چنگاری
Part 1
میرا نام نبیل ہے عمر سترہ سال ہارڈویئر سٹور پر چچا خادم کیلئے کام کرتا ہوں۔ اگرچہ عمر زیادہ نہیں لیکن حالات کی سختیوں اور کم عمری کی محنت مزدوری کی وجہ سے ایک مضبوط جسم کا مالک ہوں۔ خادم چچا میرے کوئی رشتہ دار نہیں ہیں، لیکن اُن کے ساتھ کام کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بڑے بھی ہیں اسی لیئے میں انہیں چچا کہتا ہوں۔ کوئی تین سال پہلے جب میں صرف چودہ سال کا تھا تو ان کے ساتھ کام شروع کیا تھا۔ تب سے اب تک پوری دیانت داری اور محنت سے کام کرنے ہی کی وجہ تھی کے چچا کی شفقت ہمیشہ شاملِ حال رہی اور مجھ پر اُن کا اعتماد بھی مثالی تھا۔
خادم چچا کی فیملی کوئی زیادہ بڑی نہیں تھی، دو بیٹیاں ایک بیٹا اور بیوی، کاروبار اچھا چل رہا تھا یہی وجہ تھی کے اُن کے گھر میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ مجھے ان کے گھر آنے جانے پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی، بلکہ گھر کیلئے تمام سودا سلف میں ہی پہنچا کر آتا تھا۔ اور گھر سے دوپہر کا کھانا بھی میں ہی لے کر دکان پر آتا تھا۔ یعنی چچا خادم کے گھر میں میرا آنا جانا ایک فیملی ممبر کی ہی طرح تھا۔ چچا خود تو قریب ساٹھ سال کی عمر کے تھے جبکہ چچا کی بیوی پینتیس چالیس کے درمیان تھیں، ان کی بڑی بیٹی کی عمر چودہ سال چھوٹی گیارہ اور سب سے چھوٹا بیٹا تھا جس کی عمر پانچ سال کے قریب تھی۔ میرا ہر روز کا معمول تھا کہ میں گھر کیلئے تمام سودا سلف لے کر جاتا اور واپسی پر آتے ہوئے گھر سے کھانا لاتا۔ جب سے میں نے یہاں کام شروع کیا تھا یہ معمولات ایسے ہی چلے آ رہے تھے۔ اور شائید ایسے ہی چلتے رہتے لیکن ایک دن کچھ ایسا ہوا کہ اس نے ان معمولات میں تبدیلی پیدا کی اور ایک نیا رخ اختیار کیا۔ ہوا کُچھ یوں کے میں معمول کے مطابق سودا سلف لیئے چچا خادم کے گھر پہنچا تو میرے دو تین دفعہ دستک دینے کے باوجود کسی نے نہ تو جواب دیا اور نہ ہی گیٹ کھولا۔ میں نے گیٹ کو ہلکا سا دھکا دیا تو وہ لاک نہیں تھا اس لیئے کھلتا چلا گیا۔ میں گیٹ سے اندر داخل ہو گیا اور گیٹ کو ویسے ہی بند کر دیا۔ چونکہ میرا گھر میں آنا جانا تھا اسی لیئے میں بلا جھجھک باورچی خانے کی طرف سامان رکھنے کے لیئے آگے بڑھا، میں ابھی باورچی خانے کے دروازے کے قریب ہی پہنچا تھا کے مجھے باورچی خانے کے دوسری جانب بنے غسل خانے سے سسکاریوں جیسی ہلکی آواز نے روک لیا۔ میں نے اُس جانب دیکھا تو ہکابکا رہ گیا۔ غسل خانے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور چچی پوری ننگی کھڑی اپنے ہاتھوں سے بڑی تیزی سے اپنی چوت کو مسل رہی تھی۔ اور یہ سسکاریاں چچی کے ہی منہ سے نکل رہی تھیں۔ اور اس کی حالت کسی نشئ کی سی ہو رہی تھی ۔ بالکل دیوانگی کی سی حالت اور دنیا و مافیا سے بے خبر مجھ پر تو جیسے سکتہ سا چھا گیا ہو، میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا جبکہ باقی سارا جسم بھی پتھر کی طرح ساکت، ایسا منظر وہ بھی حقیقی اور اتنے قریب سے میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چچی کی سسکاریاں اس کے اچھلتے دودھ اور جھٹکے لیتی گانڈ میرے جسم کو آگ لگانے کیلئے یہ سب کافی تھا۔ میرے کان اور ماتھا انگاروں کی طرح تپنے لگے جبکہ مجھے میری ٹانگوں کے بیچ کوئی شہسوار انگڑائیاں لیتا محسوس ہوا۔ پتہ نہیں میں کتنی دیر اسی کیفیت میں بُت بنا کھڑا رہا۔ ہوش تب آیا جب سامان کے بیگ میرے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گرے۔ تبھی شائید چچی نے بھی میری طرف دیکھا تھا۔ میں نے جلدی سے سامان سمیٹا اور کچن میں آ گیا۔ سامان رکھ کر میں ادھر کچن میں ہی کھڑا ہو گیا۔ اب مجھ پر خوف طاری ہونے لگا تھا اور خوف کی وجہ سے مجھ پر کپکپاہٹ طاری ہو گئی۔
میں بہت ڈرا ہوا تھا، اچانک مجھے لگا کوئی میرے قریب آ کر کھڑا ہوگیا ہے۔ میں نے سر اُٹھا کر اوپر دیکھا تو چچی میرے قریب کھڑی تھیں۔ اُنہوں نے اپنے گیلے جسم پر ہی شائید قمیض پہن لی تھی جس وجہ سے اُن کی قمیض گیلی ہو کر اُن کے جسم سے ہی چپک کر رہ گئی تھی۔ جب میں نے اُنہیں اپنے قریب دیکھا تو میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور میں روتے ہوئے اُن سے معافی مانگنے لگا۔ کہ جو کچھ بھی ہوا وہ انجانے میں ہوا اس میں میری غلطی یا خواہش نہیں تھی۔ چچی نے ایک ہنکارا بھرا اور میرے کپکپاتے جسم کا بھرپور جائزہ لیتے ہوئے کہا ، " اچھا غلطی سے ہوا ہے, لیکن تیرا لنڈ تو ابھی بھی اکڑ کے کھڑا ہے۔" چچی کے مُنہ سے لفظ لنڈ کا سُننا میرے لیئے عجیب تو تھا ہی لیکن اُن کی بات میں بھی صداقت تھی، میرا لنڈ واقعی تن کر کھڑا تھا۔ میں تقریباً گڑ گڑاتے ہوئے اُن سے معافی مانگنے لگا اور انہیں یقین دلانے کی کوشش کرنے لگا کہ اس میں میری بالکل بھی مرضی شامل نہیں تھی ۔لیکن چچی شائید کُچھ اور منصوبہ بندی کر چُکی تھی۔ مجھے لگا کے شائید وہ میری ایسی حالت سے لُطف اندوز ہو رہی ہے۔ اچھا تیری مرضی نہیں تھی نا تو پھر یہ بتا کے یہ کیوں اکڑا ہوا ہے۔ چچی نے اپنے ہاتھ سے میرے لنڈ کو چھوتے ہوئے کہا۔ میں کیا جواب دیتا مجھے خود معلوم نہیں تھا کے اس کی ایسی حالت کیونکر ہو گئی ہے۔ میں تو بس ہاتھ جوڑے چچی کے قدموں میں گر سا گیا اور معافی کی التجائیں ہی کرتا رہا۔ چچی نے مجھے کندھوں سے پکڑ کر اوپر اُٹھاتے ہوئے کہا، تمہیں معافی مل سکتی ہے لیکن ایک شرط پر۔ میں نے آنسووں سے بھری آنکھوں سے چچی کی طرف دیکھا اور منہ سے کچھ نہیں بولا جیسے میں جاننا چاہ رہا ہوں کے معافی کیلئے شرط کیا ہے۔ چچی چہرے پر شیطانی مسکراہٹ لیئے پھر سے بولیں ۔ شرط یہ ہے کے تُم نے یہ جو چیز چھپائی ہوئی ہے باہر نکال کر مجھے دکھاؤ، اُنہوں نے پھر سے میرے لنڈ کو چھوتے ہوئے کہا۔ میں ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹا اور پھر سے التجا کرتے ہوئے بولا نہیں نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا میں پھر سے ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہو گیا۔ معافی مانگتے ہوئے میں نے کہا چچی مجھ پر رحم کریں اور انجانے میں جو غلطی ہوئی مہربانی فرما کر معاف کر دیں۔ آئندہ ایسی غلطی کبھی نہیں ہو گی۔ چچی میری جانب سرکتے ہوئے میرے ہاتھ پکڑ کر بولیں، اگر معافی چاہئیے تو میں جو کہتی ہوں ویسا کرو، اگر نہیں کرو گے تو تمہیں معافی نہیں ملے گی۔ میرے جسم سے تو جیسے روح ہی نکل رہی تھی بس روئے جا رہا تھا اور ڈر سے پورا جسم لرز رہا تھا۔ چچی پھر بولیں ، اصل میں میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ تمہارے پاس یہ جو چیز ہے کیسی ہے اور میرے پاس ایسی چیز کیوں نہیں۔ دیکھو میں جھوٹ نہیں کہتی میرے پاس ایسی چیز نہیں ہے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی چوت پر رکھ دیا جبکہ اپنے دوسرے ہاتھ سے میرے لنڈ کو پکڑ لیا۔ مجھے بس دکھا دو تو تمہیں معاف کر دوں گی۔میں اتنا بچہ تو نہیں تھا جو چچی کی اس بات کا یقین کر لیتا کہ انہیں لنڈ اور چوت کا علم نہیں، اور وہ جانتی نہیں کا مردوں کا لنڈ ہوتا ہے اور عورتوں کی چوت، میں جان چکا تھا کہ چچی میرے ساتھ کوئی کھیل کھیلنا چاہ رہی ہے۔ میں التجائیں کرتا رہا اور وہ اپنی بات پر اصرار کرتی رہیں۔ اچانک چچی نے کہا " تو میں جو کہتی ہوں وہ تم نہیں مانو گے۔ چلو ٹھیک ہے نہ مانو لیکن جان لو کے میں بھی تمہیں معاف نہیں کروں گی، چچی بدستور میرے لنڈ کو پکڑے ہوئے تھی۔ اور اب انہوں نے میرے لنڈ کو اپنے ہاتھ کی مُٹھی میں لے کر رگڑنا شروع کر دیا تھا۔ میں جیسے بُت بن گیا تھا۔ میرے جسم کی تمام حرکت جیسے تھم سی گئی تھی۔ میں اب انکار و اقرار کی حدود سے آگے نکل آیا۔ چچی نے بھی جیسے اپنے تجربے کی بنا پر اندازہ کر لیا تھا کے میری مدافعت کا بند ٹوٹ چُکا اسی لیئے انہوں نے ایک ہاتھ سے میرے لنڈ پر اپنا کام جاری رکھتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے میری شلوار کھول دی جو کہ سیدھی میرے پاؤں پر گری۔ چچی نے میری قمیض کا پلّو اُٹھا کر میرے کندھے پر ڈال دیا میں ننگا ہو چکا تھا، چچی میرے لنڈ کو ایسے للچائی نظروں سے دیکھ رہی تھیں جیسے کئی سالوں کا بھوکا کھانے کو، " ارے نبیل تُمہارا لنڈ تو بہت شاندار ہے " چچی کی انتہائی للچائی ہوئی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی " اسے تو چومنے کو من کرتا ہے،" چچی یہ کہتے ہوئے گھٹنوں کے بل ہو گئی اور میرے انکار یا اقرار سے پہلے ہی میرے لنڈ کو چوم لیا۔ میرا جسم جو چنگاریوں کی طرح سُلگ رہا تھا ایک دم سے آگ کے الاؤ کی طرح دہکنے لگا۔ لیکن میں پھر بھی بُت کی طرح ساکت کھڑا رہا۔ فرق صرف یہ تھا کہ میں نے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا تھا اور میرا رونا بند ہو گیا تھا۔ چچی نے دو تین بوسے اوپر تلے میرے لنڈ پر کیئے۔ پھر اپنی زبان نکال کر عین میرے لنڈ کے سوراخ پر لگا دی پھر آہستہ آہستہ ٹوپے پر گُھمانا شروع کر دی۔ جب ٹوپا چاروں طرف سے گیلا ہو گیا تو دھیرے دھیرے اسے ہونٹوں کے حصار میں کسنا شروع کر دیا۔ وہ آہستہ آہستہ ٹوپے کو منہ کے اندر لے رہی تھی جبکہ مجھے لگا رہا تھا کہ میں آہستہ آہستہ آسمان کی طرف اُٹھ رہا ہوں۔ میں ایک ایسے نشے کے سحر میں جکڑا جا رہا تھا جسے نہ میں پہلے جانتا تھا اور نہ ہی پہلے میں نے چکھا تھا۔
چچی کے اس طرح لنڈ کو منہ میں لینے اور بعد میں اُس کے بھرپور چوسے لگانے سے میرے نشے میں بے انتہا اضافہ ہو گیا۔ اب تو میرا جی چاہ رہا تھا کے اپنے لنڈ کو چچی کے گلے کے اندر تک پہنچا دوں۔ میرا خوف بالکل ختم ہو چکا تھا اور میں اس نئے کھیل سے لُطف لینے لگ گیا تھا۔ چچی میرے لنڈ کو چُوس ہی رہی تھی اور ابھی زیادہ دیر بھی نہیں ہوئی تھی کے میرے لنڈ نے پانی چھوڑ دیا۔چچی نے فوراً میرے لنڈ کو منہ سے نکالا اور لنڈ سے نکلےتمام پانی کو باہر تھوکتے ہوئے بولی " اتنی جلدی چھوٹ گئے، پہلے کبھی ایسا کام نہیں کیا کیا؟" نہیں کیا بلکہ مجھے تو آج پہلی بار پتہ چلا ہے کے میرے لنڈ سے بھی چھوٹ نکلتا ہے، میں نے بھی جھجھکتے ہوئے جواب دیا
" چل کوئی بات نہیں میں تجھے آج سب کچھ سکھا بھی دوں گی اور دکھا بھی دوں گی،" یہ کہتے ہوئے چچی نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے کمرے میں لے آئی، میں بھی کسی غلام کی طرح اس کے ساتھ کمرے میں جا کر ایک کونے میں لگ کر کھڑا ہو گیا۔ ارے وہاں کیوں کھڑے ہوتے ہو ادھر میرے پاس آؤ ، یہ کہتے ہوئے چچی نے مجھے تقریباً گھسیٹ ہی لیا، میرا لنڈ اب پہلے جیسا اکڑا ہوا نہیں تھا، شائید پانی نکل جانے کی وجہ سے اس کا تناؤ کم ہو گیا تھا۔ چچی نے اسے دوبارہ سے چھیڑنا شروع کر دیا۔ اور ساتھ ہی مجھے قمیض اتارنے کا کہا۔ میں نے بغیر کچھ کہے قمیض اتار کر ایک طرف اچھال دی۔ میں بالکل ننگا کھڑا تھا اور چچی کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں جیسے کسی بچے کو کھیلنے کیلئے اس کا من پسند کھلونا مل جائے تو وہ خوش ہو جاتا ہے چچی بھی ایسے ہی میرے ساتھ کھیلنا چاہتی تھی۔ اور میں اب مکمل اس کی دسترس میں تھا۔ چچی نے مجھے کہا کے میں اس کے کپڑے اتاروں میں نے آگے بڑھ کے پہلے اس کی قمیض اور بعد میں شلوار اُتار دی۔کسی بھی عورت کو اس طرح سے ننگا کرنا میری زندگی کا پہلا اتفاق تھا۔ برا اور پینٹی اُتار کر میں نے چچی کو بالکل ننگا کر دیا ۔ چچی مجھ سے دگنی عمر کی ضرور تھی لیکن اس نے خود کو بڑے سلیقے سے سنبھال رکھا تھا، اس کے گول مٹول ممے کسی بھی دوشیزہ سے کم نہ تھے۔ نہ تو چچی کا پیٹ بھدا تھا اور نہ ہی اس کی گانڈ بےہنگم پھیلی ہوئی تھی۔ بلکہ سچ یہ ہے کے وہ اس وقت بھی نہیں لگتا تھا کے تین بچوں کی ماں ہے اور اس کی بڑی بیٹی چودہ سال کی ہے۔ اس کا رنگ بھی خوب نکھرا ہوا اور جلد بے داغ تھی۔ چچی جو مسلسل میرے لنڈ سے کھیلے جا رہی تھی اور اب دوبارہ سے اسے کھڑا کر چکی تھی۔ وہ کبھی میرے لنڈ کو مُٹھ مارنے لگتی
چنگاری
Part 2
اور کبھی منہ میں لے کر چوسنے لگتی۔ جب لنڈ مکمل کھڑا ہو گیا تو چچی نے مجھے لیٹنے کیلئے کہا میں بلا چوں و چراں بیڈ پر لیٹ گیا۔ تو چچی نے میرے سارے جسم کو چاٹنا شروع کر دیا وہ مجھے سر سے پاؤں تک چاٹ رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ لیٹ گئی اور مجھے کہا کہ میں اُسے اسی طرح سے چاٹوں جیسے وہ مجھے ابھی چاٹ رہی تھی۔ میں تو تھا ہی غلام جیسے جیسے وہ کہہ رہی تھی ویسا میں کیئے جا رہا تھا۔ میں اب اس کے ماتھے پر ہونٹ رکھے تو دل چاہا کے اپنے ہونٹ بس یہیں ٹکائے رکھوں۔ جب گالوں پر بوسہ لیا تو اس کی اپنی لذت تھی دل نہیں کیا کہ ہونٹ ہٹاؤں لیکن جب اس کے ہونٹ چُوسنا شروع کیئے تو ان سے ایسی مٹھاس کا ذائقہ ملا جو شہد میں بھی نہ ہو۔ نرم گُداز مموں کو تو کھا جانے کو جی چاہا۔ غرض میں جہاں جہاں بھی ہونٹ اور زبان لگا رہا تھا مجھے نئے ذائقے اور لذت سے آگہی ہو رہی تھی۔میں چومتے چاٹتے جب ناف تک پہنچا تو چچی نے میرے سر کو دونوں ہاتھوں سے اُٹھا کر اپنی ٹانگوں کے درمیاں میرے منہ کو بالکل اپنی چوت کے اوپر رکھ دیا اور کہا جیسے میں نے تمہارے لنڈ کو چاٹا تھا ویسے ہی میری چوت کو چاٹو۔ میں تو غلامی قبول کر چکا تھا انکار بھلا کیسے کر سکتا تھا۔ میں نے دونوں ہونٹ چوت پر رکھ دیئے اور چومنے لگا۔ ایسے نہیں زبان سے چاٹو، چچی نے نیچے سے کہا تو میں نے زبان سے چاٹنا شروع کر دیا۔ ہاں ایسے ہی، شاباش تیز تیز چاٹو اور تیز ہاں ہاں ایسے ہی وہ نیچے سے گانڈ کو ہلا ہلا کر اپنی چوت میرے منہ پر رگڑ رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ کسی کمانڈر کی طرح مجھے ہدایات بھی دے رہی تھی۔زبان چوت کے سوراخ میں ڈالو، ہاں ایسے ہی، ہاں ٹھیک ہے بالکل ، اب اسے اندر باہر کرو شاباش تیز تیز تیز اور تیز آں ہاں آہہہہ اُوووہہہ اففففف شاااااااباااااااششششششش چچی کی آواز اب بکھر رہی تھی۔ اس کی الفاظ سمجھ نہیں آرہے تھے لیکن میں مفہوم سمجھ رہا تھا کے وہ کیا کہہ رہی ہے یا کیا کہنا چاہ رہی ہے۔میں کافی دیر زبان کو چوت کے اندر باہر گھماتا رہا اچانک میرے ہونٹوں نے گرم پانی محسوس کیا تو میں نے سر اٹھا کر چچی کی طرف دیکھا تو وہ آنکھیں بند کیئے ہوئے تھی جبکہ اس کی بےترتیب سانسوں کی وجہ سے اس کے ممے عجب انداز سے ہل رہے تھے۔ چچی نے ٹشوپیپر دیتے ہوئے مجھے اس کی چوت صاف کرنے کو کہا جب میں اسے صاف کر چکا تو مجھے اوپر آنے کا اشارہ کیا اور کہا نبیل میری چوت سالوں سے پیاسی ہے اسے ایسے چودو کہ اس کی پیاس بجھ جائے۔ پھر خود ہی میرے لنڈ کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنی چوت کے ہونٹوں پر رگڑنے لگی۔ ہر رگڑ پر میرا لنڈ پھڑپھڑا کر رہ جاتا۔ کچھ ہی دیر میں میرا لنڈ بےآب مچھلی کی طرح مچلنے لگا تو چچی نے لنڈ کا سر چوت پر رکھ کے کہا نبیل اسے اندر دھکیل دو، میں نے دھکا دیا تو لنڈ اس وادی کی چکنی چپڑی دیواروں سے رگڑ کھاتا اندر تک گھس گیا۔ چوت اندر سے اتنی گرم تھی کہ مجھے لگا میں نے جیسے لنڈ کو شائید لوہار کی بھٹی میں ڈال دیا ہو۔ لیکن میرا دل پھر بھی چاہا کے میں اسے اور آگے تک لے جاؤں۔ میں کھٹ پُتلی کی طرح چچی کے اشاروں پر چل رہا تھا۔ وہ جیسے جیسے مجھے کہہ رہی تھی میں ویسا کر رہا تھا۔ اسی کے کہنے پر میں تیزی سے اپنے لنڈ کو اس کی چوت میں تیزی سے کھینچ اور دھکیل رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے پوزیشن بدلنے کا کہا تو میں رک گیا۔ چچی نے اپنی دونوں ٹانگیں اُٹھا کر میرے کندھوں پر رکھ دیں اور گانڈ۔ میری ناف تک اٹھا دی اس سے چوت بالکل میرے سامنے آگئی اب میں نے لنڈ چوت پر رکھ کر دبایا تو وہ مجھے زیادہ اندر تک جاتا محسوس ہوا۔ میں نے دوبارہ دھکے لگانے شروع کیئے، تھوڑی دیر میں مجھے لگا جیسے چوت تنگ ہو گئی ہے اور وہ پہلے کی طرح چکنی بھی نہیں رہی۔میں اسی رفتار سے دھکے لگا رہا تھا۔ مجھے ہر دھکے پر لگتا کے چوت شکنجے کی طرح کسی جا رہی ہے۔ اور ساتھ میں چچی کی آنے والی اونہہہہ آں ہہہہہہہہم کی آوازیں بھی زیادہ اور تیز ہو رہی ہیں۔
میرا جوش کافی بڑھا ہوا تھا۔ چچی کی آوازیں اسے اور بڑھا رہی تھیں۔ آہہہہہہ اووووں ہہہہمممم اووووچچ آہہہہہ اووووں ہہہہہمممم نبیل زور سے چودو مجھے آہہہہ آآآں ہہہہممم اووووں میں پیاسی ہوں نبیل میری پیاس بجھا دو، چچی کی سسکارتی آوازیں مجھے تیش دے رہی تھیں، میرا جوش بڑھا رہی تھیں۔ میں زور زور سے چچی کی چوت مار رہا تھا۔ چچی کی چوت سوکھ گئی تھی جس وجہ سے میرا لنڈ چوت میں جکڑ سا گیا تھا۔ لیکن میں رکا نہیں میں اُسی طرح دھکے لگا رہا تھا۔ چچی کی سسکیاں اب ہلکی چیخوں کا روپ دھار چُکی تھیں۔ میرے منہ سے بھی عجیب غراہٹ نما آوازیں نکل رہی تھیں۔ عجیب لُطف تھا جو مجھے حاصل ہو رہا تھا اور شائید چچی مجھ سے بھی زیادہ لُطف اندوز ہو رہی تھی اگرچہ اس کی چیخوں سے لگ رہا تھا کہ وہ بہت کرب میں ہے۔ چچی بھی گانڈ ہلا ہلا کر اوپر نیچے کر رہی تھی۔ میرے دھکے چل رہے تھے کہ مجھے لگا جیسے میں آسمانوں میں پہنچ گیا ہوں ۔ جیسے ہواؤں میں تیر رہا ہوں ۔ حقیقت میں میں لُطف کی اس منزل کو بیان ہی نہیں کر سکتا کے میں اُس وقت مزے اور سرور کی کس منزل پر تھا۔ اچانک مجھے لگا چچی کی چوت کی جکڑن کم ہو گئی ہے، اور میرے لنڈ پر گیلے پن کا احساس ہوا یہی وہ وقت تھا جب میرا جوش بھی عروج پر تھا۔ اور پھر میرے لنڈ نے بھی جھٹکے سے لاوا اگلنا شروع کیا اور میں آسمانوں سے دھیرے دھیرے زمین پر آنے لگا۔ میں بیڈ پر گر سا گیا۔ چچی کے چہرے پر مطمئن سی مسکراہٹ تھی۔ مجھے اپنی بانہوں میں لے کر چوم چاٹ رہی تھیں ۔میں کچھ دیر ایسے ہی بےسُدھ پڑے رہنے کے بعد اُٹھ کر کپڑے پہننے لگا تو چچی نے کہا کے جاؤ پہلے غسل کر لو، میں نے غسل خانے میں کا کر ابھی شاور کھولا ہی تھا کے چچی بھی ویسے ہی ننگی اُٹھ کر غسل خانے میں آ گئی، " دونوں مل کر غسل کرتے ہیں مزہ آئے گا" یہ کہہ کر چچی میرے ساتھ ہی چپک کر شاور کے نیچے کھڑی ہو گئی۔ اگرچہ ہمارے سر پر شاور سے پانی گر رہا تھا لیکن پھر بھی جسموں میں حرارت محسوس ہو رہی تھی میرا لنڈ جو مُرجھا سا گیا تھا چچی کے اسطرح چپکنے سے پھر حرکت میں آگیا۔ چچی کے جسم سے بڑی ہی مسحور کُن خوشبو نکل رہی تھی جو میرے رگ رگ میں سما رہی تھی۔ مجھ پر عجب سی مدہوشی چھا رہی تھی۔ چچی نے بھی مجھے گلے لگا کر پھر سے چومنا شروع کر دیا۔ وہ مجھے چومتے ہوئے میری تعریفیں کر رہی تھیں اور اپنے خاوند کو گالیاں دے رہی تھیں، ایسے ہی انہوں نے مجھے بتایا کے کس طرح سے اُنکی شادی اُن سے دُگنی عمر کے مرد سے ہوئی۔ اور کیسے ان کا خاوند بستر پر اُن کے جذبات کا قتل کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بہت کم دفعہ ہی ان کو خاوند سے راحت ملی ہے اور بہت ہی کم دفعہ ان کا خاوند سیکس میں ان کو خوش کر پایا تھا۔ یہ بھی بتایا کہ اب تو چند سالوں سے انہیں چھو بھی نہیں رہا۔وہ باتیں بھی کر رہی تھیں اور اپنے ہاتھوں سے میرے جسم سے بھی کھیل رہی تھیں ۔ میں بھی اپنے ہاتھ ان کی کمر پر انکی گانڈ پر اور ممّوں پر پھیر رہا تھا۔ وہ باتیں کرتے ہوے مجھے بتا رہی تھیں کہ اگر وہ چاہتیں تو کسی غیر مرد سے یارانہ لگا کر اپنی پیاس بجھا سکتی تھیں لیکن جب بھی انہوں نے ایسا سوچا خاندان کی عزت اور ناموس کا معاملہ آڑے آ جاتا۔ دوسرا انہیں اس بات کا بھی ڈر تھا کے ان کے جسم سے کھیلنے والے نے ہی ان کو بدنام کر دیا تو وہ کہیں کی نہیں رہیں گی۔ یہی وجہ تھی کے انہوں نے ایسی کوئی حد پار نہیں کی تھی جو اُن کی بدنامی کا باعث ہوتی بلکہ وہ اپنی پیاس بجھانے کیلئے خود ہی کئی حربے استعمال کرتی تھیں۔ جیسے آج بھی وہ من کی آگ ٹھنڈی کرنے کیلئے اپنے ہی ہاتھ استعمال کر رہی تھیں۔ میں باتیں تو سُن ہی رہا تھا پر میں چچی کے پورے بھیگے جسم کی پیمائش بھی کر رہا تھا۔میرے ہاتھ کبھی چچی کی گانڈ کو سہلاتے اور کبھی اُن کے نرم گُداز ممّوں سے کھیل رہے ہوتے۔ چچی نے میرے ہونٹ اپنے منہ میں لے کر چوستے ہوئے کہا، " نبیل تمہارے لنڈ نے مجھے خرید لیا ہے میں آج سے تمہاری لونڈی ہوں مجھے جب بھی اور جہاں بھی کہو گے میں تمہارے لنڈ کیلئے حاضر ہو جاؤں گی " یہ کہتے ہوئے چچی نے میرے اکڑے ہوئے لنڈ کی طرف دیکھا تو بولی "ارے نبیل تُمہارا لنڈ تو پھر سے کسی چاق وچوبند فوجی کی طرح تن کے کھڑا ہے" "اسے تو چومنے کو من کرتا ہے، جی کرتا ہے اسے چومتی ہی رہوں" یہ کہتے ہوئے چچی گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھ گئی اور میرے لنڈ کو منہ میں لے لیا۔ میں بھی چچی کے منہ میں ہی لنڈ کو دھکے دینے لگا۔ میرے اس طرح منہ کے اندر چودنے سے لنڈ چچی کے گلے تک پہنچ رہا تھا۔ جس سے چچی کی حالت عجیب سی ہوگئی تھی ان کی آنکھوں سے پانی نکل آیا تھا جبکہ چہرہ لال سرخ ہو گیا۔ میرا لنڈ اکڑ کر سخت پتھر ہو گیا تو چچی نے کہا میں گھوڑی بنتی ہوں تم پیچھے سے کھڑے ہو کر میری چوت کو چودنا۔ یہ کہتے ہوئے چچی نے اپنے دونوں کندھے فرش پر ٹکا دیئے اور اپنی گانڈ کو اتنا اوپر اٹھایا کے ان کی چوت بالکل میرے سامنے میرے لنڈ کے برابر آ گئی، میں نے لنڈ کو چوت پر رکھا اور دونوں ہاتھ گانڈ پر ٹکا کر ہلکی سا دھکا دیا تو لنڈ چچی کی چوت میں گھستا چلا گیا۔ میں نے ہلکے دھکوں سے شروع کیا اور پھر دھیرے دھیرے رفتار تیز کر دی۔ چچی مزے لے رہی تھی، پھر جیسے جیسے رفتار بڑھتی گئی اور ٹائم گذرتا گیا چچی کی سسکیاں چیخوں میں تبدیل ہوتی گئیں ۔میں کبھی چچی کے بازو پیچھے موڑ کر پکڑ لیتا کبھی ان کی کمر پر لیٹ کر ممّوں کو پکڑ لیتا اور کبھی دونوں ہاتھ گانڈ پر جما کر دھکے دیتا۔ مجھے یقین ہے کے چچی دو دفعہ چوت سے پانی چھوڑ چکی تھی جبکہ میں تسلسل سے دھکے پہ دھکے دیئے جا رہا تھا۔ اب چچی باقاعدہ گڑگڑا رہی تھی اور التجا کر رہی تھی کے میں جلدی سے چھوٹ دوں ۔لیکن مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ جلدی سے کیسے چھوٹا جا سکتا ہے۔ میں تو بس دھکے پر دھکہ دیئے جا رہا تھا۔ایسے میں ہی جب میں نے دھکے دیتے ہوئے لنڈ کو پیچھے لا رہا تھا تو چچی کی چوت سے فوارے کی مانند پانی ابل پڑا۔ جس سے میری ٹانگیں لتھڑ گئیں چچی کی بھی ٹانگوں سے ہوتا ہوا نیچے فرش تک پھیل گیا۔ چچی بہت پر سکوں حالت میں آگئی تھی۔ جبکہ مجھے سکون آنا ابھی باقی تھا ۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب میرے لنڈ نے بھی لاوا اگل دیا۔ کافی دیر ہم یونہی پڑے اپنی سانسیں بحال کرتے رہے۔ پھر اُٹھ کر نہانے لگے ۔ نہاتے ہوئے میں نے چچی سے پوچھا کے آپ کو مجھ سے ڈر نہیں لگا کہ میں بھی آپ کو بدنام کروں گا اور آپ کی عزت خراب کر دوں گا جو آپ نے میرے ساتھ یوں سیکس کر لیا؟
چچی نے کہا" نہیں لگا کیونکہ تم رتبے اور عمر دونوں میں مجھ سے کم ہو اور اگر تم تہمت لگاؤ گے بھی تو تمہاری بات کے بجائے میری بات سُنی جائے گی۔اور میں کہہ دوں گی کہ تُم بہتان تراشی کر رہے۔ اور سب سے اہم بات وہ یہ کے تُمہارا لنڈ دیکھ کر مجھے کنٹرول ہی نہیں رہا کہ میں خود کو سنبھال پاتی اور اس نے مجھے بدنامی کے ڈر سے بھی آزاد کرا دیا۔ چچی نے میرے لنڈ کو چومتے ہوئے کہا کہ "اس کیلئے اگر تم مجھے ساری دنیا میں بھی بدنام کر دو تو تب بھی میں سمجھوں گی کہ سودا نقصان میں نہیں ہوا،"۔
غسل سے فارغ ہوئے تو بہت دیر ہو چُکی تھی۔ مجھے اب ڈر لگ رہا تھا کہ چچا کو کیا کہوں گا کہ اتنی دیر کہاں لگا دی، میں نے اپنے ڈر کا ذکر چچی سے بھی کیا اور کہا کہ چچا خادم اتنی دیر لگانے کا پوچھیں گے تو کیا جواب دوں گا؟ چچی کافی ذہین تھی فوراً کہانی تیار کر لی کہ اگر چچا پوچھے تو اسے کہہ دینا کہ چچی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور انہوں نے دوائی لینے بھیج دیا تھا اور کھانا بھی تیار نہیں تھا جس وجہ سے دیر ہو گئی، وجہ اور کہانی معقول تھی۔ کھانا لے کر دکان پر پہنچا تو گاہکوں کا کوئی اتنا رش نہیں تھا۔ چچا کے پوچھنے پر پہلے سے تیار کی ہوئی کہانی سُنا دی۔ چچا نے بھی اسے ہی سچ سمجھا اور کھانا لے کر کھانے لگے۔ میں آج ہونے والے اس واقعے سے سرشار تھا۔ خود میں عجیب سی تبدیلی محسوس کر رہا تھا۔ مجھے اپنا آپ بدلا بدلا سا لگ رہا تھا۔ میں خود کو ایک لڑکے کے بجائے پختہ کار مرد کے روپ میں دیکھ رہا تھا۔ جبکہ چچا خادم پر نظر جاتی تو خود سے شرم آتی کہ میں نے ان سے نمک حرامی کی ہے۔ چچی کا سراپا اور اس واقعے کے تمام پہلو کسی فلم کی طرح دماغ میں چل رہے تھے۔ باقی تمام وقت کام کے ساتھ یہی خیالات میرے دماغ پر حاوی رہے۔ اگلے دن کھانا لینے گیا تو چچی کافی کھلی کھلی اور خوش دکھائی دے رہی تھی۔ آج ان کا روپ پہلے سے زیادہ حسین لگ رہا تھا۔ میں نے کوئی زیادہ بات نہ کی بلکہ زیادہ دیر خاموش
0 Comments