہے اسے اپنا ہی سمجھ رہا ہے . . . .
شیرو اپنی سوچ میں ہی گم تھا کہ ماہرہ نے اِس خاموشی کو توڑا . . . .
ماہرہ :
یہ تم نے اچھا نہیں کیا شیرو . . . ،
آخر کیوں بچایا تم نے مجھے ؟
کیوں نہیں مر جانے دیا مجھے ؟
اب اِس گھر میں میرا رہ ہی کیا گیا ہے ؟
میری زندگی تو پہلے ہی جہنم بن گئی ہے . . . . کم سے کم مجھے اِس جہنم سے آذاد تو ہونے دیتے . . . . ،
بتاؤ آخر مجھے مرنے کیوں نہیں دیا تم نے ؟
ماہرہ روتے ہوئے چیخ چیخ کر پوچھ رہی تھی . . . . شیرو اس کے آنسوؤں میں ڈوبے چہرے کو دیکھے جا رہا تھا . . . .
شیرو : ( روتی آواز میں)
کیا ماما کے علاوہ اِس گھر میں آپ کا اور کوئی نہیں ؟
کیا آپ ہمیں اپنا نہیں مانتی ؟
ماما نے اگر غلطی کی ہے تو کیا اس کی سزا آپ ہمیں دیں گی ؟
بس ایک لمحے میں ہی ہم سب کو غیر بنا دیا . . . .
ماہرہ :
تو نہیں سمجھے گا شیرو کہ میں کس جہنم میں جی رہی ہوں . . . ، ایک عورت اپنے شوہر کے سہارے ساری دنیا سے لڑ کر بھی ہنسی خوشی زندگی جی سکتی ہے . . . . ،
عورت کو صرف سچا پیار کرنے والا شوہر چاہئیے ہوتا ہے . . . . پھر چاہے حالات کیسے بھی ہو وہ گزارا کر لیتی ہے . . . ،
شوہر کے بعد اگر عورت کی زندگی میں کسی کی اہمیت ہے تو وہ ہے اس کی اولاد . . . اگر شوہر سے پیار نہ بھی ملے تو عورت اپنے بچوں کو دیکھ کر ہی جی لیتی ہے . . . .
مگر میں ایسی منحوس ہوں جسے نہ شوہر کا پیار ہی ملا نہ ہی قدرت نے مجھے ماں بننے کا سکھ دیا . . . . ،
تو ہی بتا آخر میں ایسی زندگی کا کیا کروں . . . .
شیرو :
ایسا کیوں کہتی ہو مامی کہ . . . آپ ماں نہیں بن سکی . . . . ،
میں آپ کا بیٹا بھی ہوں ؟
کیا میں نے آپ کو ایک ماں کے جتنی عزت نہیں دی؟
ماما اگر غلط چکروں میں پھنس گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ . . . . وہ آپ کو پیار نہیں کرتے . . . .
ماہرہ :
تم نے تو مجھے ہمیشہ پیار اور عزت دی ہے. . . . مگر تو میری اولاد تو نہیں ہے نہ. . . اور ایک عورت کے ماتھے پر بانْجھ ہونے کا داغ اسے جینے نہیں دیتا . . . . یہ سمجھ بانْجھ کو کبھی عزت نہیں دیتا کوئی منہ پر نہ کہے مگر پیٹھ پیچھے ہر کوئی باتیں بناتا ہے . . . .
اور تو کیا جانتا ہے اپنے ماما کے بارے میں تو نے دیکھا ہی کیا ہے ؟
میں ہمیشہ سے چُپ رہی مگر کیا میں نہیں جانتی تھی کہ . . . تیرا ماما اپنے دوستوں کے ساتھ کیا کیا کرتا پھیرتا ہے . . . . ،
مگر میں تو سب کچھ برداشت کرتی رہی . . . ،
اب تو حد ہوگئی ہے وہ مجھے بانْجھ ہونے کا تانے دیتا ہے . . . ،
میری شکل دیکھنا اسے پسند نہیں اوپر سے اب مجھے گھر سے نکالنے والا ہے . . . اور نکال بھی دے گا کوئی کچھ نہیں کر پائے گا . . . .
شیرو :
کیا آپ کو ہم سب پر بھروسہ نہیں . . . . کیا آپ کو لگتا ہے ماں بابا انہیں ایسا کرنے دیں گے . . . .
ماہرہ :
نہیں شیرو اگر وہ مجھے گھر پر رکھ بھی لے تو . . . . بختیار مجھے اپناے گا نہیں میری اِس گھر میں حیثیت ایک نوکرانی کی ہی رہ جائے گی . . .
میں اچھی طرح جانتی ہوں بختیار کو وہ کتنا ضدی ہے . . . .
شیرو :
آپ فکر مت کرو مامی سب ٹھیک ہو جائے گا . . . ،
ماما کو میں سیدھے راستے پر لا کر رہوں گا . . . کسی بھی طرح . . . اور رہی بات آپ کی ماں بننے کی تو ڈاکٹر نے جیسا کہا ہے آپ آپْریشَن کروا لیں . . . .پھر ماما آپ کو چھوڑ کر باہر نہیں جائیں گے . . . .
ماہرہ :
نہیں شیرو میں اب ایسا کچھ نہیں کرنے والی . . . ایک تو اس میں اتنا پیسہ لگے گا دوسرا بختیار نہیں مانے گا اگر میں ایسے ماں بن بھی گئی . . . . تو وہ اس بچے کو قبول نہیں کرے گا . . . . ،
شیرو :
ایسا نہیں ھوگا آپ ایک کام کرنا آپ انہیں اس کے بارے میں بتانا ہی نہیں . . . .
ماہرہ :
نہیں شیرو میری زندگی میں اب ایک ہی راستہ بچہ ہوا ہے . . . . اور وہ ہے موت . . . ،
اور میں اب زندہ رہنا بھی نہیں چاہتی . . .
شیرو :
بس اتنا ہی پیار ہے آپ کو مجھ سے جو میری قسم کے بعد بھی آپ مرنا چاہتی ہے . . . ،
کیا یہی تھی آپ کی دوستی بس اسی لیے مجھے دوست بنایا تھا ؟
دوست تو ہر اچھے برے وقت میں ساتھ نبھاتے ہے . . . اور آپ ایک ہی جھٹکے میں میرا ساتھ چھوڑ رہی ہے . . . .
ماہرہ :
تو . . . تو ہی بتا کیا کروں میں ؟
کیا تو میرے ماتھے سے اِس داغ کو مٹا سکتا ہے . . . . بول کرے گا میری مدد ؟
دوست کہتا ہے نہ مجھے بتا میری مدد کرے گا ؟
بنائے گا مجھے ماں ؟
بھارے گا میری سونی کوکھ کو ؟
یا تو مجھے ماں بنا دے یا مجھے مرنے دے . . . . فیصلہ اب تیرے ہاتھ میں ہے . . . .
ماہرہ نے جذبات میں بہتے ہوئے شیرو کو اپنا فیصلہ سنا دیا تھا . . . مگر ماہرہ کی ان باتوں نے شیرو کے سر پر بم پھاڑ دیا تھا . . . . ،
شیرو کے پاس اِس بات کا کوئی جواب نہیں تھا . . . آخر وہ کیسے یہ سب کر سکتا ہے . . . ،
وہ تو یہ سب سن کر بُت ہی بن گیا تھا . . . .
ماہرہ :
نہیں کر سکتا نہ ؟
باتیں کرنا آسَان ہوتا ہے . . . . دوسرے کے دکھ میں باتوں سے تعزیت کرنے تو سب آ جاتے ہیں مگر ساتھ کوئی نہیں دیتا . . .
باتوں سے کسی کا دکھ کم نہیں ہو جاتا شیرو . . . تو ان فضول کی باتوں میں پھنسا کر مجھے اِس جہنم میں جینے پر مجبور مت کر . . . . لوگ صرف مشورے دیتے ہیں بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں . . . تم نے ابھی دنیا نہیں دیکھی میں نے دیکھی ہے . . . .
اِس لیے کان کھول کر سن لو میں یہاں سے بہت دور چلی جاوں گی . . . جہاں سے میری خبر تک تم لوگوں تک نہ پہنچے . . . . اور تمہیں میری قسم اگر تو نے مجھے روکا یا کسی کو بتایا تو میرا مرا ہوا منہ دیکھو . . .
شیرو کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا . . . ماہرہ نے اسے اپنی قسم دے دی تھی کسی کو نہ بتانے کی . . . . اور اب وہ روکے گی بھی نہیں ایک ہی پل میں جیسے سارے راستے اس نے بند کر دیئے تھے . . . . اب شیرو کے پاس کوئی راستہ نہیں بچہ تھا . . .
شیرو کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے تھے . . . آخر کتنا بےبس کر دیا تھا ماہرہ نے اسے قسم دے کر . . . . اور خود ماہرہ کے دِل پر کیا گزر رہی ھوگی اس کا بھی اسے اندازہ تھا . . . .
کچھ لمحے یونہی دونوں خاموش آنسوں بہائے جا رہے تھے . . . . پھر ماہرہ پیچھے پلٹ کر کمرے سے باہر جانے لگتی ہے . . . .
ماہرہ کو جاتا دیکھ کر شیرو کو لگتا ہے . . . جیسے ماہرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے دور جا رہی تھی . . . . ،
جیسے اس کے سگے ماں باپ کی طرح چھوٹی مامی بھی اسے چھوڑ کر جا رہی تھی . . . . اِس گھر میں نائلہ کے بَعْد ماہرہ ہی تھی جو اس کے اتنے قریب تھی . . . ،
کتنا پیار جھلکتا تھا اس کے ہر انداز میں کتنی ہنس مکھ . . . کتنی چلبلی تھی ماہرہ . . . . مگر آج وہی ماہرہ دنیا بھر کے غم اپنے اندر سمائے . . . . جیسے اِس دنیا کو الوداع کہہ کر جانے والی تھی . . . . ،
شیرو کا دِل چیخ چیخ کر اسے روکنے کے لیے کہہ رہا تھا . . .
اب تو ایک ہی را ستہ بچہ تھا اسے روکنے کا اور وہ تھا . . . . ماہرہ کو ماں بنانا جو کہ سراسر غلط تھا . . . . ،
شیرو کی تربیت اِس بات کی بالکل بھی اِجازَت نہیں دیتی تھی . . . آخر وہ کیسے اپنی ہی مامی کے ساتھ یہ سب کر سکتا تھا . . . . جس مامی کو ہمیشہ ماں کے برابر عزت دی ہو . . . . کیسے اس کے ساتھ وہ سب کر سکتا ہے . . . . مگر ایک سچ یہ بھی تھا کہ . . . کسی بھی قیمت پر شیرو کو ماہرہ کا یوں جانا برداشت نہیں تھا . . . . ،
اِسی لمحے میں جیسے پوری زندگی کا فیصلہ کرنا تھا اسے . . . . جسے کل پر ٹالا نہیں جا سکتا تھا . . . . کیوںکہ اسے کوئی مہلت تک تو نہیں دی تھی اس نے سوچنے کی . . . .
ماہرہ جیسے ہی آگے بڑھنے لگی اچانک شیرو نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا. . . . . .
شیرو :
اِس گھر میں آپ ڈولی میں آئی تھی نہ ؟
اور لوگ کہتے ہیں عورت جس گھر میں ڈولی میں بیٹھ کر آتی ہے پھر اس گھر سے ڈولی میں ہی نکلتی ہے . . . ،
اور میرے ہوتے ہوے آپ کو میں کچھ ہونے نہیں دوں گا. . . . .
میں آپ کی زندگی کی کمی کو پُورا کروں گا . . . . میں آپ کے ماتھے سے اِس داغ کو مٹاؤں گا . . . .
میں آپ کو “ماں ” بناؤں گا . . . . .
یہ کہتے ہوئے شیرو کا گلا بھر آیا تھا اور آنکھوں سے لگاتار آنسو جاری تھے . . . .
وہیں ماہرہ کے کانوں سے ہوتے ہوئے ایک ایک لفظ سیدھا اس کے دِل میں اُتَر گیا تھا . . . . کتنی تڑپ کتنا پیار تھا شیرو کے ایک ایک لفظ میں . . . .
واقعی میں اس کا پیار سچا تھا . . . . اس کے سے منہ نکلے پیار سے شربور ان لفظوں نے ماہرہ کو پگھلا دیا . . . اور اچانک پلٹ کر شیرو کے سینے سے لگ کر رونے لگی . . .
ماہرہ :
کتنا پیار کرتا ہے مجھ سے پاگل . . . ،
اتنے پیار سے اگر تو روکے گا تو میں موت کو لوٹا دوں گی . . .
میں سرخرو ہوگئی تجھے پا کر . . ،
سرخرو ہے وہ ماں جس نے تجھے پیدا کیا . . . . میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں اپنے اِس عظیم پیار کی تھوڑی سی بوند مجھے دے کر مجھے ماں بنا دے مجھے ماں بنا دے . . .
دونوں ہی ایک دوسرے سے گلے ملے روئے جا رہے تھے . . . مگر اب تو آگے بڑھنا ہی تھا اب شیرو کو ماہرہ کو وہ دینا ہی ہوگا جس کی اسے سب سے زیادہ ضرورت تھی . . . .
تبھی شیرو ماہرہ کو خود سے الگ کرتا ہے . . . . .
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
منحوس سے معصوم تک
قسط نمبر 007
شیرو :
میں آپ کو کیسے جانے دے سکتا ہوں ان آنکھوں میں . . . میں نے ہمیشہ ہنسی دیکھی ہے مستی دیکھی ہے . . . ان آنکھوں میں . . میں آنسو نہیں دیکھ سکتا . . .
یہ کہہ کر شیرو ماہرہ کے آنسوں صاف کرتا ہے . . . .
شیرو :
آپ کو میں اتنا پیار دوں گا کہ . . . آپ ہر غم بھول جائیں گی . . . ،
میں آپ کو کہیں نہیں جانے دوں گا . . . مگر ایک مشکل ہے . . .
ماہرہ چونک جاتی ہے کہ آخر شیرو کو کیا پریشانی ہے . . . .
شیرو ماہرہ کی آنکھوں میں سوال دیکھ کر کہتا ہے . . . .
شیرو :
میں اِس بارے میں کچھ نہیں جانتا جو کرنا ہوگا وہ آپ کو ہی کرنا ہوگا . . .
ماہرہ شیرو کی بات سن کر شرما جاتی ہے اور چہرہ جھکا لیتی ہے . . .
دونوں خاموش ہو جاتے ہیں مگر کسی کو تو شروعات کرنی تھی . . . اور شیرو نے صاف کہہ دیا تھا کہ . . . اسے کچھ نہیں آتا جو کرنا ہے ماہرہ کو ہی کرنا ہے . . . .
تب ماہرہ من میں ہمت پیدا کرتی ہے . . . . اور چہرہ اوپر اُٹھا کر شیرو کی آنکھوں میں دیکھنے لگتی ہے . . . .
شیرو سمجھ نہیں پا رہا تھا ماہرہ کی نظروں میں ایک تبدیلی آ گئی تھی . . . جو پہلے اس نے کبھی نہیں دیکھی تھی . . .
پھر ماہرہ آگے بڑھتی ہے اور شیرو کے سر کے پیچھے ہاتھ رکھا کر اس کے سر کو جھکاتی ہے . . . اور اپنے لرزتے ہوئے ہونٹوں کو شیرو کے ہونٹوں سے ملا دیتی ہے . . . .
ووم م م . . . ہم م م . . . .
دونوں ایک دوسرے کے ہونٹ چومنا شروع ہو جاتے ہے . . . . شیرو الگ ہی دنیا کے نشے میں ڈوبا جا رہا تھا . . . . ماہرہ کے نازک ملائم ہونٹوں کا احساس اسے دیوانہ کر رہا تھا . . . . ایسا مزہ تو مہوش کے ساتھ بھی نہیں آیا تھا . . . .
دونوں ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چوس رہے تھے اِس ہونٹوں کے رسپان کی کمانڈ ماہرہ کے ہاتھوں میں تھی . . . . مگر شیرو بھی برابر ساتھ دے رہا تھا . . . . جیسے ہونہار شاگرد جلدی سے استاد کی ہر بات کو سمجھتا ہے . . . . ویسے ہی شیرو بھی کر رہا تھا . . .
تھوڑی دیر کس کرنے کے بَعْد ماہرہ نے سانس لینے کے لیے چہرہ پیچھے کیا . . . تو اس نے محسوس کیا کہ . . . اس کے ہونٹ پوری طرح دونوں کے تھوک سے بھیگ گئے تھے . . . شیرو تو پُورا مدھوش ہو چکا تھا . . . . ماہرہ کی نظریں شیرو کی نظروں سے پھر ملی . . . . اور بنا ایک پل گنوائیں دونوں کے ہونٹ پھر جوڑ گئے . . . . ماہرہ شیرو کا کبھی نیچلا ہونٹ چوس رہی تھی. . . . کبھی اوپر والا اور پھر اس نے اپنی زبان شیرو کے منہ میں ڈال دی . . .
ماضی میں ماہرہ کالج میں پڑھی لکھی تھی . . . اس نے شہر کی دنیا دیکھی تھی انڈین فلموں کی طرح وہ بھی کھل کر رومینس کرنا چاہتی تھی . . . مگر اپنی عزت کی خاطر اس نے کوئی بواے فرینڈ نہیں بنایا تھا . . . . اور بختیار سے کبھی وہ کھل کر رومینس کر نہیں پائی تھی . . . . مگر شیرو کے ساتھ اس کا دِل کہہ رہا تھا کہ وہ اپنے ہر خواب کو پورا کرے . . . . کیوںکہ شیرو کی آنکھوں میں اس نے سچا پیار دیکھا تھا . . .
ماہرہ شیرو کی زبان کو چوس رہی تھی . . . اور شیرو ماہرہ کی پیروی کر رہا تھا پھر شیرو نے بھی ماہرہ کی زبان کو چوسنا شروع کر دیا . . . .
شیرو صرف ماہرہ کی پیروی کر رہا تھا پھر ماہرہ نے شیرو کا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنی چھاتی پر رکھ دیا . . . اور ہلکا سا دبا کر اسے اشارہ کیا . . . .
شیرو بھی ماہرہ کا اشارہ سمجھ گیا اور اس نے ماہرہ کی ٹھوس چھاتیوں کو دبانا شروع کر دیا . . . . ،
ماہرہ کے ممے اب بھی کٹھور تھے کیوںکہ نہ تو وہ ابھی تک ماں بنی تھی . . . . اور نہ ہی بختیار اس کے ساتھ زیادہ خوش تبعائی (فورپلے) کرتا تھا . . .
شیرو پہلے دھیرے دھیرے پھر زور سے مموں کو دبانے لگا . . . جس کی وجہ سے ماہرہ کو تھوڑا دَرْد بھی ہوا اور اس کے منہ سے سسکیاں نکلنے لگی . . . مگر اس نے روکا نہیں شیرو کو بلکہ وہ اِس میٹھے میٹھے دَرْد کو انجوئے کرنے لگی . . .
ماہرہ :
“ آہ . . . اوں . . . ایسے ہی دباؤ انہیں . . .آہ . . . دوسرا بھی دباؤ . . ہم م م . . .زور دباؤ . . . س س س . . . اوئی ماں" . . . .
شیرو دونوں ہاتھوں سے ممے دبانے لگا اور زور سے مسلنے لگا جیسے ماہرہ کی چھاتیوں کو آج ہی ڈھیلی کر دینا چاہتا ہو . . .
ماہرہ کی پھدی میں پانی آ گیا تھا اور اس کی ہوس کی آگ اب تیزی سے بڑھ رہی تھی . . . .
پھر ماہرہ نے جلدی سے شیرو کی قمیض اُتَار دی . . . پھر بنیان اُتَار کر شیرو کے چوڑے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگی . . . اور اس کی چھاتی کو چومنے لگی . . . ،
شیرو تو اِس نئے احساس میں کھوتا چلا جا رہا تھا . . . . اس سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا تھا . . . .
ماہرہ چومتے ہوئے نیچے بڑھنے لگی . . . اور شیرو کے پجامے کے ناڑے کو کھول دیا . . . جس سے شیرو کا پجامہ نیچے گر گیا اس کے انڈرویئر سے ہی اس کے لنڈ کا اُبھار صاف جھلک رہا تھا . . . . جو اِس بات کا گواہ تھا کہ شیرو اِس وقت مزے کے سمندر میں ڈوبا ہوا تھا . . . .
شیرو کے منہ سے سسکیاں نکل رہی تھی اگلے ہی لمحے ماہرہ نے شیرو کا انڈرویئر بھی نیچے کھینچ دیا . . . اور شیرو کا لنڈ اچھلتا ہوا باہر آ گیا . . . .
ماہرہ : (من میں)
"ہاے . . ، یہ کیا ہے ؟
اتنا بڑا بھی ہوتا ہے کسی کا ؟
ہائے یہ تو مجھے مار ہی ڈالے گا" . . . .
ماہرہ ایک بار تو ڈر ہی گئی تھی شیرو کا لنڈ دیکھ کر. . . ، ڈرے بھی کیوں نہ شیرو کا لنڈ کوئی معمولی لنڈ نہیں تھا . . . بلکہ آٹھ انچ لمبا اور چار انچ موٹا لوڑا تھا . . . جو بختیار کے پانچ انچ لمبے اور دو انچ موٹے لنڈ سے تقریباً دگنا تھا . . . .
ماہرہ کے من میں ڈر بیٹھ گیا تھا مگر دوسرے ہی لمحے وہ سوچنے لگی کہ . . . . اگر وہ اِس لنڈ کو برداشت کر گئی تو یہ مزہ بھی بہت دے گا . . . اس نے اپنی سہیلیوں سے کئی بار سنا تھا کالج کے دنوں میں کے لنڈ جتنا تگڑا ہو اتنا ہی مزہ دیتا ہے . . . .
شیرو تو چُپ چاپ ماہرہ کو دیکھ رہا تھا . . . . کیوںکہ اسے تو چدائی کا کوئی پتہ نہیں تھا جو بھی کرنا تھا ماہرہ نے کرنا تھا . . . .
شیرو :
کیا ہوا مامی کوئی گڑبڑ ہے کیا کچھ کمی ہے مجھ میں کیا . . . .
ماہرہ :
نہیں نہیں کچھ بھی تو نہیں تم میں کوئی کمی نہیں ہے . . دراصل تمھارے لنڈ کی لمبائی بہت بڑی ہے . . . تمھارے ماما کا تو اس سے آدھا ہے میں سوچ رہی تھی کہ میں کیسے اسے برداشت کروں گی . . . . .
پھر ماہرہ ہمت کر کے لنڈ کو پکڑ لیتی ہے اور مسلنے لگتی ہے . . . جس سے لنڈ کا تناو اور بڑھ جاتا ہے . . . اور اس پر نسوں کا ابھار شروع ہو جاتا ہے . . .
شیرو کا لنڈ بہت گرم تھا جس کا احساس ماہرہ کو اچھے سے ہو رہا تھا . . . . شیرو کے لنڈ میں ایک سب سے خاص بات تھی اور وہ تھی اس کا رنگ . . . . ،
شیرو کا لنڈ گورا چٹا تھا اور اس کے لنڈ کا اگلا حصہ مشروم کے جیسے بڑا چھتری کی طرح پھیلا ہوا تھا . . .
ماہرہ کی پھدی بہت زیادہ پانی چھوڑنے لگی تھی . . . وہ لنڈ کو منہ میں لینا تو چاہتی تھی مگر وہ شرما رہی تھی کہیں شیرو اس کے بارے میں غلط نہ سوچے . . .
پھر ماہرہ اپنے کپڑے اتارنے لگتی ہے اور پھر کمرے کی لائٹ کو بند کر کے چھوٹا بلب آن کر دیتی ہے . . . . تاکہ تھوڑا بہت نظر آ سکے . . . .
ماہرہ شیرو کے سامنے ننگا ہونے میں شرما رہی تھی مگر اسے آگے بڑھنا تھا . . . .
پھر چپکے سے اپنی قمیض اور شلوار اُتَار کر بیڈ پر صرف براہ پینٹی میں لیٹ جاتی ہے . . . .
ماہرہ کو بہت شرم آ رہی تھی اس لئے اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی . . .
شیرو ماہرہ کے سنگ مرمر سے سفید تراشے ہوئے بدن کو دیکھ کر مجنوں کی طرح بےتاب ہو گیا تھا . . . اس کا منہ اپنے آپ کھل جاتا ہے اور حلق خشک ہونے لگتا ہے . . . . کتنی حَسِین تھی ماہرہ کوئی بھی دیکھے تو پاگل ہو جائے . . . . پتہ نہیں بختیار کس مٹی کا بنا تھا جو ایسی حور پری کو چھوڑ کر باہر گھوم رہا تھا . . . .
جب شیرو کچھ دیر ماہرہ کے پاس نہیں آتا تو . . . . ماہرہ آنکھیں کھول کر دیکھتی ہے . . . . تو شیرو بس آنکھیں پھاڑے اس کے بدن کو دیکھے جا رہا تھا . . . . ،
ماہرہ کو اپنے آپ پر فخر محسوس ہونے لگتا ہے کہ . . . شیرو جیسا گھبرو جوان اِس عمر میں بھی اس کے جسم کی خوبصورتی میں کھو گیا ہے . . .
پھر وہ شیرو کو پاس بلاتی ہے . . .
شیرو اس کی آواز سے جیسے نیند سے جاگتا ہے اور بیڈ پر چلا جاتا ہے . . .
اب شیرو پُورا ننگا تھا جبکہ ماہرہ صرف پینٹی براہ میں تھی . . . .
ماہرہ :
اب تم میرے یہ آخری کپڑے اپنے ہاتھوں سے اتارو . . . .
شیرو ماہرہ کا حکم مان کر ماہرہ کے براہ کو کھولنے کی کوشش کرتا ہے . . . . . مگر اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ . . . . وہ کیسے اِس کو کھولے خیر ماہرہ اس کی مدد کرتی ہے اور براہ کھل جاتا ہے
براہ کھولتے ہی ممے اچھل کر باہر آ جاتے ہیں . . . . کیا حَسِین نظارہ تھا دودھ سے سفید اور پرفیکٹ شیپ کے ٹھوس سیڈول ممے . . . . جن پر برائون کلر کے چھوٹے چھوٹے نپل تھے . . . . جو اِس بات کے گواہ تھے کہ . . . . ان کو زیادہ چھیڑا نہیں گیا ہے . . . .
ماہرہ :
"آہ . . . شیرو اب انہیں مسلو پیار سے انہیں دباؤ انہیں منہ میں لے کر چوسو" . . . .
شیرو فرمابردار غلام کی طرح حکم سن کر دونوں ہاتھوں سے دودھ کو دبانے لگتا ہے . . . . اور پھر ایک دودھ کا نپل منہ میں لے کر چُوسنے لگتا ہے . . . . پھر تھوڑی دیر بَعْد دوسرے نپل کو منہ میں لیتا ہے پہلے والے کو دبانے لگتا ہے . . . .
ماہرہ تو مزے کے سمندر میں ڈوبتی جا رہی تھی اتنا مزہ اسے کبھی نہیں آیا تھا . . . .
"آہ . . . اوئی . . . ہاں ایسے ہی . . آں . . شاباش . . . ایسے کرو . . آہ . . س س س " . . .
ماہرہ :
اب میری پینٹی بھی اتارو جلدی سے . . .
شیرو مموں کو چھوڑ کر ماہرہ کی پینٹی کھینچ کر اتارنے لگتا ہے . . . جس میں ماہرہ کمر اُٹھا کر اس کی مدد کرتی ہے . . . .
ماہرہ کی پینٹی پوری پھدی کے پانی سے بھیگی ہوئی تھی . . . جسے شیرو ایک بار غور سے دیکھتا ہے اور سونگھتا ہے . . . . ،
ایک الگ ہی خوشبو اسے محسوس ہوتی ہے . . . ماہرہ یہ دیکھ کر شرما جاتی ہے مگر اب اسے اپنی پھدی کی آگ برداشت نہیں ہو رہی تھی . . . .
ماہرہ :
اب تمہیں دھیرے دھیرے اپنا لنڈ اس میں گھسانا ہے . . . .
ماہرہ اپنی پھدی شیرو کو دیکھاتی ہے . . .
ماہرہ :
دیکھو شیرو تمہارا لنڈ بہت بڑا ہے میں اسے آسانی سے برداشت کر نہیں پاؤں گی . . . اِس لیے ذرا آرام سے ڈالنا اگر میں کہوں روک جاؤ تو روک جانا . . . . اور جب پُورا چلا جائے تو پھر آگے پیچھے کرنا . . . .
شیرو ہاں میں سر ہلا دیتا ہے . . .
ماہرہ :
اب تم میری ٹانگوں کے بیچ میں آ جاؤ . . .
مہرہ اپنی ٹانگیں اٹھا کر کھول دیتی ہے اور شیرو اس کی ٹانگوں کے درمیان گھٹنوں پر بیٹھ جاتا ہے . . . . مگر شیرو کی پوزیشن سہی نہیں تھی . . . اسے سمجھ نہیں آتا کہ آخر کیسے گھسائے . . . کیوںکہ ماہرہ کی چوت سے اس کے لنڈ کی سطح (لیول) نہیں بن رہی تھی. . . ،
ماہرہ سمجھ جاتی ہے کہ اسے کچھ بھی نہیں پتہ ہے . . . .
ماہرہ :
لو یہ تکیہ میری کمر کے نیچے رکھو اور خود تھوڑا نیچے ہو جاؤ گھٹنے پھیلا کر . . .
شیرو ماہرہ کی کمر کے نیچے تکیہ رکھتا ہے اور خود بھی گھٹنے پھیلا کر نیچے ہو جاتا ہے . . . .
اب لنڈ کا ٹوپا چوت کے سامنے تھا . . . .
ماہرہ اپنے منہ سے تھوڑا تھوک لگا کر لنڈ پر اپنے ہاتھ سے لگاتی ہے اور لنڈ کو پکڑ کر پھدی پر سیٹ کرتی ہے . . . .
ماہرہ :
اب گھساؤ آرام سے . . . .
شیرو اپنے لنڈ پر زور دیتا ہوا لنڈ کو اندر گھسانے کی کوشش کرتا ہے . . . . مگر شیرو کے لنڈ کی ٹوپی کے مقابلے میں چوت کا منہ چھوٹا تھا . . . . ماہرہ کو تکلیف محسوس ہونے لگتی ہے . . . .
شیرو لگاتار زور بڑھا رہا تھا . . . .
پچک کی آواز سے لنڈ کا اگلا حصہ چوت میں گھس جاتا ہے . . . .
ماہرہ :
"آہ . . . اوں . . . ماں . . مر گئی" . . . .
ماہرہ کو دَرْد ہونے لگتا ہے اس کی چوت اچانک کس گئی تھی اور ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی خنجر ڈال کر اس کی چوت کو پھاڑ رہا ہو . . . .
شیرو ماہرہ کے چہرے کو دیکھ کر سمجھ جاتا ہے کہ . . . . اسے بہت تکلیف ہو رہی ہے اس لئے وہ روک جاتا ہے . . . .
ماہرہ :
"آہ . . تم روک کیوں گئے . . . آگے بڑھو دھیرے دھیرے . . . ہم م م" . . . .
شیرو پھر سے لنڈ پر زور دینے لگتا ہے اور ایک انچ اور لنڈ اندر گھس جاتا ہے . . .
اب تک تین انچ ہی لنڈ اندر گیا تھا مگر ماہرہ کی تو جیسے جان ہی نکل رہی تھی . . . .
ماہرہ :
"شیرو . . . آں . . .ساتھ میں میرے دودھ بھی دباؤ . . اف ف ف . . . ایسے مجھے تھوڑا آرام ملے گا" . . . .
شیرو جھٹ سے دودھ دبانے لگتا ہے . . . . ماہرہ تھوڑی مطمئن ہوتی ہے تو شیرو کو جھٹکے سے لنڈ اندر کرنے کو کہتی ہے . . . . ،
شیرو اس کی بات مان کر ایک ہلکا جھٹکا مار دیتا ہے . . . اور لنڈ دو انچ اور اندر گھس جاتا ہے. . . . مگر ماہرہ کی جان حلق میں آ جاتی ہے . . . .
یہاں تک تو وہ پہلے بھی لنڈ لے چکی تھی مگر شیرو کا لنڈ اسے دگنا موٹا تھا . . .
ماہرہ :
اوں . . آہ . . . مر گئی . . آں . . .
تھوڑی دیر شیرو ماہرہ کے دودھ دباتا رہتا ہے . . . جس سے کچھ لمحوں بعد ماہرہ تھوڑا نارمل ہو جاتی ہے . . . . اور شیرو کو اتنے ہی لنڈ کو اندر باہر کرنے کو کہتی ہے . . .
شیرو اتنے ہی لنڈ کو دھیرے دھیرے اندر باہر کرنے لگتا ہے . . . پہلے تو ماہرہ کو تکلیف ہوتی ہے مگر پھر . . . دھیرے دھیرے لنڈ اپنی جگہ بنا لیتا ہے . . . اور اسے اچھا لگنے لگتا ہے . . . .
شیرو تو آنکھیں بند کر کے مزے لے رہا تھا اور ساتھ میں دودھ دبا رہا تھا . . . . ماہرہ بھی اب رنگ میں آنے لگی تھی . . . .
ماہرہ :
آہ . . م م م . . س س . . . ایسے ہی کرو . . . س س س . . اور دھکے مارو . . آہاں . . .
شیرو ماہرہ کی آوازیں سن کر اپنی رفتار بڑھا دیتا ہے اور تیز دھکے مارنے لگتا ہے . . . .
ماہرہ :
ایسے ہی . . آہ . . اور زور سے مارو . . س س س . . . پورا گھسا دو . . . اف ف . . میری پروا . . آں . . . مت کرو . . . گھسا دو پورا . . . اوں . . . .
شیرو ماہرہ کی آواز سن کر ایک تیز دھکا مارتا ہے اور اس کا لنڈ دو انچ اور اندر گھس جاتا ہے . . .
ماہرہ کے منہ سے چیخ نکل جاتی ہے . . . .
ماہرہ :
اوئی ماں . . .اں . . .
شیرو جلدی سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتا ہے . . . .
شیرو :
کیا کر رہی ہو مامی کوئی جاگ جائے گا آواز سن کر . . . .
ماہرہ کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے تھے . . . جسے دیکھ کر شیرو روک جاتا ہے اور اس کے منہ سے ہاتھ ہٹاتا ہے. . . . .
ماہرہ :
کیا کروں تمہارا لنڈ میری جان لے لے گا . . . . ایسا لگ رہا ہے کسی نے خنجر گھسا دیا ہے پیٹ میں . . . . آں . . . ماں . . . .
شیرو پھر سے ماہرہ کے دودھ دبانے لگتا ہے اور چند سیکنڈ میں ہلکے دھکوں سے اور دودھ دبانے سے اب وہ نارمل ہو گئی تھی . . . .
اب شیرو اتنے ہی لنڈ سے ماہرہ کی چوت میں دھکے مارنے لگتا ہے اور ماہرہ بھی مزے میں ڈوب جاتی ہے . . . .
ماہرہ :
آں . . آں . . او . . ایسے ہی . . آہا . . زور سے کرو . . آہ . شاباش . . . زور لگاؤ . . . ام م م . . . .
شیرو نے اپنی رفتار اور بڑھا دی تھی . . . .
ماہرہ سے اور برداشت نہیں ہوتا اور اس کی چوت سوکرنے لگتی ہے چند لمحوں بعد ہی اس کا پانی نکلنے لگتا ہے . . .
ماہرہ :
آہ . . میں آ رہی ہوں ں . . . آہ میں ں ں . . . گئی . . .اوئی ماں . . . .
شیرو دیکھتا ہے کہ . . .ماہرہ تیزی سے کمر اٹھانے لگی ہے تو موقع دیکھ کر آخری بچا ہوا لنڈ بھی تیز دھکے سے چوت میں گھسا دیتا ہے . . . . اور ساتھ ہی ماہرہ کے منہ کو دبا دیتا ہے . . . جس سے اس کی چیخ منہ میں ہی دب جاتی ہے . . .
دیپیکا کی آنکھیں پلٹتے لگتی ہے یہ آخری دھکا اسے برداشت نہیں ہوا تھا . . . . .
مزے کی لذت میں شیرو نے آخری حملہ کر کے چوت کی دھجیاں اڑا دی تھی. . .. .
شیرو کا لنڈ ماہرہ کی بچہ دانی میں گھس گیا تھا . . . .
اور لنڈ کی سختی کی وجہ سے اس پر غندوگی چھانے لگی تھی . . اسے لگ رہا تھا وہ نہیں بچ پاۓ گی . . . پھدی سے بھی خون بہنے لگا تھا . . . .
ماہرہ کا جسم سر کٹی مرغی کی طرح پھرپھرانے لگا تھا . . .ماہرہ بے سدھ ہو گئی تھی . . . .
شیرو ماہرہ کی ایسی حالت دیکھ کر بیڈ کے سرہانے پڑے گلاس سے پانی جلدی سے ماہرہ کے چہرے پر ڈالتا ہے . . . . اور ماہرہ کو ہوش آتا ہے . . . .
ماہرہ :
"اوئی ماں . . . نکالو باہر . . ماں آئی . . . میں مر جاؤں گی . . . آہ . . . پلیز نکالو باہر . . . آ . . پھٹ گئی میری پھدی . . . . اں . . . نکالو اسے . . . . .
شیرو چپ چاپ بس ماہرہ کے دودھ دبائے جا رہا تھا . . . اسے اور کچھ نہیں پتہ تھا کہ وہ کیا کرے کچھ دیر بَعْد ماہرہ کا دَرْد کچھ کم ہوتا ہے . . . . مگر وہ ابھی بھی سیسکار رہی تھی . . . .
ماہرہ :
اوہ . . . اور کتنا باقی ہے ؟ . . . ہاۓ ماں . . . میں اور نہیں لے پاؤں گی . . . اف ف . . . .
شیرو :
پُورا چلا گیا ہے مامی جی اب اور باقی نہیں ہے آپ کہو تو نکال لوں باہر ؟ . . . .
ماہرہ :
کیا . . . پورا چلا گیا . . . آہ . . کیا سچ میں . . . اں . . . .
شیرو :
خود ہی دیکھ لو . . .
ماہرہ ہاتھ لگا کر دیکھتی ہے واقعی پُورا چلا گیا تھا . . .
پھر ماہرہ شیرو کو دھکے مارنے کو بولتی ہے . . .
شیرو دھکے مارنے شروع کر دیتا ہے . . . .
ماہرہ کی چوت ایک بار پانی چھوڑ چکی تھی . . . .
جس کی وجہ سے اب لنڈ آرام سے اندر باہر ہونے لگا تھا . . . . لنڈ نے چوت کو اپنے حساب سے کھول دیا تھا . . . .
ماہرہ :
آہ . . م م م . . . شاباش . . ایسی ہی . . اں . . زور سے مارو . . . .
شیرو :
یہ لو مامی اور لو اور زور سے یہ لو اب تو کہیں نہیں جاو گی نہ مجھے چھوڑ کر ؟ . . . .
ماہرہ :
آہ . . . م م م ایسے ہی . . . نہیں کہی نہیں . . . آہ . . کہی نہیں جاؤں گی . . . س س س . . اب تو میں لنڈ کی غلام ہوگئی ہوں . . . . آہ . . . اور زور سے مارو . . اب تو میں اسی لنڈ سے چدوں گی ہر روز . . . . اں . . . بول چودے گا نہ مجھے . . . . س س س . . . بول چودے گا نہ . . . .
شیرو :
تم جو کہو گی وہ کروں گا مامی . . . . بس مجھے چھوڑ کر کہیں مت جانا . . .
ماہرہ :
کہیں نہیں جاؤں گی . . . س س . . . آہ . . اور تیز کرو . . . م م م . . آہ . . . اب تو میں تیری غلام ہوگئی ہوں آج سے اس پھدی میں صرف تیرا لنڈ جاۓ گا . . . آہ . . . .
چند لمحوں کے بعد پھر سے ماہرہ جھڑنے پر پہنچ گئی تھی . . . . مگر شیرو ابھی بھی لگا ہوا تھا . . . .
ماہرہ :
آہ ہ ہ . . . اور تیز . . . کرو . . آہ . . . ماں . . اور تیز . . اں . . میں آ رہی ہوں . . آہ . . .
ماہرہ جھٹکے لیتے ہوئی پانی چھوڑ دیتی ہے . . . مگر شیرو ابھی لگا ہوا تھا دونوں ہسینے میں نہائے ہوئے تھے . . . اب شیرو کے بھی برداشت سے باہر ہو رہا تھا . . . .
شیرو اور تیز تیز جھٹکے مارنے لگتا ہے . . . . شیرو کی بے چینی بڑھنے لگتی ہے . . . .
شیرو ماہرہ کی ٹانگوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر . . . . ماہرہ کے مموں پر اس کے گھٹنے لگا دیتا ہے . . . . ماہرہ کے پاؤں اس کے سر کے پاس آ گئے تھے . . . .
اس کی پاؤں کی پائل اس کے چہرے کے پاس چھن چھن کا مدہوش سر بجا رہی تھی . . . .
جو شیرو کی جھڑنے کے قریب لے جاتے ہیں . . . .
شیرو پُورا زور لگا کر دھکے مارنے لگتا ہے . . . . ماہرہ سے اتنی تابڑتوڑ چدائی برداشت نہیں ہوتی . . . .
اور ایک بار پھر سے اس کی چوت پانی چھوڑنے کے لیے پھرپھرانے لگتی ہے . . . .
ماہرہ :
آہ . . م م م . . . میری کمر . . آہ . . میں گئی . . . .
شیرو :
میرا پیشاب نکلنے والا ہے مامی جی . . . .
ماہرہ :
وہ پیشاب نہیں ہے اسے نکلنے دے میرے اندر ہی نکال اسے . . . .
شیرو :
نکلنے والا ہے مامی جی آں . . . اُوں . . .
ماہرہ :
آنے دے . . اں . . . جلدی کر میں اور جھیل نہیں پاؤں گی . . . جلدی کر آہ . . . .
اسی کی ساتھ شیرو کا لنڈ دم توڑ دیتا ہے . . . اور اس کے لنڈ سے الٹیاں ہونے لگتی ہیں . . .
شیرو کا لنڈ پُورا چوت میں گھسا ہوا تھا . . . شیرو کا جسم اکڑ گیا تھا اور اس کے لنڈ کا رس سیدھا ماہرہ کی بچہ دانی میں گر رہا تھا . . . .
بچہ دانی میں رس کے گرتے ہی ماہرہ نے بھی پھر سے پانی چھوڑ دیا تھا . . . .
ماہرہ اِس چدائی سے پوری بےحال ہو گئی تھی . . .
شیرو ماہرہ کے اوپر ہی لیٹ گیا تھا اور دونوں اپنی سانسوں کو درست کر رہے تھے . . . .
ماہرہ سے شیرو کے جسم کا وزن برداشت نہیں ہو رہا تھا . . . . وہ شیرو کو دائیں طرف پلٹا دیتی ہے . . . .
اور اپنی ٹانگیں سیدھی کر کے شیرو کو بانہوں میں کس لیتی ہے . . . . .
رات کے پونے تین بج گئے تھے . . . .
چدائی کی تھکاوٹ کی وجہ سے دونوں کی آنکھ کب لگ گئی پتہ ہی نہیں چلا . . . .
دامدار طوفانی چدائی کے بعد ماہرہ اور شیرو دونوں تھکاوٹ میں چور سوئے پڑے تھے. . . .
صبح سویرے ماہرہ کی آنکھ کھل جاتی ہے اسے بہت تیز پیشاب لگا تھا . . . ،
ماہرہ جلدی سے بیڈ سے اٹھ کر جیسے ہی باتھ روم جانے کے لیے کھڑی ہونے لگتی ہے . . . . تو اسے تیز درد محسوس ہوتا ہے اور وہ جھٹکے سے بیڈ پر واپس بیٹھ جاتی ہے . . . .
رات شیرو کی دامدار چدائی نے ماہرہ کا انگ انگ ڈھیلا کر دیا تھا . . . . اب اسے اپنی پھدی میں تیز درد محسوس ہو رہا تھا . . . . مگر پیشاب کو روکنا مشکل تھا . . . اس لئے ہمت کر کے اُٹھ کر دھیرے دھیرے لنگڑاتے ہوئے باتھ روم میں گھس جاتی ہے . . . . اور جب بیٹھ کر پیشاب کرنے لگتی ہے . . . . .
پیشاب سیٹی کی آواز سے نکل رہا تھا . . . . مگر ماہرہ کو اندر درد محسوس ہونے لگتا ہے . . . . اس کی پھدی میں ٹِیس اٹھ رہی تھی . . . . ،
پیشاب کرنے کے بعد ماہرہ کمرے میں آتی ہے . . . . تو اس کی نظر بیڈ پر سو رہے شیرو پر پڑتی ہے جو بالکل ننگا سو رہا تھا . . . ،
سوتے ہوئے کتنا معصوم لگ رہا تھا . . . ،
ماہرہ کو رات کی چدائی یاد آ جاتی ہے . . . .
ماہرہ :
(من میں )
" اُف پُورا سانڈ ہے . . . ، کتنا تگڑا لنڈ ہے میرے جیسی چودی ہوئی عورت کی پھدی سے بھی خون نکل دیا . . . . . اگر کسی کنواری پر چڑھ جائے تو اس کا بچنا مشکل ہے" . . . .
پھر اس کی نظر بیڈ پر اس کی چوت سے نکلے خون کے دھبے پر جاتی ہے . . . . جسے دیکھ کر اسے ایسا محسوس ہوتا ہے . . . جیسے کل رات ہی اس کی سہاگ رات تھی . . . . .
ماہرہ آگے بڑھ کر بیڈ سے اپنی براہ پینٹی اُٹھا کر پہن لیتی ہے . . . اور پھر اپنے باقی کپڑے پہن کر شیرو کو چادر سے ڈھانپ دیتی ہے . . . . اور ایک کس اس کے ماتھے پر دے کر چپکے سے اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے . . . . جہاں بختیار بے سدھ سویا پڑا تھا . . . .
بختیار کو دیکھ کر ماہرہ کو پہلے غصہ آتا ہے . . . مگر پھر وہ خود کو سمجھا کر چپ چاپ بیڈ پر لیٹ کر سو جاتی ہے . . . .
صبح نائلہ اور دیبا کچن میں ناشتہ بنا رہی تھی . . . . مگر ماہرہ ابھی تک نظر نہیں آئی تھی . . . .
نائلہ :
ابھی تک چھوٹی نظر نہیں آئی روز تو مجھ سے بھی پہلے کچن میں آ جاتی ہے آج کیا بات ہے . . . ، جا دیبا زرا دیکھ تو کیا بات ہے . . . .
دیبا :
جی باجی ابھی دیکھتی ہوں . . . .
دیبا کچن سے نکل کر ماہرہ کے کمرے میں جاتی ہے . . . . تو دیکھتی ہے کہ ماہرہ ابھی بھی سو رہا تھی . . . جبکہ بختیار اُٹھ کر باہر جا چکا تھا . . . .
دیبا :
شہزادی جی اٹھ جائیں سورج سر پر آ گیا ہے . . . . اور آپ ابھی تک بیڈ سے نہیں اٹھی . . . .
دیبا کے جگانے سے ماہرہ نیند سے جاگتی ہے . . . . اور انگڑائی لیتی ہے مگر ابھی بھی اس کے جسم میں رات کی چدائی کا میٹھا میٹھا درد محسوس ہو رہا تھا . . . . ،
آنكھوں میں لال ریشے نظر آ رہے تھے . . .
دیبا :
لگتا ہے رات دیوار جی نے سونے نہیں دیا اس لیے ابھی تک سو رہی تھی. . . .
ماہرہ :
کیا باجی آپ بھی کیسی باتیں کرتی ہے . . .
دیبا :
اچھا ! میں باتیں کر رہی ہوں زرا آئینے میں خود کو دیکھو ابھی تک آنکھیں لال ہے . . . . چلو اب اٹھ جاؤ باجی کب سے پوچھ رہی ہے . . . . ، مجھے دیکھنے بھیجا ہے . . .
ماہرہ :
باجی میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے . . . . لگتا ہے بخار ہے پُورا جسم درد کر رہا ہے . . .
دیبا :
توبہ ایسا کیا کر دیا دیوار جی نے رات کو . . . .
ماہرہ :
نہیں باجی ایسا کچھ نہیں ہے . . . ،
سچ میں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے . . . .
دیبا :
(فکرمندی سے )
اچھا تو نے دوا لی یا نہیں . . . ،
تو آرام کر میں تیرے لیے چائے ناشتہ لاتی ہوں پھر تو لے لینا . . . .
دیبا کچن میں جا کر نائلہ کو بتا دیتی ہے . . . اور ماہرہ کے لیے ناشتہ برتن میں ڈالتی ہے جسے نائلہ لے کر جاتی ہے ماہرہ کے پاس . . . .
نائلہ :
ماہرہ کیا بات ہے کیا ہوا تجھے . . .
ماہرہ :
کچھ نہیں باجی بس ہلکا سا بخار ہے اور جسم درد کر رہا ہے . . . .
نائلہ :
تو یہ ناشتہ کر لے اور پھر دوا کھا لینا . . .
اور خبردار جو کوئی کام کیا تو . . . ، آج تو بس آرام کرے گی . . . .
تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد نائلہ دوبارہ کچن میں آ جاتی ہے . . . .
اسی دوران شیرو بھی اٹھ گیا تھا . . . . باتھ روم سے فریش ہو کر نہا دھو کر جب بیڈ کو دیکھتا ہے . . . . تو چادر پر خون کے دھبے دیکھ کر اس کے من میں تشویش ہونے لگتی ہے . . . .
شیرو :
(من میں )
"خون ! ! لگتا ہے مامی کو رات کو چوٹ لگ گئی ہے . . . . اسی لیے مجھ سے ناراض ہو کر بنا بات کئے چلی گئی ہے . . . ،
مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا" . . .
شیرو کو تشویش ہونے لگی تھی کہ مامی کو کتنا درد ہو رہا ہوگا . . . کہیں وہ ناراض ہوگئی تو ؟
کہیں وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی تو . . . .
اسی فکر میں ڈوبا شیرو جلدی سے کمرے سے نکلنے لگتا ہے . . . . مگر اسے چادر پر لگے خون کے دھبے یاد آ جاتے ہیں . . . . پھر وہ پہلے چادر کو اٹھا کر باتھ روم میں جا کر پانی میں بھگو دیتا ہے . . . اور جلدی سے کچن میں جاتا ہے . . . .
نائلہ :
آ گیا میرا لال . . . ، آج دیر کر دی . . .
شیرو :
( گلے لگتے ہوئے )
وہ کیا ہے نہ اما آج سنڈے ہے تو کالج تو جانا نہیں ہے اس لئے آرام سے تیار ہوا . . .
پھر شیرو دیبا کو آداب کہتا ہے مگر دیبا بددلی سے جواب دے کر نکل جاتی ہے . . . . وہ نائلہ کے سامنے کچھ بولتی نہیں تھی شیرو کو . . . .
شیرو ماہرہ کو موجود نہ پا کر من ہی من گھبرانے لگتا ہے . . . .
شیرو :
اما آج چھوٹی مامی کہاں ہے دکھائی نہیں دے رہی ؟
نائلہ :
بیٹا اسے بخار ہے میں نے اسے آرام کرنے کا کہا ہے . . .
شیرو ماہرہ کی طبیعت کا سن کر اور زیادہ فکرمند ہو جاتا ہے . . . اور جلدی سے ماہرہ کو دیکھنے اس کے کمرے میں چلا جاتا ہے . . . .
جہاں ماہرہ ابھی دوا کھا کر آنکھیں بند کئے لیٹی ہوئی تھی . . .
شیرو سمجھتا ہے شاید وہ سو رہی ہے اس لئے بنا ڈسٹرب کئے واپس لوٹ جاتا ہے. . . .
شیرو کچن میں بیٹھ کر ہی ناشتہ کرتا ہے اور اما کو بول کر راجو کے پاس چلا جاتا ہے . . . .
دونوں دوست مل کر نہر کے کنارے چلے جاتے ہیں . . . .
راجو :
بول کیا بات ہے صبح صبح یہاں لے آیا ؟
شیرو :
تجھے تو سب پتہ ہے یار وہی مینا اور ماما کا چکر . . . ،
کچھ تو کرنا پڑے گا ماما تو اب مامی سے جھگڑا کرنے لگا ہے . . . . اور مینا کی باتوں سے بھی لگتا ہے کہ ماما سب کچھ اسی پر لوٹا دے گا . . . . .
راجو :
بات تو تیری سہی ہے مگر یار ہم کریں بھی تو کیا . . . . ایک کام کر تو بڑے ماما کو سب سچ سچ بتا دے . . . .
شیرو :
کیسی باتیں کرتا ہے یار . . . اگر ایسا کیا تو جھگڑا ہو جائے گا بھائیوں میں . . . . اُلٹا بات بڑھ گئی تو بدنامی ہو جائے گی. . . اور اِس سب میں مامی کا کیا ہوگا اگر ماما نے انہیں چھوڑ دیا تو. . . .
راجو :
تو پھر تو مامی کو ہی بتا دے شاید وہ ہی سیدھا کر دے ماما کو . . .
شیرو :
مامی بےچاری کچھ نہیں کہہ سکتی ماما کو . . . اُلٹا ماما ان کو گھر سے نکل دیں گے . . .
راجو :
تو . . تو ہی سوچ کہ کیا کریں. . .
شیرو :
کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ . . . . مینا کی اصلیت ماما کے سامنے آ جائے . . . تبھی وہ مینا کا پیچھا چھوڑیں گے . . . .
راجو :
مگر ایسا کیسے ہوگا ؟
ماما تو ہماری بات نہیں مانیں گے . . . .
شیرو :
یہی تو سوچنا ہے کہ . . . . کیسے مینا کا سچ سامنے لائیں . . . .
تو ایک کام کر اپنے اس دوست کو بول کہ . . . وہ مینا پر نظر رکھے اور پھر جب وہ آدمی آئے تو ہمیں بتا دے . . . .
راجو :
اس کی پروا نہ کر کام ہو جائے گا . . . .
پھر ایسے ہی دونوں دوست باتیں کرتے رہتے ہیں . . . اور دوپہر کے وقت شیرو گھر لوٹ آتا ہے . . . .
ماہرہ ابھی بھی کمرے سے نہیں نکلی تھی . . . اما اور دیبا مامی کچن میں دوپہر کا كھانا بنا رہی تھی . . . .سرور اور دلدار كھانا کھانے گھر آئے ہوئے تھے . . . .
سرور :
اور بیٹا کیا چل رہا ہے ؟
پڑھائی تو دل لگا کر کر رہا ہے نہ؟
شیرو :
جی بابا . . .
سرور :
تو نے ابھی تک بتایا نہیں کہ تجھے کیا چاہیے سالگرہ کے تحفے میں . . . .
شیرو :
بابا مجھے کیا چاہیے سب تو ہے پہلے سے ہی بس آپ کا ساتھ ہی بہت ہے . . . .
سرور :
جیتو رہو بیٹا ہم تو ہمیشہ تیرے ساتھ ہی ہے . . . . مگر تجھے میں سالگرہ کا تحفہ ضرور دوں گا . . . .
دلدار :
ہاں بڑے بھئیا یہ تو منع کرتا ہی رہے گا . . . مگر آپ نے جو سوچا ہے وہ اسے لینا ہی پڑے گا . . . آپ اس کی بات مت سنو . . . .
دونوں ماما شیرو کے ساتھ مل کر كھانا کھاتے ہے . . . اور کھیتوں میں چلے جاتے ہیں . . . .
کچھ دیر شیرو سے باتیں کرنے کے بعد نائلہ بھی اپنے کمرے میں آرام کرنے چلی جاتی ہے . . . . دیبا بھی ماہرہ کو كھانا کھیلا کر اپنے روم میں جا چکی تھی . . .
شیرو سب کے جانے کے بعد ماہرہ کے کمرے میں چلا جاتا ہے . . . اس کا حال جاننے اور بات کرنے . . . .
شیرو :
مامی مجھے معاف کر دو میری وجہ سے آپ کو چوٹ لگ گئی . . .
ماہرہ :
یہ تم کیا کہہ رہے ہو کس بات کی معافی کون سی چوٹ لگی ہے مجھے ؟ . . .
شیرو :
میں جانتا ہوں کل رات آپ کو چوٹ لگ گئی ہے . . . . میں نے دیکھا ہے بیڈ پر خون تھا . . .
ماہرہ شیرو کی بات سن کر شرما جاتی ہے. . . .
ماہرہ :
بالکل بدھو ہے تو بھی . . . تجھے کس نے کہا مجھے چوٹ لگی ہے وہ تو . . . . . . . .
ماہرہ پھر سے شرما جاتی ہے آخر کیا جواب دے وہ شیرو کو. . . .
شیرو :
بتاؤ نہ مامی تمہیں کیا ہوا ہے . . . آخر وہ خون کیسے نکلا کہاں چوٹ لگی ہے آپ کو . . .
ماہرہ :
تجھے نہیں پتہ وہ خون کہاں سے آیا ہے ؟
شیرو :
وہی تو پوچھ رہا ہوں آپ بتائیں نہ . . .
ماہرہ :
ارے تو سانڈ کی طرح کسی عورت پر چڑھ کر اپنے نیچے والے ہتھیار سے اس کی کٹائی کرے گا . . . . تو خون نہیں نکلے گا کیا . . . . وہ میں ہوں جو برداشت کر گئی . . . . مہوش ہوتی تو رات میں ہی گئی تھی وہ . . . .
شیرو ماہرہ کی بات کا مطلب سمجھ کر شرما جاتا ہے . . . .
شیرو :
مگر آپ کی طبیعت تو خراب ہو گئی نہ . . . . آپ مجھ سے ناراض تو نہیں پلیز مجھے معاف کر دیجیئے . . . آپ مجھے چھوڑ کر کہیں مت جانا . . . .
ماہرہ :
ارے پگلے یہ تکلیف تو ہر عورت ہر لڑکی کو پہلی بار برداشت کرنی پڑتی ہے. . .. میں تو خوش نصیب ہوں کہ. . . مجھے تم نے پھر سے اِس درد کا احساس کروا دیا . . .
میں اب تجھے کہیں چھوڑ کر نہیں جاوں گی . . . . شیرو آج سے میں صرف تیرے لیے اِس گھر میں رہوں گی . . . . اور تیری داسی بن کر رہوں گی . . . تو مجھ سے وعدہ کر کے تو کبھی مجھے چھوڑے گا نہیں اور ہمیشہ مجھے پیار دے گا . . . . .
شیرو :
مامی جی یہ آپ کیا کہہ رہی ہے . . . آپ میری ماں جیسی ہے . . . آپ میری داسی نہیں ہے . . . اور میں ہمیشہ سے آپ کو پیار کرتا ہوں اور ہمیشہ کرتا رہوں گا . . .
ماہرہ :
میں ماں بیٹے والا پیار نہیں کہہ رہی . . . ، میں تو کل رات والے پیار کی بات کر رہی ہوں. . . .
شیرو :
(حیرانگی سے )
کیا ؟ . . . نہیں مامی یہ سب غلط ہے آپ کو ماں بنانے کے لیے میں نے کل رات آپ کی بات مان لی تھی مگر . . . . اور نہیں . . .
ماہرہ :
اس کا مطلب تو مجھ سے پیار نہیں کرتا ؟
تو بھی اپنے ماما کے جیسے مجھے ٹھکرا رہا ہے . . .
میں کس کے آسرے رہوں گی اِس گھر میں . . . . .
اتنا کہہ کر ماہرہ رونے لگتی ہے . . .
شیرو :
نہیں مامی ایسا مت کہو میں آپ کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں . . . . آپ ایسے آنسو مت بہاؤ . . . آپ نے وعدہ کیا تھا کہ اگر میں آپ کو ماں بنا دوں تو آپ کہیں نہیں جائیں گی . . . .
ماہرہ :
تبھی تو کہہ رہی ہوں کہ . . . . مجھے تیرا کل رات والا پیار چاہیے . . .
شیرو :
مگر کل ہو تو گیا نہ . . . اب آپ ماں بن جائیں گی . . . .
ماہرہ :
ایسے ایک بار میں کوئی ماں تھوڑی بن جاتی ہے . . . ،
یہ تو بار بار کرنا پڑتا ہے جب تک عورت کے پیٹ میں حمل نہ ٹھہر جائے. . . .
اور تجھے میری قسم سچ سچ بتا کیا رات کو تجھے مزا نہیں آیا تھا ؟ . . .
شیرو شرماتے ہوئے ہاں میں گردن ہلا دیتا ہے . . .
ماہرہ :
اب شرماتا کیوں ہے رات کو تو میرا انگ انگ ڈھیلا کر دیا . . . . ایسے بھی کوئی کرتا ہے . . .
سچ ہی کہا ہے کسی نے . . .
"اناڑی کا کھیلنا . . ، کھیل کا ستیاناس "
ماہرہ شیرو کو شرماتا دیکھ کر اب اس سے مزے لینے لگی تھی . . .
شیروکو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ ماہرہ اس سے مزے لے رہی ہے. . .
شیرو :
اگر ایسی بات ہے تو ہو جائے ایک اور مقابلہ دیکھتے ہیں کھلاڑی کون ہے . . . .
ماہرہ :
نہ بابا نہ . . . . ابھی تو بستر سے اٹھنے کی ہمت نہیں ہے . . . ابھی مجھے معاف کرو مگر جلد ہی میں تجھے دکھاوں گی کھلاڑی کون ہے . . .
دونوں کچھ دیر یونہی باتیں کرتے ہیں اور پھر شیرو گھر سے کھیتوں کی طرف نکل جاتا ہے. . . .
ماہرہ شیرو کے جانے کے بعد سوچنے لگتی ہے کہ . . . شیرو کو اپنے حُسْن کا جلوہ دیکھانا ہوگا . . . تاکہ وہ خود اسے چودنے کے لیے تیار رہے. . . اور مسکرانے لگتی ہے . . . .
شیرو کھیتوں میں جاتا ہے تو وہاں دلدار ماما بیٹھے تھے چارپائی پر . . . .
دلدار :
آؤ شیرو بیٹھو . . . ، اور بتا کہاں سے آ رہا ہے
شیرو :
کچھ نہیں ماما جی . . . بس سوچا آپ کے پاس بیٹھ کر حساب کتاب کا کام ہی کر لیتا ہوں . . . .
دلدار :
ہاں یہ ٹھیک کیا تم نے . . . ،
اُس دن تم نے وہ جو حساب میں فرق نکالا تھا . . . تو میں نے بڑے بھئیا کو بتایا تھا وہ کل جائیں گے منشی کے پاس . . . .
ایک کام کر تو بھی کھاتے میں دیکھ کر مزدوروں کا بھی حساب دیکھ ڈال . . . کس کی طرف کتنا پیسہ نکلتا ہے اور کسے کتنا دینا ہے . . .
شیرو بھی کھاتا دیکھتا ہے . . . تو ایک مزدور کی طرف تیس ہزار جمع تھا . . . مگر پچھلے ایک سال سے اس نے کوئی پیسہ لوٹایا نہیں تھا. . . .
شیرو :
ماما جی یہ عزیز کون ہے . . . اس نے تیس ہزار روپے لیے تھے . . . مگر ابھی تک ایک بھی پیسہ واپس نہیں کیا . . . .
دلدار :
کیا ؟ ایک سال سے پیسہ نہیں دیا . . . . مگر بختیار تو کہہ رہا تھا وہ خود لے رہا ہے . . . اب تو اِس بات کو بھی چھے ماہ . . . بہت وقت ہوگیا ہے . . .
شیرو :
ماما جی یہ ابھی کام کر رہا ہے ہمارے پاس ؟
دلدار :
ہاں یہیں ہے کھیتوں میں . . . .
شیرو :
بولائیں اسے زرا اور پوچھئے کہاں ہے پیسے . . . تنخواہ تو ٹائم پر لے رہا ہے . . .
دلدار عزیز کو بلاتا ہے . . .
دلدار :
کیوں بھئی عزیز کیا بات ہے . . . تو پیسے نہیں لوٹا رہا . . . تم نے تو بولا تھا دو ہزار روپے ہر مہینے کٹواے گا . . .
عزیز :
ارے صاحب کیا بتاؤں مینا کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی . . . اوپر سے اب وہ پیٹ سے ہوگئی ہے . . . اب میں اکیلا پیسہ کمانے والا ہوں بس جیسے ہی مینا کھیتوں میں مزدوری پر آنے لگے گی . . . . تو میں پیسے کٹوا دوں گا . . . .
چھوٹے مالک نے کہا تھا کہ . . . .
جب تک مینا کو بچہ نہیں ہو جاتا اسے کھیتوں میں نہیں لانا . . .
شیرو ساری بات سمجھ گیا تھا . . . .
شیرو :
ٹھیک ہے ٹھیک ہے اگر چھوٹے ماما نے کہا ہے تو ٹھیک ہے . . . مگر یاد رکھنا یہ پیسے تم پر قرض ہیں . . . ،
اب تم جاؤ . . .
شیرو سوچنے لگتا ہے کہ . . . .
بختیار ماما تو ہر جگہ گڑبڑ کر رہے ہیں . . . ایسے تو سب کچھ بگڑ جائے گا . . . ، کچھ دیر کھیتوں میں بیٹھ کر شام کو دونوں ماما بھانجے گھر آ جاتے ہیں . . . . سرور بھی آ گیا تھا مگر بختیار نہیں آیا تھا. . .
سب مل کر كھانا کھاتے ہیں. . . اور اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے جاتے ہیں. . . .
نائلہ سونے ہی جا رہی تھی کہ . . . باہر کے دروازے کی آواز آتی ہے . . . . نائلہ دیکھنے جاتی ہے کہ . . . اِس وقت کون آ گیا . . . ، اس کی نظر بختیار پر پڑتی ہے جو جھومتا ہوا اپنے کمرے میں گھس جاتا ہے . . . .
نائلہ سمجھ جاتی ہے کہ . . . نشے میں ہے پھر وہ سوچتی ہے کہ ماہرہ تو ٹھیک نہیں ہے . . . . . بلاوجہ کھانے کے لیے یہ اب اسے تنگ کرے گا . . . . میں ہی پوچھ لیتی ہوں اور وہ ماہرہ کے کمرے کی طرف جاتی ہے . . . ،
اچانک اندر کی آوازیں سن کر وہ ٹھٹھک جاتی ہے . . . .
بختیار :
چل اٹھ ایسے کیا بیڈ پر لیٹی آرام کر رہی ہے. . . چل اُٹھ کر مجھے كھانا دے. . . بچے تو پیدا کر نہیں سکتی رانی بن کر بیٹھی ہے بانجھ کہیں کی . . . . چل اٹھ میرے جوتے نکال . . . .
ماہرہ :
(روتے ہوئے )
کیوں بار بار مجھے بانجھ کہتے ہو . . . قدرت نے چاہا تو میں بھی ماں بن جاوں گی . . . .
بختیار :
ہا ہا ہا ہا . . . خواب دیکھنا چھوڑ دے کمینی تو ایک بانْجھ ہے . . . اور بانجھ ہی رہے گی . . .
ماہرہ :
میں بانجھ نہیں . . . ، مرد اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کے لیے عورت پر بانجھ کا الزام لگاتا ہے. . . .
اتنا سنتے ہی بختیار ماہرہ کے منہ پر تِین چار تھپڑ مار دیتا ہے . . . .
بختیار :
کمینی تو مجھے نامرد بول رہی ہے . . . تو دیکھ اِس گھر میں میں بچوں کی لائن لگا دوں گا . . . اور تجھے گھسیٹ کر باہر نکالوں گا . . . .
اتنا کہہ کر وہ ماہرہ کو لات مار کر بیڈ سے نیچے پھینک دیتا ہے . . . . اور خود آرام سے بیڈ پر لیٹ جاتا ہے . . . .
باہر کھڑی نائلہ ماہرہ کے حال پر آنسو بہا رہی تھی . . . مگر اِس وقت بختیار نشے میں تھا . . . اور ایسے میں اس سے بات نہیں کی جا سکتی. . . اپنے دِل پر پتھر رکھا کر نائلہ اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے . . . . اور ساری رات ماہرہ کے بارے میں سوچتے ہوئے سو جاتی ہے . . . .
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
منحوس سے معصوم تک
قسط نمبر 008
اگلے دن صبح شیرو روٹین سے اکھاڑے میں کثرت کر کے گھر آتا ہے . . . اور ناشتہ کر کے اسکول چلا جاتا ہے . . . ،
سرور پیسے لے کر شہر چلا جاتا ہے اور دلدار اور بختیار بھی چلے جاتے ہیں . . .
نائلہ صبح صبح کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی . . . . اِس لیے وہ خاموش تھی مگر سب کے جانے کے بعد . . . وہ ماہرہ کے پاس اس کے کمرے میں جاتی ہے . . .
نائلہ :
چھوٹی کیا چل رہا ہے تم دونوں کے بیچ . . . . .
ماہرہ گھبرا جاتی ہے کہیں باجی کو میرا اور شیرو کا پتہ تو نہیں چل گیا . . .
ماہرہ :
ک ک ک . . . . کن دنوں کے بیچ ؟
آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟ . . .
نائلہ :
میں تیری اور بختیار کی بات کر رہی ہوں . . . .
ماہرہ سکون کا سانس لیتی ہے . . .
ماہرہ :
کیوں کیا ہوا باجی سب ٹھیک تو ہے . . .
نائلہ :
جھوٹ مت بولو میں نے رات کو سب سنا ہے اپنے کانوں سے . . .
ماہرہ رونے لگتی ہے تو . . . نائلہ اسے اپنے گلے لگا لیتی ہے . . . .
نائلہ :
بس بس رو مت میں ہوں نہ . . . ،
تو نے مجھے بتایا کیوں نہیں کب سے چل رہا ہے یہ سب بتا مجھے . . .
ماہرہ :
( روتے ہوئے )
کچھ نہیں باجی وہ بچہ نہ ہونے کا قصوروار مجھے مانتے ہے . . . ،
آپ ہی بتائیں میں کیا کروں . . . کیا اس میں میری غلطی ہے . . . .
نائلہ :
پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے اسے . . . . جانے کن گھٹیا لوگوں کے ساتھ بیٹھنے لگا ہے . . . میں آج ہی تیرے بھئیا کو بولتی ہوں وہ سمجھائیں گے اسے اپنے طریقے سے . . . .
ماہرہ :
نہیں باجی اس سے بختیار اور بھڑک جائیں گے . . . .
نائلہ :
تو تم کیا چاہتی ہو وہ تمھارے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرے اور میں کچھ نہ کروں ؟
ماہرہ :
مجھے خود پر بھروسہ ہے . . . . سب ٹھیک ہو جاۓ گا . . . .
نائلہ :
تم نے مجھے بتایا نہیں کیا کہا تھا ڈاکٹر نے . . .
ماہرہ :
ڈاکٹر نے کہا ہے کہ . . . بس کچھ دن دوائی کھانی پڑے گی . . . اور پھر میں ماں بن سکتی ہوں . . .
نائلہ :
کیا سچ ! ! !
یہ تو بہت خوشی کی بات ہے . . . تم نے بختیار کو کیوں نہیں بتایا . . . . بلاوجہ اس کی باتیں سن رہی ہے . . . ،
آنے دے زرا اسے گھر میں کان کھنچتی ہوں اس کے . . . .
ماہرہ :
نہیں باجی اگر میں انہیں بتاتی تو وہ یقین نہیں کرتے . . . ویسے بھی رات کو کہاں وہ ہوش میں تھے . . .
اب وہ جب گھر آئیں گے تو آپ بتانا کہ . . . آپ مجھے لے کر ڈاکٹر کے پاس گئی تھی . . . اور ڈاکٹر نے دوا دی ہے . . . جس سے میں ماں بن سکتی ہوں . . .
( اگر میں کہوں گی تو کبھی یقین نہیں کرے گا وہ . . . ،
اس کی ناک کے نیچے میں شیرو کے لنڈ کے دھر سے ماں بنوں گی . . . . اور شیرو کے بچے کو اس کا بتا کر چوتیا بناؤں گی اسے . . . یہی میرا بدلہ ہے ) . . . .
نائلہ :
ہم م م . . . ،
تو ٹھیک کہتی ہے میں اسے اچھی طرح سمجھا دوں گی . . . اور تیرا خیال رکھنا ہوگا اسے . . . ورنہ کان پکڑ کر باہر کر دوں گی اسے . . . .
ماہرہ :
اس کی ضرورت نہیں پڑے گی باجی . . . ،
ویسے میں چاہتی ہوں کہ . . . میرا بچہ شیرو جیسا ہو اسی کے جیسا بنے بڑا ہو کر . . . ، شیرو کتنا پیارا ہے نہ کتنا خیال رکھتا ہے ہم سب کا . . . .
نائلہ :
ہاں یہ تو نے بالکل ٹھیک کہا . . . . قدرت نے شیرو کو میری جھولی میں ڈال کر میرے دِل سے بانْجھ ہونے کا دکھ دھو دیا . . . کاش کے وہ میرا سگا بیٹا ہوتا . . . .
ماہرہ :
اور ہر کسی کو آپ جیسی ساس ملے . . .
نائلہ :
کیا کہا ؟
ماہرہ :
ارے باجی میں نے تو ساس سسر کو دیکھا نہیں . . . . آپ گھر کی بڑی ہے . . . تو میرے لیے تو آپ ہی ساس ہے اور بڑے بھئیا سسر کی جگہ ہے . . . . .
( من میں )
{آپ کا بیٹا شیرو مجھے ماں بنائے گا تو ہوئی نہ میں آپ کی بہو اور آپ میری ساس}. . . .
نائلہ :
ہاں یہ تو ٹھیک ہے . . .
چل اب تو فکر مت کرنا . . . اور جیسے ہی بختیار گھر آئے تو مجھ سے بات کروانا . . .
ماہرہ :
جی باجی . . .
دونوں ایسے ہی کچھ اور باتیں کرتی ہیں . . . اور نائلہ گھر کے کاموں میں لگ جاتی ہے . . . ،
ماہرہ آگے کے بارے میں سوچنے لگتی ہے کہ . . . . کیسے بختیار کو اِس بات پر راضی کروانا ہے کہ . . . یہ بچہ اس کا ہے حالاںکہ ابھی تو اسے خود پتہ نہیں تھا وہ پریگننٹ ہے یا نہیں . . . .
مگر اسے پُورا بھروسہ تھا کہ شیرو کا تگڑا لنڈ وہ کمال دیکھا دے گا . . . جو بختیار نہیں دیکھا سکا . . . .
کالج میں بریک ٹائم میں مہوش شیرو سے گلہ کرتی ہے کہ . . . . وہ اس سے ملنے نہیں آتا اور وہ شیرو سے روٹھنے کا ڈرامہ بھی کرتی ہے . . . . پھر شیرو اسے بتاتا ہے کہ . . . کیسے وہ مامی کے ساتھ شہر گیا تھا . . . . اور گھر کے کچھ مسائل میں اور کھیت کے کاموں میں وہ مصروف تھا . . . .
شیرو کے سمجھانے پر وہ مان جاتی ہے . . . .
شیرو اس سے وعدہ کرتا ہے کہ . . . وہ آج اسے دوپہر کو نہر کے کنارے ملے گا پھر دونوں کلاس میں چلے جاتے ہے . . . .
اسکول سے چھٹی ہونے کے بعد شیرو گھر آ کر كھانا کھاتا ہے . . . . اور پھر دوپہر کو نہر کے کنارے مہوش کو ملنے چلا جاتا ہے . . . .
دونوں عاشق معشوق کئی دن بعد مل رہے تھے اکیلے میں . . . . آج مہوش خود پہل کرتی ہے کس کرنے میں. . . . وہیں شیرو تو چھوٹی مامی کی چدائی کر کے چدائی کے مزے کو جان چکا تھا . . . .
کس کرتے ہوئے شیرو مہوش کے دودھ دبانے لگتا ہے . . . .
مہوش کے دودھ ابھی چھوٹے تھے ٹینس بال کے جیسے . . . . مگر تھے بہت ٹھوس جنہیں دبانے میں شیرو کو عجیب مزا مل رہا تھا . . . . ،
مہوش کے لیے یہ نیا احساس تھا آج تک کسی نے اس کے دودھ کو چھوا نہیں تھا . . . .
مہوش اِس انوکھے احساس میں ڈوبتی جا رہی تھی . . . مستی میں اس کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں . . . . اور اس کی سسکیاں نکلنے لگتی ہے . . . .
"آہ ہ ہ . . . س س . . .او . . . م م م" . . . .
شیرو مزے سے اس کے دودھ دبائے جا رہا تھا . . . . اب اُس پر ہوس حاوی ہونے لگتی ہے . . . . اور اپنا ایک ہاتھ مہوش کی گانڈ پر لے جا کر اسے مسلنے لگتا ہے . . . . ،
مہوش اِس دوہرے حملے کو برداشت نہیں کر پا رہی تھی . . . . وہ اپنی ایڑیاں اٹھا کر شیرو سے چپکنے لگتی ہے . . . . اور پھر سے شیرو کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں قید کر لیتی ہے . . . .
ووم م م . . . ہم م م م . . . س س س . . . اف ف ف . . . .
دونوں مستی میں کھوئے ہوئے تھے . . . . تبھی انہیں کسی کی آہٹ سنائی دیتی ہے . . . کوئی ان کی طرف آ رہا تھا . . . .
مہوش گھبرا کر جلدی سے وہاں سے نکل جاتی ہے . . . . ،
شیرو جھاڑیوں میں چھپ جاتا ہے . . . . . تھوڑی دیر میں گاؤں کی کچھ عورتیں کپڑے اٹھائے نہر کنارے دھونے آتی ہوئی دکھتی ہیں . . . .
شیرو پھر ان کے دور جاتے ہی وہاں سے نکل کر کھیتوں میں چلا جاتا ہے . . . . جہاں دلدار ماما اسے ملتے ہے. . . .
پھر کچھ خاص نہیں ہوتا اور شام ہونے سے پہلے دونوں گھر آ جاتے ہیں . . . . .
گھر پر آتے ہی سرور شیرو کو صحن میں ہی بیٹھا ملتا ہے جس کے چہرے پر خوشی جھلک رہی تھی . . . .
سرور :
کیوں بارخوردار کہاں سے آ رہے ہو ؟
شیرو :
جی وہ ماما جی کے پاس کھیتوں میں تھا . . .
سرور :
تو تم نے بتایا نہیں کہ تجھے کیا چاہیے سالگرہ کے تحفے میں . . . .
شیرو :
بابا اپنے سب تو پہلے ہی دے رکھا ہے. . . .
سرور :
مگر پھر بھی بہت چیزوں کی کمی ہے جو میں جانتا ہوں تجھے چاہیے . . .
اتنا کہہ کر سرور چُپ ہو جاتا ہے اور شیرو کی نظروں میں دیکھنے لگتا ہے . . . .
شیرو :
نہیں بابا میرے لیے آپ کا پیار ہی سب کچھ ہے . . . .
ویسے بھی میں تو ابھی کالج میں پڑھتا ہوں . . . بھلا مجھے کس چیز کی ضرورت ہوگی . . .
سرور :
ارے بیٹا ہمارا پیار تو ہمیشہ تیرے ساتھ ہے . . . . مگر آج کل کے زمانے کے ساتھ چلنا چاہیے . . . . اسی لیے میں اور تیری ماں نے تیرے لیے ایک تحفہ لیا ہے . . . جو تجھے لینا پڑے گا . . . . .
شیرو :
ٹھیک ہے بابا . . . اگر آپ دونوں نے میرے لیے کچھ لیا ہے تو میں انکار کیسے کر سکتا ہوں . . .
سرور :
شاباش میرے شیر چل آ تجھے دیکھاؤں . . . .
سرور اور نائلہ شیرو کو گھر سے باہر لے جاتے ہیں . . . . جہاں پر ایک برانڈ نیو ہونڈا بائیک کھڑی تھی . . . . ریڈ کلر کی . . . . شیرو نے آتے ہوئے دیکھا تو تھا . . . .
مگر اس نے زیادہ دھیان نہیں دیا تھا . . . .
سرور :
یہ ہے تیرا تحفہ ہماری طرف سے یہ لے چابی پکڑ . . . .
شیرو کی آنکھوں میں خوشی سے آنسوں آ جاتے ہیں. . . . اور وہ سرور کو کس کے گلے لگا لیتا ہے . . . .
سرور :
ارے بس کر اپنی پہلوانی مجھ پر مت دیکھا. . . . کہیں ہڈیاں چھٹاک گئی تو. . .
اتنا کہہ کر سرور ہنسنے لگتا ہے . . . . اور شیرو بھی اپنی پکڑ ڈھیلی کر کے پیچھے ہٹ جاتا ہے . . . .
شیرو :
بابا آپ نے میرے لیے اتنا مہنگا تحفہ لیا . . . آپ رہنے دیتے مجھے ابھی اس کی ضرورت نہیں تھی . . . . آپ کے پاس ہے تو سہی کہیں آنے جانے کے لیے بائیک . . . .
سرور :
ارے تحفہ مہنگا سستا نہیں ہوتا . . . . ویسے بھی تجھ جیسے پہلوان کے لیے یہی ہی ٹھیک ہے. . . اب چل مجھے چلا کر دیکھا . . . .
شیرو بائیک کو اسٹارٹ کرتا ہے . . . . اور سرور اس کے پیچھے بیٹھ جاتا ہے . . . پھر دونوں گاؤں کا چکر لگا کر آتے ہیں . . .
پھر شیرو نائلہ کو بائیک پر بیٹھا کر چکر لگا کر آتا ہے . . . .پھر دلدار ماما کو ببیٹھا کر چکر لگاتا ہے . . .
دیبا کمر درد کا بہانہ بنا کر کمرے میں چلی جاتی ہے . . . وہ تو اندر سے جل گئی تھی شیرو کو ایسا تحفہ ملنے سے . . . . .بختیار ابھی آیا نہیں تھا اب رہ گئی تھی ماہرہ جو بہت خوش تھی . . . .
اصل میں ماہرہ نے ہی نائلہ کو منایا تھا شیرو کو بائیک دلوانے کے لیے . . . . اور جب بائیک سیلیکٹ کرنی تھی تو ماہرہ کے کہنے پر ہی سرور نے ہونڈا بائیک لی تھی . . . .
ماہرہ :
آج تو پارٹی بنتی ہے مگر اس سے پہلے مجھے ایک بڑا سا چکر لینا ہے نئی بائیک پر . . . ، چل جلدی کر. . . .
شیرو :
جی مامی جی چلیں . . . .
ماہرہ شیرو کے پیچھے بیٹھ جاتی ہے وہ اندر سے بہت خوش تھی . . . . یہ بائیک واقعی میں شیرو کی شخصیت سے میچ کرتی تھی . . . . اور بائیک پر شیرو کے پیچھے بیٹھی وہ خود کو اس کی بیوی ہی سمجھ رہی تھی . . . .
ماہرہ :
چل گاؤں سے دور لمبا سا ایک چکر لے کر آتے ہیں . . . .
شیرو :
گھر پر سب انتظار کر رہے ہیں وہ پریشان ہوں گے . . . .
ماہرہ :
وہ میں دیکھ لوں گی تو چل مجھے لمبا چکر لینا ہے . . . .
گاؤں سے تھوڑا دور آتے ہی . . . ماہرہ پیچھے سے شیرو کو کس کر پکڑ لیتی ہے . . . جس سے اس کے ممے شیرو کی پیٹھ پر چبنے لگتے ہیں . . . .
شیرو :
یہ کیا کر رہی ہو آپ کوئی دیکھ لے گا . . .
ماہرہ :
تو ڈر مت اندھیرا ہو رہا ہے کوئی نہیں دیکھے گا . . . . مجھے بس یہ پل تیرے ساتھ انجوئے کرنے ہیں . . . . تو نہیں جانتا میں کتنی خوش ہوں . . . .
شیرو :
اگر کسی کو پتہ چل گیا تو ؟
ماہرہ :
تو چپ چاپ بائیک چلا . . . .
اتنا کہہ کر ماہرہ شیرو کی گردن پر کس کرنے لگتی ہے . . . . اور اپنی زبان نکال کر اس کی گردن پر پھیرنے لگتی ہے . . . ،
شیرو کے اندر ہوس بڑھنے لگتی ہے اور اس کے لینڈ میں تناو آ جاتا ہے . . .
شیرو کو بائیک چلانا مشکل لگنے لگتا ہے . . . . اور وہ بائیک سائڈ میں روک لیتا ہے . . .
بائیک روک کر وہ بائیک سے نیچے اُتَر جاتا ہے
ماہرہ سوال بھری نظروں سے شیرو کو دیکھنے لگتی ہے. . . .
آج دن میں شیرو نے مہوش کے ساتھ بھی مستی کی تھی. . . . اوپر سے ماہرہ نے بھی اس کی ہوس کو بڑھکا دیا تھا . . . مگر شیرو کو جھجھک محسوس ہو رہی تھی آخر وہ مامی کے ساتھ کیسے پہل کرے . . .
مگر اب اسے یہ برداشت نہیں ہو رہا تھا . . . . ماہرہ سمجھتی ہے شاید شیرو برا من گیا ہے . . . . مگر وہ شیرو کو خود سے دور ہونے نہیں دینا چاہتی تھی . . . . اسی لیے آگے بڑھ کر وہ شیرو کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیتی ہے . . . .
شیرو تو پہلے ہی اسی تلاش میں تھا وہ بھی ٹوٹ پڑتا ہے مامی کے ہونٹوں پر . . . .
"ووم م م م . . . . ہم م م م" . . . .
دونوں کے کس اب جنگلی طریقے سے ہونے لگے تھے . . . . ہوس دونوں کے سر چڑھ گئی تھی . . . . شیرو سے دمدار چدائی کرکے ماہرہ شیرو کی داسی ہوگئی تھی . . . ایک دن آرام کرنے کے بعد اس کی پھدی پھر سے چدائی چاہتی تھی . . . . اور اب پانی پانی ہو رہی تھی . . . .
شیرو کے ہاتھ اب ماہرہ کے دودھ پر تھے . . . اور سختی سے دونوں دودھ کو مسل رہا تھا . . . . ماہرہ کے منہ سے سسکیاں نکلنے لگتی ہیں . . . .
"آہ . . س س . . . آں . . . ہم م م م" . . . .
شیرو تو جیسے آج دودھ کو مسل کر اُکھاڑ ہی دینا چاہتا تھا . . . . . ماہرہ کے اندر آگ بڑھتی جا رہی تھی . . . . مگر ایسے راستے پر یہ سب کرنا خطرناک تھا . . . اس لیے وہ شیرو کو خود سے دور کرتی ہے . . . .
شیرو سوالیہ نگاہوں سے مامی کو دیکھتا ہے . . . .
ماہرہ :
چل اب گھر چل وہ سب انتظار کر رہے ہوں گے . . .
شیرو کو بھی ماہرہ کی بات سمجھ آ جاتی ہے . . . . اور وہ چپ چاپ بائیک اسٹارٹ کر کے واپس چل پڑتا ہے . . . .
دونوں گھر آتے ہیں تو نائلہ پہلے شیرو کو مٹھائی کھلا کر اس کا منہ مٹا کرواتی ہے . . .
اور پھر شیرو سب کو مٹھائی کھلانے لگتا ہے . . . . جب آخر میں ماہرہ کو کھلانے لگتا ہے تو . . . .
ماہرہ :
ایسے نہیں چلے گا مجھے تو پارٹی چاہیے . . . .
شیرو :
بتائیں کیا کھائیں گے . . . کیسی پارٹی چاہیے آپ کو . . . .
ماہرہ :
مجھے تو پارٹی چاہیے اور کھاؤں گی میں اپنی پسند کی چیز . . . .
شیرو :
کب چاہیے پارٹی ؟
ماہرہ :
( دھیرے سے )
آج رات کو تیار رہنا میں اپنی پارٹی لے لوں گی . . . . اور اپنی پسند کی چیز بھی کھا لوں گی . . .
اتنا کہہ کر وہ شیرو کو آنکھ مار دیتی ہے . . . ،
شیرو ہڑبڑا جاتا ہے اور جلدی سے نائلہ کے پاس چلا جاتا ہے . . . .
دلدار :
بھئیا آپ وہ لائے جو میں نے بولا تھا ؟
سرور :
ارے ہاں وہ تو بھول ہی گیا تھا . . . ، نائلہ وہ میرا بیگ تو لانا زرا . . . .
نائلہ سرور کے کمرے سے بیگ لا کر دیتی ہے . . ، سرور بیگ میں سے ایک بکس نکال کر دلدار کو دیتا ہے . . . .
سرور :
یہ لو جیسا تو نے بولا تھا چیک کر لے . . . ، مگر تیرے پاس تو پہلے سے ہی ہے نہ ؟
دلدار :
جی بھئیا میرے پاس تو ہے . . ، یہ والا تو شیرو کے لیے ہے . . . .
شیرو یہ لے بیٹا میری طرف سے تیری سالگرہ کا تحفہ . . .
یہ کہہ کر دلدار وہ بکس شیرو کو دیتا ہے . . . .
شیرو وہ بکس دیکھ کر سمجھ جاتا ہے کہ اس میں موبائل ہے . . . .
شیرو :
ماما جی اس کی کیا ضرورت تھی بھلا مجھے کیا ضرورت ہے اس کی . . . .
دلدار :
بیٹا مجھے جو سہی لگا میں نے دے دیا اب تو جان تیرا کام جانے . . . .
ہاں مگر پڑھائی پر اثر نہیں ہونا چاہیے یہ جان لے . . . .
نائلہ :
یہ کیا دلدار تجھے کیا ضرورت تھی یہ سب کرنے کی ؟ . . . .
دلدار :
کیوں بھابی ؟ کیا شیرو میرا کچھ نہیں لگتا ؟
نائلہ :
نہیں ایسی بات نہیں ہے یہ بائیک اسے مل تو گئی ہے . . . اس کی کیا ضرورت تھی کیا ہم نے تمہیں کبھی خود سے الگ سمجھا ہے . . . یہ بائیک بھی تو تیری طرف سے ہی ہے . . . .
دلدار :
نہیں بھابی میں جو دینا چاہتا تھا میں نے دے دیا . . . . ،
گاؤں میں سب لڑکوں کے پاس موبائل ہیں اور ہمارا بیٹا اِس کے بنا رہے اتنا پیسہ زمین جائداد ہوتے ہوئے بھی کیا یہ اچھا لگتا ہے . . . . . آخر یہ کس کے لیے ہے . . .
اب اور کوئی بات نہیں ہوگی . . . ،
اور شیرو تو چپ چاپ رکھ لے ورنہ میں تجھ سے بات نہیں کروں گا . . . .
شیرو دلدار کو گلے لگا لیتا ہے . . . .
شیرو :
شکریہ ماما جی آپ سب مجھے کتنا پیار کرتے ہیں . . .
تھوڑی دیر بعد سب كھانا کھا کر اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں . . . ،
بختیار آج گھر نہیں لوٹا تھا . . . .
دیبا اپنے کمرے میں دلدار کی کلاس لے رہی تھی. . ..
دیبا :
پڑ گئی کلیجے میں ٹھنڈک آپ کے ؟
کر لی اپنی مرضی ؟
کچھ رہ گیا ہو تو وہ بھی کر لو. . . .
پتہ نہیں آپ کو کیا نظر آتا ہے اس منحوس میں. . . . .
کتنی بار کہا ہے اس سے دور رہا کرو مگر نہیں آپ کو تو سب کچھ لوٹانا ہے اس پر . . . .
دلدار :
تم گئی گزری باتوں کو بھول کیوں نہیں جاتی . . . ، کیوں اسے کوستی رہتی ہو . . . ، آخر ہمارا سب کچھ اسی کا تو ہے . . .
دیبا :
بھول جاؤں ؟
کیسے بھول جاؤں . . . ،
میری زندگی جہنم بن گئی اس کی وجہ سے . . ، میری کوکھ اجڑ گئی سہاگن ہوتے ہوئے بھی بیوہ ہو گئی . . . . اور آپ کہتے ہیں بھول جاؤں . . . .
سانپ کے بچے کو کتنا بھی دودھ پلاؤ وہ بدلے میں زہر ہی دے گا . . . .
دلدار :
جو بھی ہوا وہ سب حادثہ تھا . . . . قدرت کی مرضی تھی اس میں . . . اس بےچارے کا کیا قصور ہے . . . .
تم بلاوجہ اسے کوستی ہو . . . ارے کبھی اپنی نفرت کو ایک طرف رکھ کر دیکھ وہ کتنا معصوم کتنا اچھا ہے. . . . کتنا پیار کرتا ہے سب کو کبھی کسی بات پر کسی کو انکار نہیں کرتا . . . . کتنا اخلاقی ہے اور تو اسے کوستی ہے . . .
دیبا :
بند کرو اس کی طرف داری . . . ،
اگر میرا بس چلے تو ایک پل میں اسے دھکے دے کر نکال دوں . . .
میں بتا دیتی ہوں آپ کو اگر آپ باز نہیں آئے تو دیکھ لینا میں خودکشی کر لوں گی پھر دیکھتے رہنا . . .
دلدار چُپ ہو جاتا ہے . . . اور چپ چاپ سو جاتا ہے . . .
وہیں ماہرہ اپنے کمرے میں سب کے سونے کا انتظار کر رہی تھی . . . اسے بختیار کا بھی انتظار تھا . . . کہیں وہ لیٹ گھر لوٹ نہ آئے . . . .
آج ماہرہ کی پھدی مچل رہی تھی چدائی کے لیے . . . . اب اس سے انتظار نہیں ہو رہا تھا . . . .
رات بارہ بجے . . .ماہرہ چپکے سے اپنے کمرے سے نکلتی ہے . . . . وہ دیکھ لیتی ہے کہ سب سو چکے ہیں . . . . اور بختیار بھی اب آنے والا نہیں . . . . اِس لیے دبے پاؤں شیرو کے کمرے میں پہنچ جاتی ہے . . . . .
جہاں شیرو بیڈ پر لیٹا نئے موبائل کو دیکھ رہا تھا . . . .
ماہرہ دروازہ اندر سے بند کر کے شیرو کے پاس آتی ہے . . . .
ماہرہ :
کیا ہو رہا ہے ؟
شیرو :
آئیں مامی جی بیٹھیں . . . ،
میں بس موبائل چلا کر دیکھ رہا تھا . . .
ماہرہ :
وہ چھوڑ مجھے میری پارٹی دو . . .
شیرو :
کہیں کیا چاہیے . . .
ماہرہ شیرو کے سر کو پکڑ کر اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیتی ہے کس کرنے لگتی ہے . . . .
ماہرہ :
ووم م م . . . ہم م م م . . . .
شیرو بھی جوش میں آ گیا تھا اور وہ بھی مامی کے ہونٹوں کو چُوسنے لگا تھا . . . .
دونوں میں کس کرتے ہوئے جوش بڑھتا جا رہا تھا . . . . شیرو بیڈ پر لیٹ گیا تھا اور ماہرہ اس کے اوپر لیٹ گئی تھی . . . شیرو کے دونوں ہاتھ ماہرہ کی گانڈ کو بری طرح مسل رہے تھے . . . .
کس کرتے ہوئے شیرو مامی کو پلٹا کر نیچے کر لیتا ہے . . . اور زور زور سے اس کے دودھ مسلنے لگتا ہے . . . ،
ماہرہ کی ہوس انتہاہ پر پہنچنے لگتی ہے اور اس کے منہ سے سسکیاں نکلنے لگتی ہیں . . . .
ماہرہ :
آہ . . . ہم م م . . .آ . . ماں . . ایسے ہو . . . اور زور سے دباؤ . . . آہ . . . ہم م م . . . آہاں . . . .
ماہرہ لیٹے لیٹے شیرو کے کپڑے کھولنے لگتی ہے. . . . شیرو بھی اس کی مدد کرتا ہے اور اس کے اوپر سے اُٹھ کر اپنا پاجامہ اترتا ہے . . . .
ماہرہ بھی جلدی سے اُٹھ کر قمیض اتار دیتی ہے . . . اور شلوار کا ناڑا کھول دیتی ہے . . . .
ناڑا کھولتے ہی شلوار پاؤں میں گر جاتی ہے . . . .
آج کمرے میں پوری لائٹ جل رہی تھی . . . .
تیز روشنی میں مامی کی گوری چکنی رانوں کو دیکھ کر . . . . شیرو پاگل ہونے لگتا ہے . . . . اور جلدی سے آگے بڑھ کر گھٹنوں پر بیٹھ جاتا ہے . . . . .
اور مامی کی رانوں کو دونوں ہاتھوں سے مسلتے ہوئے چاٹنے لگتا ہے . . . .
چاٹتے ہوئے دانتوں سے کاٹنے لگتا ہے جس سے ماہرہ تڑپ اٹھتی ہے . . . .
ماہرہ :
آہ . . . اوئی . . . کھا جاؤ . . کھا جاؤ . . راجہ . . . آہ . . ہم م م . . . کھا جاؤ سب کچھ تمھارہ ہی ہے . . . آہ . . . .
شیرو زور شور سے مامی کی رانوں کو چاٹ اور کاٹ رہا تھا . . . پھر وہ مامی کی پینٹی کھینچ کر اُتَار دیتا ہے . . . .
پینٹی اُترتے ہی ماہرہ کی گلابی چوت سامنے آ جاتی ہے . . . جو بہت پیاری لگ رہی تھی . . . ،
چوت پر مزے کے قطرے بتا رہے تھے کہ وہ کتنی چُداسی ہو رہی تھی . . .
شیرو چوت کو ہاتھوں سے کھول کر دیکھنے لگتا ہے . . . . جو اندر سے لال گلابی تھی . . .
شیرو کو چوت کا یہ نظارہ بہت دلکش لگتا ہے . . . اور وہ اس کی خوبصورتی میں کھویا ہوا آگے بڑھ کر چوت کے ہونٹوں کو چوم لیتا ہے . . . .
شیرو کے ہونٹوں کو چوت پر محسوس کرتے ہی ماہرہ کا جسم کانپنے لگتا ہے . . . اس سے یہ حملہ برداشت نہیں ہوتا . . . اور اس کے ہاتھ شیرو کے سر کو چوت پر دبانے لگتے ہیں . . . .
ماہرہ :
آہ . . . ہم م م . . ک ک ک کیا کر رہے ہو . . . م م م م . . . کھا جاؤ . . . ہاں ں ں . . ایسے ہی . . . . س س س . . . . م م م . . .
ماہرہ کا جسم جھٹکے لینے لگتا ہے اور اس کا پانی نکل جاتا ہے . . . .
شیرو ابھی اِس کھیل میں نیا تھا اسے پتہ نہیں تھا . . . . مامی اس کے سر کو چوت پر دبا دیتی ہے . . . . تبھی چوت سے پانی بہنے لگتا ہے . . . جو شیرو کے ہونٹوں سے ہوتا ہوا اس کے منہ میں چلا جاتا ہے . . . .
شیرو کو پانی کا ذائقہ عجیب سا لگتا ہے . . . مگر پھر اسے اچھا لگنے لگتا ہے اور وہ چوت چاٹ کر صاف کر دیتا ہے . . .
ماہرہ کا جسم نڈھال ہوگیا تھا اس کی زندگی میں چوت چھٹائی کا یہ پہلا لمحہ تھا. . . . آج تک بختیار نے کبھی اس کی چوت کو اچھے سے چھوا تک نہیں تھا . . . . اور شیرو نے تو ڈائریکٹ اس کی چوت کو چاٹ کر اس کا پانی نکال دیا تھا. . .
ماہرہ نڈھال ہو کر پیچھے بیڈ پر گر کر اپنی سانسیں ٹھیک کرنے لگتی ہے . . . .
شیرو ابھی بھی چوت چاٹ رہا تھا . . . اسے اس میں بہت مزہ آ رہا تھا . . .
شیرو کی چوت چاٹنے سے دو منٹ میں ہی ماہرہ پھر سے گرم ہونے لگتی ہے . . .
شیرو کے سر کو کھینچ کر وہ دور ہٹاتی ہے . . . اور شیرو کو بیڈ پر گرا کر اس کے انڈرویئر کو کھینچ کر اُتَار دیتی ہے . . . .
انڈرویئر نکلتے ہی شیرو کا لنڈ نکال کر مزائیل کی طرح چوت کی طرف منہ کئے کھڑا تھا . . . ماہرہ جلدی سے اسے دونوں ہاتھوں میں تھام لیتی ہے . . . اور لنڈ کی ٹوپی کو چوم لیتی ہے . . .
شیرو کی بےدردی سے چوت چٹائی سے ماہرہ کے اندر کی ہوس بھڑک گئی تھی . . .
اس کی آنکھیں ہوس سے لال تھی . . . ،
بختیار نے کئی بار ماہرہ کو اپنا لینڈ چوسایا تھا زبردستی . . . مگر اس کے کالے بڈھے لنڈ کو دیکھ کر ماہرہ کو غیں آتی تھی . . . . .
مگر شیرو کے لنڈ کو دیکھ کر اسے بہت پیار آ رہا تھا . . . . اسی لیے جھک کر وہ لنڈ کو دو انچ منہ میں لے کر چومنے اور چاٹنے لگتی ہے . . .
ایسا کرتے ہی شیرو کے جسم میں مزے کی لہر دوڑ جاتی ہے . . . . اس کی ریڑھ کی ھڈی تک اِس مزے سے کانپ گئی تھی . . . . ،
شیرو خود کو ہوا میں اُڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا . . . .
ماہرہ لنڈ چاٹتے چاٹتے بھی مزے میں شیرو کو تڑپتے دیکھ کر اور زیادہ مستی سے لنڈ کو چوس رہی تھی . . . .
ماہرہ پہلی بار لنڈ کو چاٹنے میں اتنا مزا محسوس کر رہی تھی . . . .
شیرو :
اں . . . آہ . . مامی ی ی . . . . یہ کیا جادو کر رہی ہو . . . . آہ . . اف ف . . . .
ماہرہ شیرو کو اور تڑپانے کے لیے اس کے لنڈ کے چھید میں زبان گھسانے لگتی ہے . . . جس سے شیرو کا جسم لرز جاتا ہے . . . .
شیرو جلدی سے مامی کے سر کے بال پکڑ کر اس کو اوپر کھینچتا ہے اور پلٹ کر اسے نیچے گرا لیتا ہے . . . .
اب شیرو ماہرہ کی ٹانگوں کے درمیان تھا . . . ،
ماہرہ کے جسم پر صرف براہ ہی بچہ تھا. . . جسے شیرو جوش میں کھینچ کر پھاڑ دیتا ہے . . . اور اس کے دودھ کو زور زور سے دبانے لگتا ہے . . . .
مموں کو دباتے ہوئے وہ پھر سے ماہرہ کے ہونٹوں کو چُوسنے لگتا ہے . . . اور ماہرہ بھی اس کا برابر جواب دیتی ہے . . .
دو تین منٹ ممے دبانے کے بعد . . . . شیرو جلدی سے لنڈ کو چوت کے نشانے پر رکھا کر دھکا مار دیتا ہے . . . . جس سے لنڈ آدھا اندر گھس جاتا ہے . . . .ماہرہ کے منہ سے چیخ نکل جاتی ہے . . . .
ماضی میں ماہرہ کی پھدی ایک ہی بار شیرو کے لنڈ سے چودی تھی . . . اِس لیے ابھی وہ لنڈ کے حساب سے کھلی نہیں تھی . . .
ماہرہ :
آہ . . . م م م . . . آہ . . مار ڈالا . . . س س س . . . دھیرے کرو . . . آں . . . . .
شیرو کو ماہرہ کی چیخ سن کر اور زیادہ جوش آتا ہے . . . .
اور وہ لنڈ کو تھوڑا باہر کھینچ کر ایک اور دامدار جھٹکا مار دیتا ہے . . . .
ماہرہ :
آہ . . . م م م . . باہر نکالو . . . اں . . . مر گئی . . . اوئی ماں . . . س س س . . . .
ماہرہ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں . . . .
شیرو کا لنڈ جڑ تک چوت میں پھنسا ہوا تھا . . . . اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی شنکجے میں لنڈ کو جکڑ دیا ہو کسی نے . . . .
ماہرہ سے بھی شیرو کے جھٹکے برداشت نہیں ہو رہے تھے اس کی چوت کھیرے کی طرح چِیر کر رکھ دی تھی شیرو کے لنڈ نے . . . .
ماہرہ :
آں . . کوئی ایسے کرتا ہے کیا . . . آہ . . . ماں مار ہی ڈالو گے گیا . . . اوئی ماں . . . . .
شیرو کو بھی اب احساس ہوا کہ . . . اس نے جوش میں کچھ زیادہ ہی زور لگا دیا . . . ،
پھر وہ ماہرہ کے دودھ دبانے لگتا ہے اور اس کے ہونٹوں کو چُوسنے لگتا ہے . . . .
چند لمحوں بعد ماہرہ کو کچھ آرام ملتا ہے . . . اب وہ بھی اپنی کمر کو ہلاتی ہے تو شیرو بھی دھیرے دھیرے لنڈ ہلانے لگتا ہے . . . .
ماہرہ :
اب کرو اور دھکے لگاؤ . . .
شیرو مامی کا سگنل ملتے ہی دھکے دینے لگتا ہے . . . .
اور ماہرہ مستی میں سیسکارنے لگتی ہے . . . .
ماہرہ :
ہم م م م . . . آہ . . س س س . . . اور تیز . . آہ . . اور تیز کرو . . . . .
شیرو اپنی رفتار اور تیز کر دیتا ہے . . . .
دهاپ دهاپ . . ٹھپ ٹھپ . . .
ماہرہ :
آں . . . م م م . . آ . . اور تیز میرے راجہ . . . م م م . . . اور زور سے کرو . . . آہ . . . چودو مجھے . . . آہ . . . ایسے ہی . . . ایسے ہی کرو . . . . اوئی . . ماں . . . پھاڑ ڈالو میری چوت کو . . . بنا دو مجھے اپنی داسی . . . . آہ . . . س س . . . اوں . . . . .
ایسی آوازوں سے کمرا گونج رہا تھا . . .
چند لمحوں کی دامدار چدائی میں ہی ماہرہ کی چوت نے پانی چھوڑ دیا تھا . . . . مگر شیرو ابھی بھی پورے جوش میں لگا ہوا تھا . . . .
چند لمحوں میں ہی ماہرہ پھر سے گرم ہو جاتی ہے . . . .
اور شیرو کو پلٹا دیتی ہے . . . اب شیرو لیٹا ہوا تھا اور ماہرہ گھٹنوں پر شیرو کے لنڈ کی سواری کر رہی تھی . . . .
شیرو نے چدائی کا یہ دوسرا نیا طریقہ دیکھا تھا . . . .
جو اسے بہت مزیدار لگ رہا تھا . . . .
ماہرہ کے اچھلنے سے اس کے دودھ غباروں کی طرح اُچھال رہے تھے . . . جسے شیرو ہاتھوں میں تھام کر مسلنے لگا تھا . . . .
ماہرہ :
آہ . . س س . . م م م . . . تم مجھے پہلے کیوں نہیں ملے . . . آہ میرے راجہ. . ایسے ہی . . . مجھے روز چودنا . . . ایسے ہی . . ہاں . . اں . . م م م . . س س س . . .
میں آج سے تیری غلام ہوں مجھے اب خود سے دور مت کرنا . . . آہ . . . س س س . . مجھے اپنے بچوں کی ماں بنا دو . . . . اف ف ف . . س س . . . بولو چودو گے نہ مجھے ایسے ہی روز . . . ہاں . . س س س . . .
شیرو :
ہاں مامی جی میں آپ کو روز ہی چودوں گا جب آپ کہے گی . . س س س . . . ہم م م . . تب چودوں گا . . . . .
ماہرہ :
مجھے اپنے بچوں کی ماں بناو گے نہ . . . بولو بناو گے نہ . . . آہ . . س س س . . .
شیرو :
ہاں میں آپ کو ماں بناوں گا اپنے بچوں کی ماں بناوں گا . . . ہم م م . . . اں . . .
ماہرہ :
تم ایسے ہی میری چدائی کرتے رہنا تم جب کہو گے . . . ہم م م . . . آہ . . . میں تمھارے آگے ننگی ہو کر چُدواؤں گی . . . جہاں بولو گے . . آں . . . وہاں چُدواؤں گی . . . آہ . . . س س س . . .
شیرو :
مامی جی میرا ہونے والا ہے . . . آں . . س س س . .
شیرو جلدی سے ماہرہ کو پلٹا دیتا ہے . . . اور ماہرہ کی ٹانگوں کو اس کے پیٹ پر دبا کر زوردار دھکے مارنے لگتا ہے . . . .
شیرو :
آں . . میں آ رہا ہوں . . مامی . . آہ . . . .
ماہرہ :
میں بھی آ رہی ہوں . . . س س س . . . اں . . . اور تیز . . ہم م . . . میرے اندر ہی چھوڑ دو اپنا انمول پانی . . آہ . . . ہم م م . . . .
اور شیرو جھٹکے لیتا ہوا اپنا پانی ماہرہ کی بچہ دانی میں چھوڑ دیتا ہے . . . .
اپنی چوت میں شیرو کے لنڈ سے نکلی منی کو محسوس کرتے ہی ماہرہ پھر سے ڈسچارج ہو جاتی ہے . . . .
دونوں کا جسم پسینے میں بھیگ گیا تھا . . . .
دامدار چدائی کے بعد دونوں ایک دوسرے کو ایسے ہی گلے لگائے سانسیں ٹھیک کرنے لگتے ہیں . . .
تھوڑی دیر بعد ماہرہ شیرو کو سائڈ میں کر دیتی ہے . . . اور خود باتھ روم چلی جاتی ہے . . . .
آدھے گھنٹے بعد خود کو فریش کر کے جب وہ واپس آتی ہے تو دیکھتی ہے کہ شیرو سو گیا ہے. . . .
تب وہ اپنے کپڑے پہن کر چپکے سے کمرے میں چلی جاتی ہے. . . . اور جا کر نیند کی حَسِین وادیوں میں کھو جاتی ہے . . . . .
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
منحوس سے معصوم تک
قسط نمبر 009
صبح شیرو اپنے ٹائم سے اُٹھ کر اکھاڑے جاتا ہے . . . .
اور اپنے استاد فہیم کو بتاتا ہے کہ . . . .اسے تحفے میں موبائل اور بائیک ملی ہے . . . ،
فہیم اس کے لیے خوش ہوتا ہے اور ساتھ میں یہ ہدایت بھی دیتا ہے کہ . . . اپنا دھیان کثرت میں ہی رکھنا کہیں ان چیزوں میں اپنا وقت برباد مت کرنا . . . .
پھر فہیم اکھاڑے میں سب پہلوانی کر رہے لڑکوں کو بتاتا ہے کہ . . . .
اِس بار بسنت پر کشتی کے مقابلے پاس کے گاؤں میں ہو رہے ہیں . . . .
جہاں شہر کے بڑے بڑے لوگ آئیں گے . . جیتنے والے کو بڑا انعام دیا جائے گا اس کے علاوہ یہ مقابلہ دونوں گاؤں کے مسائل کے لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے . . . .
فہیم شیرو سے مقابلے میں حصہ لینے کے بارے میں پوچھتا ہے . . . . مگر شیرو صاف صاف بتا دیتا ہے کہ . . . . اسے کشتی مقابلے میں حصہ لینے کی اجازت گھر سے نہیں ملے گی . . . . کیونکہ اما نے پہلے ہی اس کے لیے منع کر رکھا ہے . . . .
شیرو گھر آکر تیار ہو کر کالج چلا جاتا ہے . . . .
کالج میں شیرو مہوش کو بائیک اور موبائل کے بارے میں بتاتا ہے . . . جسے سن کے مہوش خوش ہو جاتی ہے . . . .
شیرو مہوش سے کہتا ہے کہ . . . کسی دن میں تمہیں بائیک پر گھماؤں گا . . . ،
مہوش خوش ہو جاتی ہے . . . .
کالج کے بعد شیرو راجو کے پاس جا کر اسے بھی اپنی خوشی بتاتا ہے . . . جسے سن کے راجو بھی بہت خوش ہوتا ہے . . . .
راجو :
تیری تو نکل پڑی یار . . . موبائل بھی مل گیا اب بتا پارٹی کب دے گا . . . . .
شیرو :
جب تو بولے . . . .
راجو :
چل ٹھیک ہے اِس بار بھی شہر چلتے ہیں . . .
شیرو :
مگر اِس بار شہناز اور مہوش کو مت بلانا . . .
راجو :
کیوں یار . . . ،
اب وہ تیری ہونے والی بھابی ہے اس کے بنا میں کیسے پارٹی کر سکتا ہوں . . . .
اور ویسے بھی مہوش بھی تو خوش ہوگی نہ تیرے ساتھ . . . . کیا تیرا دِل نہیں کرتا اس کے ساتھ وقت گزارنے کا ؟ . . . .
شیرو :
وہ بات نہیں ہے یار . . . . ،
وہ لڑکیاں ہے ان کی عزت پر داغ نہیں لگنا چاہیے . . . . سوچ اگر کسی کو پتہ چل گیا تو . . . .
راجو :
ہم پچھلی بار کی طرح الگ الگ جائیں گے . . . کسی کو پتہ نہیں چلے گا . . .
تھوڑی بحث کے بعد شیرو من جاتا ہے اور پھر اسے اپنی بائیک پر تھوڑا گھماتا ہے . . .
اور پھر کھیتوں میں چلا جاتا ہے . . . .
وہیں دوسری طرف بختیار جب صبح گھر آیا تھا . . . . . تو نائلہ اسے اپنے پاس بلاتی ہے بات کرنے کے لیے . . .
نائلہ :
بختیار تو کب سے رات رات بھر باہر رہنے لگ گیا ہے . . . . یہ کون سی روٹین بنا لی ہے تو نے ؟ . . . .
بختیار :
ارے بھابی وہ میرا ایک دوست کتنے سالوں کے بعد بیرون ملک سے آیا ہے . . . . پاس ہی کے گاؤں میں رہتا ہے . . . . بس اسی کے ساتھ آج کل وقت گزار رہے ہیں ہم دوست مل کر . . . کچھ دنوں میں وہ لوٹ جائے گا . . . . .
نائلہ :
اچھا اور تو یہ شراب پی کر کب سے گھر آنے لگا ہے . . . . کیا تجھے گھر کے بڑوں کا لحاظ نہیں رہا . . . .
بختیار :
وہ بھابی . . . . وہ بس دوستوں نے زبردستی پیلا دی تھی . . . .
( ضرور ماہرہ نے شکایت کی ہے آج بتاتا ہوں اسے )
نائلہ :
اچھا تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے . . . ،
میں ماہرہ کو لے کر بڑی ڈاکٹرانی کے پاس گئی تھی . . . . اس نے چیک اپ کے بعد کہا ہے کہ . . . وہ ماں بن سکتی ہے بس کچھ وقت تک دوائی کھانی پڑے گی . . . اِس لیے تو اب اس کا دھیان رکھا کر اور اس کو دوائی دلوا دے . . . . تاکہ اِس گھر میں ننھے منے بچوں کی آوازیں گونجے . . . اور تو بھی باپ بن سکے . . .
ایک لمحے کو تو بختیار خوش ہو جاتا ہے . . . . مگر پھر سوچتا ہے کہ . . . . شاید یہ ماہرہ کی کوئی چال ہے . . . .
بختیار :
ہاں میں دیکھ لوں گا آپ فکر مت کرو . . . ،
یہ بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں . . . .
اس کے بعد کچھ اور باتیں کرنے کے بعد بختیار كھانا کھا کر پھر نکل جاتا ہے . . . .
نائلہ ماہرہ کو کہتی ہے کہ . . . وہ اپنی دوائی ڈاکٹر سے لے آئے . . .
ماہرہ کے من میں خیال آتا ہے . . . .
کیوں نہ شیرو کے ساتھ شہر جائے اور گھوم کر . . . . آئے کچھ وقت دونوں ساتھ گزاریں . . .
ماہرہ :
باجی اگر آپ اجازت دیں تو میں شیرو کو ساتھ لے جاتی ہوں کل . . . ،
ان کا ( بختیار ) تو بھروسہ نہیں . . . . کتنے دن اور ایسے ہی نکال دیں . . . . اور اب مجھ سے اور انتظار نہیں ہوتا . . . پلیز آپ اجازت دے دیجیئے . . . . ہم بائیک سے جائیں گے اور جلدی آ جائیں گے. . . . .
نائلہ :
ٹھیک ہے چلے جانا مگر بائیک سے کیوں جانا . . . . اتنا لمبا سفر ہے بس سے جاؤ کہیں کچھ ہو گیا تو . . . .
ماہرہ :
آپ بھی نہ باجی . . . ،
شیرو بہت اچھی بائیک چلاتا ہے . . . اور ویسے بھی بس میں جانے سے سارا دن نکل جاتا ہے سفر میں . . . . بائیک سے جائیں گے تو جلدی آ جائیں گے . . . . .
نائلہ ماہرہ کی باتوں میں آ کر ہاں کر دیتی ہے . . . .
اور ماہرہ خوش ہو کر اسے گلے لگا لیتی ہے . . . .
شام کو سب مل کر كھانا کھاتے ہیں . . . .
آج بختیار گھر پر ہی تھا صبح بھابی نے جو کہا تھا . . . .
كھانا کھانے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں . . . .
بختیار :
تم نے بھابی سے میری شکایت کی تھی
ماہرہ :
نہیں تو . . . ،
وہ باجی نے کل رات آپ کو آتے وقت دیکھا تھا . . . . صبح مجھ سے پوچھ رہی تھی میں نے کچھ نہیں بتایا . . .
بختیار :
اور یہ ڈاکٹر کا کیا ڈرامہ ہے یہ بھی تیری کوئی چل ہے . . . .
ماہرہ :
جی نہیں وہ تو باجی مجھے لے کر گئی تھی . . . . کچھ دن پہلے ڈاکٹر کے پاس تو اس نے چیک اپ کر کے بتایا کہ . . . . میں ماں بن سکتی ہوں . . . بس تھوڑی دوا کھانی پڑے گی جو باہر سے آتی ہے . . . جس سے کئی عورتیں ماں بن چکی ہیں . . . اس سے عورتوں میں جو کمی ہوتی ہے وہ دور ہو جاتی ہے . . . . ،
دوا زرا مہنگی ہے اسی لیے میں لا نہیں پائی . . . . اتنے پیسے باجی کے پاس بھی نہیں تھے . . .
اب آپ ہی کچھ کیجئے میں بس ماں بننا چاہتی ہوں . . . .
بختیار :
کتنے پیسے لگیں گے ؟
ماہرہ :
جی ڈاکٹر نے کہا تھا ہفتے کی دوا چار ہزار کی آئے گی. . . . .
بختیار :
اور کتنی دیر کھانے کا بولا ہے ؟
ماہرہ :
جی ڈاکٹر نے کہا ہے کہ . . . . کم سے کم تین مہینے تو کھانی پڑے گی . . . .
بختیار :
اتنے پیسے لگیں گے . . . ،
یہ تو بہت زیادہ ہے . . . .
ماہرہ :
کیا آپ نہیں چاہتے کہ . . . .
میں ماں بنوں . . . .
بختیار :
لیکن اگر دوا کے بعد بھی ماں نہیں بنی تو ؟
ماہرہ :
جی ڈاکٹر نے کہا ہے کہ . . . .
آج تک جس نے بھی دوا کھائی ہے وہ ماں ضرور بنی ہے . . . . اور ہم وہاں کئی عورتوں سے بھی ملے تھے جنہوں نے وہاں سے دوا کھائی تھی اور وہ ماں بنی . . .
بختیار :
ٹھیک ہے ٹھیک ہے . . . مگر یاد رکھنا اگر ایسا نہ ہوا تو پھر مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا . . . .
پھر بختیار ماہرہ کو دس ہزار روپے دے دیتا ہے دوا کے لیے . . . . اور دونوں سو جاتے ہیں . . . .
ماہرہ اندر سے بہت خوش تھی کہ . . . .
بختیار اس کی باتوں میں آ گیا ہے اب بس اسے آگے چوتیا کیسے بنانا ہے . . . . یہی سوچ رہی تھی . . . .
اُدھر شیرو اپنے بیڈ پر لیٹا مینا کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ . . . . اس کی حقیقت کیسے ماما کے سامنے لائے . . . پھر سوچتے سوچتے اس کا دھیان کل رات کو مامی کے ساتھ ہوئی دامدار چدائی کی طرف چلا جاتا ہے . . . .
اور اس کا لوڑا سر اٹھانے لگتا ہے . . . .
اب تو شیر کے منہ کو خون لگ گیا تھا اب شیرو کا لوڑا چوت کی مانگ کر رہا تھا . . . شیرو من ہی من خود کو سمجھاتا ہے کہ نہیں یہ سب غلط ہے . . . .
وہ بس چھوٹی مامی کی مدد کر رہا ہے ماں بننے کے لیے . . . اور جب وہ چاہیں گی تبھی یہ سب ہوگا . . . مگر اس کا لنڈ نہیں من رہا تھا . . . . ،
پھر اسے یاد آتا ہے کہ . . . کیسے کل رات چدائی کے وقت مامی کہہ رہی تھی کہ . . . جب چاہے گا جہاں چاہے گا وہ مجھ سے چدائی کروائیں گی . . .
یونہی لنڈ کو مسلتا ہوا شیرو سو جاتا ہے . . . .
اگلے دن اپنی روٹین کے مطابق شیرو اکھاڑے سے ہو کر آتا ہے . . . اور جیسے ہی اپنے کمرے میں تیار ہونے جاتا ہے ماہرہ اس کے کمرے میں چلی آتی ہے . . . . .
ماہرہ :
جلدی سے اچھے کپڑے پہن لے . . . . آج تجھے میرے ساتھ شہر چلنا ہے . . . کالج سے آج چھٹی کر . . . .
شیرو :
شہر ؟ آج کچھ خاص بات ہے ؟
ماہرہ :
(پاس آ کر مسکراتے ہوئے )
آج ہم دونوں شہر گھومیں گے ساتھ میں . . . مگر گھر پر کچھ نہیں بولنا میں سب خود سنبھل لوں گی . . . .
شیرو سمجھ جاتا ہے مامی آج اس کے ساتھ مستی کرنا چاہتی ہے . . . . ،
اِس لیے وہ بھی نزدیک ہو کر ایک ہاتھ مامی کی کمر پر رکھا کر اسے اپنے ساتھ لگا لیتا ہے . . . .
شیرو :
لگتا ہے آج صبح صبح آپ کی نیت کچھ خراب ہے . . . .
ماہرہ :
نیت تو ٹھیک ہے مگر لگتا ہے تمہاری نیت ٹھیک نہیں . . . .
شیرو :
آپ کو دیکھ کر تو کسی کی بھی نیت بگڑ جائے . . . .
اتنا کہہ کر شیرو اپنے ہونٹ ماہرہ کے ہونٹوں سے چپکا دیتا ہے . . . .
اور ایک ہاتھ اس کے سر کے پیچھے رکھ کر ایک ہاتھ کمر پر چلانے لگتا ہے . . . .
"ووم م م م . . . . ہم م م م . . . م م م م" . . .
دونوں کی چوما چاٹی گہری ہونے لگتی ہے . . . شیرو تو کل رات سے ہی گرم تھا . . . اور ماہرہ کو بھی اب شیرو کا ہی مست لنڈ ہر وقت چاہیے تھا . . . .
اِس لیے وہ بھی گرم ہونے لگتی ہے . . . .
چند لمحے یونہی کسسنگ کے بعد . . . ماہرہ شیرو کو خود سے دور کرتی ہے . . . اور اپنا حلیہ ٹھیک کر کے باہر جانے سے پہلے شیرو کو جلدی تیار ہو کر نیچے آنے کا بولتی ہے . . . .
آدھے گھنٹے میں ناشتہ کر کے دونوں تیار تھے جانے کے لیے . . . . ماہرہ شیرو کو بائیک نکلنے کا بولتی ہے . . . تو شیرو خوش ہو جاتا ہے کہ . . . . آج وہ پہلی بار اپنی نئی بائیک سے شہر جائے گا . . . . .
دونوں بائیک پر بیٹھ کر نکل پڑتے ہیں . . . . گاؤں سے باہر نکلتے ہی ماہرہ پیچھے سے شیرو کے ساتھ چپک جاتی ہے . . . . اور اپنے دودھ شیرو کی پیٹھ پر چبانے لگتی ہے . . . .
شیرو بھی مست ہونے لگتا ہے . . . .
شیرو :
تو بتائیں آج کیا اِرادَہ ہے ؟
کہاں چلنا ہے . . . .
ماہرہ :
آج سارا دن بس تمھارے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں . . . ،
آج کا دن خاص بنانا چاہتی ہوں . . . ،
آج میں اپنی زندگی کھل کر جینا چاہتی ہوں . . . .
شیرو :
بتائیں میں کیسے آپ کا یہ دن یادگار بنا سکتا ہوں . . . . مجھے کیا کرنا ہوگا . . . .
ماہرہ :
میرے دِل میں ہمیشہ سے ایک تمنا تھی کہ . . . . میں بھی معشوقہ کی طرح اپنے عاشق کے ساتھ گھوموں پھیروں . . . مستی کروں پیار کروں مووی دیکھنے جاؤں شاپنگ کروں ہوٹل میں کھاؤں . . . پارک جاؤں . . .
شیرو :
ارے بس بس . . . ،
اتنی لمبی لسٹ یہ سب ایک دن میں کیسے ہوگا ؟
چلیں کوئی بات نہیں میں آج آپ کا دن حَسِین بنانے کی پوری کوشش کروں گا . . . . .
ماہرہ :
کیا سچ میں تم ایسا کرو گے ؟
شیرو :
آپ کے لیے اتنا تو کر ہی سکتا ہوں . . .
ماہرہ :
یہ کیا آپ آپ لگا رکھا ہے . . . اگر تو واقعی مجھے خوشی دینا چاہتا ہے . . . تو آج تم سارا دن مجھے میرے نام سے پکارو گے . . . جیسے ایک عاشق معشوق کو بلاتا ہے . . .
شیرو :
مگر میں کیسے آپ کو نام سے بلا سکتا ہوں. . . . آپ میری مامی ہو. . . . .
ماہرہ :
مامی گھر پر ہوں سب کے سامنے . . . اکیلے میں تو میں تیری داسی ہوں . . . تیرے ہونے والے بچوں کی ماں . . . ،
اب مجھے کچھ نہیں سننا تو بس مجھے میرے نام سے بلائے گا . . . .
شیرو ماہرہ کو انکار نہیں کر سکتا تھا . . . آخر اس کی خوشی کا سوال تھا . . .
پھر دونوں شہر پہنچ جاتے ہیں . . . پہلے ماہرہ شیرو کو میڈیکل شاپ پر لے کر چلتی ہے . . . اور شیرو کو وہاں سے کچھ دوائیاں لینے کو بولتی ہے . . . .
شیرو :
یہ کس چیز کی دوا ہے ؟
ماہرہ :
اس میں نیند کی گولیاں ہیں . . .
شیرو :
وہ کس لیے ؟
ماہرہ :
تیرے ماما کے لیے . . . تاکہ میں آرام سے تیرے پاس آ سکوں ہر رات . . .
دوائیاں لینے کے بعد دونوں شاپنگ کرنے جاتے ہیں . . . . جہاں ماہرہ شیرو کو جینس اور ٹی شرٹ لے کر دیتی ہے . . . . .
ماہرہ :
ان کپڑوں میں تو بالکل ہیرو لگے گا . . . .
شیرو :
آپ بھی اپنے لیے کچھ لو ورنہ مجھے نہیں چاہیے یہ سب . . . .
پھر شیرو ماہرہ کو بھی ایک سوٹ خرید کر دیتا ہے . . . ، اس کے بعد دونوں ریسٹورانٹ میں اچھا كھانا کھاتے ہیں . . . پھر کچھ وقت وہ دونوں پارک میں جاتے ہیں . . . جہاں دوپہر کو صرف کچھ کالج کے لڑکے اور لڑکیاں ہی موجود تھے . . . . جو تنہائی میں اپنے پیار کا مزہ لے رہے تھے . . . . ،
ان کو دیکھ کر ماہرہ کا من بھی مچلنے لگتا ہے . . . اور وہ شیرو کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر ایک معشوقہ کی طرح چلنے لگتی ہے . . . .
پارک کے اندر گھنے پیڑ کے نیچے دونوں کو ایک عاشق معشوق نظر آتے ہے . . . جو ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چُوسنے میں لگے تھے . . .
اور لڑکا لڑکی کے دودھ مسل رہا تھا . . . ،
ماہرہ کی آنکھوں میں لالی آ جاتی ہے اور اس کے جسم میں ہوس حاوی ہونے لگتی ہے . . . . اور وہ کس کر شیرو کا بازو پکڑ لیتی ہے . . . . .
شیرو سمجھ جاتا ہے . . . اور وہ ماہرہ کو ایک پیڑ کے پیچھے لے جاتا ہے . . . . اور اسے کس کرنے لگتا ہے . . . .
ماہرہ کی ہوس بڑھتی جا رہی تھی مگر یہ جگہ سہی نہیں تھی . . . اِس لیے دونوں اپنے من کو سمجھا کر باہر نکل جاتے ہیں . . . .
ماہرہ :
اب ہمیں چلنا چاہیے کافی وقت ہو گیا ہے . . . جلدی گھر چلو . . . . .
پھر دونوں گاؤں کی طرف نکل پڑتے ہیں . . . مگر پارک میں ہوئے واقعیات سے دونوں کے اندر ہوس کی آگ بھڑک چکی تھی. . . .
اس کا آثار یہ ہوتا ہے کہ . . . پیچھے بیٹھی ماہرہ اپنا ایک ہاتھ نیچے لے جا کر شیرو کے لنڈ پر رکھ دیتی ہے . . . .
ہاتھ لگتے ہی شیرو کا لوڑا سر اُٹھا کر چدائی کے لیے للکارنے لگتا ہے . . . اور ماہرہ لگاتار اسے مسلے جا رہی تھی . . . .
دن ڈھلنے لگا تھا شیرو بھی کل رات سے گرم تھا . . . اوپر سے صبح کی کسسنگ پھر پارک کا ماحول . . . . اور اب ماہرہ کا لنڈ کو مسلنا . . . .
اس سے برداشت نہیں ہوتا اور وہ سنسان جگہ دیکھ کر بائیک سڑک سے نیچے اُتَر دیتا ہے . . . اور درختوں کے پیچھے لے جاتا ہے . . . .
ماہرہ :
کیا ہوا یہاں کدھر لے آیا بائیک کو . . . .
شیرو کچھ نہیں بولتا بس بائیک سائڈ لگا کر . . . . ماہرہ کو کھینچ کر پیڑ کے ساتھ لگا دیتا ہے . . . .
اور اس کے ہونٹوں کو چُوسنے لگتا ہے . . . .
"ووم م م . . . ہم م م م . . . . م م م م" . . . .
ماہرہ بھی گرم تھی وہ بھی والہانہ جواب دینے لگتی ہے . . . .
"ہم م م م . . . ووم م م . . . م م م م" . . . .
شیرو :
اب اور برداشت نہیں ہو رہا ماہرہ میرے اندر آگ لگی ہے . . . .
ماہرہ :
ہم م م . . . . میرا بھی یہی حَال ہے مگر ابھی پہلے گھر تو چلو . . . .
شیرو :
گھر جانے تک تو میں اِس آگ میں جل جاؤں گا . . . .
اتنا کہہ کر شیرو ماہرہ کے دودھ زور زور سے مسلنے لگتا ہے . . . .
اور ماہرہ کے منہ سے سسکیاں نکلنے لگتی ہیں . . . .
ماہرہ :
آہ . . . م م م م . . . اں . . . اوئی . . . آہاں . . . .
شیرو جانتا تھا یہ جگہ یہ وقت سہی نہیں تھا . . . . مگر اب اسے یہ گرمی برداشت نہیں ہو رہی تھی . . . وہ جلدی سے ماہرہ کو گھماتا ہے اور ماہرہ کو جھکا دیتا ہے . . .
ماہرہ نہ نہ کرتے ہوئے بھی جھک جاتی ہے اور پیڑ کو پکڑ لیتی ہے . . . .
شیرو جلدی سے اس کی قمیض کمر تک اٹھاتا ہے . . . .
اور اس کی شلوار نیچے کر کے پینٹی گھٹنوں تک نیچے کر دیتا ہے . . . .
اور اگلے ہی لمحے اپنے لنڈ کو ماہرہ کی پھدی کے منہ پر سیٹ کر کے اس کی کمر کو پکڑ کر ایک زوردار دھکا مارتا ہے . . . .
اِس زوردار دھکے کے ساتھ پُورا لنڈ ایک ہی بار میں اندر گھس جاتا ہے . . . .
اور سیدھا ماہرہ کی بچہ دانی میں لگتا ہے. . . .
ماہرہ اِس دھکے کو سہہ نہیں پاتی اور درد کی وجہ سے . . . ایک تیز چیخ اس کے منہ سے نکل جاتی ہے . . .
ماہرہ :
آہ . . . مار ڈالا . . . آہ . . س س . . . مر گئی . . . آہ . . . .
شیرو کو جیسے اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی . . . اس کے سر پر تو سیکس کا بھوت سوار تھا . . . اور وہ تیزی سے دھکے مارنے شروع کر دیتا ہے . . .
ماہرہ :
آں آں آں آں . . . .آہ . . . م م م . . س س س . . . اوئی . . . .
شیرو تیز دھکے مارتے جا رہا تھا . . . .
چند لمحوں میں ہی ماہرہ کی چوت میں پانی آنے لگتا ہے . . . اور اسے بھی اب چدائی کا مزہ آنے لگتا ہے . . . .
ایک طرف اسے ڈر تھا کہ . . . کہیں کوئی آ نہ جائے . . . .
دوسری طرف ایسے کھلے میں چدائی کرنے سے اسے مزہ بھی بہت آ رہا تھا . . . . جس کی وجہ سے جلدی اس کی چوت ڈسچارج ہو جاتی ہے . . . . اور اس کی ٹانگیں کانپ نے لگتی ہے . . . .
مگر شیرو تو لگاتار دھکے مارتا جا رہا تھا . . . . اسے بس اپنا پانی نکالنا تھا . . . .
شیرو ایسے ہی چند منٹ کی دھواں دار چدائی کر کے اپنا پانی نکال دیتا ہے . . . اور ماہرہ جلدی سے اپنی حالت ٹھیک کر لیتی ہے . . . .
دونوں گھر کی طرف چل پڑتے ہیں . . . ،
گھر آکر ماہرہ جلدی سے اپنے کمرے میں گھس جاتی ہے . . .
کہیں کسی کو شک نہ ہو جائے اور پھر ایسے ہی رات ہو جاتی ہے . . . ،
رات کا كھانا کھا کر سب اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں . . . .
ماہرہ بختیار کو دوائیاں دیکھا کر کہتی ہے کہ . . . .
وہ دوا لے آئی ہے اور ڈاکٹر نے ایک گولی آپ کو بھی کھانے کو کہا ہے . . . .
بختیار چپ چاپ گولی کھا لیتا ہے . . .
جوکہ اصل میں نیند کی گولی تھی . . . .
کچھ دیر بعد ماہرہ کچن میں برتن دھونے کا بول کر چلی جاتی ہے . . . .
اور جب وہ واپس آتی ہے تو دیکھتی ہے کہ . . . .
بختیار بےسدھ سویا پڑا تھا . . . .
بختیار کو اچھی طرح چیک کرنے کے بعد . . . ماہرہ شیرو کے کمرے میں چلی جاتی ہے . . . .
ماہرہ :
کیوں جناب آج بہت گرمی چڑھ رہی تھی باہر آپ کو . . . اب دیکھتی ہوں تمہیں . . . .
شیرو :
(مسکرا کر )
وہ گرمی بھی تو آپ نے ہی لگائی تھی . . . .
ماہرہ :
تو چلو آؤ پھر تمہاری پوری گرمی نکالتی ہوں . . . . .
اس کے بعد دونوں پھر سے شروع ہو جاتے ہیں . . . .
اور آدھے گھنٹے تک چدائی چلتی ہے دونوں میں . . . . چدائی ختم ہونے کے بعد جب ماہرہ جانے لگتی ہے . . . تو شیرو اسے روک لیتا ہے. . . .
شیرو :
مامی جی روک جائیں . . . مجھے آپ سے بات کرنی ہے . . .
ماہرہ :
کیا بات ہے ؟
شیرو :
وہ اصل میں مجھے بختیار ماما کے بارے میں بات کرنی ہے . . . .
ماہرہ :
چھوڑو اسے وہ جو کرتے ہیں کرنے دو مجھے اب ان سے کوئی مطلب نہیں . . . .
مجھے صرف اب تم سے ہی مطلب ہے . . . .
شیرو :
مامی جی یہ سنجیدہ مسلہ ہے . . . اگر ہم نے کچھ نہیں کیا تو ماما جی سب کچھ برباد کر دیں گے . . . .
ماہرہ :
کیا مطلب . . . .
شیرو پھر مینا کے بارے میں سب بتاتا ہے . . . . اور جو اس نے مینا کے منہ سے سنا تھا وہ بھی بتاتا ہے . . . .
ماہرہ :
اس کا مطلب وہ حرام زادی اپنی چوت دیکھا کر سب کچھ ہتھیانا چاہتی ہے . . . . اور تیرا ماما چوتیا بن کر سب لٹا رہا ہے . . . .
شیرو :
ہاں مامی جی زرا سوچیں . . . . اگر ماما نے سب ایسے لٹا دیا تو . . آپ کے بچوں کو کیا ملے گا . . . اور یہ گھر بھی تباہ ہو جائے گا . . .
ماہرہ :
نہیں شیرو یہ سب تیرا ہے تو ہی اِس ساری جائیداد کا وارث ہے . . . میرے بچے بھی تو تیرے ہوں گے . . . مجھے کچھ نہیں چاہیے یہ سب تیرے لیے ہے . . . اور میں تیری امانت کسی کو برباد نہیں کرنے دوں گی . . . ،
اس حرام زادی کو پہلے ٹھیک کرنا ہوگا اور تیرے ماما کو تو ایک جھٹکے میں لائن پر لے آوں گی . . . .
تو نے اپنے کانوں سے سب کچھ سنا تھا نہ ؟
شیرو :
جی مامی . . .
ماہرہ :
وہ آدمی اس کا کوئی رشتےدار ہے جس کا بچہ مینا کے پیٹ میں ہے . . . .
شیرو :
جی مامی . . .
ماہرہ :
اب سب سے ضروری ہے کہ . . . اِس بات کا ٹھوس ثبوت اکھٹا کرنا . . . . اور اس کے لیے ان کے منہ سے نکلوانا ہوگا . . . .
کچھ دیر سوچ کر . . . .
ماہرہ :
ایک راستہ تو ہے مگر ہے تھوڑا مشکل . . . .
شیرو :
آپ بتائیں میں کروں گا . . . .
ماہرہ :
دیکھ تو نے دیکھا ہے نہ مینا کو اپنے اس بھائی سے چدائی کرتے ہوئے . . . . .
شیرو :
میں نے بتایا تو ہے ابھی آپ کو . . . .
ماہرہ :
تو ایک کام کر تیرے پاس اب تو نیا موبائل ہے . . .
اس میں تو ریکارڈ کر سکتا ہے سب کچھ . . . .
جب اگلی بار وہ اپنے بھائی سے چدائی کر رہی ہو . . . تو اس کی ریکارڈنگ کر لینا . . . . اور اپنے ماما پر بھی نظر رکھنا . . . .
یہ بھی جب مینا کے ساتھ چدائی کر رہے ہوں تو ریکارڈ کر لینا . . . .
شیرو :
مینا کا تو سمجھ آیا . . . مگر ماما کی کیوں . . .
ماہرہ :
وہ اِس لیے کے اگر کہیں تیرا ماما . . . . کوئی ہوشیاری کرے تو اسے ڈرانے کے لیے . . . ہمارے پاس ثبوت ہونا چاہیے . . . .
شیرو :
ٹھیک ہے مامی جی . . . . مگر ریکارڈنگ کرنے کے بعد کیا کرنا ہے . . .
ماہرہ :
وہ بعد میں دیکھیں گے . . . پہلے تو یہ کام کر اور جلدی کرنا . . . کیا پتہ وہ رنڈی تب تک کوئی اور مسلہ نہ کر دے . . . .
پھر ماہرہ شیرو کو کس کر کے اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے . . . .
اور شیرو بھی سو جاتا ہے. . . .
اگلی صبح شیرو کالج جانے سے پہلے راجو سے ملتا ہے . . . .
اور اسے اپنا موبائل دے کر کہتا ہے کہ . . . . وہ چھوٹے ماما پر نظر رکھے . . . . اگر وہ کہیں مینا کے ساتھ کچھ کریں تو ریکارڈ کر لینا . . . .
راجو سے مل کر شیرو کالج چلا جاتا ہے . . . .
جاری ہے . . . . .
منحوس سے معصوم تک
قسط نمبر 10
اسکول میں کچھ خاص نہیں ہوا . . .شیرو گھر واپس آتا ہے اور كھانا کھا کر راجو کے پاس جاتا ہے جو گھر پر ہی تھا . . . ،
راجو شیرو کو بتاتا ہے کہ . . . .
ماما آج گاؤں میں نہیں ہے کہیں باہر گیا ہے اور مینا اپنے گھر پر ہی ہے . . . .
اور اس نے اپنے دوست کو نظر رکھنے کا بول دیا ہے . . . .
شیرو پھر راجو کے ساتھ تھوڑی دیر باتیں کر کہ . . . . اپنا موبائل واپس لے کر گھر آ جاتا ہے . . . .
گھر آنے پر ماہرہ اس سے پوچھتی ہے کہ . . . کام بنا تو وہ کہہ دیتا ہے کہ . . . نہیں اس کے بعد شیرو کھیتوں میں چلا جاتا ہے . . . .
کھیتوں میں بھی آج کچھ خاص نہیں ہوا تھا . . .
تو پھر شام کو شیرو دلدار کے ساتھ واپس آ جاتا ہے . . . .
بختیار بھی گھر لوٹ آتا ہے اور پھر رات کو سب اپنے اپنے کمرے میں سونے چلے جاتے ہیں . . . .
شیرو مامی کا بےصبری سے انتظار کر رہا تھا . . . . اب اسے بھی چدائی کا چسکہ لگ گیا تھا . . . جب کافی دیر تک ماہرہ نہیں آتی تو . . . . وہ اس کے کمرے میں جانے کا سوچتا ہے . . . .
مگر پھر خود کو روک لیتا ہے اور کروٹ بدلتا بدلتا سو جاتا ہے . . . .
صبح اُٹھ کر اکھاڑے سے ہو کر شیرو جب گھر واپس آتا ہے تو . . . .
ماہرہ بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں آ جاتی ہے . . .
ماہرہ :
آ گئے کثرت کر کے . . .
شیرو ماہرہ کو ایک نظر دیکھتا ہے . . . پھر اپنا کام کرنے لگتا ہے مگر کوئی جواب نہیں دیتا . . . .
ماہرہ :
لگتا ہے مجھ سے ناراض ہو . . .
شیرو پھر جواب نہیں دیتا . . . .
اصل میں وہ رات کو ماہرہ کے نہ آنے سے ناراض تھا . . . .
رات اسے چدائی کی طلب تھی مگر ماہرہ نہیں آئی . . .
اور نہ ہی اسے بتانا ضروری سمجھا اس نے . . .
ماہرہ :
میں کیا کرتی تیرے ماما رات کو سو ہی نہیں رہے تھے . . . .
اوپر سے میں بھی زیادہ تھک گئی تھی کل کپڑے دھونے کی وجہ سے . . . .
پتہ ہی نہیں چلا کب آنکھ لگ گئی . . .
شیرو تو جیسے سن ہی نہیں رہا تھا . . . وہ اپنے کپڑے اُتَار کر نہانے کے لیے جیسے ہی باتھ روم کی طرف جانے لگتا ہے تو . . . .
ماہرہ بھاگ کر پیچھے سے اس سے لپٹ جاتی ہے . . . .
ماہرہ :
ایسے مجھ سے ناراض ہو کر میری جان مت نکلو . . . . میرے راجہ تم نہیں جانتے میں تمہیں کتنا چاہتی ہوں . . . ،
تمہاری یہ خاموشی میری جان لے لے گی . . . . ،
تم کیا جانو میں کتنا تڑپتی ہوں تمہاری بانہوں میں آنے کے لیے پلیز مان جاؤ نہ . . . .
شیرو بھی زیادہ دیر ناراض نہیں رہ پتہ . . .
کیونکہ اس کا دِل تھا ہی ایسا جلدی ہی پگھل جاتا تھا . . .
شیرو ماہرہ کی بانہوں کا گھیرا کھول کر پلٹ جاتا ہے . . . .
اور ماہرہ کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیتا ہے . . . ،
ماہرہ بھی جواب میں شیرو کے ہونٹوں کو چُوسنے لگتی ہے . . . .
"ووم م م . . . ہم م م . . آہ . . . ام م م م" . . . . .
دونوں کا چوما چاتی گہری ہونے لگتی ہے . . . اور شیرو ایک ہاتھ سے مامی کے دودھ مسلنے لگتا ہے . . . .
اور دوسرے ہاتھ سے اس کی گانڈ کو دبانے لگتا ہے . . .
ماہرہ :
س س س . . . آہ . . . وہ . . . . م م م . . . ہم م م . . . س س س . . .
شیرو کس کرتا ہوا ماہرہ کو داکھیل کر دیوار کے ساتھ لگا لیتا ہے . . . . اور ماہرہ کی قمیض کو اوپر اٹھانے لگتا ہے . . . ،
ماہرہ کی قمیض پیٹ کی ناف تک اٹھ جاتی ہے . . . اور شیرو ماہرہ کی ایک ٹانگ کو گھٹنے سے پکڑ کر اوپر اٹھانے لگتا ہے . . . .
ماہرہ بھی مستی میں آنکھیں بند کئے شیرو کو فل سپورٹ کر رہی تھی . . . .
شیرو ماہرہ کی رانوں پر ہاتھ چلانے لگتا ہے . . . .
اور دھیرے دھیرے ماہرہ کے چوتڑوں تک لے جاتا ہے . . . .
اور اس کی شلوار میں ہاتھ ڈال کر چوتڑوں کی لائن میں ہاتھ گھمانے لگتا ہے . . . .
ماہرہ کی پھدی رات سے ہی پیاسی تھی اور ایسے بہترین ایکشن سے وہ اور بھی چُداسی ہو گئی تھی . . .
تبھی گھر کے باہر والے گیٹ کی آواز آتی ہے . . . .
ماہرہ ایک دم سے شیرو کو پیچھے ہٹا دیتی ہے اور قمیض نیچے کر لیتی ہے . . .
ماہرہ :
لگتا ہے باہر کوئی آیا ہے تم نہا دھو کر تیار ہو جاؤ . . . . . اور ناشتہ کر لو آ کر . . . پھر تمہیں کالج بھی جانا ہے . . . .
شیرو :
مجھے کچھ نہیں پتہ مجھے ابھی آپ کو پیار کرنا ہے . . . . میں اور کوئی بات نہیں سنوں گا . . . .
ماہرہ شیرو کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے . . . .
مگر وہ نہیں مانتا اور اپنے کمرے کے دروازے کے پاس ہی مامی کو جھکا دیتا ہے . . . . اور اس کی قمیض کمر تک اُٹھا کر جلدی سے اس کی شلوار گھٹنوں تک اُتَار دیتا ہے . . . .
اور جلدی سے اپنا لنڈ انڈرویئر میں سے نکال کر مامی کی پھدی پر ٹکا کر ایک زبردست جھٹکا مارتا ہے . . . .
ماہرہ نے ایک ہاتھ منہ پر رکھا تھا اپنی چیخ دبانے کے لیے . . . . .
مگر جلدی میں شیرو نے بہت زور سے دھکا مار دیا تھا . . . .
جس کی وجہ سے ماہرہ آگے کو گرنے لگتی ہے اور اس کا سر دروازے میں جا لگتا ہے . . . .
ماہرہ :
آہ . . . ماں . . مر گئی . . . آہ . . اوئی . . . مار ڈالو گے کیا . . . . آہ . . . .
شیرو کا پُورا لنڈ ایک ہی بار میں جڑ تک چوت میں جا کر پھنس گیا تھا . . . . ماہرہ کی چوت ایک ہی وار سے جیسے پھٹ گئی تھی . . .
شیرو :
آپ نے کہا تھا جب کہوں گا . . . جہاں کہوں گا آپ چودائیں گی . . . تو پھر ایسے نخرے کیوں کر رہی ہے . . . اگر دوبارہ کبھی انکار کیا تو میں کبھی آپ کی چدائی نہیں کروں گا . . . .
ماہرہ :
ایسا مت کہو میرے راجہ س س س . . . . آہ . . . . اب تو میں تمھارے بنا نہیں رہ سکتی . . . آہ . . . اوئی . . . . س س س . .
مجھ سے غلطی ہوگئی مگر کیا کروں گھر میں باقی لوگ بھی تو . . . . س س س . . آں . . . . س س س . . . . باقی لوگ بھی تو ہیں کہیں کسی کو پتہ چل گیا تو ہمارا کیا ہوگا . . . س س س . . .
شیرو :
باقی سب کا خیال ہے میرے اِس لنڈ کا خیال نہیں ہے . . . .
ماہرہ :
ایسا مت کہو میں تو اِس لنڈ کی غلام ہوں . . . س س س . . پلیز . . . اُم م م . . . معاف کر دو . . . .
شیرو تیزی سے دھکے مارنے لگتا ہے . . . .
ماہرہ :
آں آں آں . . .ہم م م . . . اں . . س س س . . آہا . . . ہم م م م . . . ایسے ہی مارو میرے راجہ ایسے ہی . . . س س س . . .
کمرے میں ماہرہ کی سیسکاریاں گونجنے لگتی ہے . . . . ،
شیرو دونوں ہاتھوں سے مامی کی کمر کو تھام کر طوفانی دھکے مارنے لگتا ہے . . . .
ماہرہ شیرو کے دھکوں کو برداشت نہیں کر پاتی . . . اور جلدی ڈسچارج ہونے لگتی ہے . . . اس کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں . . .
مگر شیرو بنا کسی بات کی پرواہ کئے . . . جانوروں کی طرح ماہرہ کو چودے جا رہا تھا . . . .
چند لمحوں میں ماہرہ پھر گرم ہو جاتی ہے اور پھر کچھ دیر میں فارغ ہو جاتی ہے . . .
شیرو بھی انتہاہ پر تھا . . .
آخری دھکے شیرو اتنی زور سے مارتا ہے کہ . . . ماہرہ کا اندر تک ہل جاتا ہے . . .
شیرو آخری دھکا مار کر لنڈ کو بچہ دانی میں داخل کر کے . . . اپنا پانی چھوڑ دیتا ہے . . . ،
ماہرہ کو ایسے لگتا ہے جیسے چوت کے راستے شیرو خود ہی اس کی چوت میں گھس جائے گا . . . .
ڈسچارج ہوتے ہی شیرو لنڈ چوت سے نکال کر پیچھے ہٹ جاتا ہے. . . .
اور ماہرہ دھڑام سے نیچے گر پڑتی ہے اور اپنی سانسیں ٹھیک کرنے لگتی ہے . . . .
شیرو باتھ روم میں گھس کر نہانے لگتا ہے . . . .
شیرو کے آنے تک ماہرہ کمرے سے جا چکی تھی . . . .
شیرو ناشتہ کرنے جب کچن میں آتا ہے . . . تو ماہرہ بھی آ جاتی ہے کچن میں . . . . ماہرہ کے بال گیلے تھے . . .
نائلہ :
ارے ماہرہ یہ کیا پھر سے نہا کر آئی ہے ؟
ماہرہ :
وہ . . . وہ کیا ہے نہ . . . باجی . . . میرے اوپر وہ گندا پانی گر گیا تھا . . . تو بدبو آنے لگی تھی کپڑوں سے . . . اس لئے میں نے کپڑے بھی بَدَل لیے اور نہا بھی لیا . . . .
اتنا کہتے ہوئے ماہرہ شیرو کی طرف دیکھتی ہے . . . .
دونوں کی نظریں ملتی ہیں ماہرہ کی نظروں میں شکایت تھی . . . مگر شیرو اسے دیکھ کر مسکرانے لگتا ہے . . .
ماہرہ ناشتہ دیتے وقت جب شیرو کے پاس سے گزرتی ہے . . . تو شیرو ایک ہاتھ سے اس کی گانڈ مسل دیتا ہے . . .
اور وہ چہک اٹھتی ہے . . .
شیرو جلدی سے ناشتہ کر کے کالج چلا جاتا ہے . . .
اور راستے میں پھر راجو کو کل کی طرح اپنا موبائل دے کر جاتا ہے . . .
کالج میں روز کی طرح بریک میں مہوش سے ملتا ہے . . . .مہوش آج شیرو کے لیے گھر سے حلوہ بنا کر لائی تھی . . .
ایسے ہی اسکول سے گھر آ جاتا ہے . . .
کوئی خاص بات نہیں ہوتی . . . .
دوپہر کا كھانا کھا کر شیرو راجو کے گھر جاتا ہے . . . . مگر وہ گھر نہیں تھا شیرو پھر کھیتوں میں چلا جاتا ہے . . . .
شام کو سب گھر آ جاتے ہیں . . .
كھانا کھا کر سب اپنے کمروں میں جانے لگتے ہیں کہ . . . .
باہر کا گیٹ کوئی کھٹکھٹا ہے . . .
شیرو جا کر گیٹ کھولتا ہے تو سامنے راجو تھا . . . .
شیرو اسے اِس وقت دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے . . .
راجو کوئی بات نہیں کرتا اور جلدی سے شیرو کو موبائل دے کر کہتا ہے . . . .
جلدی اسے دیکھ لینا اور پھر فٹافٹ راجو واپس نکل جاتا ہے . . .
شیرو گیٹ بند کر کے اپنے کمرے میں جاتا ہے . . . .
اسے راجو کے ایسے برتاؤ سے بہت فکر ہو رہی تھی . . . اِس لیے وہ جلدی اپنے کمرے کا دروازہ بند کرتا ہے . . . اور موبائل کھول کر دیکھنے لگتا ہے . . . .
موبائل میں ویڈیو دیکھتے دیکھتے . . .
جب وہ آواز بڑھا کر باتیں سنتا ہے . . . تو اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل جاتی ہے . . .
شیرو :
یہ چھوٹے ماما کا دماغ خراب ہو گیا ہے . . . اب تو جلدی کچھ کرنا ہوگا . . . ورنہ سب کچھ بگڑ جائے گا . . . ،
تجھے تو اب ایسی سزا دوں گا کہ تجھے افسوس ہوگا خود پر مینا . . . .
رات بارہ بجے ماہرہ بختیار کو نیند کی دوا دے کر سلا دیتی ہے . . . . . پھر شیرو کے پاس آتی ہے . . . اور دروازہ بند کر کے جب شیرو کے پاس آتی ہے تو دیکھتی ہے کہ . . . .
شیرو کسی بات سے پریشان ہے . . . .
ماہرہ :
کیا ہوا شیرو کس بات سے پریشان ہو ؟
مجھے بتاؤ کیا ہوا . . . .
شیرو کچھ نہیں بولتا . . . . اور ویڈیو چلا کر موبائل مامی کو پکڑا دیتا ہے . . . .
ویڈیو دیکھتے ہوئے ماہرہ کا چہرہ بھی غصے سے لال ہو جاتا ہے . . .
ماہرہ :
تو یہ کچھ ہو رہا ہے . . . اور تیرا چوتیا ماما سب کچھ لٹانے کو تیار بیٹھا ہے . . .
ویڈیو آج صبح کی تھی . . . جو راجو نے جنگل والے جھونپڑے میں بختیاراور مینا کی چدائی کرتے وقت ریکارڈ کی تھی . . . . .
جس میں مینا اور بختیار جو باتیں کر رہے تھے وہ زیادہ پریشان کن تھی . . . . شیرو اور ماہرہ کے لیے . . . .
مینا :
آپ اپنے بیٹے کے لیے کچھ کریں گے یا نہیں . . . .
تین مہینے میں آپ کا بیٹا اِس دنیا میں آ جائے گا . . . ،
آپ کیا چاہتے ہیں آپ کا بیٹا اس جھونپڑے میں پلے . . . . باپ اتنا بڑا زامیدار اور بیٹا فقیر کیا یہی چاہتے ہے آپ . . . .
بختیار :
تو فکر کیوں کرتی ہے میری رانی . . . . میں اپنے بچے کو ایسے تھوڑی رہنے دوں گا . . .
میں نے سب سیٹنگ کر لی ہے میں کل گیا تھا شہر . . .
تجھے تیرے شوہر سے طلاق دلوا دوں گا . . .
اور نہر کے پاس والے جو اپنے باغ اور زمین ہے میرے حصے کی . . . .
وہ میں تیرے نام کروا دوں گا . . . اور ایک گھر تیرے لیے بنوا دوں گا . . . ،
جیسے ہی ہمارا بیٹا اِس دنیا میں آئے گا . . . میں بھی اپنی بِیوِی کو چھوڑ کر تیرے ہی ساتھ رہنے لگوں گا . . .
مینا :
مگر کب ہوگا میں نے آپ کو بتایا نہ . . . کہ اب زیادہ وقت نہیں ہے . . .
بختیار :
ارے تو فکر کیوں کرتی ہے . . . اگلے ہفتے کا بولا ہے وکیل نے سب کام ہو جائے گا . . . .
ایسے ہی باتوں کے ساتھ دونوں چدائی کرنے لگتے ہیں . . . .
ماہرہ :
شیرو ہمیں جلدی کچھ کرنا ہوگا . . . تو نے مینا کی اس کے بھائی کے ساتھ چدائی ریکارڈ کی یا نہیں ؟
شیرو :
میں نے بولا ہوا ہے مامی جی . . . . وہ جب آئے گا ہم ریکارڈ کر لینگے . . . یہ تو بھلا ہو راجو کا جو آج یہ سب ریکارڈ کر کے لایا ہے . . .
ماہرہ :
راجو جانتا ہے سب ؟
اگر اس نے کسی کو بتا دیا تو . . .
شیرو :
فکر مت کرو مامی جی . . . وہ میرا جگری یار ہے وہ کبھی ایسا نہیں کرے گا . . . .
دونوں ٹینشن میں بیٹھے . . . اور نئے پلان سوچ رہے تھے . . . .
دونوں کا ہی موڈ اب ٹھیک نہیں تھا اِس لیے ماہرہ بنا چدائی کے ہی لوٹ جاتی ہے . . . .
اور شیرو بھی سوچتے سوچتے سو جاتا ہے . . . .
اگلا دن بھی یونہی گزر جاتا ہے مگر کچھ خاص نہیں ہوتا . . . . .
شام کو راجو شیرو کو خبر دیتا ہے کہ . . .
مینا کا بھائی آج دوپہر کو آ گیا ہے اِس لیے ہمیں آج رات ہی جانا ہوگا . . . . ،
شیرو راجو کو پیسے دیتا ہے اور کہتا ہے کہ . . .
اپنے اس دوست کو کچھ لے کر دے دینا . . .
اور راجو رات کو ملنے کا بول کر نکل جاتا ہے. . . .
رات کو كھانا کھانے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں . . . .
اور شیرو چھوٹی مامی کو بتا کر چپکے سے نکل جاتا ہے راجو کے گھر کی طرف . . .
راجو :
تم نے سوچا ہے کہ آگے کیا کرنا ہے ؟
شیرو :
پہلے تو ہمیں ان دونوں کی باتوں . . . . اور ہو سکے تو چدائی کو ریکارڈ کرنا ہے . . . اس کے بعد آگے کا سوچیں گے. . .
راجو :
اگر آج کوئی ایسی بات نہ ہوئی تو پھر کیا کریں گے . . .
شیرو :
میرا دِل کہتا ہے کہ . . . وہ کمینے چدائی ضرور کریں گے . . . . ،
مینا کا بھائی اسے چودنے ہی تو آتا ہے اب زیادہ بات نہیں چل جلدی . . . .
دونوں دوست نکل پڑتے ہیں مینا کے گھر کی طرف . . . . جہاں راجو کا دوست ان کا انتظار کر رہا تھا . . . . .
شیرو ان دونوں کو ساتھ لے جا کر مینا کے گھر کے پاس چھپ کر اندر دیکھنے لگتا ہے . . . .
ابھی دونوں کے درمیان کوئی خاص بات نہیں ہو رہی تھی . . . .
اِس لیے شیرو راجو اور اس کے دوست کے ساتھ اندھیرے میں چھپ کر بیٹھ جاتا ہے . . . .
تینوں چُپ چاپ بیٹھے تھے
آدھے گھنٹے کے بعد مینا بچوں کو سلا کر اپنے اس بھائی کے پاس آ جاتی ہے . . . .
آدمی :
آ میری رانی کب سے انتظار کر رہا ہوں تیری مست چوت کا . . . .
مینا :
میری چوت بھی تو کب سے پانی بہا رہی ہے تیرے لنڈ کے لیے . . . .
شیرو جیسے ہی اندر دونوں کی باتیں سنتا ہے . . . .
وہ جلدی سے اپنا موبائل نکال کر ویڈیو بنانے لگتا ہے . . . .
آدمی :
اب جلدی سے اپنا خوبصورت جسم دکھا مجھے . . .
مینا :
اپنے ہاتھوں سے کر دے مجھے ننگا . . . . تیرے ہاتھوں سے ننگا ہونا اچھا لگتا ہے . . . .
آدمی :
کتنے سال ہوگئے تجھے چودتے ہوئے . . . مگر آج بھی ایسے ہی لگتا ہے کہ . . . جیسے پہلی بار چود رہا ہوں . . . کتنی مستی سے چُدواتی ہے تو . . . .
ایک میری عورت ہے کمینی مزے ہی نہیں دیتی . . . . اور ایک تو ہے کہ . . . دِل کرتا ہے بس تجھے رگڑتا ہی رہوں . . . .
مینا :
مجھے بھی تو تیرے ساتھ ہی مزہ آتا ہے . . . ،
تیرے علاوہ کسی میں دم نہیں . . . . ویسے بھی میری چوت کو تو تیرا ہی لنڈ پسند ہے . . . .
آدمی :
تیرے پاس تو لنڈوں کی کمی نہیں . . . ،
تیرا مرد بھی ہے . . . اور وہ تیرا مالک بھی تو ہے . . .
مینا :
ان دونوں کے لوڑوں میں دم نہیں ہے . . . ،
میرا مرد تو تھک کر سو جاتا ہے . . . . اور وہ بختیار بابُو خود کو بڑا تیس مار خان سمجھتا ہے . . . . کمینہ میرا پانی تو نکال نہیں پاتا . . . ہر بار انگلی کرنی پڑتی ہے . . . .
آدمی :
یہ بتا تو نے مجھے اتنی جلدی کیوں بلا لیا . . . .
باتوں کے ساتھ ساتھ دونوں ننگے ہو گئے تھے . . . .
اور ایک دوسرے کو گرم کرنے لگے تھے . . . .
مینا :
وہ بختیار چوتیا اگلے ہفتے نہر کے پاس والے جو اس کے حصے کے کھیت ہیں . . . .
وہ میرے نام لکھوانے والا ہے . . . تو جلدی سے خریدار ڈھونڈ کر رکھ . . . . پھر ہم وہ کھیت بیچ کر جلدی سے یہاں سے بھاگ جائیں گے . . . . .
آدمی :
کیا سچ ! ! ! . . . .
تم نے یہ بات بتا کر خوش کر دیا میری رانی . . . . تو سچ میں ایک نمبر کی رنڈی ہے . . . یہ سب ہوا کیسے . . . .
مینا :
کیسے کیا وہی . . . ،
بھڑوا تو بچے کے لیے مرا جا رہا ہے . . . . اسے یہی لگ رہا ہے کہ . . . یہ اس کا بچہ ہے . . . ہا ہا ہا ہا . . . .
آدمی :
اگر کہیں اسے پتہ لگ گیا پھر کیا ہوگا سوچا ہے ؟ . . . .
مینا :
آج تک میرے مرد کو پتہ چلا کیا کہ . . . یہ بچے اس کے نہیں تیرے ہیں ؟
تو اس بھڑوے کو کہاں سے پتہ چلے گا کہ . . . . یہ بچہ کس کا ہے . . . .
یہ تو عورت ہی بتا سکتی ہے کہ . . . اس کے پیٹ میں بچہ کس کا ہے . . . اور یہ بچہ صرف تیرا ہے میرے شہزادے. . . .
اتنا بول کر مینا لنڈ چُوسنے لگتی ہے . . . .
آدمی :
آں کمینی کیا لنڈ چوستی ہے . . . ہم م م . . .
مینا :
ہم م م . . . ووم م م . . .
آدمی :
میں کل ہی پتہ کرتا ہوں خریدار کا . . . . نہر کے پاس کی زمین تو اچھے دام میں جاۓ گی . . . ہم م م . . . . .
اس کے بعد وہ آدمی مینا کو لیٹا کر . . . اس کی ٹانگیں اُٹھا کر اپنے کاندھے پر رکھ لیتا ہے . . . . اور ایک زوردار دھکا مارتا ہے . . .
مینا :
اں . . . . مر گئی . . . س س س . . . آہ . . . مار ڈالے گا کیا . . . آہ . . . . .
آدمی :
چُپ کر کمینی . . . . اتنے سال ہوگئے ابھی تک تیری عادت نہیں گئی چیخنے کی . . .
مینا :
آہ . . . س س س . . تو ایسے زوردار دھکے مارے گا اپنے لنڈ سے . . . آہا . . . چیخ تو نکلے گی ہی . . . س س س . . . .
آدمی :
زمین بیچ کر آگے کیا اِرادَہ ہے کہاں جائیں گے . . . .
مینا :
س س س . . . م م م م . . .پیسہ لے کر بچوں کے ساتھ راتوں رات ہم دونوں کہیں دور کے گاؤں نکل جائیں گے . . . . .اوئی . . . ماں . . زور سے کرو . . . .
آدمی :
لے اور زور سے لے . . . . آں . . .
تیرے مرد کا کیا ؟ . . . مالک تو اس کی جان لے لے گا . . . .
مینا :
اُم م م . . . آہا . . . مرنے دے اچھا ہے کوئی پیچھے نہیں آئے گا . . . آں . . . س س س . . .
دونوں اندر چدائی میں مست تھے . . . . شیرو مینا کی باتیں سن کر غصے میں لال ہو رہا تھا . . .
آدمی :
اگر بختیار ہمارے پیچھے آ گیا تو ؟
مینا :
اسے پتہ لگنے سے پہلے ہم نکل جائیں گے . . . س س س . . . آہ . . . زور سے . . . جب اسے پتہ چلے گا . . . شرم سے ڈوب مرے گا بھڑوا . . . نامرد باپ نہ بن پانے کے غم میں ہی پاگل ہو جائے گا . . . اور اس کی عورت کسی اور کے ساتھ بھاگ جائے گی . . . .
شیرو چھوٹی مامی کے بارے میں سنتے ہی غصے میں اپنا آپ کھو بیٹھتا ہے . . . .
اور موبائل کو جیب میں ڈال کر جھونپڑے میں گھس جاتا ہے . . . . .
مینا اور وہ آدمی شیرو کو اچانک دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں . . . .
آدمی :
تو کون ہے بھوسری کے نکل باہر . . . .
شیرو :
میں تیرا باپ ہوں کتے . . . .
مینا شیرو کو دیکھ کر ڈر گئی تھی . . . . اس نے کھیتوں میں کئی بار شیرو کو دیکھا تھا . . .
مینا کا رنگ اُڑ جاتا ہے . . . .
آدمی :
کیا کہا حرام زادے . . .
اتنا کہہ کر وہ آدمی شیرو کو مارنے کو ڈورتا ہے . . . شیرو تو پہلے ہی پہلوانی کے سارے داؤ پیچ جانتا تھا . . . . .
وہ اس آدمی کا اٹھا ہوا بازو پکڑ کر گھوما دیتا ہے . . . اور تیزی سے گھوم کر اسے دھوبی کی طرح پٹکا دے دیتا ہے . . .
اچانک ہوئے اس جوابی حملے سے وہ آدمی چٹ ہو جاتا ہے . . . .
اتنی دیر میں راجو اور اس کا دوست بھی اندر آ گئے تھے . . .
شیرو اس آدمی کو کوئی موقع دیئے بغیر پھر سے اُٹھا کر پٹخ دیتا ہے . . . شیرو کو غصے میں دیکھ کر راجو اسے روکتا ہے اور ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا ہے . . . .
راجو اپنے دوست کے ساتھ مل کر اس آدمی کو اسی کے کپڑوں کے ساتھ ہی باندھ دیتا ہے . . .
اب تینوں کے سامنے صرف مینا تھی وہ بھی ننگی . . . ،
شیرو کے ناتھیں غصے سے پھول رہی تھی اور آنکھوں میں خون اُتَر آیا تھا . . . . غصے سے مینا کو دیکھتے ہوئے . . . .
شیرو :
حرام زادی . . . جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کیا . . . ، تو ماما کو بے وقوف بنا کر لوٹے گی . . . اور کوئی کچھ نہیں کر پائے گا . . . میں تیرے ٹکرے ٹکرے کر دوں گا . . . .
شیرو کو غصے میں دیکھ کر مینا کی تو گانڈ ہی پھٹ گئی تھی . . . . شیرو آگے بڑھ کر مینا کی گردن دبوچ لیتا ہے . . . .
مینا کی سانسیں پھولنے لگتی ہے اور آنکھیں باہر آنے لگتی ہیں . . . .
راجو شیرو کو جلدی سے روکتا ہے اور اسے پیچھے ہٹاتا ہے . . . .
راجو :
پاگل ہوگیا ہے کیا . . . اگر اسے تو مار دے گا تو ہم سب پھنس جائیں گے . . . اوپر سے تیرا ماما بھی تیرا دشمن بن جائے گا . . . .
شیرو خود کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا ہے . . . ،
خود کو ٹھنڈا کرنے کے بعد شیرو اپنے پلان پر فوکس کرتا ہے . . . .
آخر اب ان کے پاس ثبوت تو تھا ہی . . . اب وہ مینا کی سچائی کو سامنے لا سکتا تھا . . . .
مگر مینا نے چھوٹی مامی کو درمیان میں لا کر شیرو کو غصہ دلا دیا تھا . . . .
شیرو جب سے چھوٹی مامی کو چودنے لگا تھا . . . . تب سے اس کے دِل میں مامی کے لیے پیار زیادہ ہی بڑھ گیا تھا . . . .
شیرو :
اِس حرامزادی کو تو ایسی سزا دوں گا کہ . . . اس کے خاندان میں بھی کوئی ایسا کام کرنے سے ڈرے گا . . . .
مینا کو تو شیرو . . . . موت کا فرشتہ نظر آنے لگا تھا . . . .
وہ جلدی سے شیرو کے پاؤں پکڑ کر گڑگڑانے لگتی ہے . . . .
مینا :
مجھے معاف کر دو چھوٹے مالک . . . . مجھ سے بڑی غلطی ہوگئی . . . . لالچ کی وجہ سے میں اندھی ہوگئی تھی . . .
شیرو :
لالچ کی وجہ سے یا اپنے بھوسرے کی وجہ سے . . . .
اب تو تجھے ننگا گاؤں میں گھوماوں گا اور کتوں سے چودواؤں گا . . . .
مینا :
رحم مالک . . . رحم کیجیے میں آپ کے پاؤں پڑتی ہوں مجھے معاف کر دیجیئے . . . .
میں کل ہی یہاں سے دور چلی جاوں گی . . . پھر کبھی اپنی شکل بھی نہیں دکھاوں گی . . .
شیرو :
اب تو تجھے سزا مل کر رہے گی. . . . بہت لوٹ لیا تو نے ماما کو . . . سب کا حساب دینا ہوگا . . . .
مینا :
میں سب لوٹا دوں گی مالک . . . مجھے بخش دو . . . مجھے معاف کر دو . . .
شیرو :
چل نکال جو کچھ لوٹا ہے ماما سے. . .
مینا جلدی سے جھونپڑی کے کونے میں ہی کپڑوں کے صندوق کو نکالتی ہے . . . . جو نیچے زمین میں گاڑ کر رکھا ہوا تھا . . . اس سے سونے کے ہار کو نکال کر دے دیتی ہے . . .
شیرو :
وہ سارے پیسے کہاں ہیں جو تو نے لیے ہیں ماما سے. . . . .
مینا :
صاحب وہ پیسے تو خرچ ہو گئے . . . میں نے اس کے ہاتھوں گھر بیھجوا دیے تھا اور کچھ اسے دے دیئے . . . .
شیرو :
اب اس کا حساب تو تجھے دینا ہی پڑے گا . . . .
شیرو کے دماغ میں ایک آئیڈیا آتا ہے کہ . . . . چھوٹے ماما کی نظر میں مینا کو . . . ایک رنڈی ثابت کیسے کیا جا سکتا ہے . . . تاکہ وہ نفرت کرنے لگے . . . .
شیرو :
راجو چل اپنے کپڑے اُتَار اور اِس رنڈی کو رنڈیوں کی طرح چود ابھی کہ ابھی . . . .
راجو شیرو کی بات پر حیران ہو جاتا ہے اور مینا کا منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے . . .
راجو :
یار کیا بول رہا ہے . . . .
شیرو :
تو نے سنا نہیں کیا . . .
چل جلدی اسے چود . . . اور کوئی رحم نہیں کرنا اس پر . . . .
اس کی چیخیں مجھے سنائی دینی چاہیے . . .
مینا پھر سے معافی مانگنے لگتی ہے . . .
شیرو :
چُپ کر رنڈی زیادہ ڈرامہ نہیں . . . . ، تیری پھدی میں بہت آگ ہے نہ چل دکھا آج . . . .
اور اگر کوئی ڈرامہ کیا تو چدے گی تو پھر بھی . . . .
مگر پھر تجھے گاؤں کے کتے چودیں گے سب کے سامنے . . . .
مینا کی گانڈ پھٹ گئی . . . مرتا کیا نہ کرتا وہ چُپ چاپ تیار ہو جاتی ہے . . . .
راجو ابھی بھی تیار نہیں تھا . . . .
مگر اس کا وہ دوست مینا کو ننگا دیکھ کر لنڈ ہلا رہا تھا . . . .
وہ راجو کو کچھ نہ کرتا دیکھ کر شیرو سے کہتا ہے کہ . . . .
وہ بھی کرنا چاہتا ہے مینا کے ساتھ . . . ،
شیرو اسے اِجازَت دے دیتا ہے . . .
راجو کا دوست مینا کو گھوڑی بنا کر پیچھے سے لنڈ گھسا دیتا ہے . . . .
اور دھکے مارنے لگتا ہے . . . .
مینا بھی چدائی کرواتے ہوئے دھیرے دھیرے مست ہونے لگتی ہے . . . . اور اس کے منہ سے سسکیاں نکلنے لگتی ہیں . . .
راجو دونوں کی چدائی دیکھ کر گرم ہو جاتا ہے . . . .
اور لنڈ نکال کر مینا کے منہ کے آگے کھڑا ہو جاتا ہے . . . .
اور اس کے منہ میں لنڈ داخل کر دیتا ہے . . .
اب راجو کا دوست مینا کے پیچھے سے پھدی مار رہا تھا . . . .
اور راجو مینا کا منہ چود رہا تھا . . .
شیرو جلدی سے موبائل نکلتا ہے اور ویڈیو بنانے لگتا ہے . . . .
مینا چدائی سے مست ہونے لگتی ہے پہلی بار . . . وہ ایک ساتھ دو لوڑوں سے مزے لے رہی تھی . . . .
چند لمحوں میں ہی راجو کا دوست پانی نکال دیتا ہے . . . .
پھر راجو اس کی جگہ مینا کو چودنے لگتا ہے . . . .
مینا :
س س س . . آہ . . م م م . . . آہ . . . آہا . . .
سسکیاں لے لے کر چدائی کا مزا لے رہی تھی . . . شیرو اسے مزا لیتا دیکھ کر سوچتا ہے . . . .
شیرو :
(من ہی من میں)
چینال رنڈی . . . یہ سزا تو اس کا مزا بن گئی اس کا کچھ کرنا پڑے گا . . . .
چند لمحوں میں راجو بھی پانی نکال دیتا ہے اور پیچھے ہٹ جاتا ہے . . . .
شیرو تو مینا کی چیخیں سننا چاہتا تھا . . .
مگر وہ تو سسکیاں لے رہی تھی . . . .
جاری ہے . . . . . .
0 Comments