منحوس سے معصوم تک
قسط نمبر 001
_______تعارف____________
یہ کہانی ایک گاؤں کی ہے جہاں ایک بڑا سا گھر ہے گھر دو منزلہ ہے جس میں تِین بھائی رہتے ہیں تینوں بھائی شادی شدہ ہیں مگر افسوس ہے کہ تینوں کے کوئی اولاد نہیں . . . .
گاؤں میں ان کے خاندان کے اچھے خاصے تعلقات ہے ہر کوئی ان کی عزت کرتا ہے کھیتی باڑی کے لیے کافی زمین ہے جو یہ خود کھیتی کے لیے استعمال کرتے ہیں کھیتی باڑی سے اچھے خاصے پیسے آ جاتے ہے اس لئے گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے . . . .
تینوں بھائیوں نے اپنی تعلیم گاؤں سے ہی کی ہے کھیتی باڑی کی وجہ سے زیادہ پڑھنے میں ان کو دلچسپی نہیں تھی . . .
اس لئے یہ زیادہ پڑھے نہیں حالاںکہ تینوں کی بیویاں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت ہیں مگر ہیں پوری شریف اور عزت دار . . . .
گھر میں تِین بھائی اور ان کی بیویوں کے علاوہ ایک شخص اور ہے جو کہ اِس کہانی کا سب سے اہم کردار ہے جسے کچھ لوگ منحوس سمجھتے ہیں مگر یہ منحوس ایک دن سب سے عظیم انسان بنے گا مگر کیسے آئیں جانتے ہیں . . . . .
اِس کہانی کے ضروری کرداروں سے آپ کا تعارف کرواتا ہوں . . . .
سرور :
عمر 45 سال کسان ہیں گاؤں میں سب ان کی عزت کرتے ہیں اپنے باپ کے مرنے کے بعد گھر کے بڑے یہی ہیں اور سب ان کا حکم مانتے ہیں بہت ہی سلجھے ہوئے انسان ہیں قدرت کا دیا سب ہے بس کمی ہے تو اولاد کی جو ان کے من کو ہمیشہ دکھ دیتی رہتی ہے . . . .
حالاںکہ یہ کبھی کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے گاؤں میں سب لوگ ان کو ایک سردار کی طرح مانتے ہیں اور ہر کام ان سے پوچھ کر کرتے ہیں یہ اپنے خاندان سے بہت پیار کرتے ہیں . . .
انہیں اس معصوم سے سب سے زیادہ محبت ہے جسے کچھ لوگ منحوس مانتے ہیں . . . .
نائلہ :
عمر 40 سال گھر کے کام کرنے کی وجہ سے رنگ دودھ کے جیسا سفید اور قاتل نین نقش . . . .
چہرے پر ایک نور سا ہے اور نہایت ہی نرم مزاج کی سب کا خیال رکھنے والی ہر کوئی اس کے نیچر کی وجہ اسے عزت دیتا ہے . . .
یہ چوہدری سرور کی بیوی ہے ایک عزت دار بیوی ہے کبھی زندگی میں کسی دوسرے مرد کا کبھی سوچا بھی نہیں . . . .
اب تک ماں نہیں بن پانے کا اسے دکھ تو ہے مگر کبھی جتاتی نہیں یا یوں کہو کہ یہ اپنے ہیرو کو اپنا ہی بیٹا مانتی ہے اسے ماں کا پیار دیتی ہے اور اپنی ممتا کو ٹھنڈا کرتی ہے . . . .
دلدار :
یہ سرور کا چھوٹا بھائی ہے عمر 43 سال اپنی بِیوِی سے تھوڑا ڈرتا ہے یا یوں کہو کہ جورو کا غلام ہے بچے نہ ہونے کی وجہ سے بِیوِی اسے تانے سناتی رہتی ہے . . . .
مگر کسی سے کہتا نہیں اسے یہی لگتا ہے کہ اس میں کوئی کمی ہے اِس لیے گھر پر کم اور کھیتوں میں زیادہ رہتا ہے . . . . .
دیبا :
یہ دلدار کی بِیوِی ہے بہت ہی خوبصورت عمر اتینتالیس سال . . . .
زیادہ محنت نہیں کی ان پر دلدار نے یہ دلدار کو دبا کر رکھتی ہے اپنا ہر کام نکلوا لیتی ہے حالاںکہ یہ بہت چالاک ہے مگر کبھی اس نے عزت کو خراب نہیں کیا اسے ہیرو سے سخت نفرت ہے اور اسے منحوس کہتی ہے حالاںکہ اپنے گھر پر جیٹھانی اور جیٹھ کی وجہ سے چُپ رہتی ہے مگر گاؤں کی عورتوں سے برملا اظہار کرتی ہے کہ یہ منحوس ہے اور اسے اپنے پاس بھی آنے نہیں دیتی اس کی وجہ آگے پتہ چلے گی . . . . . .
بختیار :
یہ تینوں بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے عمر 38 سال ہے یہ بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ ہی کھیتی کا کام کرتا ہے اور ان ہی کو بڑا مانتا ہے اپنی بِیوِی سے بہت پیار کرتا ہے اسے سیکس کی بہت آگ ہے نئے نئے طریقے سے سیکس کرتا ہے مگر باہر کی عورتوں سے گاؤں میں اس کا چکر ہے کسی عورت سے . . .
سیکس کی اتنی نالج ہونے کے بعد بھی یہ ابھی تک باپ نہیں بنا . . . .
ماہرہ :
یہ بختیار کی بِیوِی ہے گھر میں سب سے زیادہ پڑھی لکھی ہے عمر 33 سال ہے . . . دودھ سا سفید چمکتا چہرہ مخملی بدن پڑھی لکھی ہے شہر میں بی اے کر کے آئی تھی. . .
گھر والوں نے بختیار سے شادی کردی حالاںکہ اس کا کبھی کسی سے کوئی چکر نہیں رہا مگر ہے سیرت کی بہت اچھی اپنی دونوں جیٹھانیوں کو بڑا مانتی ہے سب سے چھوٹی ہے اس لئے سب کی لاڈلی بھی ہے چلبلی ہے سب سے مذاق بھی کرتی رہتی ہے اپنے ہیرو کو یہ زیادہ پیار تو نہیں کرتی مگر نفرت بھی نہیں اُلٹا یہ دیبا کو ٹوک دیتی ہے کہ بے چارہ معصوم ہے اس سے نفرت مت کرو کم سے کم . . .
بختیار اس سے بہت سیکس کرتا تھا نئے نئے طریقوں سے جس کی وجہ سے یہ بیڈ پر والڈ سیکس کی عادی بن گئی مگر بچے نہ ہونے سے دھیرے دھیرے بختیار اس سے سیکس کم کرتا گیا اور باہر زیادہ منہ مارنے لگا . . .
سیکس کی کمی اس کے جسم کو چبتی ہے مگر سب سے زیادہ اسے ماں نہ بن پانے کا غم ہے حالاںکہ پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے یہ گاؤں کی عورتوں کی طرح اسے قدرت کی مرضی نہیں مانتی بلکہ یہ جانتی ہے کہ آج کل سائنس اتنی ترقی کر گئی ہے کہ عورت کسی بھی عمر میں ماں بن سکتی ہے ہر کمی کو دور کیا جا سکتا ہے . . . .
زارینہ :
عمر 44 سال ہے . . .
سرور سے چھوٹی ہے مگر باقیوں سے بڑی ہے سب اس کی عزت کرتے ہیں نیچر سے کافی اپنایت والی ہیں سب اس کے آگے اپنی زُبان بند ہی رکھتے ہیں . . . .
رنگ ایک دم گورا اور معصوم چہرہ حالاںکہ یہ معصوم نہیں کیونکہ ان کے شوہر موصوف بینک میں جاب کرتے ہیں انہیں سیکس میں زیادہ دلچسپی نہیں اس لئے زارینہ نے اپنے اندر سیکس کو دبا دیا ہے . . .
اپنے بھائی بہنوں سے بہت پیار کرتی ہے اسے اکثر فکر رہتی ہے کہ . . .
اس کی بھابیاں ابھی تک گھر کو کوئی چراغ نہیں دے پائی مگر یہ کبھی کسی کو قصور وار نہیں سمجھتی . . . .
یہ بھی اپنے ہیرو کو بہت پیار کرتی ہے
اس کے تِین بچے ہیں دو بیٹیاں ہے ناصرہ ناہیدہ اور ایک بیٹا زبیر . . . .
کامران :
عمر 50 سال یہ زارینہ کے شوہر ہیں بینک میں جاب کرتے ہیں عام زندگی جیتے ہیں سیکس کو کبھی انجوئے نہیں کیا جسٹ ڈیوٹی سمجھ کر کیا ہمیشہ اور اب وہ بھی مہینے میں ایک بار رہ گیا ہے وہ بھی جب زارینہ زیادہ ضد کرے . . . .
ناصرہ :
عمر 24 سال پڑھائی میں اول کالج ختم کر کے ابھی جاب کر رہی ہے اس نے ایم بی اے کیا ہے خوبصورتی میں کسی ہیروئن سے کم نہیں مگر اپنے خاندان کی عزت کو کبھی داغ نہیں لگایا کبھی کسی سے فرینڈشپ نہیں کی حالاںکہ دِل سے یہ بھی انجوئے کرنا چاہتی تھی مگر عزت کو گنوانا نہیں چاہتی تھی بہت ہی زبردست جسم کی مالک ہے جو بھی دیکھے دیوانہ ہو جائے . . . .
اپنی ماں سے بہت پیار کرتی ہے . .
چھوٹی بہن اور بھائی پر کنٹرول رکھتی ہے . . .
اسے اپنے ہیرو سے بہت ہمدردی ہے اس لئے اس سے جب بھی ملتی ہے بہت سی باتیں کرتی ہے اور اس کے ساتھ وقت گزارتی ہے . . . .
ناہیدہ :
عمر 22 سال ایم اے کر رہی ہے نیچر سے مست ہے بہت ہنسی مذاق کرتی ہے مگر کبھی ایسا کچھ نہیں کرتی جس سے اس کی بہن ناراض ہو یہ بھی ہیرو سے بہت ہمدردی رکھتی ہے. . . .
زبیر :
عمر 20 سال ہے . . . بی اے کر رہا ہے یہ فیملی میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتا اسے بس اپنے دوستوں سے مطلب ہے حالاںکہ اس کی کوئی بری سنگت نہیں ہے . . . .
صابرہ :
عمر 42 سال ہے یہ سرور اور زارینہ اور دلدار سے چھوٹی ہے یہ اندر سے بہت چالاک ہے مگر شو نہیں کرتی اس کے شوہر جاب کرتے ہیں پرائیویٹ جاب ہونے کی وجہ اس کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے اس لئے یہ پیاسی رہتی ہے مگر کبھی بھی کسی دوسرے مرد کے بارے میں نہیں سوچا اس لئے خود کو انگلی کر کے ٹھنڈا کر لیتی ہے . . . .
یہ بھی اپنے بھائی بہنوں اور اپنے خاندان سے پیار کرتی ہے ہیرو کے لیے اس کے دِل میں بہت جگہ ہے . . .
عمران :
عمر 48 سال صابرہ کے شوہر . . .
پرائیویٹ جاب کرتے ہیں زیادہ وقت اپنی جاب کو ہی دیتے ہیں کیونکہ ان کے کاندھوں پر ہی بوجھ ہے فیملی کا . . .
راحیلہ :
عمر 22 سال ہے ایم ایس سی کر رہی ہے . . بہت خوبصورت اپنی ماں کی طرح ٹھنڈے مزاج کی اور پڑھائی پر ہی فوکس کرتی ہے اسے کچھ اور نہیں سوجھتا پڑھائی کے علاوہ حالاںکہ یہ فیملی کو بہت پیار کرتی ہے مگر باتیں کم کرتی ہے . . . .
ثنا :
عمر 20 سال بی اے کر رہی ہے اپنی ماں بہن کی طرح یہ بھی خوبصورت ہے نیچر سے مست ہے دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتی ہے اور فیملی میں بھی سب کا دِل لگا کر رکھتی ہے اس کی سب سے زیادہ بنتی ہے اپنی خالہ کی بیٹی ناہیدہ سے دونوں خوب مستی کرتے ہیں اور ہیرو کو بھی چھیڑتے ہے جب بھی موقع ملے . . . .
نگہت :
عمر 36 سال ہے خوبصورتی کے معاملے میں چاند کے جیسی کسی کو بھی دیوانہ بنا دے نیچر سے بہت ہی سلجھی ہوئی اور سلیقہ مند ہے . . .
یہ ہیرو سے نفرت کرتی ہے جس کی ایک خاص وجہ ہے . . .
ہیرو کو منحوس مان کر یہ کبھی اس کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرتی اسی لیے میکے نہیں جاتی تاکہ وہ سامنے نہ آ جائے . . .
اس کا بس چلے تو اسے گھر سے نکل دے حالاںکہ بڑی بہنوں اور بھائیوں کی وجہ سے کچھ کہہ نہیں سکتی . . .
کبھی یہ بہت چلبلی ہوا کرتی تھی مگر آج یہ مکمل تبدیل ہو چکی ہے اس کی وجہ ہیرو سے جڑی ہے . . .
اس کی ایک ہی بیٹی ہے جسے یہ دلوں جان سے چاہتی ہے بس اپنی بیٹی کے آگے یہ سب بھول جاتی ہے . . . .
اس کے شوہر بیرون ملک نوکری کرتے ہیں سال میں ایک مہینے کے لیے آتے ہیں . . . .
نگہت اپنے آپ کو اپنے اندر کہیں کھو بیٹھی ہے شوہر باہر رہتا ہے مگر پھر بھی اسے کوئی فرق نہیں پڑتا نہیں کسی مرد کی کبھی ضرورت محسوس کرتی ہے . . .
شاہد :
عمر 42 سال بیرون ملک پیسہ کمانے گئے تھے مگر وہاں ایسے الجھے کہ واپس جانا بھول سے گئے جب بھی جاتے ہیں ایک مہینے کے اندر واپس آ جاتے ہیں جس کی وجہ وہاں کی رنگین دنیا بھی ہے . . .
مہرین :
یہ ہے ہماری ہیروئن عمر 18 سال خوبصورت اتنی کہ دیکھنے والا خود کو ہی بھول جائے چہرے پر دنیا بھر کی معصومیت . . . .
اپنی ماں پر گئی ہے نیچر سے بہت ہی معصوم ہے مگر اپنی ماں نگہت کی وجہ یہ بھی ہیرو سے نفرت کرتی ہے جسم بہت ہی قاتلانہ ہے مگر معصومیت ایسی ہے کہ چہرے سے نظریں نہیں ہٹتی تو جسم کوئی کیا دیکھے . . .
شیرو :
یہ ہے اپنا ہیرو عمر 18 سال بچپن سے اپنے نانا کے گھر ہی پلا بڑا اس نے اپنے ماں باپ کو نہیں دیکھا نہ ہی اپنے نانا نانی کو اپنی بڑی مامی نائلہ سے بہت پیار کرتا ہے . . .
شیرو کے لیے نائلہ ہی اس کی ماں ہے جتنا پیار نائلہ نے اسے دیا ہے کبھی کبھی یہ سوچتا ہے کہ اس کی اپنی ماں بھی شاید اسے اتنا پیار نہ دے پاتی . . . .
تینوں ماموں اسے پیار کرتے ہیں بڑے ماموں سرور تو اس کے لیے باپ کی جگہ ہی ہیں مگر دلدار ماموں اپنی بِیوِی کی وجہ سے اسے زیادہ پاس نہیں آنے دیتے . . . .
شیرو ٹھنڈے مزاج کا مالک اور ہینڈسم ہے . . .
نائلہ اکثر ہی کہتی ہے کہ . . . .
تمہاری آنکھیں اپنی ماں پر گئی ہیں اور اسی کی طرح گورا رنگ ہے . . .
شیرو فیملی کے کئی ممبرز کے برتاؤ کی وجہ سے حیران تو ہے مگر کبھی جان نہیں پایا کہ اس کی وجہ کیا ہے حالاںکہ اس کے من میں کسی کے لیے کوئی میل نہیں . . .
کبھی کبھی دیبا مامی کے جلے کٹے الفاظوں سے اس کا دِل ضرور ٹوٹ جاتا ہے مگر پھر نائلہ کا پیار اور محبّت اسے سب بھول جانے پر مجبور کر دیتا ہے . . .
گاؤں میں اس کے زیادہ دوست نہیں ہیں جس کی وجہ اس کا مزاج کافی اچھا ہے مگر گاؤں کی کئی لڑکیاں اس سے دوستی کرنے کو ترستی ہیں . . . .
سب کو عزت دیتا ہے اس لئے ہر کوئی کہتا ہے کہ . . . .
بیٹا ہو تو شیرو جیسا مگر دوسری اور کئی عورتیں دیبا سے سن سن کر اسے منحوس ہی مانتی ہیں اور اپنے بچوں کو اس سے ملنے سے مانا کرتی ہیں نتیجہ کالج میں آج تک کوئی اسے دوست بنانا نہیں چاہتا . . . .
اِس سال کالج سے انٹر پاس کر کے اب آگے کی پڑھائی کے لیے شہر جانا چاہتا ہے مگر یہ جانتا ہے کہ کوئی اسے پڑھنے شہر نہیں جان دے گا . . . . .
کیوںکہ کرنی تو کھیتی باڑی ہی ہے یہی سوچ کر تو ماموں نہیں پڑھے تو وہ شیرو کو کیوں پڑھنے دیں گے ویسے بھی نائلہ شیرو کو خود سے دور نہیں ہونے دیتی ایک دن بھی . . .
اکیلا ہونے کی وجہ سے شیرو نے اپنا وقت کھیل کود کے بجائے کھیتوں اور گاؤں کے اکھاڑوں میں گزارا ہے گھر کے اپنے مال مویشی ہونے اور کھانا پینا اچھا ہونے سے آج شیرو 18 سال کا ہو کر بھی 23 سال کا لگتا ہے . . . .
جسم کی بناوٹ کسی پہلوان کی طرح مگر مزاج سے ایک دم ٹھنڈا . . . .
اس کی بس ایک ہی آرزو ہے کہ اس کے ماتھے سے منحوس ہونے کا جو داغ ہے وہ مٹ جائے . . .
راجو :
گاؤں میں شیرو کا ایک گہرا دوست عمر 19 سال . . . .
خود کو بہت تیس مار خان سمجھتا ہے مگر ہے بدھو . . . .
شیرو کے ساتھ وقت گزرتا ہے اور گاؤں کی ہر خبر اس کے پاس ہوتی ہے . . .
لڑکیوں کو تارتا رہتا ہے شیرو سے دوستی کروانے کے نام پر لڑکیوں سے خود دل لگی کرتا ہے . . . .
مگر ہے ڈرپوک . . . .
مہوش :
جب سے شیرو کو دیکھا ہے تب سے اسی پر مرتی ہے مگر شیرو اسے منہ نہیں لگاتا شیرو کے لیے اس نے راجو سے دوستی کر رکھی ہے اِس لیے کبھی کبھی شیرو اس سے بات کر لیتا ہے مگر بس ضرورت کے ہی سلیقے کے ساتھ . . .
مہوش رنگ سے تو زیادہ گوری نہیں مگر جسم سے زبردست ہے . . .
یہ شیرو پر مرتی ہے مگر وہ تو دیکھتا بھی نہیں . . . .
کہانی میں اور بہت سے کردار آئیں گے جن کا وقت کے ساتھ ساتھ تعارف ہوتا جاۓ گا . . .
فی الحال کہانی کہ ابھی تک یہی کردار ہیں . . . . .
شیرو صبح کی کثرت کر کے اور اکھاڑے میں پسینہ بہانے کے بعد گھر واپس آ رہا تھا راستے میں اسے راجو مل گیا پورے گاؤں میں راجو ہی شیرو کا خاص دوست تھا یا یوں کہیں اکلوتا . . . . .
راجو :
جانے من بہت بہت مبارک میرے یار خدا کرے تجھے میری بھی عمر لگ جائے . . .
شیرو :
شکریہ میرے یار . . .
کمینے تجھے معلوم تھا کہ آج میری پیدائش کا دن ہے ؟
راجو :
کیسی بات کرتا ہے کمینے مجھے نہیں پتہ ہوگا تو کس کو پتہ ہوگا وہ چھوڑ بتا آج پارٹی کہاں اور کیسے دے گا. . . .
شیرو :
یار تو جو بولے گا جیسے بولے گا ویسے پارٹی کریں گے مگر آج نہیں کل تجھے تو پتہ ہے آج گھر پر نانا نانی کی برسی ہوتی ہے تو ان کا سوگ مناتے ہیں سب ایسے میں میری سالگرہ منانا اچھا نہیں لگتا . . . .
راجو :
ٹھیک ہے ٹھیک ہے وہ میں جانتا ہوں مگر کل کوئی بہانہ نہیں چلے گا . . . .
شیرو :
ہاں ہاں کل پارٹی پکا ویسے بھی ابھی تو چھٹیاں ہیں بول کہاں کرنی ہے پارٹی . . . .
راجو :
گاؤں میں تو ڈھنگ کی کوئی جگہ ہے نہیں میں سوچ رہا تھا کل فلم دیکھنے شہر چلے اُدھر ہی کھا پی کر موج کر کے واپس آ جائیں گے شام تک . . . .
شیرو :
یار کمینے مرواے گا کیا تجھے پتہ ہے اما مجھے کہیں جانے نہیں دیتی اور تو شہر جانے کی بات کرتا ہے . . .
راجو :
دیکھ بھائی اب تو پلٹی مت مار سال میں ایک دن تو آتا ہے اُس پر بھی تجھے بہانے سوجھتے ہیں میں کچھ نہیں سنوں گا کل شہر چل رہے ہیں تو بس چل رہے ہیں . . . .
شیرو :
یار تو سمجھتا نہیں . . ،
اما سے کیا کہوں گا کیوں جانا ہے شہر . . .
راجو :
وہ تو سوچ مجھے کچھ نہیں پتہ . . .
شیرو :
چل کوئی راستہ نکلتا ہوں مگر اگر ماں نہیں مانی تو پھر میں کچھ نہیں کر سکتا پہلے ہی بول رہا ہوں . . .
راجو :
مجھے کچھ نہیں سننا اگر مجھے دِل سے دوست مانتا ہے تو. . . تو کل شہر چلے گا ورنہ میں سمجھوں گا میری کوئی قیمت نہیں تیری نظر میں. . . .
شیرو :
ایک ٹھپر دوں گا منہ پر کچھ بھی بکواس کرتا ہے چل میں کرتا ہوں کچھ . . .
راجو :
ہا ہا ہا ہا . . . قسم سے یار تو جب ایسے غصہ کرتا ہے بڑا مزہ آتا ہے . . . .
شیرو :
دوں کیا کان کے نیچے فل مزا آئے گا . . .
راجو :
اوے نہیں پہلوان مجھے ابھی اپنے لیے لڑکی پٹانی ہے تو . . . تو کنوارہ مرے گا مگر مجھے تو شادی کرنی ہے میرا اتنا خیال رکھا کر . . .
شیرو :
چل چل ڈرامہ بند کر اب دیر ہو رہی ہے گھر بھی جانا ہے اما رستہ دیکھ رہی ہوگی . . .
راجو :
ٹھیک ہے چل . . .
پھر دونوں گھر کی طرف چل پڑتے ہیں دونوں کے گھر پاس میں ہی ہیں . . . .
تھوڑی دیر میں شیرو گھر پہنچ جاتا ہے گھر میں سب تیار بیٹھے تھے اور عامل صاحب کا انتظار کر رہے تھے تینوں بھائیوں نے سفید کپڑے پہنے تھے آج کے دن گھر میں عامل صاحب سے کچھ پڑھواتے ہیں اپنے ماں باپ کے لیے . . . .
شیرو چُپ چاپ گھر میں گھستا ہے اور جلدی سے صحن کی سائڈ میں نکل کر سیڑھیاں چڑھ کر اپنے روم میں جاتا ہے تیار ہونے . . . .
اس وقت اکھاڑے کی مٹی اور پسینے کی بدبو اس کے جسم سے آ رہی تھی . . . .
جلدی سے کمرے میں جا کر کپڑے اُتَار کر باتھ روم میں گھس جاتا ہے نہانے كے لیے . . .
نہانے کے بعد ٹاول باندھ کر روم میں آتا ہے تو سامنے بیڈ پر سفید قمیض شلوار دیکھ کر سمجھ جاتا ہے کہ . . . .
یہ اما نے آج کے لیے رکھے ہے اور جلدی سے کپڑے پہن کر کمرے سے باہر نکل آتا ہے سیدھا اما کے کمرے میں جاتا ہے . . . .
نائلہ :
آ گیا میرا لال
( کہہ کر سیدھا شیرو کو گلے لگا لیتی ہے اور اپنی ممتا کی برسات اس پر کرتے ہوئے اسکے ماتھے کو چُومتی ہے )
نائلہ :
جگ جگ جیو میرے لال ہمیشہ خوش رہو تجھے میری بھی عمر لگ جائے سالگرہ مبارک ہو . . . .
شیرو :
نہیں اما آپ کی عمر نہیں چاہیے مجھے میں تو ساری عمر آپ کے پاس رہنا چاہتا ہوں . . . .
نائلہ :
خوش رہو بیٹا . . . .
آج اتنی دیر کہاں لگا آیا میں کب سے تیرا انتظار کر رہی تھی تجھے تو پتہ ہی ہے آج گھر پر عامل صاحب بھی آئیں ہے اور بتا آج تجھے کیا چاہیے سالگرہ پر . . . .
شیرو :
ارے اما مجھے سب یاد ہے وہ بس راستے میں راجو مل گیا تھا بس باتوں میں تھوڑا لیٹ ہوگیا . . . .
اور مجھے کچھ نہیں چاہیے سالگرہ پر سب تو ہے میرے پاس پھر کیا مانگوں . . . .
نائلہ :
بیٹا تو آج 18 سال کا ہو گیا ہے کچھ تو تیرے دِل میں آتا ہوگا کوئی تو خواہش ہوگی تیری بتا کیا چاہیے تجھے . . . .
شیرو :
نہیں اما مجھے کچھ نہیں چاہیے بس آپ کا پیار چاہیے ہمیشہ ہمیشہ . . . . .
نائلہ اتنا سن کر پھر سے گلے لگا لیتی ہے شیرو کو اس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور دِل میں سوچتی ہے کہ . . . .
قدرت نے شاید اسی لیے اسے ماں نہیں بنایا کیوںکہ شیرو میرے لیے ہی تو بھیجا ہے اوپر والے نے . . . .
نائلہ :
چل جلدی کر عامل صاحب آنے والے ہیں اور جا کر پہلے اپنے بابا سے باقی سب سے مل لے سب سے دعائیں لے لے . . .
شیرو :
جی اما میں ابھی جا رہا ہوں . . . .
پھر شیرو اپنے بابا یعنی سرور صاحب کے پاس جاتا ہے . . .
شیرو :
بابا سلام . . . ،
دعائیں دیجیئے مجھے کے آپ کا نام روشن کروں . . .
سرور :
آ گیا میرا شیر جگ جگ جیو خوب ترقی کرو . . . ،
تجھے دیکھتا ہوں تو سینہ چوڑا ہو جاتا ہے میرا شان سے . . .
پورے گاؤں میں کیا آس پاس کے کسی بھی گاؤں میں تمھارے جیسا ہونہار اخلاقی لڑکا کوئی نہیں . . .
شیرو :
بابا یہ سب آپ کی اور اما کی دعائیں ہے میں جو بھی ہوں سب آپ کی ہی محنت اور نیک تمنائیں ہے . . . .
سرور :
جیتے رہو بیٹا . . .
بتا آج کیا چاہیے میرے شیر کو سالگرہ پر . . .
شیرو :
ارے نہیں بابا سب تو ہے میرے پاس پھر کیا مانگوں . . ،
مجھے کچھ نہیں چاہیے بس آپ میرے سَر پر اپنا ہاتھ رکھو اور کچھ نہیں چاہیے. . .
سرور :
مجھے پتہ ہے تو یہی کہتا رہے گا مگر میں نے جو سوچا ہے وہ میں ضرور دوں گا . . . .
شیرو :
بابا آپ یونہی سوچ رہے ہیں مجھے کچھ نہیں چاہیے. . . .
سرور :
وہ چھوڑ جا جلدی پہلے سب سے مل لے عامل صاحب بس آ رہے ہیں پھر پڑھنا پڑھانا شروع ہو جاۓ گا اور بیٹھنا ہے تجھے ہمارے ساتھ . . .
شیرو :
جی بابا میں ابھی جاتا ہوں . . . .
پھر شیرو اپنے منجھلے ماموں کے پاس جاتا ہے جو آج کی برسی کی تیاری کر رہے تھے . . . .
شیرو :
آداب ماموں جی . . . .
دلدار :
ارے بیٹا جیتے رہو سدا خوش رہو بتا کیا چاہیے تجھے سالگرہ پر . . . .
شیرو :
ارے ماموں جان بس آپ کی نیک تمنائیں ہی کافی ہے اور کچھ نہیں چاہیے . . .
دلدار :
ایسے کیسے نہیں چاہیے . . . .
اتنا کہہ کر اپنی جیب سے کچھ روپے نکل کر شیرو کی جیب میں ڈال دیتا ہے شیرو منع کرتا ہے مگر دلدار زبردستی پیسے دے دیتا ہے . . .
پھر شیرو اپنے چھوٹے ماموں بختیار کے پاس جاتا ہے جو کہ ابھی اپنے کمرے میں ہی تھا . . . .
شیرو :
آداب ماموں جی . . . .
بختیار :
آ گیا میرا شیر سالگرہ مبارک ہو بول آج کیا تحفہ چاہیے تجھے . . . .
شیرو :
ارے ماموں جی کیا پہلے آپ نے کوئی کمی رکھی ہے جو مانگوں کچھ . . . .
بختیار :
ارے اب تو جوان ہوگیا ہے آج 18 سال کا ہوگیا ہے بتا کیا چاہیے کچھ بھی مانگ لے . . . .
شیرو :
ارے نہیں ماموں جی کتنا بھی بڑا ہو جاؤں رہوں گا تو آپ کا بچہ ہی . . .
تبھی بختیار کی بِیوِی یعنی کہ ماہرہ آ جاتی ہے اور ہنستے ہوئے کہتی ہے :
چھوٹی مامی :
آج تو گاؤں کی سب لڑکیاں مر ہی جائیں گی ہمارے ہیرو کو دیکھ کر . . .
خیر نہیں کسی کی آج . . . ،
میں تو کہتی ہوں آج آپ شیرو کو گھر سے باہر ہی نہ جانے دینا کیا پتہ کس کی لڑکی اسے دیکھ کر بے ہوش ہو گئی تو آپ کو ہی بولیں گے سب گاؤں والے کے بانجھے کو سنبھل کر رکھو . . . .
چھوٹی مامی :
ہیپی برتھ ڈے شیرو منی منی ہیپی ریٹرنس آف تھے ڈے . . .
اور تو اپنے ماموں کی جیب ڈھیلی کروا دِل کھول کر . . .
تجھ سے خرچ نہیں ہوں گے تو میں کر لوں گی . . . . ہا ہا ہا ہا ہا
شیرو :
تھینکس مامی جی مگر آپ ایسے ہی میری ٹانگ کھیچتی رہتی ہو لڑکیوں کی بات کر کے مجھے نہیں دیکھنا کسی کو . . .
اور پیسے میرے پاس پہلے ہی ہیں آپ سب دیتے رہتے ہیں مگر میں خرچ کروں بھی تو کہاں ایسے ہی پڑے رہتے ہیں . . . .
چھوٹی مامی :
( حیرانی سے )
کیا . . تو پیسے خرچ نہیں کرتا . . .
ارے بدھو ہم تجھے دیتے ہیں خرچ کرنے کو اور تو ایسے رکھے رہتا ہے چل بچو اب میں بتاتی ہوں تجھے کہ خرچ کیسے کرتے ہیں اگلے ہفتے. . . .
تجھے شہر لے جا کر شاپنگ کرواتی ہوں . . . .
بختیار :
لے جانا لے جانا اور جتنا پیسہ چاہیے ہو میری جیب سے لے جانا مگر ابھی باتیں چھوڑو عامل صاحب آ رہے ہوں گے چلو جلدی. . . .
پھر تینوں کمرے سے نکل کر صحن میں آنے لگتے ہیں تو شیرو دیبا مامی سے ملنے کا بول کر ان کے کمرے کی طرف نکل جاتا ہے . . . .
کمرے کا دروازہ کھلا تھا شیرو جیسے ہی کمرے میں گھسنے لگتا ہے اچانک وہ دیبا سے ٹکرا جاتا ہے جس کی وجہ سے دیبا گر جاتی ہے . . . . ،
دیبا کے ہاتھ میں برتن پکڑے تھے جو دیبا کے اوپر ہی گر جاتے ہیں . . . .
اور اس کے کپڑے گندے ہو جاتے ہے . . . ،
دیبا اِس سب سے اچانک غصے میں آ جاتی ہے اور کہتی ہے . . . .
دیبا :
اندھا ہے کیا دیکھ کر نہیں چل سکتا میرے کپڑے خراب کر دیئے کتنی بار کہا ہے صبح صبح اپنی منحوس شکل مجھے مت دکھایا کر . . . . ،
جب بھی سامنے آتا ہے کچھ نہ کچھ نقصان ہو جاتا ہے . . . .
پتہ نہیں کب پیچھا چھوٹے گا منحوس سے . . .
شیرو یہ سن کر دُکھی ہو جاتا ہے وہ تو نیک تمنائیں لینے آیا تھا اور یہ کیا ہوگیا اس کی اپنی غلطی ہے کیوں اتنی جلدی میں آیا کیا ہو جاتا دیکھ کر آرام سے چلنا چاہیے تھا . . .
شیرو :
مامی جی غلطی ہوگئی معاف کر دیجیئے میں تو آپ سے دعائیں لینے آیا تھا آج پیدائش کا دن ہے میرا . . . .
دیبا :
( غصے سے )
غلطی ہوگئی . . . ارے غلطی تو ہم سے ہوئی ہے کہ تجھے اِس گھر میں لے آئے زندگی جہنم بنا دی تو نے میری . . . .
اور کون سا دن کیسی دعائیں اپنی پیدائش کے دن پر ہی اپنے نانا نانی کو اور اپنے ماں باپ کو کھا گیا . . .
اور مجھ سے دعائیں مانگ رہا ہے منحوس کہیں کا . . . .
یہ بات سن کر جیسے شیرو کا کلیجہ پھٹ گیا جیسے اس کے کانوں میں کسی نے جلتا ہوا تیل ڈال دیا ہو اس کی آنكھوں سے آنسوں بہنے لگتے ہیں منہ سے ایک لفظ نہیں نکلتا اس کی ٹانگیں جیسے اس کا اپنا ہی وزن اٹھانے میں ناکام ہو رہی تھی . . . .
اس کا دِل کیا کہ ابھی اسے زمین نگل لے یہ سب باتیں شیرو کے علاوہ کسی اور نے بھی سن لی تھی . . . .
جو شیرو کے پیچھے ہی آ رہی تھی وہ تھی شیرو کی چھوٹی مامی ماہرہ جو دیبا کو لینے ہی آ رہی تھی . . . .
دراصل اسے پتہ تھا کہ صبح صبح دیبا کو شیرو کا چہرہ دیکھنا پسند نہیں . . .
آج شیرو کی سالگرہ کا دن ہے کہیں دیبا کچھ اُلٹا سیدھا نہ کہہ دے اور وہی ہوا جو وہ نہیں چاہتی تھی کہ ہو . . . .
ماہرہ بھاگ کر دیبا کو خاموش کرواتی ہے . . .
ماہرہ:
باجی خاموش ہو جائیں پلیز گھر میں آج برسی ہے عامل صاحب آ گئے ہیں کسی نے سن لیا تو خماخہ گھر کا ماحول بگڑ جائے گا آپ پلیز خاموش ہو جائیں . . . .
شیرو تو چل میرے ساتھ اور باجی آپ جلدی آئیں باہر . . . .
ماہرہ جانتی تھی کہ دیبا کی باتیں سن کر شیرو کے دِل پر کیا گزر رہی ہوگی بے چارہ بنا کسی قصور کے دیبا سے ایسی جلی کٹی سنتا رہتا ہے . . . .
مگر ابھی فی الحال اسے کسی بھی طرح سنبھالنا ہوگا . . . .
شیرو کو لے کر اپنے روم میں جاتی ہے . . . .
ماہرہ :
شیرو چُپ ہو جا اب تو چھوٹا بچہ نہیں پُورا گھبرو جوان ہو گیا ہے . . .
کیا اچھا لگتا ہے تیرے جیسے ہٹے کٹے پہلوان کی آنکھوں میں آنسو چُپ ہو جا . . .
شیرو تو بس آنكھوں سے آنسو بہائے جا رہا تھا منہ سے ایک الفاظ بھی نہیں نکل رہا تھا. . .
اس کے کانوں میں دیبا کے الفاظ گونج رہے تھے . . . .
ماہرہ :
دیکھ آج تیری سالگرہ کا دن ہے آج کے دن کوئی روتا ہے کیا . . . .
جلدی سے چُپ ہو جا اپنا حلیہ ٹھیک کر باجی نے دیکھ لیا تو پتہ نہیں کیا ہوگا پلیز چُپ ہو جا . . . .
مگر شیرو تو جیسے ابھی بھی انہی الفاظوں کے جال میں پھنسا ہوا تھا . . . .
اسے چھوٹی مامی کی کوئی بات سنائی ہی نہیں دے رہی تھی . . .
پھر ماہرہ شیرو کو پانی کا گلاس پیلاتی ہے . . .
چھوٹی مامی :
شیرو پلیز کنٹرول یور سیلف . . .
اگر باجی نے دیکھ لیا تو ان کے دِل پر کیا گزرے گی . . .
میری نہیں تو باجی کی پرواہ کر لے تھوڑی سی . . . .
کیا گزرے گی ان کے دِل پر تجھے یوں روتا دیکھ کر تجھے باجی کی قسم چُپ ہو جا . . .
اتنا سنتے ہی جیسے شیرو نیند سے جاگتا ہے اور اپنے آنسوں صاف کرتے ہوے کہتا ہے. . . .
شیرو :
نہیں مامی جی میں بالکل نہیں روؤں گا ماں کو میں دُکھی نہیں دیکھ سکتا وہ تو میرا سب کچھ ہیں . . . .
چھوٹی مامی :
( تھوڑا ہنس کر )
اچھا مطلب میں کچھ نہیں . . . .
واہ بھائی واہ ہم تو یونہی سمجھ رہے تھے کہ ہم بھی ان کے اپنے ہیں اور وہ ہمیں اجنبی کر گئے . . . .
اتنا سنتے ہی شیرو کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آ جاتی ہے وہ جانتا تھا کہ . . . .
مامی ایسے ہی ہنسی مذاق کرتی ہے سب سے . . .
اِس لیے شیرو مسکرا کر کہتا ہے . . . . .
شیرو :
ایسے مت کہو مامی جی آپ تو میری سب سے خاص ہیں بالکل میری دوست کی طرح ہو . . .
اما کے بعد آپ ہی تو ہیں جو میرا اتنا خیال رکھتی ہے . . . .
چھوٹی مامی :
بس بس مکھن مت لگا جلدی حلیہ ٹھیک کر عامل بابا آ گئے ہیں جلدی چل ورنہ تیرے ساتھ مجھے بھی ڈانٹ پڑے گی چل جلدی . . . . .
پھر حلیہ ٹھیک کر کے شیرو اور ماہرہ عامل صاحب کے پاس آ جاتے ہیں جہاں سب پہلے ہی بیٹھے تھے دیبا کو چھوڑ کر . . .
نائلہ :
ارے چھوٹی دیبا کہاں رہ گئی اسے بلا تو جلدی شروعات ہونے والی ہے . . . .
اتنے میں دیبا بھی آ جاتی ہے عامل بابا عمل شروع کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں . . .
اس کے ساتھ ہی شیرو سر درد کا بہانہ بنا کر اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے سونے کے لیے . . . .
شیرو اپنے کمرے میں سو رہا تھا تینوں بھائی اپنے اپنے کام پر نکل گئے . . . .
اس کے بعد تینوں عورتیں مل کر دوپہر کا كھانا بنانے لگتی ہیں . . .
نائلہ کے من میں شیرو کی طبیعت کی وجہ سے کافی پریشانی تھی اس لیے وہ دیکھنے جاتی ہے اس کے کمرے میں مگر شیرو سو رہا تھا . . . .
نائلہ دور سے ہی اسے سوتا دیکھ کر لوٹ آتی ہے . . . .
وہیں ماہرہ کے من میں ایک ہی بات چل رہی تھی کہ . . .
آخر کیا وجہ ہے جو دیبا اتنی نفرت کرتی ہے شیرو سے . . . .
من ہی من اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ پتہ لگا کر رہے گی . . . .
پہلے بھی کئی بار اس نے پوچھا تھا مگر کبھی سہی جواب نہیں ملا کوئی تو بات ضرور ہے جو دیبا اتنا کوستی ہے شیرو کو . . .
ورنہ شیرو اتنا پیارا ہے کہ کوئی اس سے نفرت کر ہی نہیں سکتا اتنے معصوم لڑکے کو آخر دیبا کیوں منحوس بول بول کر اتنی نفرت پیدا کرتی ہے . . . .
اچانک اس کے ذہن میں آتا ہے کہ شیرو کو آج بہت برا لگا تھا بےچارہ کسی سے اپنے من کی بات کہہ بھی تو نہیں سکتا کتنا درد تھا آج اس کی آنكھوں میں . . . .
کہیں کسی دن کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے اُسی کی وجہ سے گھر میں تھوڑی بہت رونق ہے اگر اس نے کچھ غلط کر لیا تو ہم سب کا کیا ہوگا . . .
ماہرہ :
( خود سے )
نہیں نہیں میں اسے ایسا نہیں کرنے دوں گی . . .
میں اسے سمجھاؤں گی اس کا کوئی دوست نہیں میں اس کی دوست بنوں گی . . .
اس کے من کو پڑھنا ہوگا اور اسے سمجھانا ہوگا. . .
اتنا سوچ کر ماہرہ اِرادَہ کر لیتی ہے کہ اب سے وہ شیرو کے ساتھ دوست بن کر رہے گی . . .
تاکہ وہ اپنے من سے ساری باتیں باہر نکال سکے . . .
دوپہر کا كھانا بنا کر فری ہو کر ماہرہ پہلے دیبا کے پاس جاتی ہے تاکہ سچ جان سکے مگر اِس بار بھی دیبا کوئی سہی جواب نہیں دیتی . . . .
پھر وہ اُٹھ کر شیرو کو دیکھنے جاتی ہے ابھی تک شیرو دوپہر کا كھانا کھانے بھی نہیں نکلا تھا کمرے سے . . . .
جب ماہرہ شیرو کے کمرے میں جاتی ہے دیکھتی ہے شیرو آنکھیں بند کئے سو رہا ہے وہ واپس پلٹتے کو ہوتی ہے کہ . . . .
اس کا دھیان شیرو کی آنکھوں پر جاتا ہے اس کی پلکیں تھوڑی گیلی تھی. . .
مطلب کہ وہ رو رہا تھا یعنی کہ وہ سویا نہیں ہے سونے کا ناٹک کر رہا ہے . . .
ایک دم سے ماہرہ دروازہ بند کر کے شیرو کے پاس بیڈ پر بیٹھ جاتی ہے اور اسے آواز دیتی ہے . . . .
ماہرہ :
واہ جی واہ جناب لمبی تان کے سوئے پڑے ہیں برتھ ڈے کی پارٹی دینے کے بجائے بہانہ بنا کر نیند پوری کی جا رہی ہے . . . ،
چل چل بہت ہو گیا ڈرامہ مجھے پتہ ہے تو جاگ رہا ہے . . .
اتنا کہہ کر وہ شیرو کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی ہے . . . .
مگر شیرو کوئی جواب نہیں دیتا اسے لگتا ہے اگر وہ جواب نہیں دیے گا تو خود ہی چھوٹی مامی لوٹ جائے گی مگر ماہرہ تو جان گئی تھی . . . .
ماہرہ :
چل اٹھ بھی جا میرے شیر اور مجھے پارٹی دے میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گی . . .
یہ ڈرامہ باجی کے آگے کرنا مجھے پتہ ہے تو جاگ رہا ہے . . . .
یہ سن کر شیرو سوچتا ہے کہ مامی کو کیسے پتہ چلا مگر پھر سوچتا ہے کہ ایسے ہی بول رہی ہوگی . . .
ماہرہ :
اٹھتا ہے یا باجی کو بلا کر لاؤں اور وہ خود دیکھ لے کہ ان کا لاڈلا سالگرہ کے دن پر رو رہا ہے . . . .
اتنا سن کر شیرو ایکدم اٹھ جاتا ہے . . .
شیرو :
نہیں نہیں مامی جی اما کو مت بلانا . . .
ماہرہ :
پھر رو کیوں رہا ہے تجھے سمجھایا تھا نہ میں نے پھر بھی تو بچوں کے جیسے روئے جا رہا ہے . . . .
اگر باجی کی اتنی ہی فکر ہے تو خود کو سنبھلتا کیوں نہیں اگر انہیں پتہ چلا تو کیا گزرے گی ان پر. . . .
شیرو :
تو آپ ہی بتاؤ مامی جی میں کیا کروں آخر میرا قصور کیا ہے جس کی مجھے اتنی سزا دی جا رہی ہے . . . .
کیوں دیبا مامی مجھے منحوس کہتی رہتی ہے . . . .
کیوں مجھے ایسا بولتی ہے کیوں وہ میرا چہرہ دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی . . .
میں نے تو ہمیشہ انہیں ماں کی طرح ہی عزت دی ہے پھر کس لیے میرے ساتھ ایسا سلوک ہو رہا ہے . . .
میرا دِل کرتا ہے میں مر جاؤں یا کہیں دور چلا جاؤں جہاں کوئی مجھے پہچان بھی نہ سکے . . . .
اتنا کہہ کر شیرو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہے اور ماہرہ آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا کر چُپ کرواتی ہے . . . .
ماہرہ :
کبھی سوچا ہے تیرے جانے کے بعد باجی کا کیا ہوگا . .
جس کا دن شروع نہیں ہوتا تیرے بغیر جس کو نیند نہیں آتی جب تک تو نہ سو جائے جو ہر وقت تیرے بارے میں ہی سوچتی رہتی ہے . . . ،
کیا ہوگا جنہیں تو بابا کہتا ہے جو آج تجھے دیکھ کر سینہ چوڑا کئے پھرتے ہیں . . . .
کیا ہوگا تیرے دلدار ماموں تیری چھوٹے ماموں کا اِس گھر کی خوشیوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں تجھے . . . .
تو اتنا سیلفش کب سے ہوگیا کبھی سوچا ہے کہ . . . .
مجھ پر کیا گزرے گی کہ میں سب جان کر بھی چُپ رہی اور تجھے سمجھا نہیں پائی . . .
ارے غصہ ناراضگی تو ہر رشتے میں ہوتا ہے مگر ہمیں تو اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے . . . .
اس طرح دور چلے جانے سے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں . . . .
وہ انسان ہی کیا جو دوسروں کی غلطی کو معاف نہ کر سکے . . . .
اور تو . . . تو اتنا سمجھدار ہے پھر بھی ایسی باتیں کر رہا ہے . . . .
شیرو :
( روتے ہوئے )
میں بھی تو انسان ہوں مامی جی پتھر تو نہیں جب سے ہوش سنبھالا ہے دیبا مامی نے کبھی ہنس کر مجھ سے ایک لفظ بھی نہیں بولا . . . .
ہر وقت بس نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہے کب تک میں برداشت کروں آخر کب وہ مجھے ہنس کر گلے لگاے گی . . . .
کب مجھے اپنا بیٹا کہے گی آخر میرا گناہ کیا ہے کم سے کم اتنا تو بتا دے . . . .
پھر چاہے جان بھی لے لے مجھے غم نہ ہوگا . . .
ماہرہ :
یہی تو میں بھی جاننا چاہتی ہوں کہ آخر وجہ کیا ہے . . .
ویسے تو دیبا باجی دِل کی اتنی اچھی ہیں پھر کیوں تمھارے ساتھ ہی اتنا برا سلوک کرتی ہیں . . .
اور جب بھی وجہ پوچھوں بتاتی بھی نہیں ہے . . . .
کون بتا سکتا ہے آخر وجہ کیا ہے بڑی باجی کو بھی کچھ نہیں پتہ آخر ایسا کیا راز ہے . . . .
خیر . . . . .
وہ سب چھوڑ اور تو آج صبح کہہ رہا تھا کہ . . .
تیرے دوست نہیں اور تو مجھے دوست سمجھتا ہے تو چل آج سے ہم دوست بن جاتے ہیں . . . ،
بول کرے گا دوستی . . . . .
جاری ہے . . . . .
[10/10, 12:19 pm] +92 313 2931313: منحوس سے معصوم تک
قسط نمبر 002
شیرو :
( مسکرا کر ) کیا مامی . . . ،
آپ میری ٹانگیں کھینچنے کے لیے بول رہی ہیں . . ،
آپ کیسے دوست بن سکتی ہیں آپ تو میری مامی ہیں میں تو بس دوست کی طرح آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں . . . .
ماہرہ :
( مزے لیتے ہوئے )
اچھا ویسے باتوں کے علاوہ اور کیا کرنا چاہتا ہے تو دوست کے ساتھ . . . .
شیرو :
( شرما جاتا ہے )
جاؤ میں آپ سے بات نہیں کرتا آپ میری ٹانگیں کھینچنے آ گئی ہیں سب چھوڑ کر . . . بھلا اور کیا کرتے ہیں دوستوں کے ساتھ . . . .
ماہرہ :
( ہنستے ہوئے )
لو بھائی دوست بنانے چلا ہے اور اتنا بھی نہیں پتہ کہ دوست کے ساتھ کیا کرتے ہیں . . .
ارے بدھو دوستوں کے ساتھ صرف باتیں ہی نہیں ہوتی . . . ،
ہنسی مذاق بھی ہوتا ہے لڑائی جھگڑا بھی ہوتا ہے . . . ،
کوئی روٹھتا ہے کوئی مناتا ہے . . . ،
مستی کرتے ہیں گھومتے ہیں پارٹی کرتے ہیں اور شاپنگ بھی کرواتے ہیں . . . ،
اور آج سے ہم دوست ہیں تو سب سے پہلے تو آج مجھے سالگرہ کے دن کی پارٹی دے گا اور شاپنگ بھی کرواے گا وہ بھی شہر سے . . .
شیرو سر پر ہاتھ رکھا کر . . .
شیرو :
اف ف ف اتنا کچھ مجھے تو لگتا ہے کہ آپ کی دوستی بہت مہنگی پڑنے والی ہے . . . نہ بابا نہ معاف کرو . . . . .
ماہرہ :
( ہنستے ہوئے )
بس ڈر گیا نکل گئی ہوا دوست بنانے ہیں اتنا پتہ ہے اور کچھ نہیں آتا تو ٹینشن نہ لے ہمارا سب کچھ تیرا ہی تو ہے جتنے چاہیے مجھ سے لے لینا پیسے . . .
شیرو :
کیسی بات کرتی ہو مامی جی میں نے تو ایسے ہی بولا تھا ویسے بھی جو آپ سب مجھے دیتے رہتے ہیں پیسے میں وہ بھی کہاں خرچ کرتا ہوں . . ،
بولیں آپ کب چلنا ہے شاپنگ پر . . . .
ماہرہ :
( ہنستے ہوئے )
یہ ہوئی نہ بات پہلے تو حلیہ ٹھیک کر اور چل كھانا کھا لے پھر آگے کا پلان کرتے ہیں . .
جلدی آجا میں كھانا لگاتی ہوں . . .
اتنا کہہ کر ماہرہ چلی جاتی ہے اور شیرو بھی تیار ہو کر كھانا کھانے نیچے آ جاتا ہے . . . .
كھانا دونوں مل کر کھاتے ہیں تبھی نائلہ بھی آ جاتی ہے . . . .
نائلہ :
اب طبیعت کیسی ہے بیٹا . . .
آ کر شیرو کے ماتھے پر ہاتھ لگا کر چیک کرتی ہے . . . .
شیرو :
بالکل ٹھیک بس ہلکا سا سر درد تھا ابھی ایک دم فریش ہوں . . . .
اتنا کہہ کر مسکرا دیتا ہے . . .
نائلہ :
( مصنوئی غصہ دکھا کر ڈانٹتے ہوئے )
کس نے کہا ہے اتنی صبح صبح جا کر اکھاڑے میں کثرت کرنے کو . . . ،
سورج بعد میں نکلتا ہے تو پہلے نکل جاتا ہے . . . ،
کپڑے اتار کر ننگا گھومتا ہے اُدھر نظر لگ گئی ہوگی اسی لیے سر درد ہوا ہوگا . . . .
ماہرہ کو دیکھتے ہوئے جا چھوٹی کچن سے مرچیں لے کر آ اس کی نظر اتاریں پہلے . . . .
پتہ نہیں کس نے نظر لگا دی میرے بیٹے کو . . .
ماہرہ :
( ہنستے ہوئے )
ارے باجی مرچیں سے کیا ہوگا آپ کا بیٹا اتنا ہینڈسم ہے کہ ہر کوئی اسے نظر ہی لگاے گا . . .
میں تو کہتی ہوں ایک کام اور بھی کرو آپ . . .
نائلہ :
( حیرانی سے دیکھ کر )
وہ کیا . . .
ماہرہ :
اس کے گلے میں نمبوں مرچیں دونوں لٹکا دو تاکہ نظر نہ لگے . . . .
نائلہ :
ٹھہر تو ذرا میرے بیٹے کا مذاق اڑاتی ہے ابھی بتاتی ہوں تجھے . . . .
اتنا کہہ کر ماہرہ کو پکڑنے جاتی ہے تو ماہرہ اُٹھ کر کچن میں بھاگ جاتی ہے . . .
شیرو :
ارے اما تم بھی کیا باتیں کرتی ہو ایسا کچھ نہیں ہے آؤ بیٹھو میرے پاس . . . ،
بتاؤ آج میری سالگرہ کے دن ہے تو کیا لاؤں آپ کے لیے بازار سے . . . . .
نائلہ :
(شیرو کے بالوں میں ہاتھ گھما کر )
آج تو تیری سالگرہ کا دن ہے تو بول کیا چاہیے تجھے . . . ،
میرا پیٹ تو تجھے دیکھ کر بھر جاتا ہے . . .
شیرو کھسک کر نائلہ کو گلے لگا لیتا ہے اور من میں سوچتا ہے سچ میں کتنا پیار ہے اما کے دِل میں . . . .
اگر میں کہیں چلا گیا تو کیسے رہے گی میرے بنا . . . .
تبھی ماہرہ مرچیں لے کر آ جاتی ہے اور اس سے مرچیں لے کر شیرو کی نظر اترتی ہے . . . .
نائلہ نظر اتار کر مرچیں باہر لے کر چلی جاتی ہے . . . .
ماہرہ :
تو بتا کیا پلان ہے . . . ،
کرواے گا مجھے شاپنگ آج . . . .
شیرو :
اب تو جانا مشکل ہے اب اگر گئے تو بس میں آنے جانے میں رات ہو جائے گی پھر کسی دن کا پروگرام بناتے ہیں . . . .
ماہرہ :
ہم م م بات تو سہی ہے اگر اپنی گاڑی ہوتی تو بات اور تھی بس میں آنا جانا بہت ٹائم خراب کرنے والا کام ہے . . . .
تو ایک کام کیوں نہیں کرتا بائیک چلانا سیکھ لے میں تیرے ماموں کو بول کر تجھے بائیک دلوا دیتی ہوں . . . .
شیرو :
مامی جی اب اتنی سی بات کے لیے کیوں بائیک لینی بس ہے تو سہی شہر جانے کے لیے . . .
ماہرہ :
ویسے اگر گاڑی چلانا سیکھ لے گا تو کیا چلا جائے گا تیرا کہیں کبھی مشکل پڑ جائے تو کام آ جاتا ہے . . .
شیرو :
ہم م م بات تو آپ کی بھی سہی ہے . . . ،
میں سیکھ لوں گا کسی سے آپ فکر نہ کرو . . .
مگر ابھی بائیک نہیں لینی میں نے ابھی اِس سال پڑھائی کا سال ہے انٹر پاس کر کے لوں گا بائیک . . . .
ماہرہ :
پڑھائی تو ہوتی رہے گی میں ہوں نہ جب کبھی ضرورت ہو مجھ سے پوچھ لیا کر مگر اب جلدی سے بائیک سیکھ اور پھر بائیک لینی ہے دیٹس فائنل اور بحث نہیں . . . .
شیرو :
( ہاتھ جوڑتے ہوئے )
جو آپ کا حکم مالکن . . .
اور دونوں ہنسنے لگتے ہیں تبھی نائلہ آ جاتی ہے . . . .
شیرو :
اما میں کل شہر جانا چاہتا ہوں راجو کے ساتھ
نائلہ :
کیوں کیا ہوا کیا کام آ گیا وہاں پر . . .
شیرو :
( ہڑبڑا کر )
وہ . . وہ . . وہ. . . اما . . . وہ. . . راجو کی خالہ کی بیٹی کی طبیعت تھوڑی خراب ہے اس کا پتہ کرنے جانا ہے. . . .
نائلہ :
بیٹا تو اس میں تمہارا کیا کام راجو کے ماں باپ چلے جائینگے . . . .
شیرو کو کوئی جواب نہیں سوجھتا تو شیرو ماہرہ کی طرف التجا بھری نظروں سے دیکھتا ہے . . . ،
ماہرہ سمجھ جاتی ہے کہ بات کچھ اور ہے شیرو بتا نہیں پا رہا . . . .
ماہرہ :
ارے باجی جانے دو نہ ہوگی کوئی بات کہ راجو کے ماں باپ نہ جا پا رہے ہوں . . ،
دونوں دوست ہیں اور جوان ہیں ہو کر آ جائینگے . . . ،
ویسے بھی دنیا دیکھنے دو اسے اگر پلو سے باندھ کر رکھو گی تو دنیا کو کیسے سمجھے گا. . . . .
نائلہ :
رہنے دو تو زیادہ طرف داری مت کر . . ،
اور کیا دنیا دیکھے گا شہر میں کیسے کیسے لوگ رہتے ہیں یہ کتنا بھولا ہے کسی نے کچھ کر دیا تو . . . ،
دیکھا نہیں کیسے نظریں لگا دیتے ہیں گاؤں کے ہی لوگ اسے . . . ،
شہر والے تو کھا ہی جائینگے میرے چاند سے بچے کو . . .
ماہرہ :
او ہو باجی آپ نہ شیرو کو بدھو ہی بنا دو گی اگر ایسے ہی رہا تو کوئی بھی اسے بےوقوف بنا کر لوٹ کر چلا جائے گا . . . . ،
میں کہتی ہوں ابھی سے اسے دنیا دیکھنے دو 18 سال کا تو ہو گیا ہے کیا ساری عمر ایسے ہی رکھو گی اسے . . . .
نائلہ تھوڑا ناراض ہوتے ہوے آخر ہاں کر ہی دیتی ہے مگر ایک شرط کے ساتھ کے دوپہر تک واپس آنا ہوگا اور شیرو بھی حامی بھر دیتا ہے . . . .
اما سے اِجازَت ملنے کے بعد شیرو یہ بات راجو کو بتانے نکل پڑتا ہے . . . .
پیچھے سے نائلہ ماہرہ سے کہتی ہے . . . .
نائلہ :
دیکھ چھوٹی تیرے کہنے پر میں نے اِجازَت تو دے دی ہے مگر میرا دِل نہیں مانتا . . . .
ماہرہ :
ارے باجی بھروسہ رکھو ہمارا بیٹا کبھی کچھ غلط نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کے ساتھ کچھ غلط ہوگا ہمارا پیار ہے نہ اس کی حفاظت کرنے کو . . . .
آپ اسے تھوڑا دنیا کو بھی دیکھنے کا موقع دو تاکہ وہ سب سمجھ سکے دنیا کو دیکھ کر . . . .
اُدھر شیرو راجو کو ملنے جا ہی رہا تھا کہ . . .
راجو باہر ہی مل گیا . . .
شیرو :
ارے تو باہر ہی رہتا ہے کیا ہمیشہ یا گھر والوں نے نکال دیا . . .
راجو :
ہاں ہاں تو . . تو مجھے گھر سے ہی نکلوانا چاہتا ہے . . .
شیرو :
ابے چُپ ڈرامے نہ کر . . ،
اچھا سن میں بتانے آیا تھا کہ اما سے منظوری مل گئی ہے کل صبح شہر جانے کی . . . .
راجو :
( خوشی سے اچھال کر )
واو . . اب آئے گا مزہ اپنی تو نکل پڑی کل خوب مستی کریں گے . . .
شیرو :
یار اتنا مت اُچھل ایک شرط بھی ہے دوپہر تک واپس آنا ہے اس لئے جلدی نکلنا پڑے گا . . .
راجو :
وہ بعد میں دیکھیں گے تو روک میں ابھی آیا . . .
اتنا کہہ کر راجو بھاگ جاتا ہے . . .
راجو سے مل کر شیرو گھر آ جاتا ہے . . ،
ہال میں کوئی نہیں تھا تو شیرو اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے تھوڑی دیر میں ہی ماہرہ وہاں آ جاتی ہے . . .
ماہرہ :
کیا چل رہا ہے کدھر جا رہا ہے کل . . . ،
ڈیٹ ویٹ ہے کیا تیری کسی کے ساتھ . . ،
بتا مجھے میں تجھے گائیڈ کروں گی . . .
شیرو :
( شرما کر )
کیا مامی آپ پھر سے ٹانگ کھینچنے لگی . . . ،
آپ کو پتہ تو ہے لڑکی کیا میں تو کسی لڑکے سے بھی بات نہیں کرتا. . .
ماہرہ :
ارے بدھو یہی تو عمر ہے دوست بنا اور گرل فرینڈ بھی بنا اور نہیں تو بڈھا ہو کر بنائے گا . . .
شیرو :
مجھے نہیں ضرورت کسی کی آپ ہیں تو سہی میرے پاس میں نے اور کسی کو کیوں دوست بنانا ہے . . . .
ماہرہ :
( مزے لیتے ہوئے )
اچھا تو کیا گرل فرینڈ بھی مجھے ہی بنا لے گا بے شرم . . .
شیرو :
کیا مامی آپ بھی . . . ،
مجھے نہیں چاہیے کوئی گرل فرینڈ . . .
ماہرہ :
کیوں ! کیوں نہیں چاہیے زندگی بھر کیا اکیلا ہی رہنا ہے . . . .
شیرو :
میں کہاں اکیلا ہوں آپ سب ہیں تو میرے پاس . . .
ماہرہ :
چل یہ چھوڑ اب بتا کہ کل کہاں جا رہا ہے اور کس کے ساتھ اور کیا کرنے. . .
شیرو :
اچھا تو آپ یہ پتہ لگانے آئی ہیں . . ،
ویسے میں کل راجو کے ساتھ شہر جا رہا ہوں اسے سنیما دیکھانا ہے . . ،
میری برتھ ڈے کی پارٹی دینی ہے اسے . . . .
ماہرہ :
ہم م م . . تو جناب اکیلے اکیلے پارٹی دیتے پھرتے ہیں اور ہمیں پوچھتے بھی نہیں . . .
شیرو :
ارے ایسی بات نہیں آپ کو بھی دوں گا نہ کل آتے وقت آپ کے لیے اور باقی سب کے لیے کچھ نہ کچھ لیتا آؤں گا . . .
آپ بس حکم کیجیے . . .
شیرو :
رہنے دے رہنے دے دوسروں کو فلم دیکھاتا ہے اور مجھے سموسہ کھلا کر سستے میں نپٹنا چاہتا ہے ایسے نہیں چلے گا . . . .
شیرو :
تو بتائیں پھر کیا چاہیے . . .
ماہرہ :
مجھے بھی فلم دیکھنے جانا ہے مگر ابھی تو راجو کے ساتھ پھر کسی دن چلے جائیں گے . . .
شیرو :
ٹھیک ہے مامی جی جو حکم
اس کے بعد اور ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد ماہرہ اپنے روم میں چلی جاتی ہے . . .
وہیں دوسری طرف راجو شیرو سے مل کر بھاگتا ہوا اسکول کے پاس جاتا ہے کسی سے ملنے اور کہتا ہے کل وہ میرے ساتھ صبح سات بجے کی بس میں چلے گا تم ٹائم سے سہی جگہ پہنچ جانا . . . ،
اور ہاں !
میرا کام بھی ہو جانا چاہیے تمہارا تو میں نے کر دیا اب اگر میرا کام نہ بنا تو بھول جاؤ سب . . . .
اتنا کہہ کر راجو وہاں سے نکل جاتا ہے اور وہ دوسرا شخص خوش ہو کر کل کا پلان بنانے لگتا ہے کہ . . .
ایسا موقع پھر نہیں ملے گا کل کسی طرح بھی کر کے اپنا کام کرنا ہوگا . . . . .
صبح شیرو اٹھ کر اپنے روزمرہ کے معمول کے مطابق اکھاڑے میں جاتا ہے مگر آج وقت سے پہلے آ جاتا ہے کیونکہ آج راجو کے ساتھ شہر جانا تھا . . . .
گھر آ کر جلدی سے تیار ہوتا ہے نائلہ کو بھی معلوم تھا جلدی جائے گا تو اس کے لیے ناشتہ پہلے ہی سے بنا دیتی ہے ناشتہ کر کے شیرو گھر سے نکلنے کو تیار ہوتا ہے کہ نائلہ اسے اپنے کمرے میں بلاتی ہے. . . .
نائلہ :
شیرو یہ لے کچھ پیسے رکھ لے خالی ہاتھ جائے گا کیا شہر . . . .
اتنا کہہ کر وہ شیرو کی جیب میں پیسے ڈال دیتی ہے . . . .
شیرو :
اما اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے میرے پاس تو پہلے ہی اتنے پیسے ہیں میں بھلا کیا کروں گا اتنے پیسوں کا . . .
نائلہ :
بس چُپ کر جو بول رہی ہوں وہ سن وہاں جا کر کہیں آوارہ گردی مت کرنا کسی انجان آدمی سے زیادہ بات نہیں کرنا نہ کسی سے کچھ لے کر كھانا اور ہاں اگر وقت ہو تو اپنی خالہ کے یہاں بھی چکر لگا آنا . . . .
شیرو :
ٹھیک ہے اما جو حکم مگر خالہ کے یہاں نہیں جا پاؤں گا اگر وہاں گیا تو رات ہو جائے گی آتے آتے . . . .
نائلہ :
اچھا اچھا رہنے دینا مگر ٹائم سے واپس آ جانا . . .
منحوس سے معصوم تک
قسط نمبر 002
شیرو :
( مسکرا کر ) کیا مامی . . . ،
آپ میری ٹانگیں کھینچنے کے لیے بول رہی ہیں . . ،
آپ کیسے دوست بن سکتی ہیں آپ تو میری مامی ہیں میں تو بس دوست کی طرح آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں . . . .
ماہرہ :
( مزے لیتے ہوئے )
اچھا ویسے باتوں کے علاوہ اور کیا کرنا چاہتا ہے تو دوست کے ساتھ . . . .
شیرو :
( شرما جاتا ہے )
جاؤ میں آپ سے بات نہیں کرتا آپ میری ٹانگیں کھینچنے آ گئی ہیں سب چھوڑ کر . . . بھلا اور کیا کرتے ہیں دوستوں کے ساتھ . . . .
ماہرہ :
( ہنستے ہوئے )
لو بھائی دوست بنانے چلا ہے اور اتنا بھی نہیں پتہ کہ دوست کے ساتھ کیا کرتے ہیں . . .
ارے بدھو دوستوں کے ساتھ صرف باتیں ہی نہیں ہوتی . . . ،
ہنسی مذاق بھی ہوتا ہے لڑائی جھگڑا بھی ہوتا ہے . . . ،
کوئی روٹھتا ہے کوئی مناتا ہے . . . ،
مستی کرتے ہیں گھومتے ہیں پارٹی کرتے ہیں اور شاپنگ بھی کرواتے ہیں . . . ،
اور آج سے ہم دوست ہیں تو سب سے پہلے تو آج مجھے سالگرہ کے دن کی پارٹی دے گا اور شاپنگ بھی کرواے گا وہ بھی شہر سے . . .
شیرو سر پر ہاتھ رکھا کر . . .
شیرو :
اف ف ف اتنا کچھ مجھے تو لگتا ہے کہ آپ کی دوستی بہت مہنگی پڑنے والی ہے . . . نہ بابا نہ معاف کرو . . . . .
ماہرہ :
( ہنستے ہوئے )
بس ڈر گیا نکل گئی ہوا دوست بنانے ہیں اتنا پتہ ہے اور کچھ نہیں آتا تو ٹینشن نہ لے ہمارا سب کچھ تیرا ہی تو ہے جتنے چاہیے مجھ سے لے لینا پیسے . . .
شیرو :
کیسی بات کرتی ہو مامی جی میں نے تو ایسے ہی بولا تھا ویسے بھی جو آپ سب مجھے دیتے رہتے ہیں پیسے میں وہ بھی کہاں خرچ کرتا ہوں . . ،
بولیں آپ کب چلنا ہے شاپنگ پر . . . .
ماہرہ :
( ہنستے ہوئے )
یہ ہوئی نہ بات پہلے تو حلیہ ٹھیک کر اور چل كھانا کھا لے پھر آگے کا پلان کرتے ہیں . .
جلدی آجا میں كھانا لگاتی ہوں . . .
اتنا کہہ کر ماہرہ چلی جاتی ہے اور شیرو بھی تیار ہو کر كھانا کھانے نیچے آ جاتا ہے . . . .
كھانا دونوں مل کر کھاتے ہیں تبھی نائلہ بھی آ جاتی ہے . . . .
نائلہ :
اب طبیعت کیسی ہے بیٹا . . .
آ کر شیرو کے ماتھے پر ہاتھ لگا کر چیک کرتی ہے . . . .
شیرو :
بالکل ٹھیک بس ہلکا سا سر درد تھا ابھی ایک دم فریش ہوں . . . .
اتنا کہہ کر مسکرا دیتا ہے . . .
نائلہ :
( مصنوئی غصہ دکھا کر ڈانٹتے ہوئے )
کس نے کہا ہے اتنی صبح صبح جا کر اکھاڑے میں کثرت کرنے کو . . . ،
سورج بعد میں نکلتا ہے تو پہلے نکل جاتا ہے . . . ،
کپڑے اتار کر ننگا گھومتا ہے اُدھر نظر لگ گئی ہوگی اسی لیے سر درد ہوا ہوگا . . . .
ماہرہ کو دیکھتے ہوئے جا چھوٹی کچن سے مرچیں لے کر آ اس کی نظر اتاریں پہلے . . . .
پتہ نہیں کس نے نظر لگا دی میرے بیٹے کو . . .
ماہرہ :
( ہنستے ہوئے )
ارے باجی مرچیں سے کیا ہوگا آپ کا بیٹا اتنا ہینڈسم ہے کہ ہر کوئی اسے نظر ہی لگاے گا . . .
میں تو کہتی ہوں ایک کام اور بھی کرو آپ . . .
نائلہ :
( حیرانی سے دیکھ کر )
وہ کیا . . .
ماہرہ :
اس کے گلے میں نمبوں مرچیں دونوں لٹکا دو تاکہ نظر نہ لگے . . . .
نائلہ :
ٹھہر تو ذرا میرے بیٹے کا مذاق اڑاتی ہے ابھی بتاتی ہوں تجھے . . . .
اتنا کہہ کر ماہرہ کو پکڑنے جاتی ہے تو ماہرہ اُٹھ کر کچن میں بھاگ جاتی ہے . . .
شیرو :
ارے اما تم بھی کیا باتیں کرتی ہو ایسا کچھ نہیں ہے آؤ بیٹھو میرے پاس . . . ،
بتاؤ آج میری سالگرہ کے دن ہے تو کیا لاؤں آپ کے لیے بازار سے . . . . .
نائلہ :
(شیرو کے بالوں میں ہاتھ گھما کر )
آج تو تیری سالگرہ کا دن ہے تو بول کیا چاہیے تجھے . . . ،
میرا پیٹ تو تجھے دیکھ کر بھر جاتا ہے . . .
شیرو کھسک کر نائلہ کو گلے لگا لیتا ہے اور من میں سوچتا ہے سچ میں کتنا پیار ہے اما کے دِل میں . . . .
اگر میں کہیں چلا گیا تو کیسے رہے گی میرے بنا . . . .
تبھی ماہرہ مرچیں لے کر آ جاتی ہے اور اس سے مرچیں لے کر شیرو کی نظر اترتی ہے . . . .
نائلہ نظر اتار کر مرچیں باہر لے کر چلی جاتی ہے . . . .
ماہرہ :
تو بتا کیا پلان ہے . . . ،
کرواے گا مجھے شاپنگ آج . . . .
شیرو :
اب تو جانا مشکل ہے اب اگر گئے تو بس میں آنے جانے میں رات ہو جائے گی پھر کسی دن کا پروگرام بناتے ہیں . . . .
ماہرہ :
ہم م م بات تو سہی ہے اگر اپنی گاڑی ہوتی تو بات اور تھی بس میں آنا جانا بہت ٹائم خراب کرنے والا کام ہے . . . .
تو ایک کام کیوں نہیں کرتا بائیک چلانا سیکھ لے میں تیرے ماموں کو بول کر تجھے بائیک دلوا دیتی ہوں . . . .
شیرو :
مامی جی اب اتنی سی بات کے لیے کیوں بائیک لینی بس ہے تو سہی شہر جانے کے لیے . . .
ماہرہ :
ویسے اگر گاڑی چلانا سیکھ لے گا تو کیا چلا جائے گا تیرا کہیں کبھی مشکل پڑ جائے تو کام آ جاتا ہے . . .
شیرو :
ہم م م بات تو آپ کی بھی سہی ہے . . . ،
میں سیکھ لوں گا کسی سے آپ فکر نہ کرو . . .
مگر ابھی بائیک نہیں لینی میں نے ابھی اِس سال پڑھائی کا سال ہے انٹر پاس کر کے لوں گا بائیک . . . .
ماہرہ :
پڑھائی تو ہوتی رہے گی میں ہوں نہ جب کبھی ضرورت ہو مجھ سے پوچھ لیا کر مگر اب جلدی سے بائیک سیکھ اور پھر بائیک لینی ہے دیٹس فائنل اور بحث نہیں . . . .
شیرو :
( ہاتھ جوڑتے ہوئے )
جو آپ کا حکم مالکن . . .
اور دونوں ہنسنے لگتے ہیں تبھی نائلہ آ جاتی ہے . . . .
شیرو :
اما میں کل شہر جانا چاہتا ہوں راجو کے ساتھ
نائلہ :
کیوں کیا ہوا کیا کام آ گیا وہاں پر . . .
شیرو :
( ہڑبڑا کر )
وہ . . وہ . . وہ. . . اما . . . وہ. . . راجو کی خالہ کی بیٹی کی طبیعت تھوڑی خراب ہے اس کا پتہ کرنے جانا ہے. . . .
نائلہ :
بیٹا تو اس میں تمہارا کیا کام راجو کے ماں باپ چلے جائینگے . . . .
شیرو کو کوئی جواب نہیں سوجھتا تو شیرو ماہرہ کی طرف التجا بھری نظروں سے دیکھتا ہے . . . ،
ماہرہ سمجھ جاتی ہے کہ بات کچھ اور ہے شیرو بتا نہیں پا رہا . . . .
ماہرہ :
ارے باجی جانے دو نہ ہوگی کوئی بات کہ راجو کے ماں باپ نہ جا پا رہے ہوں . . ،
دونوں دوست ہیں اور جوان ہیں ہو کر آ جائینگے . . . ،
ویسے بھی دنیا دیکھنے دو اسے اگر پلو سے باندھ کر رکھو گی تو دنیا کو کیسے سمجھے گا. . . . .
نائلہ :
رہنے دو تو زیادہ طرف داری مت کر . . ،
اور کیا دنیا دیکھے گا شہر میں کیسے کیسے لوگ رہتے ہیں یہ کتنا بھولا ہے کسی نے کچھ کر دیا تو . . . ،
دیکھا نہیں کیسے نظریں لگا دیتے ہیں گاؤں کے ہی لوگ اسے . . . ،
شہر والے تو کھا ہی جائینگے میرے چاند سے بچے کو . . .
ماہرہ :
او ہو باجی آپ نہ شیرو کو بدھو ہی بنا دو گی اگر ایسے ہی رہا تو کوئی بھی اسے بےوقوف بنا کر لوٹ کر چلا جائے گا . . . . ،
میں کہتی ہوں ابھی سے اسے دنیا دیکھنے دو 18 سال کا تو ہو گیا ہے کیا ساری عمر ایسے ہی رکھو گی اسے . . . .
نائلہ تھوڑا ناراض ہوتے ہوے آخر ہاں کر ہی دیتی ہے مگر ایک شرط کے ساتھ کے دوپہر تک واپس آنا ہوگا اور شیرو بھی حامی بھر دیتا ہے . . . .
اما سے اِجازَت ملنے کے بعد شیرو یہ بات راجو کو بتانے نکل پڑتا ہے . . . .
پیچھے سے نائلہ ماہرہ سے کہتی ہے . . . .
نائلہ :
دیکھ چھوٹی تیرے کہنے پر میں نے اِجازَت تو دے دی ہے مگر میرا دِل نہیں مانتا . . . .
ماہرہ :
ارے باجی بھروسہ رکھو ہمارا بیٹا کبھی کچھ غلط نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کے ساتھ کچھ غلط ہوگا ہمارا پیار ہے نہ اس کی حفاظت کرنے کو . . . .
آپ اسے تھوڑا دنیا کو بھی دیکھنے کا موقع دو تاکہ وہ سب سمجھ سکے دنیا کو دیکھ کر . . . .
اُدھر شیرو راجو کو ملنے جا ہی رہا تھا کہ . . .
راجو باہر ہی مل گیا . . .
شیرو :
ارے تو باہر ہی رہتا ہے کیا ہمیشہ یا گھر والوں نے نکال دیا . . .
راجو :
ہاں ہاں تو . . تو مجھے گھر سے ہی نکلوانا چاہتا ہے . . .
شیرو :
ابے چُپ ڈرامے نہ کر . . ،
اچھا سن میں بتانے آیا تھا کہ اما سے منظوری مل گئی ہے کل صبح شہر جانے کی . . . .
راجو :
( خوشی سے اچھال کر )
واو . . اب آئے گا مزہ اپنی تو نکل پڑی کل خوب مستی کریں گے . . .
شیرو :
یار اتنا مت اُچھل ایک شرط بھی ہے دوپہر تک واپس آنا ہے اس لئے جلدی نکلنا پڑے گا . . .
راجو :
وہ بعد میں دیکھیں گے تو روک میں ابھی آیا . . .
اتنا کہہ کر راجو بھاگ جاتا ہے . . .
راجو سے مل کر شیرو گھر آ جاتا ہے . . ،
ہال میں کوئی نہیں تھا تو شیرو اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے تھوڑی دیر میں ہی ماہرہ وہاں آ جاتی ہے . . .
ماہرہ :
کیا چل رہا ہے کدھر جا رہا ہے کل . . . ،
ڈیٹ ویٹ ہے کیا تیری کسی کے ساتھ . . ،
بتا مجھے میں تجھے گائیڈ کروں گی . . .
شیرو :
( شرما کر )
کیا مامی آپ پھر سے ٹانگ کھینچنے لگی . . . ،
آپ کو پتہ تو ہے لڑکی کیا میں تو کسی لڑکے سے بھی بات نہیں کرتا. . .
ماہرہ :
ارے بدھو یہی تو عمر ہے دوست بنا اور گرل فرینڈ بھی بنا اور نہیں تو بڈھا ہو کر بنائے گا . . .
شیرو :
مجھے نہیں ضرورت کسی کی آپ ہیں تو سہی میرے پاس میں نے اور کسی کو کیوں دوست بنانا ہے . . . .
ماہرہ :
( مزے لیتے ہوئے )
اچھا تو کیا گرل فرینڈ بھی مجھے ہی بنا لے گا بے شرم . . .
شیرو :
کیا مامی آپ بھی . . . ،
مجھے نہیں چاہیے کوئی گرل فرینڈ . . .
ماہرہ :
کیوں ! کیوں نہیں چاہیے زندگی بھر کیا اکیلا ہی رہنا ہے . . . .
شیرو :
میں کہاں اکیلا ہوں آپ سب ہیں تو میرے پاس . . .
ماہرہ :
چل یہ چھوڑ اب بتا کہ کل کہاں جا رہا ہے اور کس کے ساتھ اور کیا کرنے. . .
شیرو :
اچھا تو آپ یہ پتہ لگانے آئی ہیں . . ،
ویسے میں کل راجو کے ساتھ شہر جا رہا ہوں اسے سنیما دیکھانا ہے . . ،
میری برتھ ڈے کی پارٹی دینی ہے اسے . . . .
ماہرہ :
ہم م م . . تو جناب اکیلے اکیلے پارٹی دیتے پھرتے ہیں اور ہمیں پوچھتے بھی نہیں . . .
شیرو :
ارے ایسی بات نہیں آپ کو بھی دوں گا نہ کل آتے وقت آپ کے لیے اور باقی سب کے لیے کچھ نہ کچھ لیتا آؤں گا . . .
آپ بس حکم کیجیے . . .
شیرو :
رہنے دے رہنے دے دوسروں کو فلم دیکھاتا ہے اور مجھے سموسہ کھلا کر سستے میں نپٹنا چاہتا ہے ایسے نہیں چلے گا . . . .
شیرو :
تو بتائیں پھر کیا چاہیے . . .
ماہرہ :
مجھے بھی فلم دیکھنے جانا ہے مگر ابھی تو راجو کے ساتھ پھر کسی دن چلے جائیں گے . . .
شیرو :
ٹھیک ہے مامی جی جو حکم
اس کے بعد اور ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد ماہرہ اپنے روم میں چلی جاتی ہے . . .
وہیں دوسری طرف راجو شیرو سے مل کر بھاگتا ہوا اسکول کے پاس جاتا ہے کسی سے ملنے اور کہتا ہے کل وہ میرے ساتھ صبح سات بجے کی بس میں چلے گا تم ٹائم سے سہی جگہ پہنچ جانا . . . ،
اور ہاں !
میرا کام بھی ہو جانا چاہیے تمہارا تو میں نے کر دیا اب اگر میرا کام نہ بنا تو بھول جاؤ سب . . . .
اتنا کہہ کر راجو وہاں سے نکل جاتا ہے اور وہ دوسرا شخص خوش ہو کر کل کا پلان بنانے لگتا ہے کہ . . .
ایسا موقع پھر نہیں ملے گا کل کسی طرح بھی کر کے اپنا کام کرنا ہوگا . . . . .
صبح شیرو اٹھ کر اپنے روزمرہ کے معمول کے مطابق اکھاڑے میں جاتا ہے مگر آج وقت سے پہلے آ جاتا ہے کیونکہ آج راجو کے ساتھ شہر جانا تھا . . . .
گھر آ کر جلدی سے تیار ہوتا ہے نائلہ کو بھی معلوم تھا جلدی جائے گا تو اس کے لیے ناشتہ پہلے ہی سے بنا دیتی ہے ناشتہ کر کے شیرو گھر سے نکلنے کو تیار ہوتا ہے کہ نائلہ اسے اپنے کمرے میں بلاتی ہے. . . .
نائلہ :
شیرو یہ لے کچھ پیسے رکھ لے خالی ہاتھ جائے گا کیا شہر . . . .
اتنا کہہ کر وہ شیرو کی جیب میں پیسے ڈال دیتی ہے . . . .
شیرو :
اما اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے میرے پاس تو پہلے ہی اتنے پیسے ہیں میں بھلا کیا کروں گا اتنے پیسوں کا . . .
نائلہ :
بس چُپ کر جو بول رہی ہوں وہ سن وہاں جا کر کہیں آوارہ گردی مت کرنا کسی انجان آدمی سے زیادہ بات نہیں کرنا نہ کسی سے کچھ لے کر كھانا اور ہاں اگر وقت ہو تو اپنی خالہ کے یہاں بھی چکر لگا آنا . . . .
شیرو :
ٹھیک ہے اما جو حکم مگر خالہ کے یہاں نہیں جا پاؤں گا اگر وہاں گیا تو رات ہو جائے گی آتے آتے . . . .
نائلہ :
اچھا اچھا رہنے دینا مگر ٹائم سے واپس آ جانا . . .
شیرو :
ٹھیک ہے اما اب چلتا ہوں . . .
اتنا کہہ کر شیرو کمرے سے نکلتا ہے تبھی چھوٹی مامی مل جاتی ہے . . .
ماہرہ :
شرو بات سن . . . ،
یہ لے کچھ پیسے رکھ لے اور اچھے سے پارٹی دینا اپنے دوستوں کو کوئی کنجوسی نہیں . . .
یہ کہہ کر وہ شیرو کی جیب میں پیسے ڈال دیتی ہے . . .
شیرو :
ارے یہ کیا مامی پہلے ہی اما نے اتنے پیسے دے دیئے ہیں اور میرے پاس اپنے بھی تو ہیں . . .
ماہرہ :
بس بس پتہ ہے مجھے . . . ،
پیسہ جتنا ہو اچھا ہے . . . اور ہاں ٹائم سے لوٹ آنا یہ نہ ہو باجی تیرے پیچھے شہر ہی نہ پہنچ جائے . . . .
پھر شیرو گھر سے نکل کر راجو کی طرف جانے لگتا ہے تو راجو سامنے سے آتا ہوا نظر آتا ہے اور دونوں دوست بس اسٹاپ کی طرف نکل پڑتے ہیں . . . .
بس اسٹاپ پر کوئی خاص ہجوم نہیں تھا اِس ٹائم میں . . .
بس میں نارمل ہی بھیڑ ہوتی تھی دونوں دوست بس پکڑ لیتے ہیں اور اپنی سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں . . .
شیرو کی نظر مہوش پر پڑتی ہے جو آج خوب تیار ہو کر لال شلوار سوٹ میں اپنی سہیلی کے ساتھ بیٹھی تھی . . .
ایک پل تو شیرو کی نظر اس پر روک گئی آج وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی . . .
شیرو جانتا تھا کہ مہوش اسے پسند کرتی ہے مگر شیرو کے دِل میں ایسا کچھ نہیں تھا . . . ،
اُدھر مہوش بھی شیرو کو دیکھ رہی تھی جب دونوں کی نظریں ملتی ہے تو دونوں مسکرا دیتے ہیں . . . .
شیرو :
یار راجو یہ مہوش اتنی صبح کہاں جا رہی ہے تیار ہو کر . . . .
راجو :
دیکھ بھائی برا مت ماننا جو بھی بولنا ہو بعد میں بول لینا دراصل میں مہوش کی سہیلی شہناز کو پسند کرتا ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں . . . . ،
بڑے ہاتھ پیر جوڑ کر میں نے مہوش کو منایا ہے کہ . . . .
تو اپنی سالگرہ کی پارٹی دے رہا ہے اور تو نے مہوش کو بھی بلایا ہے اور شہناز کو ساتھ لانے کو کہا . . . ،
تو تو جانتا ہے اس کا باپ کمینہ اسے گھر سے کہیں باہر نکلنے نہیں دیتا تو کس طرح مہوش کی مدد سے آج میں اپنے دِل کی بات کرنے والا ہوں شہناز سے . . . ،
اب اپنے یار کی خوشی کے لیے تو اتنا بھی نہیں کر سکتا . . .
( دراصل کل راجو بھاگ کر مہوش کے پاس ہی گیا تھا اس نے مہوش کی مدد کا سودا کیا تھا شیرو کے ساتھ اس کی سیٹنگ کروانے میں بدلے میں مہوش راجو کی سیٹنگ شہناز سے کرواے گی )
شیرو :
چُپ کمینے بند کر اپنا ایومشنل ڈرامہ تو اپنے چکر میں مجھے کیوں پھنسا رہا ہے تجھے پتہ ہے نہ میں لڑکیوں سے دور رہتا ہوں اور تو میرا نام لے کر مہوش کو بلا لیا . . . ،
کیا تیرے کو نہیں پتہ وہ کیسے مجھے دیکھتی ہے اب تو وہ سمجھے گی کہ میں نے اسے بلایا ہے . . .
مطلب میں اسے پسند کرتا ہوں . . .
راجو :
دیکھ بھائی اگر وہ تجھے پسند کرتی ہے تو . . . تو بھی اسے پسند کر لے نہ ویسے بھی اس سے خوبصورت لڑکی پورے گاؤں میں نہیں . . ،
کب تک اسی طرح رہے گا یہی تو دن ہے جوانی کے . . . ،
میں تو بولتا ہوں تو بھی اسے آج لپک لے وہ تو کب سے تیار بیٹھی ہے . . . .
ایک تو ہے ایسے ہی نخرے دیکھاے جا رہا ہے . . . .
شیرو :
بکواس بند کر تجھے پتہ ہے نہ میں ان سب باتوں میں نہیں پڑنے والا . . .
راجو :
یار دیکھ لے میری زندگی کا سوال ہے میں شہناز سے شادی کرنا چاہتا ہوں اب اگر تو میری مدد نہیں کرے گا تو اور کون کرے گا. . . .
ویسے بھی مہوش کون سا تجھے کھا جائے گی باتیں ہی تو کرنی ہے مجھے تھوڑا وقت مل جائے گا شہناز سے بات کرنے کا . . . .
شیرو :
اچھا ٹھیک ہے مگر گاؤں میں اگر کسی کو پتہ چل گیا تو سوچا ہے کتنی بدنامی ہوگی میرے گھر والے مجھے گھر سے نکل دیں گے . . . .
راجو :
ارے گاؤں میں کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا وہ الگ جا رہی ہیں ہم الگ ہم سیدھا سنیما میں ہی ملیں گے . . .
شیرو :
چل ٹھیک ہے دوستی کے نام پر یہ بھی منظور ہے مگر اگر کوئی مسلہ ہوا تو اپنا سوچ لینا . . .
راجو :
( ہنس کر )
تیرے لیے جان حاضر ہے میرے یار . . .
یوں ہی باتیں کرتے ہوئے ایک گھنٹے میں بس روکتی چلتی شہر پہنچ جاتی ہے پھر دونوں دوست اور دونوں سہیلیاں الگ الگ رکشے سے سنیما پہنچ جاتی ہیں . . . .
شیرو ٹکٹ لینے کے لیے لائن میں لگتا ہے تو دیکھتا ہے مہوش بھی ٹکٹ کی لائن میں تھی . . . .
شیرو راجو کو اشارہ کر کے مہوش کو ٹکٹ لینے سے روکنے کو کہتا ہے . . .
پھر شیرو ٹکٹ لے کر راجو کے ساتھ مہوش کی طرف جاتا ہے . . . .
مہوش :
( مہوش آج گلاب کی طرح کھلی کھلی لگ رہی تھی لال سوٹ میں وہ آج پکا اِرادَہ کر کے آئی تھے کہ آج شیرو سے دِل کا حال بیان کر کے ہی رہے گی . . . ،
شیرو کو گلاب کا پھول دیتے ہوئے )
سالگرہ مبارک ہو خدا کرے آپ ہمیشہ یونہی ہنستے کھیلتے رہیں آپ کو وہ ہر خوشی ملے جو آپ چاہتے ہیں . . . .
شیرو :
( تھوڑا نروس ہو جاتا ہے کہ کیا کہے کیا کرے )
شکریہ مہوش اس کی کیا ضرورت تھی تم اتنا رسک لے کر کیوں آئی شہر اگر کسی کو پتہ چلا تو کتنی بدنامی ہوگی . . . .
مہوش :
تو کیا ہوا آپ کی سالگرہ تھی تو کیسے نہ آتی آپ کے لیے سب قبول ہے. . . .
شیرو حیرانی سے مہوش کو دیکھنے لگتا ہے . . ،
تبھی راجو درمیان میں بولتا ہے . . .
راجو :
چلو یار جلدی کرو نہیں تو فلم شروع ہو جائے گی . . . .
پھر چاروں اندر ہال میں جاتے ہیں صبح کا شو تھا اس لئے زیادہ رش نہیں تھی چاروں کی سیٹ ساتھ میں ہی تھی پہلے شیرو بیٹھ جاتا ہے اس کے ساتھ مہوش بیٹھ جاتی ہے . . . .
پھر شہناز پھر راجو . . . ،
شیرو راجو کی طرف دیکھتا ہے تو راجو آنکھوں سے التجا کرتا ہے اشارے سے . . . ،
شیرو بھی چُپ کر کے بیٹھ جاتا ہے . . .
مہوش کے دِل میں آج خوشیوں کی شہنائیاں بج رہی تھی جانے کب سے وہ شیرو کے ساتھ وقت بِیتانا چاہتی تھی تاکہ وہ اپنا حال دِل بیان کر سکے پتہ نہیں کب سے وہ شیرو کو اپنا سب کچھ مان چکی تھی اور ایک شیرو تھا کہ اسے نظر انداز کرتا رہتا تھا . . . .
تھوڑی دیر میں لائٹس بجھ جاتی ہیں اور فلم شروع ہو جاتی ہے یہ ایک رومینٹک محبّت کی کہانی تھی اور آپ تو جانتے ہیں کہ بولی ووڈ کی فلموں میں کس کرنا تو عام بات ہے ایسے ہی فلم میں جب کسسنگ سین آتا ہے ہیرو ہیروئن کے لبوں پر اپنے لب رکھتا ہے تو شیرو کے دِل میں ہلچل ہونے لگتی ہے آخر تھا تو وہ بھی گھبرو جوان . . . . .
وہیں مہوش کے دِل میں بھی طوفان اٹھنے لگتا ہے اس کی آنکھوں میں لال دورے آنے لگتے ہیں اور وہ اچانک شیرو کا ہاتھ کس کر پکڑ لیتی ہے . . .
شیرو مہوش کو دیکھتا ہے دونوں کی نگاہیں ملتی ہیں دونوں میں سے کوئی نہیں بولتا مگر دونوں کے ہی دِل مچل رہے تھے . . . .
شیرو اپنا چہرہ سیدھا کر لیتا ہے اور خود کو کنٹرول کرنے لگتا ہے ایسے ہی تھوڑے بہت گرما گرم سین فلم میں آتے ہیں اور انٹرول ہو جاتا ہے . . . .
شیرو سب کے کھانے کے لیے سنیکس لاتا ہے تھوڑی دیر میں فلم پھر اسٹارٹ ہو جاتی ہے . . . .
تھوڑی دیر کے بعد فلم میں ایک بیڈروم سین آتا ہے جسے دیکھتے دیکھتے شیرو کا لنڈ اکڑنے لگتا ہے . . . .
اور مہوش کا بھی برا حال تھا وہ بھی ہوس میں جلنے لگی تھی شیرو بس آنکھیں بند کر کے خود کو سنبھلتا ہے مہوش کا ہاتھ ابھی بھی شیرو کے ہاتھ پر تھا . . . .
ایسے ہی وقت گزر جاتا ہے فلم ختم ہو جاتی ہے چاروں باہر آتے ہیں شیرو شکر ادا کرتا ہے کہ فلم ختم ہوئی . . . .
راجو :
کیوں کیسی لگی فلم تجھے . . . .
شیرو :
( غصے سے دیکھ کر )
بکواس . . .
راجو :
مجھے تو بہت مزہ آیا اتنا بول کر وہ شہناز کو دیکھتا ہے اور شہناز شرما جاتی ہے . . .
شیرو سمجھ جاتا ہے کہ راجو نے کچھ تو کیا ہے مگر چُپ رہتا ہے وہیں مہوش چُپ تھی اور شیرو کو دیکھ رہی تھی . . . . .
شیرو :
اب چلیں گھر . . . .
راجو :
یار پارٹی تو ابھی رہتی ہے نہ چل کچھ کھا پی کر آتے ہیں . . .
شیرو غصے سے راجو کو دیکھتا ہے مگر راجو پھر التجا کرتا ہے اشارے سے . . . .
شیرو :
بتا پھر کہاں چلیں کیا كھانا ہے . . . .
راجو :
مہوش شہناز تم بھی تو بتاؤ کیا کرنا ہے کہاں چلنا ہے . . . .
مہوش :
شہر کے بارے میں ہمیں کیا معلوم آپ ہی دیکھ لو . . . .
پھر چاروں ایک رکشہ کرتے ہیں اسے بتاتے ہیں کہ کسی اچھے سے ریسٹورانٹ میں چھوڑ دے . . . .
چاروں ریسٹورانٹ میں جا کر تھوڑا بہت کھا کر واپس چلنے کا اِرادَہ کرتے ہیں . . . .
مہوش دِل میں سوچ رہی تھی کہ کیسے بات کرے اپنے دِل کی مگر شیرو تھا کہ اسے دیکھ ہی نہیں رہا تھا . . . .
تبھی مہوش راجو اور شہناز کو اشارہ کرتی ہے تو شہناز باتھ روم جانے کا بول کر اٹھ جاتی ہے اور راجو بھی اٹھ جاتا ہے . . .
ان کے جاتے ہی مہوش اپنے پرس میں ہاتھ ڈال کر ایک خط نکال کر شیرو کو دیتی ہے . . . .
اور کہتی ہے کہ ایک بار پڑھ لینا پلیز اتنا مجھ پر احسان کر دینا . . . .
شیرو حیران سا اسے دیکھتا رہتا ہے . . .
مگر مہوش کے معصوم چہرے کو دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں التجا کی آس دیکھ کر وہ خط پکڑ کر جیب میں رکھ لیتا ہے . . .
مہوش کو تھوڑی تسلّی ہوتی ہے کہ شیرو نے خط لیا مطلب اس کا چانس ہے کیا پتہ اس کا خط پڑھ کر شیرو کو اُس پر ترس آ ہی جائے . . . .
اِس خط میں مہوش نے اپنے دِل کا سارا حال بیان کر دیا تھا کتنے ہفتوں سے لکھ لکھ کر کاغذ پھاڑ پھاڑ کر آخر ایک خط لکھا تھا . . . . اتنے زیادہ جذبات اس نے لکھ دیئے تھے الفاظوں میں کہ کوئی پتھر بھی ہو تو پگھل جائے مگر شیرو پگھلے گا کہ نہیں یہ پتہ نہیں . . . .
تھوڑی دیر میں شہناز اور راجو آ جاتے ہیں اور کھانے کے پیسے شیرو دیتا ہے پھر سب نکل پڑتے ہیں بس اسٹاپ کی طرف . . . .
یہاں سے بس اسٹاپ دور نہیں تھا اس لئے پیدل ہی نکل گئے . . .
ابھی راستے میں جا ہی رہے تھے ایک گلی سے سے کہ اچانک ایک عورت کے چیخنے کی آواز آتی ہے . . . .
عورت :
بچاؤ کوئی میری مدد کرو آں بچاؤ بچاو . . . .
شیرو آواز سن کر آواز کی سمت میں بھاگتا ہے گلی سنسان تھی اور آگے سے بند تھی اِس طرف کوئی گھر دکان کچھ بھی نہیں تھا شاید کسی ہوٹل کی بیک سائڈ تھی . . . ،
شیرو تیز رفتاری سے بھاگتا ہوا جاتا ہے تو ایک اندھیرے کونے میں اسے تِین غنڈے دکھتے ہیں . . .
جو ایک عورت کو پکڑے ہوئے تھے ان کے ہاتھوں میں چاقو تھے وہ کوئی لوٹیرے لگ رہے تھے جو عورت سے چاقو کی نوک پر زیورات اتروا رہے تھے . . . .
شیرو تیز رفتاری سے بھاگتے ہوے راستے میں پڑی ہوئی ایک اینٹ اٹھا کر مارتا ہے جو سیدھا ایک غنڈے کے سر میں لگتی ہے اور خون کی دھاڑ اس کے سر سے پھوٹ پڑتی ہے . . .
دوسرا غنڈہ چاقو لے کر شیرو کو مارنے کو ہوتا ہے کہ . . . .
شیرو اس کا بازو ہوا میں ہی پکڑ لیتا ہے اور بازو مروڑ کر اس غنڈے کا . . . دوسرے ہاتھ کا استعمال کرتے ہوے ہوا میں اٹھا کر پٹخ دیتا ہے . . . .
تبھی تیسرا غنڈہ تیز رفتاری سے چاقو لے کر حملہ کرتا ہے اور ایک وار اس کا شیرو کے بازو پر لگ جاتا ہے . . . .
مگر شیرو تو پہلوان تھا وہ اس کی پرواہ کئے بنا تیسرے غنڈے کو بھی پکڑ کر زور سے دیوار میں اس کا سر مار دیتا ہے اور وہ بھی ڈھیر ہو جاتا ہے . . . .
تینوں کو نپٹا کر شیرو عورت کی طرف موڑتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ . . .
سامنے ایک حسن کی دیوی کھڑی ہے بالکل دودھ جیسا رنگ چمکتا چہرہ شربتی آنکھیں . . . .
اس عورت کو دیکھ کر تو شیرو کو حوروں کا تذکرہ یاد آ گیا . . .
سپنوں کی رانی کیا زبردست جسم تھا . . . .
قمیض شلوار میں تو اور بھی حَسِین لگ رہی تھی بال سر پر باندھے ہوئے تھے عمر کا اندازہ لگانا مشکل شاید تیس کے آس پاس کی ہوگی . . .
شیرو ٹک ٹکی باندھ کر اسے دیکھ رہا تھا . . .
عورت :
( من میں اس کا چہرہ مجھے اپنا سا کیوں لگ رہا ہے آخر کون ہے یہ ایسے لگ رہا ہے یہ میرا اپنا ہے )
شکریہ بیٹے تم نے میری جان بچائی میں بہت احسان مند ہوں . . . ،
کیا نام ہے تمہارا ؟
شیرو :
( ہوش میں آتا ہوا )
جی جی وہ شیراز نام ہے میرا سب مجھے شیرو کہتے ہیں . . . .
اور پلیز آپ شکریہ مت کہیں ایک طرف مجھے بیٹا بول رہی ہیں اور پھر شکریہ کہہ کر مجھ پر احسان کر رہی ہیں . . . . .
عورت :
تم واقعی اخلاقی اور ایک اچھے گھر سے ہو یقیناً تمہاری ماں کوئی عظیم عورت ہوگی جس نے تمھارے جیسا بیٹا پیدا کیا . . . .
شیرو :
ارے آپ ایسے ہی میری تعریف کرنے لگی میں نے تو بس اپنا فرض ادا کیا ہے . . . .
عورت :
نہیں شیرو آج کل کے زمانے میں کون کسی کی مدد کرتا ہے اور تم نے تو اپنی جان کی بازی لگا دی . . .
اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو . . .
تبھی اس عورت کی نظر شیرو کی بازو پر لگے زخم پر پڑتی ہے وہ جلدی سے اپنے دوپٹے کا پلو پھاڑ کر شیرو کے بازو پر باندھ دیتی ہے . . .
یہ سب ہوتے ہوئے راجو بھی وہاں پہنچ چکا تھا اور سب دیکھ رہا تھا اسے بھی شیرو کے زخم کو دیکھ کر ٹینشن ہو جاتی ہے . . . .
راجو :
ارے یہ کیا اتنی چوٹ لگ گئی تجھے . . .
شیرو :
کچھ نہیں یار بس خاروچ ہے ہلکی سی تو ٹینشن نہ لے . . .
راجو :
چل ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں . . .
شیرو :
ارے ذرا سی تو چوٹ ہے اتنی تو لگتی ہی رہتی ہے . . .
عورت :
تمہارا دوست سہی کہہ رہا ہے چلو ڈاکٹر کے پاس پٹی کروا لو . . . .
شیرو :
ارے آپ نے پٹی تو کردی ہے اب آپ کے پیار اور محبّت سے بڑھ کر کوئی دوا تھوڑی ہو سکتی ہے . . .
ویسے بھی ہم لیٹ ہو رہے ہیں ہمیں گاؤں واپس جانا ہے اگر دیر ہو گئی تو گھر والے پریشان ہوں گے . . .
عورت :
ارے ایسے کیسے چلے جاؤ گے تم نے میری اتنی مدد کی ہے مجھے کچھ تو موقع دو خدمت کا . . .
شیرو :
ارے نہیں میڈم پلیز ہمیں سچ مچ دیر ہو رہی ہے پھر کبھی ملاقات ہوئی تو ضرور آپ کے ہاتھ کی چائے پیوں گا . . .
عورت :
( ہنستے ہوئے )
ٹھیک ہے یاد رکھنا ویسے میرا نام میڈم نہیں عارفہ ہے . . .
شیرو :
( مسکرا کر )
ٹھیک ہے عارفہ جی اب چلتے ہیں اِجازَت دیجیئے . . .
پھر شیرو اور راجو چل پڑتے ہیں گلی سے باہر نکلتے ہیں تو سامنے مہوش اور شہناز گھبرائی ہوئی سی کھڑی تھی . . . .
جب سے شیرو بھاگ کر گیا تھا مہوش کا دِل ڈر کے مارے بیٹھا جا رہا تھا اوپر سے راجو دونوں کو پیچھے آنے سے منع کر کے گیا تھا . . .
مہوش جب شیرو کو دیکھتی ہے اور اس کے بازو پر پٹی دیکھتی ہے جس میں خون لگا ہوا تھا . . . .
وہ ہڑبڑا کر شیرو کے سینے سے چپک جاتی ہے اور رونے لگتی ہے . . . ،
شیرو کے دِل کو ایک میٹھا سا احساس ہوتا ہے مگر اگلے ہی لمحے وہ مہوش کو خود سے الگ کر کے چُپ کرواتا ہے . . .
شیرو :
ارے مہوش تم کیوں بچوں کی طرح رو رہی ہو بس ذرا سی خاروچ ہے کچھ نہیں ہوا پلیز چُپ ہو جاؤ . . .
مہوش :
( روتے ہوئے آنسو پونچھتے ہوے)
کیا ضرورت تھی ایسی مصیبت میں پھنسنے کی اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو میرا کیا ہوتا . . .
شیرو کے دِل میں یہ بات بہت اثر کرتی ہے کہ . . . .
‘ میرا کیا ہوتا “ . . .
ایک لمحے کو سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ . . .
مہوش کس حق سے اتنی بڑی بات کہہ گئی جو سیدھا شیرو کے دِل پر اثر کر گئی . . . .
پھر شیرو اسے چُپ کرواتا ہے اور بس اسٹاپ کی طرف چل پڑتے ہیں چاروں . . .
بس اسٹاپ پر تھوڑی ہی دیر میں بس آ جاتی ہے بس کی سیٹ فل تھی اس لئے چاروں کھڑے ہو جاتے ہیں . . . .
سب سے آگے راجو پھر شہناز پھر مہوش اور پھر شیرو . . . .
بس چل پڑتی ہے اگلے اسٹاپ پر اور لوگ چڑھ جاتے ہیں بس میں اور بھیڑ ہو جاتی ہے شیرو نہ چاہتے ہوئے بھی مہوش سے چپک جاتا ہے . . . .
بس کا بار بار بریک مارنے سے شیرو بار بار مہوش سے ٹکرا رہا تھا جس سے شیرو کے نچلے حصے میں ہلچل شروع ہو گئی تھی . . . .
مہوش کی گانڈ کے ساتھ ٹکرا کر شیرو کا لنڈ سر اٹھانے لگا شیرو کو شرمندگی ہونے لگتی ہے کہ . . . . .
یہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے مہوش کیا سوچے گی میرے بارے میں . . .
وہیں مہوش کو بھی شیرو کا لنڈ اپنے چوتڑوں پر محسوس ہونے لگتا ہے . . .
ایک میٹھا سا احساس اسے ہوتا ہے اس کی کنواری پھدی میں ہلچل ہونے لگتی ہے اور مہوش خود پر کنٹرول کھونے لگتی ہے . . . .
اب مہوش بھی اپنے چوتڑ جان بوجھ کر شیرو کے لنڈ پر دبانے لگتی ہے اور مزے لینے لگتی ہے یہ اس کی زندگی میں نیا احساس تھا جو اسے بڑا مزا دے رہا تھا . . .
وہیں شیرو خود کو کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا اس کا چہرہ لال ٹماٹر بن گیا تھا اور پسینے سے بھیگ گیا تھا . . .
شیرو پیچھے ہٹنے کی بہت کوشش کرتا ہے مگر بھیڑ کی وجہ سے پیچھے نہیں ہٹ پاتا . . . .
گانڈ کے احساس نے شیرو کے لنڈ کی نیند خراب کر دی تھی اور اب وہ اس گانڈ پر ٹکریں مار رہا تھا بدلہ لینے کے لیے . . .
شیرو کا لنڈ پورے جوبن پر آ گیا تھا جو لوہے کی روڈ کی طرح مہوش کے اندر گھس جانا چاہتا تھا . . .
مہوش لنڈ کی موٹائی اور لمبائی اپنے چوتڑوں پر محسوس کر کے پوری طرح پانی پانی ہوگئی تھی . . . .
اور اپنی گانڈ کو دبائے جا رہی تھی لنڈ پر اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے یہ اس کی زندگی کا پہلا احساس تھا اپنے چوتڑوں پر کسی مرد کے لنڈ کا . . . . .
شیرو خود کو روک نہیں پا رہا تھا ابھی تک کی زندگی میں اسے یہ احساس کبھی نہیں ملا تھا . . . . ،
ہوتا بھی کیسے پہلوانی میں تو یہی سکھایا جاتا ہے عورتوں سے جتنا دور رہو اتنا اچھا ہے . . .
مگر آج شیرو کا خود پر قابو نہیں تھا اب اسے بھی یہ احساس مزا دینے لگا اور تھوڑی دیر میں وہ بھی زور لگا کر لنڈ کو مہوش کی گانڈ میں گھسانے لگا . . . .
مہوش زیادہ دیر خود کو روک نہیں پائی اور وہیں کھڑے کھڑے جھڑ گئی اب اس سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا پسینے سے چہرہ بھیگ گیا تھا تبھی بس روکتی ہے اور دو سیٹیں خالی ہو جاتی ہیں . . . .
شیرو شہناز اور مہوش کو وہاں بیٹھا دیتا ہے اور اپنی شرٹ باہر نکال کر اپنے اکڑے ہوئے لینڈ کو چھپا دیتا ہے . . .
ایسے ہی ایک گھنٹے کا سفر ختم ہو جاتا ہے اور چاروں گاؤں پہنچ جاتے ہیں. . .
مہوش شیرو سے نظریں نہیں ملا پاتی اور چپ چاپ شہناز کے ساتھ نکل جاتی ہے . . . .
شیرو بھی بس میں ہوئے حادثے سے شرمندہ تھا اس لئے جلدی جلدی وہ بھی نکل جاتا ہے راجو کے ساتھ. . .
راستے میں شیرو راجو کو کہتا ہے جلدی چل آج تو ڈانٹ پڑے گی پانچ بج گئے ہے اما غصہ کرے گی . . . . .
تب دونوں اپنے اپنے گھر پہنچ جاتے ہیں . . . .
نائلہ گھر میں پریشان ادھر سے اُدھر گھوم رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ . . .
اسے شیرو کو جانے ہی نہیں دینا چاہیے تھا اگر شیرو کو کچھ ہو گیا تو . . .
وہ کئی بار ماہرہ سے بھی غصے میں کہہ چکی تھی سب تیری وجہ سے ہوا ہے ابھی تک نہیں آیا . . . . .
اگر اسے کچھ ہو گیا تو میں دیکھ تیرا کیا حَل کرتی ہوں . . . .
اتنے میں دروازہ کھلتا ہے . . . . .
جاری ہے . . . .
منحوس سے معصوم تک
قسط نمبر 003
شیرو جیسے ہی گھر میں داخل ہوتا ہے سامنے نائلہ کھڑی تھی جو بھاگ کر شیرو کو گلے لگا لیتی ہے اور پیار سے اسے غصہ دیکھا کر ڈانٹنے لگتی ہے. . . .
نائلہ :
کہاں رہ گیا تھا اتنی دیر سے کہاں تھا ؟
تجھے کہا تھا نہ کہ دوپہر تک لوٹ آنا تجھے میری کوئی پرواہ ہے کہ نہیں ؟
بول کہاں رہ گیا تھا ؟ . . . .
نائلہ کو ایسے حال میں دیکھ کر شیرو بھی اس کی ممتا کو دیکھ کر اس کے چہرے کو ہی دیکھے جا رہا تھا منہ سے کوئی الفاظ نہیں نکل رہے تھے . . . .
وہ سوچنے لگا ابھی تھوڑی ہی دیر سے آیا تو یہ حال ہے اگر میں کہیں دور چلا جاؤں تو کہیں ماں جدائی میں ہی مر جائے گی . . . .
کتنا پیار اور کتنی ممتا تھی نائلہ کی آنکھوں میں . . . .
تبھی پیچھے کھڑی ماہرہ کی نظر شیرو کے بازو پر بندھی پٹی پر جاتی ہے جو خون سے تھوڑی لال ہو رہی تھی . . .
ماہرہ من میں سوچتی ہے کہ اگر باجی نے دیکھ لیا تو سب کی شامت آ جائے گی . . .
سب سے زیادہ تو اس کی واٹ لگے گی اور پھر نائلہ دوبارہ کبھی شیرو کو شہر جانے بھی نہیں دے گی . . .
اس لئے وہ جلدی سے آگے آتی ہے اور نائلہ سے کہتی ہے . . . .
ماہرہ :
کیا باجی دروازے پر ہی کلاس لگا دو گی . . .
اب صبح سے گھر سے گیا ہے اتنا سفر کر کے آیا ہے تھک گیا ہوگا پتہ نہیں کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں . . .
اپنے لال کو پہلے کچھ کھلا پلا دو پھر کرتی رہنا باتیں. . . . .
اتنا کہہ کر ماہرہ شیرو کے اس بازو کو چھپا لیتی ہے جہاں چوٹ لگی تھی اور شیرو کو کمرے میں لے جانے لگتی ہے . . . .
نائلہ بھی ممتا میں ڈوبی جلدی سے کچن میں جاتی ہے شیرو کے لیے کچھ کھانے کو لینے . . .
ابھی تک اس کی نظر شیرو کی چوٹ پر نہیں گئی تھی . . . .
ماہرہ :
( جلدی سے شیرو کو کمرے میں لے جا کر کہتی ہے )
تمہاری کلاس تو میں بعد میں لوں گی جا پہلے اپنی شرٹ چینج کر اگر یہ زخم باجی نے دیکھ لیا باجی سارا گھر سر پہ اٹھا لے گی . . .
شیرو کو بھی یاد آتا ہے وہ کیسے بھول گیا کم سے کم پٹی تو اُتَر دیتا . . . .
پھر شیرو جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگتا ہے اور جا کر شرٹ چینج کر کے واپس چھوٹی مامی کے پاس آکر بیٹھ جاتا ہے . . .
اتنے میں نائلہ گرما گرم دودھ اور کھانے کے لیے چاول لے آتی ہے . . .
شیرو :
ارے اما میرا پیٹ بھرا ہوا ہے ضرورت نہیں کسی کی . . .
نائلہ :
چُپ چاپ دودھ پی اور یہ چاول کھا
پتہ ہے مجھے بھوک ہے کہ نہیں . . .
شیرو چُپ چاپ دودھ کا گلاس پکڑ کر پینے لگتا ہے اور چاول کھاتا ہے . . .
نائلہ :
یہ مت سوچنا کہ میں ناراض نہیں ہوں
تجھے اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گی تو جو مستی کرنا پھیرتا ہے باہر مجھے سب پتہ ہے . . .
تبھی نائلہ کا دھیان شیرو کی شرٹ پر جاتا ہے. . .
نائلہ :
ابھی تو تو نے دوسری شرٹ پہنی تھی یہ کب بَدَل لی . . .
نائلہ کی بات سن کر شیرو ہڑبڑا جاتا ہے مگر ماہرہ درمیان میں بول پڑتی ہے . . .
ماہرہ :
وہ کیا ہے نہ باجی وہ میرے ہاتھ سے تیل کی بوتل شیرو کے اوپر گر گئی تھی آتے ہی تو اس لئے میں نے کہا کہ جا پہلے شرٹ چینج کر لے . . .
یہ سن کر شیرو سکون کی سانس لیتا ہے اور نظروں سے چھوٹی مامی کو تھینکس کہتا ہے بات سنبھالنے کے لیے. . . .
نائلہ :
اب بتا پہلے کہ اتنا وقت کہاں لگ گیا تجھے ؟ . . .
شیرو :
وہ وہ . . اما . . وہ کیا ہے نہ کے تمہیں پتہ ہے نہ کے بس دو گھنٹے بعد چلتی ہے شہر سے گاؤں کے لیے . . . ،
وہ دوپہر والی بس دو منٹ پہلے نکل گئی تھی اس لئے وہ چھوٹ گئی اور ہم دو گھنٹے بس اسٹاپ پر اگلی بس کے انتظار میں بیٹھے رہے بس اس لیے دیر ہو گئی . . .
نائلہ :
تو دھیان رکھنا چاہیے تھا نہ ٹائم کا اب اگلی بار ایسی غلطی دوبارہ نہیں ہونی چاہیے . . .
شیرو :
اما میں اگلی بار سے دھیان رکھوں گا . . . .
ماہرہ :
باجی میں کیا کہتی ہوں کہ ہم شیرو کو ایک بائیک لے دیں تاکہ بس کا جھنجھٹ ہی ختم ہو جاۓ . . .
ویسے بھی اگر کہیں کبھی ضروری جانا پڑ جائے تو شیرو ہمیں لے جا سکے گا اور کوئی کام بھی ہو تو دیکھ لے گا اب تو بڑا ہو گیا ہے . . .
نائلہ :
پھر تو شہزادے صاحب گھر پر بیٹھیں گے ہی نہیں ایسے ہی گھومتے رہیں گے . . . .
ماہرہ :
کیا باجی تم بھی !
کیا تمہیں بھروسہ نہیں اپنے بیٹے پر . . .
شیرو :
نہیں چھوٹی مامی مجھے ضرورت نہیں ہے . . . ،
ویسے بھی ماما کے پاس بائیک تو ہے نہ . . .
ماہرہ :
تو چُپ رہ . . ،
تیرے ماما کے پاس تو وقت ہی نہیں ہوتا ہمارے لیے . . .
کم سے کم تو ہی ہمارے چھوٹے چھوٹے کم کر دیا کرے گا . . .
شیرو :
تو آپ کو یہ بائیک اپنے لیے چاہیے نہ کے میرے لیے . . .
ماہرہ بڑی بڑی آنکھیں نکالتی ہے شیرو کو دیکھ کر . . .
ماہرہ :
ہاں ایسا ہی سمجھ لے . . . تو کیا ہمارا کام نہیں کرے گا بول . . . .
شیرو :
ارے ایسا بھلا ہو سکتا ہے کبھی آپ سب تو میرے لیے سب سے پہلے ہیں . . . .
نائلہ :
میرا بچہ
( شیرو کو گلے لگاتے ہوئے )
تو تو اِس گھر کی جان ہے سب کچھ تیرا ہی تو ہے . . .
ایسے ہی تھوڑی بہت باتوں کے بعد شام کا كھانا بنانے کا وقت ہو جاتا ہے اور تینوں مل کر كھانا بناتی ہیں . . .
تینوں ماموں بھی لوٹ آتے ہیں اور رات کا كھانا کھانے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں . . .
رات کو بختیار دوست کے ضروری کام کا بہانہ بنا کر اپنے دوست سے ملنے نکل جاتا ہے تو ماہرہ سوچتی ہے کہ ابھی سب اپنے کمروں میں ہیں یہی سہی وقت ہے شیرو سے پوچھنے کا کہ آخر اسے چوٹ کیسے لگی . . . .
ماہرہ دھیرے دھیرے چپکے سے شیرو کے کمرے میں چلی جاتی ہے تو دیکھتی ہے کہ . . . .
شیرو بیڈ پر لیٹا چھت کو دیکھ رہا تھا . . . ،
اصل میں شیرو آج مہوش کے ساتھ ہوئے بس والے حادثے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ آخر کیوں وہ خود پر کنٹرول نہیں کر پا رہا تھا وہ کیا سوچ رہی ہوگی میرے بارے میں . . .
تبھی ماہرہ کمرے میں داخل ہوتی ہے اور دروازہ بند کر کے شیرو کے پاس آتی ہے . . .
ماہرہ :
تو بتا آج کیا کر کہ آیا ہے . . . ،
اور کہاں سے چوٹ لگی ہے ؟
شیرو خیالوں کی دنیا سے باہر آتا ہے اور چھوٹی مامی کو دیکھ کر چونک جاتا ہے . . .
شیرو :
ارے مامی اِس وقت آپ یہاں . . .
ماہرہ :
کیوں کیا نہیں آ سکتی میں یہاں . . .
شیرو :
ارے نہیں نہیں میرا وہ مطلب نہیں . . .
ماہرہ :
تو میری بات کا جواب دے پہلے کہ کہاں سے چوٹ لگی ہے دیکھا مجھے کتنی چوٹ ہے . . .
شیرو منع کرتا رہتا ہے لیکن ماہرہ شیرو کی شرٹ اتروا کر بازو دیکھنے لگتی ہے . . .
پٹی ہٹا کر جب زخم دیکھتی ہے تو اسے ایک کٹ نظر آتا ہے
شیرو :
ارے کچھ نہیں مامی وہ بس ایسے بس میں خاروچ لگ گئی تھی دروازے سے . . .
ماہرہ شیرو کی آنکھوں کو پڑھنے کی کوشش کرتی ہے . . . ،
شیرو ضرور کچھ چھپا رہا ہے . . .
ماہرہ :
اچھا مامی سے بولنے میں ڈر رہا ہے تو دوست کو ہی بول دے . . .
دوستوں سے کوئی بات چھپائی نہیں جاتی . . .
شیرو :
ارے مامی کچھ بھی تو نہیں ایسی کوئی بات نہیں . . .
ماہرہ اٹھ جاتی ہے بیڈ سے اور باہر جانے کو موڑتی ہے . . .
ماہرہ :
ٹھیک ہے اگر تو مجھے اپنا دوست نہیں سمجھتا تو میں چلتی ہوں . . .
شیرو اچانک اُٹھ کر مامی کا ہاتھ پکڑ کر واپس کھینچ کر بیڈ پر بیٹھا لیتا ہے . . .
شیرو :
اچھا بابا بتاتا ہوں مگر پہلے وعدہ کرو یہ بات کسی کو پتہ نہیں چلنی چاہیے اور نہ ہی آپ غصہ کرو گی. . . .
ماہرہ :
وعدہ ! میں کسی کو نہیں بتاؤں گی اور نہ غصہ کروں گی . . .
پھر شیرو سارا واقعہ بتا دیتا ہے کہ کیسے اس نے عورت کی مدد کی اور چوٹ لگی . . .
ماہرہ حیرانی سے دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھا کر کہتی ہے . . .
ماہرہ :
ہاے . . . اگر تجھے کچھ ہو جاتا تو کبھی سوچا ہے . . .
کیا ضرورت تھی ہیرو بننے کی اگر چوٹ کہیں اور لگ جاتی تو . . . ،
اگر تمہاری جان پر بن آتی تو سوچا ہے کہ باجی کا کیا ہوتا . . .
تمھارے ذرا لیٹ ہونے پر سارا گھر سر پہ اٹھا لیا تھا . . . سوچ ان کا کیا ہوتا . . .
شیرو :
مامی جی یہ بھی تو سوچیں اگر اس عورت کی جگہ آپ ہوتی یا اما ہوتی یا دیبا مامی ہوتی تو کیا میں ایسا نہیں کرتا . . .
ماہرہ چُپ ہو جاتی ہے آخر شیرو ایک غیرت مند لڑکا تھا پھر وہ کیسے برداشت کرتا کہ اس کے سامنے کسی عورت کے ساتھ زیادتی ہو جائے . . .
ماہرہ :
تو تو لاکھوں میں ایک ہے سب کو تیرے جیسا بیٹا ملے . . .
اچھا یہ تو بتا پھر کیا کیا کیا سارا دن کون کون تھا ساتھ . . . .
شیرو سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کیا جواب دے . . . ،
مہوش کے بارے میں بتائے یا نہیں . . .
شیرو کو سوچتے دیکھ کر ماہرہ بولتی ہے. . . .
ماہرہ :
اتنا سوچنے کی کیا بات ہے . . . ،
جو بھی ہے دِل کھول کر بتا میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گی . . . .
کوئی تو بات ضرور ہے تیرے دِل میں جو تو ایسے سوچ میں گم تھا . . . ، ،
چل بتا جلدی سوچ مت . . .
شیرو پھر مہوش اور شہناز کے ساتھ جانے کے بارے میں بتا دیتا ہے اور یہ بھی کہ یہ پلان راجو کا تھا شہناز کے ساتھ اس کی سیٹنگ کرنے کا . . .
شیرو کو مہوش کا خط یاد آ جاتا ہے اور وہ جلدی سے اپنے کپڑے جو وہ بَدَل چکا تھا اس میں سے خط نکال کر دیکھاتا ہے . . . .
ماہرہ مہوش کا خط شیرو سے لے کر پڑھنے لگتی ہے . . . .
خط پڑھتے پڑھتے ماہرہ کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں . . . ،
شیرو حیرانی سے چھوٹی مامی کو دیکھتا جا رہا تھا کو ایسا کیا لکھا ہے خط میں . . .
تھوڑی دیر بعد ماہرہ خط پڑھ کر اپنی آنکھوں کو دوپٹے کے پلو سے صاف کر کے شیرو کو دیکھتی ہے اور کہتی ہے . . .
ماہرہ :
تم نے یہ خط پڑھا تھا یا نہیں ؟ . . .
شیرو نہ میں گردن ہلا دیتا ہے . . .
ماہرہ :
اِس خط کا ایک ایک لفظ اس نے اپنے دِل کے خون سے لکھا ہے . . . ،
بہت پیار کرتی ہے وہ تمہیں پلیز اس کا دِل مت توڑنا ایسا پیار تو لاکھوں میں کسی کسی کو ملتا ہے . . . .
کل ہی جا کر اسے ہاں بول دے میری پوری سپورٹ ہے . . . .
میں سب دیکھ لوں گی تو فکر مت کرنا . . .
شیرو حیرانی سے ماہرہ کی باتیں سن رہا تھا . . . .
شیرو :
یہ آپ کیا کہہ رہی ہو مامی آپ کو تو پتہ ہے میں ان سب سے دور رہتا ہوں اور آپ خود مجھے یہ کرنے کو بول رہی ہیں . . . .
ماہرہ :
ہاں میں کہہ رہی ہوں . . . ،
تو کیا سمجھے گا سچا پیار کسے کہتے ہیں. . . ،
تو کیا جانے ایک لڑکی جب کسی کو اپنے من کا راجہ بنا لیتی ہے تو پھر اور کسی کو قبول نہیں کرتی . . . .
تو بس اسے ہاں کر دے اس کے پیار کی لاج رکھ لے اگر میری باتوں کی کوئی اہمیت ہے تو اسے اداس مت کرنا . . .
اتنا کہہ کر چھوٹی مامی اپنی آنکھوں کے آنسو صاف کر کے کمرے سے نکل جاتی ہے . . . ،
شیرو اکیلا بیٹھا جانے کب تک مہوش اور مامی کی باتوں کے بارے میں سوچتا رہتا ہے اور ایسے ہی سو جاتا ہے . . . .
ماہرہ اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹی مہوش کے خط کو دیکھتے ہوئے سوچتی رہتی ہے کہ . . . .
مہوش کتنی اچھی لڑکی ہے اور خوبصورت بھی ہے اور کتنا پیار کرتی ہے شیرو کو اس کے خط کا ایک ایک لفظ اِس بات کی گواہی دے رہا ہے یوں ہی دیر تک سوچتی رہتی ہے . . . .
بختیار بھی گھر نہیں لوٹا تھا . . .
اچانک ماہرہ کو یاد آتا ہے کہ شیرو کو تو چوٹ لگی ہے اوپر سے کوئی دوا بھی تو نہیں لگائی اس نے کہیں آدھی رات کو اسے درد ہونے لگا تو . . .
اتنا سوچ کر ماہرہ ایک پین کلر لے کر شیرو کے کمرے کی طرف بڑھتی ہے ہر طرف اندھیرا تھا. . . .
رات کا ایک بج رہا تھا ماہرہ فکر میں کھوئی فٹا فٹ شیرو کے کمرے کی طرف جاتی ہے کہ شاید ابھی جاگ رہا ہو . . . .
ماہرہ جب شیرو کے کمرے میں پہنچتی ہے لائٹ جلا کر جیسے ہی شیرو کی طرف دیکھتی ہے تو اس کا حلق خشک ہو جاتا ہے . . . .
دراصل آج دن کے واقعہ سے شیرو کا لنڈ غصے میں سر اٹھائے کھڑا تھا . . .
شیرو تو سو رہا تھا مگر لوڑا غصے میں پھنکار رہا تھا شاید شیرو خواب میں بس والا منظر دیکھ رہا تھا . . .
ماہرہ ٹک ٹکی باندھ کر شیرو کی شلوار کے ابھار کو دیکھ رہی تھی . . . ،
شلوار کے ابھار سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کوئی معمولی لنڈ نہیں ہے . . . ،
یہ تو ایک تگڑا لوڑا ہے . . .
اتنی چھوٹی عمر میں ایسا تگڑا لنڈ بہت حیرانی کی بات ہے مگر ہو بھی کیوں نہ باڈی بھی تو کتنی بنائی ہوئی ہے شیرو نے پہلوانی کرتا ہے تو لنڈ کیسے تگڑا نہ ہو . . . .
ایسا لوڑا اگر مہوش جیسی کنواری لڑکی کی پھدی میں جائے گا تو وہ بے چاری ہسپتال پہنچ جائے گی . . . .
مہوش کیا اگر میری جیسی شادی شدہ عورت کی پھدی میں بھی گھس جائے تو بھوسڑا بنا کر ہی نکلے گا . . .
اتنا سوچتے ہی ماہرہ کی پھدی گیلی ہونے لگتی ہے . . .
تبھی اس کے من میں دوسرا خیال آنے لگتا ہے کہ . . . .
ہائے ہائے یہ میں کیا سوچنے لگی شیرو تو میرے بیٹے جیسا ایسا سوچنا بھی گناہ ہے . . .
اتنا سوچتے ہی ماہرہ جلدی سے لائٹ بند کر کہ . . .
اپنے کمرے میں بھاگ جاتی ہے . . .
اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پر لیٹ جاتی ہے اور سونے کی کوشش کرتی ہے مگر بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے شیرو کے لنڈ کا ابھار آنے لگتا ہے . . . .
کتنا فرق تھا بختیار اور شیرو کے لوڑے میں
کہاں بختیار کا پانچ انچ کا پتلہ سا لنڈ کہاں شیرو کا موٹا تگڑا لنڈ . . . .
نہ چاہتے ہوئے بھی وہ دونوں کے لوڑوں کا مقابلہ کرنے لگتی ہے . . . .
اور ہوس میں ڈوبنے لگتی ہے . . .
کب اس کا ہاتھ نیچے پھدی پر چلا گیا اسے پتہ ہی نہیں چلا . . .
دھیرے دھیرے شلوار کو رانوں تک اتار کر ایک ہاتھ سے پھدی کو سہلانے لگتی ہے . . .
اِس وقت اسے چدائی کی سخت ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے مگر بختیار تو گھر پر نہیں تھا . . .
ویسے بھی کئی ہفتوں سے بختیار نے ماہرہ کو چودا نہیں تھا جب کے شادی کے بعد روزانہ بختیار دو تین بار اسے چود دیتا تھا مگر پچھلے ایک سال سے اب بختیار بہت زور ڈالنے پر ہی ماہرہ کی چدائی کرتا تھا . . .
شیرو کے لنڈ کو یاد کرتے کرتے ماہرہ اپنی پھدی کو زور زور سے سہلاتی جا رہی تھی . . . .
ماہرہ :
او . . آہ . .کتنا بڑا لنڈ ہے . . .
س س س . . . آہ . . . ایک بار میں ہی پھدی کا بھوسڑا بنا دے گا . . .
ک ک ک . . کہاں رہ گیا بختیار . . .
آو چودو . . . مجھے دیکھو میری چوت کیسے آنسو بہا رہی ہے . . . .
کہاں چلے گئے بختیار . . .
آہ جلدی آؤ چودو مجھے . . آہ . . . کتنا بڑا لوڑا ہے آہ . . . . .
اور تیز رفتاری سے انگلی اپنی پھدی میں چلانے لگتی ہے . . . .
آہ ہ ہ . . . اف ف ف . . . . بختیار . . . چودو مجھے . . . آہ . . ہاں . . . آہ . . . .
ایسے انگلی کرتے کرتے اس کا پانی نکل جاتا ہے اور وہ ٹھنڈی پڑ جاتی ہے . . .
جیسے ہی ٹھنڈی ہوتی ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ اس نے ابھی اپنے بانجھے کا نام لے کر پانی نکالا اس کے لوڑے کو یاد کر کے وہ فارغ ہوئی ہے تو خود سے ہی شرمندہ ہونے لگتی ہے کافی دیر بعد اس کی بھی آنکھ لگ جاتی ہے . . . .
اگلی صبح شیرو اکھاڑے سے ہو کر گھر آتا ہے . . . .
شیرو آج صبح سے ہی مہوش اور چھوٹی مامی کی باتوں کی وجہ سے سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ آخر اسے کیا کرنا چاہیے . . .
کیا اسے مہوش کے پیار کو قبول کر لینا چاہیے یا پھر اپنی کثرت اور پڑھائی پر فوکس کرنا چاہیے . . . .
یونہی خیالوں کی دنیا میں پھنسا ہوا شیرو ناشتہ کر کے گھر سے نکل جاتا ہے . . . .
شیرو نے اِرادَہ کر لیا تھا کہ وہ مہوش سے اِس بارے میں ایک بار بات کرے گا یہی سوچ کر وہ اسکول کی طرف چل پڑتا ہے . . .
کیوںکہ مہوش کا گھر اسکول کے پاس ہی تھا . . .
خوش قسمتی سے مہوش گھر سے کپڑے دھونے کے لیے نہر پر جانے کے لیے گھر سے نکل ہی رہی تھی تو شیرو اسے اشارہ کرتا ہے . . .
اور مہوش بھی اشارے سے اسے نہر پر چلنے کا بتا دیتی ہے . . . .
مہوش تو من ہی من خوش ہو رہی تھی کہ شیرو خود اس سے ملنے آیا ہے مطلب اس نے اس کے پیار کو قبول کر لیا . . .
تھوڑی دیر میں ہی دونوں نہر کنارے پہنچ جاتے ہیں . . . ،
مہوش جان بوجھ کر آج تھوڑا دور نکل آئی تھی اس جگہ سے جہاں سب عورتیں کپڑے دھوتی تھی تاکہ کوئی انہیں دیکھ نہ سکے . . .
شیرو جب دیکھتا ہے کہ آس پاس کوئی نہیں ہے تو وہ مہوش سے بات چیت شروع کرتا ہے . . .
شیرو :
مہوش کیا تم سچ مچ مجھ سے پیار کرتی ہو ؟ . . . .
مہوش :
کیا ابھی بھی یقین نہیں تمہیں ؟
کیا تمہیں میرے پیار پر کوئی شک ہے ؟
تو بتاؤ میں تمہیں کیسے یقین دلواؤں . . .
شیرو :
میرے کہنے کا مطلب ہے کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ تمہیں مجھ سے پیار ہے جب کہ میرے دِل میں تو ایسی کوئی جذبات نہیں ہے. . . .
مہوش :
میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے بس تمھارے سوا اور کسی کو نہ دیکھا نہ سوچا ہے . . . ،
میرے دل و دماغ میں صرف تمہاری ہی پرچھائی ہے . . . ،
تمھارے بغیر میں زندگی جینے کا سوچ بھی نہیں سکتی . . .
شیرو :
ایسے مت کہو مہوش زندگی کسی ایک کے لیے نہیں ہوتی ہمیں سب کے لیے خود کی خوشیوں کو قربان کر کے بھی جینا پڑتا ہے . . . ،
تم میرے لیے یوں زندگی برباد مت کرو میرا کیا ہے اپنے مامووں کے رحم و کرم پر ہوں . . . ،
میری زندگی کے فیصلے میں نہیں کر سکتا اور اوپر سے ابھی مجھے اور پڑھنا ہے بڑا آدمی بننا ہے ابھی سے شادی بیاہ کے چکر میں میں پھنسنا نہیں چاہتا. . . . .
مہوش :
میں یہ تو نہیں کہہ رہی کہ تم مجھ سے شادی کرلو ابھی . . .
میں تو بس اتنا چاہتی ہوں کہ تم مجھے تھوڑا سا اپنا پیار دے دو مجھے اپنے دِل میں تھوڑی جگہ دے دو . . . .
شیرو :
مہوش اگر کسی کو پتہ چل گیا تو گاؤں میں بدنامی ہو جائے گی . . . .
مہوش :
مجھے کچھ نہیں پتہ مجھے بس تمہارا پیار چاہیے پھر چاہے مجھے موت ہی کیوں نہ آ جائے . . .
شیرو :
( اچانک سے مہوش کے منہ پر ہاتھ رکھا کر )
نہیں نہیں ایسا مت کہو مہوش تمہیں تو میری بھی عمر لگ جائے . . . ،
واقعی میں قسمت والا ہوں کہ مجھے اتنا پیار کرنے والی لڑکی ملی . . . .
اتنا سنتے ہی مہوش کا روم روم کھل اٹھتا ہے اور وہ شیرو کے گلے لگ جاتی ہے . . . ،
دونوں ایسے ہی ایک دوسرے کے پیار کو محسوس کر کے ایک دوسرے سے گلے ملے اِس انوکھے احساس میں کھوئے جانے کتنی دیر یونہی ایک دوسرے کی بانہوں میں جھولتے کھڑے رہتے ہیں . . . .
پھر شیرو تھوڑا پیچھے ہٹ کر مہوش کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں پکڑتا ہے . . .
اور مہوش کی آنکھوں میں دیکھنے لگتا ہے . . . ،
پھر پیار سے مہوش کے ماتھے کو چوم لیتا ہے . . .
مہوش تو جیسے خوابوں میں کھوئی ہوئی تھی اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ کوئی خواب ہی ہے مگر جلدی ہی خواب ٹوٹ جاتا ہے کھیتوں کی طرف سے آہٹ سن کر شیرو مہوش کو الگ کر دیتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ . . . .
جاؤ جہاں سب کپڑے دھوتے ہیں اسی جگہ کپڑے دھو لو تم بھی جا کر . . . ،
لگتا ہے اِس طرف کوئی آ رہا ہے . . .
مہوش وہاں سے دوسری جگہ چلی جاتی ہے شیرو وہیں کھڑا رہتا ہے تھوڑی دیر تک . . . . .
تاکہ مہوش پہلے وہاں پہنچ جائے . . . ،
ابھی شیرو وہیں کھڑا ہی تھا کہ اس کھیت کی طرف سے چھوٹے ماموں یعنی کہ بختیار نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے . . . .
شیرو وہیں سائڈ میں چھپ جاتا ہے اور بختیار وہاں سے نکل جاتا ہے . . . ،
شیرو من میں سوچنے لگتا ہے چھوٹے ماموں کو بھلا اس کھیت میں کیا کام اِس طرف تو کوئی بھی نہیں آتا . . . . .
ابھی شیرو سوچ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے ایک اور شخص کی آہٹ سنائی دیتی ہے اور شیرو چھپ کر دیکھنے لگتا ہے . . . ،
وہ شخص ایک عورت تھی گاؤں میں ہی رہتی تھی جس کا نام مینا تھا اس کا شوہر ماموں کے کھیتوں میں مزدوری کرتا تھا. . .
مینا کی عمر 36 سال ہے اور رنگ سانولا . . .
شیرو سوچنے لگتا ہے یہ بھی کھیت سے آ رہی ہے ابھی ماما نکلے ہیں مطلب کچھ تو گڑبڑ ہے پتہ لگانا پڑے گا آخر ماجرہ کیا ہے. . . .
مینا کے جانے کے بعد شیرو وہاں سے نکل کر اپنے کھیتوں میں چلا جاتا ہے جہاں دلدار ماموں درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھے تھے شیرو ان کے پاس چلا جاتا ہے . . .
دلدار :
آؤ آؤ بارخوردار کہاں سے آ رہے ہو . . . .
شیرو :
بس گھر سے ہی آ رہا ہوں ماموں جی سوچا آپ کا ہاتھ بٹا دوں . . . .
دلدار :
یہ اچھا کیا تم نے . . . ،
بڑے بھئیا کو تو جرگے والے ہی آرام سے بیٹھنے نہیں دیتے کبھی کہیں کبھی کہیں لے جاتے ہیں فیصلوں پر یا میٹنگس پر اور بختیار پتہ نہیں کہاں آج کل دوستوں کے ساتھ نکل جاتا ہے . . . .
شیرو :
کیا بات کر رہے ہیں ماموں جی چھوٹے ماموں کھیتوں میں نہیں آتے آپ کے ساتھ. . . .
دلدار :
ارے آتا تو ہے مگر پتہ نہیں کہاں کون سے دوستوں سے ملنے نکل جاتا ہے . . . .
شیرو :
( من میں سوچتا ہے اس کا مطلب چھوٹے ماموں روز مینا کے ساتھ اس جنگل والے کھیت میں جاتے ہیں )
ماموں جی کیا آپ نے کبھی نہیں پوچھا کہ کون سے دوستوں کے پاس جاتے ہیں . . .
دلدار :
اب وہ کوئی بچہ تو ہے نہیں کہ میں اس سے پوچھوں وہ سب چھوڑ تو . . . تو پڑھنے لکھنے میں ہوشیار ہے یہ لے بھائی کھاتا ذرا فصل کا حساب تو لگا کہ کتنا خرچہ ہوا کتنی آمدن ہوئی اور حکومت کے کھاتے سے اپنا کھاتا ملا کر دیکھ میں تو پڑھا کم ہوں مجھے سمجھ نہیں آتا پہلے بڑے بھئیا کرتے تھے حساب ان کے پاس وقت نہیں ہوتا اب ذمہ داری بختیار کی ہے مگر وہ بھی غائب رہتا ہے . . . . ،
تو ہی چیک کر لے . . . .
شیرو بھی کھاتا پکڑ کر حساب کرنے لگتا ہے اور ساتھ میں حکومت کے کھاتے کو ملاتا ہے کافی دیر تک حساب کتاب کرنے کے بعد شیرو کو کھاتے میں کچھ گڑبڑ لگتی ہے . . .
شیرو :
ماموں جی کیا اِس سال کھاد پچھلے سال سے زیادہ ڈالی ہے کھیتوں میں . . .
دلدار :
نہیں تو . . . ،
کھاد تو اتنی ہی ڈالی ہے . . . .
شیرو :
مگر یہ تو کھاد پچھلے سال کے مقابلے میں ایک لاکھ روپے زیادہ بتا رہا ہے . . .
دلدار :
( چونک کر )
کیا ! ! مگر ہم نے تو کھاد اتنی ہی منگوائی تھی . . .
شیرو :
کھاد کون لینے جاتا ہے . . . .
دلدار :
وہ کام تو بختیار ہی کرتا ہے . . .
شیرو :
اور یہ دو لاکھ روپے حکومت سے آپ نے کس لیے . . ، لیے تھے . . .
دلدار :
(حیرانی سے شیرو کو دیکھتا ہوا )
ہم نے تو کوئی پیسہ نہیں لیا حکومت سے اِس سال . . . ،
زرا دھیان سے دیکھ کہیں کوئی غلطی تو نہیں ہوئی . . . .
شیرو :
نہیں ماموں جی یہ کھاتا اپنے جو دیا یہ یہی بتا رہا ہے . . . .
دلدار :
یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟
لگتا ہے کھاتے میں کوئی غلطی ہو گئی ہے میں بختیار کو بولوں گا کہ کھاتا ٹھیک کروا کر آئے حکومت کے پاس جا کر . . . .
شیرو من میں سوچتا ہے ہو نہ ہو یہ پیسوں کی گڑبڑ چھوٹے ماموں ہی کر رہے ہیں اور کہیں نہ کہیں مینا اس میں شامل ہے مجھے پتہ لگانا ہوگا . . .
یونہی کچھ وقت گزارنے کے بعد شیرو گھر کی طرف چل پڑتا ہے . . . ،
گھر آ کر كھانا کھاتا ہے تو اس کے من میں خیال ہے کہ . . .
آج صبح سے چھوٹی مامی نہیں دیکھی ان سے ملتا ہوں اور ان سے پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہوں چھوٹے ماموں کی حرکتوں کا . . .
شیرو كھانا کھا کر چھوٹی مامی کے کمرے میں جاتا ہے جہاں چھوٹی مامی اپنی سوچ میں گم آئینے کے سامنے بیٹھی تھی . . .
شیرو :
اب بس بھی کیجیے مامی جی کیا خود کو نظر لگائیں گی . . . .
ماہرہ ہڑبڑا جاتی ہے اچانک سے . . .
ماہرہ :
شیرو تم کب آئے . . . .
شیرو :
میں تو کتنی دیر سے کھڑا دیکھ رہا ہوں کہ مامی جی خود کو ہی دیکھے جا رہی ہیں آئینے میں . . . .
ماہرہ :
ارے ایسی کوئی بات نہیں آ بیٹھ کیا کام تھا بتا . . . .
شیرو :
کام تو کچھ نہیں میں تو دیکھنے آیا تھا کہ چھوٹی مامی آج صبح سے نظر نہیں آئی بات کیا ہے . . .
ماہرہ من میں سوچتی ہے کہ اب کیا بتاؤں میں تو خود سے ہی شرمندہ ہوں کل رات کی حرکت کی وجہ سے . . . .
ماہرہ :
ارے کچھ نہیں میں تو یہیں تھی . . .
شیرو :
اچھا یہ بتائیں مامی جی کے بختیار ماموں آج کل کہاں مصروف رہتے ہیں کھیتوں میں بھی کم جاتے ہیں . . .
ماہرہ :
کیا ؟ ؟ کھیتوں میں نہیں جاتے تو پھر کہاں جاتے ہیں ؟ . . .
شیرو :
دلدار ماموں بتا رہے تھے کہ آج کل دوستوں کے ساتھ زیادہ مل جول بڑھا رکھا ہے ماموں نے . . .
ماہرہ :
ہاں کئی بار رات کو بھی نکل جاتے ہیں دوستوں کے ساتھ پارٹی کا بہانہ بنا کر کل رات بھی گھر نہیں تھے . . . .
شیرو چھوٹی مامی کے جواب سے چونک جاتا ہے مطلب ماموں ساری رات گھر نہیں تھے اور صبح جنگل والے کھیت سے نکل رہے تھے کچھ تو گڑبڑ ہے مجھے پتہ لگانا ہی ہوگا اور یہ دوست اور کوئی نہیں مینا ہی ہے جس کے پاس جاتے ہیں ماموں . . . . .
شیرو :
اچھا وہ بات چھوڑو آپ مجھے یہ بتاؤ کہ مہوش کے ساتھ مجھے کیا کرنا چاہیے . . .
ماہرہ :
کیا کرنا چاہیے مطلب !
تو چپ چاپ سیدھے سیدھے اس کے پیار کو قبول کرلے پاگل ایسا پیار نصیب سے ملتا ہے . . . .
شیرو :
اب آپ اتنا اصرار کر رہی ہیں تو بھلا میں کیسے انکار کر سکتا ہوں . . .
ماہرہ :
اس کا مطلب تو اسے ہاں بول دے گا . . . .
شیرو :
ہاں بول دوں گا نہیں ، ہاں بول دیا . . .
ماہرہ :
( حیرانی سے دیکھتی ہوئی )
کیا مطلب . . .
شیرو :
مطلب مامی جی میں اس سے مل کر آ رہا ہوں اور میں نے اسے ہاں بول دیا ہے . . . .
ماہرہ :
اچھا ! ! تو کیا کہا اس نے اس کا ری ایکشن کیا تھا . . . .
شیرو :
وہ تو بےچاری بہت بھولی ہے اگر تھوڑی دیر اور اسے نہ بتاتا تو شاید رونے ہی لگتی . . . .
مگر جب میں نے اس کے پیار کو قبول کرنے کی بات کہی تو وہ میرے گلے لگ گئی اور پتہ نہیں کب تک ہم گلے ملے رہے . . .
ماہرہ :
واہ میرے شیر گلے بھی لگا لیا پہلی ہی ملاقات میں . . . ،
کچھ اور بھی کیا یا نہیں . . .
شیرو :
اور بھلا کیا کرتا میں . . . .
ماہرہ :
ارے بدھو لڑکیاں کچھ نہیں کرتی جو کرتا ہے لڑکا ہی کرتا ہے . . ، تو نے اسے کس کیا ؟
شیرو :
(شرما کر )
کیا نہ . . .
ماہرہ :
( مزے لیتے ہوئے )
کہاں کس کیا . . .
شیرو :
کہاں کرتا ؟ اس کے ماتھے پر اور کہاں . . .
ماہرہ :
تو بدھو ہی رہے گا . . . ، معشوقہ کو بھلا ماتھے پر کس کرتے ہیں . . . ، اسے تو گالوں پر اور ہونٹوں پر کس کرتے ہیں . . . .
اتنا سن کر شیرو شرما کر نظریں نیچے کر لیتا ہے وہیں ماہرہ بھی بول تو گئی تھی مگر اب اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے کیا کہہ دیا اور وہ بھی ہڑبڑا جاتی ہے . . . .
شیرو :
کیا مامی آپ ہر وقت میری کھینچائی کرتی رہتی ہو . . . .
ماہرہ :
( مزے لیتے ہوئے )
کیا کروں ہمارا ہیرو ہے ہی اتنا کیوٹ کہ ستانے میں مزہ آتا ہے . . . .
شیرو :
کیا مامی میں اب کوئی چھوٹا بچہ تھوڑا ہوں اب میں بڑا ہوگیا ہوں . . .
ماہرہ :
ہاں ہاں مجھے پتہ ہے تو کتنا بڑا ہوگیا ہے . . .
اتنا کہتے ہی ماہرہ کی آنکھوں کے سامنے کل رات والا شیرو کے لنڈ کا ابھار آ جاتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی نظر شیرو کی پینٹ پر لنڈ والی جگہ پر چلی جاتی ہے اور لنڈ کے ابھار کو کھوجنے لگتی ہے مگر ابھی تو لنڈ سو رہا تھا . . . .
شیرو :
اچھا مامی میں چلتا ہوں کل سے کالج شروع ہو رہے ہیں زرا راجو سے مل کر آتا ہوں . . . .
اتنا کہہ کر شیرو اُٹھ کر چلا جاتا ہے اور ماہرہ پھر سے خود کو کوسنے لگتی ہے اپنی اِس حرکت پر . . .
یونہی دن نکل جاتا ہے اور رات کا كھانا کھا کر سب اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں . . .
ماہرہ :
سنیے جی کتنے دن ہوگئے آج کچھ کیجیے نہ . .
بختیار :
چپ چاپ سو جاؤ مجھے نیند آ رہی ہے . . .
ماہرہ :
آپ ایسے ہی ہر بار بہانہ بنا دیتے ہیں میرا بھی تو سوچیے میں کیا کروں میری بھی ضرورتیں ہیں . . .
بختیار :
میں نے کہا نہ مجھے سونے دو میں تھکا ہوا ہوں مجھے نیند آ رہی ہے . . . .
ماہرہ :
اور میرا کیا . . . ، میری طرف آپ کا کوئی فرض نہیں ؟ . . .
میں دن رات تڑپتی رہتی ہوں اور مجھے ہاتھ بھی نہیں لگاتے . . . ،
پہلے تو پیچھے ہی پڑے رہتے تھے اب تو پاس بھی نہیں آتے . . .
بختیار :
بچوں جیسی باتیں مت کرو چپ چاپ سو جاؤ . . .
ماہرہ :
آخر کیا بات ہے آج میں پوچھ کر رہوں گی . . . ،
آخر کیوں میرے پاس نہیں آتے آپ بتائیں . . .
بختیار :
میں نے کہا نہ سو جاؤ مجھے نیند آ رہی ہے . . .
ماہرہ :
آج آپ کو بتانا ہی پڑے گا آخر کیا وجہ ہے . . .
بختیار :
وجہ جاننی ہے تمہیں وجہ جاننی ہے تو سن تو ایک بانجھ ہے ایک بچہ نہیں دے سکی مجھے اتنے سالوں میں . . . ،
میری تو قسمت ہی خراب ہے جو تو میرے پالے پڑ گئی . . . ،
اس لیے تیرے پاس نہیں آتا میں مجھے کوئی انٹرسٹ نہیں تجھ میں . . .
اتنا کہہ کر بختیار نے جیسے ماہرہ کے سر پر بم پھاڑ دیا ہو . . . ،
اس کی آنکھوں سے جھڑ جھڑ آنسوں بہنے لگتے ہیں آخر تھی تو یہ سچائی کہ اتنے سالوں میں ماہرہ ماں نہیں بن پائی تھی مگر کمی کس میں ہے اس کا فیصلہ کون کرے گا دنیا تو عورت کو ہی دوش دیتی ہے کمی چاہے مرد میں کیوں نہ ہو . . . . ،
اس کے بعد ماہرہ اور کچھ نہیں کہہ پاتی بس چُپ چاپ آنسو بہاتی رہتی ہے اور جانے کب رو رو کر آخر سو جاتی ہے . . . .
اگلی صبح شیرو اپنی روٹین سے اُٹھ کر اکھاڑے جاتا ہے اور واپس آ کر ناشتہ کر کے تیار ہو کر کالج چلا جاتا ہے . . . ،
دسمبر ایگزامس کی چھٹیوں کے بعد آج کالج کھلے تھے آج سب کو ان کے پیپر بھی دیکھائے جانے تھے اور شیرو بھی اپنی اسٹڈی پروگریس کی رپورٹ کارڈ دیکھنے کے لیے بےچین تھا . . .
حالاںکہ پڑھائی میں وہ ہمیشہ اول ہی رہتا تھا . . . .
اُدھر گھر پر صبح سے ماہرہ کمرے سے نہیں نکلی تھی نائلہ کو اس کی فکر ہو رہی تھی اس لئے نائلہ ماہرہ کے کمرے میں جاتی ہے . . .
نائلہ :
کیا بات ہے شہزادی صاحبہ آج بیڈ سے اٹھنا نہیں ہے کیا کہیں دیوار جی نے رات کو جگائے تو نہیں رکھا . . . .
نائلہ کی آواز سن کر جیسے ہی ماہرہ نائلہ کی طرف گھومتی ہے نائلہ اس کی آنکھوں کی سوجن دیکھ کر سہم جاتی ہے اور جلدی سے ماہرہ کے چہرے کو ہاتھوں میں پکڑ کر بولتی ہے . . . .
ماہرہ :
کیا ہوا چھوٹی تو نے یہ کیا حَال بنا رکھا ہے . . . .
ماہرہ :
( خود کو سنبھلتے ہوئے )
کچھ نہیں باجی . . کچھ بھی تو نہیں ہوا بھلا مجھے کیا ہوگا . . .
نائلہ :
جھوٹ مت بول تیری آنکھیں بتا رہی ہیں تو رات بھر روتی رہی ہے . . ،
بتا مجھے آخر کیا بات ہے کیا بختیار نے تم پر ہاتھ اٹھایا ہے بتا مجھے کیا بات ہے . . .
ماہرہ :
نہیں باجی ایسی کوئی بات نہیں ہے . . .
نائلہ :
دیکھ چھوٹی اگر تیرے دِل میں میری ذرا سی بھی عزت ہے تو بتا کیا بات ہے . . .
ماہرہ :
ایسے مت کہو باجی میں نے آپ کو ہمیشہ اپنی بڑی بہن مانا ہے آپ سے نہیں کہوں گی تو کس سے کہوں گی . . .
نائلہ :
تو بتا کیا بات ہے کس لیے تیری آنکھوں میں آنسو ہیں . . . . .
ماہرہ :
باجی میری قسمت ہی خراب ہے اتنے سالوں میں . . . میں اِس گھر کو ایک وارث نہیں دے پائی بس اسی لیے یہ مجھ سے ناراض ہیں اور کل رات کو مجھے بانجھ کہہ دیا انہوں نے اب تو میرے پاس بھی نہیں آتے . . . .
اتنا کہہ کر ماہرہ پھر آنسو بہانے لگتی ہے . . .
نائلہ :
( غصے میں )
کیا اس کی اتنی ہمت . . ،
اسے کوئی شرم نہیں کوئی لحاظ نہیں رشتوں کی . . . . ،
یہ تو اوپر والے کا کام ہے جسے چاہے بچہ دے چاہے نہ دے اس میں تیری غلطی کیا ہے . . .
میں اور دیبا بھی تو ماں نہیں بن پائی مگر ہمارے شوہروں نے کبھی ہم سے ایسی بات نہیں کی . . . ،
آنے دے بختیار کو میں کان کھنچتی ہوں اس کے. . . .
ماہرہ :
رہنے دو باجی اس سے بات بڑھ جائے گی وہ مجھ ہی دوش دے رہے ہیں اگر آپ بات کریں گی تو بھی مجھ پر ہی الزام لگائیں گے . . . ،
میں نہیں چاہتی کہ گھر کا ماحول خراب ہو . . .
نائلہ :
مگر ایسا کیسے چلے گا کب تک تو یونہی گھٹتی رہے گی اندر ہی اندر مجھے بات کرنے دے اس سے . . .
ماہرہ :
نہیں باجی آپ کو میری قسم آپ کچھ نہیں کہے گی . . . .
نائلہ چُپ ہو جاتی ہے اور ماہرہ کو پھر ایسے ہی تسلّی دیتی رہتی ہے اس کا من ہلکا کرنے کے لیے . . . .
اُدھر کالج میں سب کو پیپرز دکھا دیئے گئے تھے اِس بار بھی شیرو اپنی کلاس میں ٹاپ پر تھا . . .
شیرو اپنا رپورٹ کارڈ لے کر رکھ لیتا ہے سائن کروانے کے لیے . . .
کالج سے چھٹی کے بعد شیرو اور راجو گھر جانے کے لیے نکل ہی رہے تھے کہ راجو اسے نہر پر چلنے کو بولتا ہے مگر شیرو انکار کر دیتا ہے . . . .
راجو نہیں مانتا اور زبردستی شیرو کو ساتھ لے کر نہر پر چل پڑتا ہے . . . ،
دراصل راجو یہاں شہناز سے ملنے آیا تھا اِس لیے شیرو کو ساتھ لایا تھا کہ وہ خیال رکھ سکے . . . .
شیرو شہناز کو دیکھ کر سمجھ جاتا ہے مگر کہتا کچھ نہیں . . . ،
راجو :
دیکھ یار تیری بھابی سے تھوڑی دیر اکیلے میں بات کرنی ہے تو ذرا خیال رکھنا میں ابھی آیا . . .
شیرو :
کمینے مجھے چوکیدار بنا کر لایا ہے یہاں میں چلا گھر . . .
راجو :
شیرو پلیز یار اگر تو نہیں مدد کرے گا تو کون کرے گا پلیز مان جا . . . .
شیرو :
اوکے اوکے ڈرامہ بند کر مگر دس منٹ سے زیادہ میں نہیں روکوں گا اِس لیے جلدی آ جانا . . . . .
راجو :
میں بس ابھی آیا . . .
اتنا کہہ کر راجو شہناز کے پس چلا جاتا ہے . . ،
شیرو یونہی اکیلا کھڑا تھا کہ اسے مینا دکھتی ہے جنگل والے کھیت کی طرف جاتی ہوئی اور اس کے پیچھے کچھ ہی دوری پر چھوٹے ماموں بھی آ رہے تھے . . . .
شیرو چھپ کر دیکھنے لگتا ہے اور سوچتا ہے کہ آج اچھا موقع ہے پتہ لگانے کا . . . ،
ان دونوں کے جاتے ہی شیرو بھی آہستہ آہستہ احتیاط سے ان کے پیچھے چلنے لگتا ہے . . . .
آگے جا کر جنگل شروع ہو جاتا ہے اور سورج کی روشنی بھی کم نظر آتی ہے . . .
یونہی چلتے چلتے اسے جنگل کے درمیان ایک جھونپڑی نظر آتی ہے اور مینا کا ہاتھ تھامے چھوٹے ماموں اس جھونپڑی میں گھس جاتے ہیں . . . .
شیرو جھونپڑی کے چاروں طرف گھوم کر اندر دیکھنے کی جگہ تلاش کرتا ہے تو اسے ایک جگہ مل جاتی ہے جہاں سے وہ اندر دیکھ سکتا تھا . . . .
شیرو جیسے ہی اندر دیکھتا ہے اس کا حلق خشک ہو جاتا ہے . . . . .
جاری ہے . . . .
منحوس سے معصوم تک
قسط نمبر 004
اندر اس کا چھوٹا ماما اور مینا دونوں پورے ننگے تھے شیرو پہلی بار کسی عورت کو یوں ننگا دیکھ رہا تھا اسے پسینہ آنے لگتا ہے اور اِس نظارے سے اس کا لنڈ پھنکار اٹھتا ہے . . . .
اندر چھوٹے ماما مینا کے مموں کو کس کر مسل رہے تھے اور مینا کی سیسکاریاں نکل رہی تھی . . . .
مینا :
آہ . . . سائیں . . ایسے ہی مسلو . . آہ . . زور سے مسلو . . . تبھی تودودھ اترے گا ان میں آں . . . . آہ . .
بختیار :
فکر نہ کر مینا ان میں اتنا دودھ بھر دوں گا کہ کبھی کمی نہیں ہوگی بچے کو دودھ کی . . .
مینا :
آہ . . او . . سائیں ایسے ہی رگڑو . . . آہ . . کمی نہیں ہونی چاہیے . . آہ . . آپ کے ہونے والے بچے کو دودھ کی کمی نہیں ہونے دوں گی . . . آہ . . اوں . . . . . مسلو زور سے . . .
مینا کی بات سن کر شیرو حیران ہو جاتا ہے . . .
شیرو (من میں ) :
یہ کیا ڈرامہ ہے کیا مینا ماما کے بچے کی ماں بننے والی ہے مگر یہ تو پہلے سے ہی شادی شدہ ہے . . .
بختیار :
ہاں میری رانی میرے بچے کو کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے دیکھنا بیٹا ہی ہوگا . . . .
تو مجھے میرے خاندان کا وارث دے میں تجھے پیسوں میں تول دوں گا . . . .
مینا :
آہ . . . باتیں ہی کرتے ہو کرتے کچھ نہیں . . آہ . . . اوں . . .
میں آپ کے لیے اتنا کر رہی ہوں آپ کے لیے بیٹا پیدا کروں گی مگر آپ میرا خیال ہی نہیں رکھتے . . . اوں . . . . آہ . . س س . . . .
بختیار :
بول کیا چاہیے تجھے . . . ،
تیرے ایک حکم پر ہر چیز تیرے قدموں میں لا کر رکھ دوں گا . . .
مینا :
رہنے دو باتیں آں . . . آہ . . اوھ . . .
تم تو کہہ رہے تھے تمہیں سونے کا ہار دوں گا وہ تو آیا نہیں ابھی تک . . . .
بختیار :
ہار تو لے آیا ہوں میری رانی . . ،
تیرا حکم ہو اور میں پُورا نہ کروں . . .
اتنا کہہ کر بختیار اپنے کپڑوں سے سونے کا ہار نکالتا ہے اور مینا کو پہنا دیتا ہے . . . .
مینا :
کتنا پیارا ہے یہ . . .
دیکھنا آپ کا بھی ایسا ہی چمکدار بچہ پیدا ہوگا میری اِس چوت سے . . . .
اتنا کہہ کر مینا ٹانگیں پھیلا کر اپنی چوت رگڑ کر دیکھانے لگتی ہے . . .
وہیں شیرو کے تو ہوش ہی گم تھے مینا کی اداؤں کو دیکھ کر شیرو کا ہاتھ اپنے آپ لنڈ پر چلا جاتا ہے اور وہ اسے مسلنے لگتا ہے . . .
بختیار :
ہاں میرے ہونے والے بچوں کی ماں ہمارا بیٹا ایسا ہی چمکدار ہوگا تیری یہ چوت لاجواب ہے . . . .
اسی چوت سے میرا بیٹا پیدا ہوگا . . .
یہ کہہ کر بختیار مینا کی چوت کو مسلنے لگتا ہے . . . .
مینا :
آں . . س س . . . اف ف . . بس بھی کرو اب برداشت نہیں ہوتا جلدی سے مجھے ٹھنڈا کرو اور اپنے بیٹے کو طاقت دو . . . .
بختیار مینا کو وہیں رکھی چارپائی پر لیٹا کر اس کی ٹانگوں کو اوپر اُٹھا کر اس کی چوت میں لنڈ گھسا دیتا ہے . . .
مینا :
آہ . . . دھیرے کرو آپ کا لوڑا تو جان نکل دیتا ہے . . .
آہ . . اف ف . . پتہ نہیں آپ کی بیوی کیسے لیتی ہے اسے . . . .
بختیار :
اس کی بات مت کر بانْجھ کمینی اتنے سالوں میں ایک بچہ نہیں دے پائی مجھے . . . .
مینا :
آں . . . س س س . . . ایسے ہی زور سے کرو اور زورر سے . . اف ف ف . . .
بختیار :
لے میری رانی اور زور سے یہ لے . . .
ٹھپ ٹھپ . . ٹھپ ٹھپ . . .
ایسی آوازیں گونجبے لگتی ہیں شیرو کو اور برداشت نہیں ہوتا اور وہ الٹے پاؤں بھاگ جاتا ہے . . . .
راجو شیرو کا انتظار کر کے چلا گیا تھا اس نے سوچا کہ شیرو چلا گیا ہوگا ، ،
شیرو بھی پسینے سے بھیگا ہوا تیز قدموں سے گھر پہنچ کر سیدھا اپنے کمرے میں گھس جاتا ہے . . . .
اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹا ہوا شیرو چھوٹے ماما اور مینا کی چدائی کو یاد کر رہا تھا . . . .
اس کی آنکھوں کے سامنے وہ سب بار بار گھوم رہا تھا . . . .
زندگی میں پہلی بار آج اس نے کسی عورت کا ننگا جسم دیکھا تھا اور چدائی کا منظر تو اس کی آنکھوں کے سامنے ابھی بھی چل رہا تھا . . . . .
شیرو کا خود پر کنٹرول نہیں تھا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کے جسم میں اتنی بےچینی کیوں ہو رہی ہے اس کا لنڈ تو جیسے پھٹا جا رہا تھا کتنی ہی دیر تک شیرو آج کی چدائی کے سین کو یاد کرتے ہوے اپنے لنڈ کو مسلتا رہتا ہے . . . ،
تبھی اس کے دماغ میں مینا اور بختیار کی باتیں یاد آتی ہیں کہ . . . .
مینا بختیار ماما کے بچے کی ماں بننے والی ہے اور مینا کو خوش کرنے کے لیے سونے کا ہار لائے تھے . . .
شیرو : (من میں )
اس کا مطلب چھوٹے ماما حساب میں گڑبڑ کر کے سارا پیسہ مینا پر لوٹا رہے ہے. . .
اگر ایسے ہی چلتا رہا تو ماما سب کچھ لوٹا دیں گے اور جب بڑے ماما اور سرور ماما کو پتہ چلا تو گھر ٹوٹ جائے گا . . . ، ،
پھر شیرو کی آنکھوں کے سامنے چھوٹی مامی کا خوبصورت معصوم چہرہ آ جاتا ہے . . ،
کتنی پیاری ہے وہ کتنی خوبصورت ہے ماما کا تو دماغ خراب ہوگیا ہے جو مامی کو چھوڑ کر اس مینا کے چکر میں گھوم رہا ہے . . . .
جب مامی کو ماما اور مینا کا پتہ چلے گا تو ان کے دِل پر کیا گزرے گی . . .
ان کی تو دنیا ہی تباہ ہو جائے گی . . . .
شیرو خود سے :
نہیں نہیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گا مجھے ماما کو کسی بھی طرح روکنا ہوگا . . . .
پھر ماما کی بات اسے یاد آتی ہے کہ چھوٹی مامی ایک بچہ نہیں پیدا کر سکتی وہ بانجھ ہے . . .
شیرو کو یہ بات بہت بری لگتی ہے اور وہ اپنے کمرے سے نکل کر سیدھا چھوٹی مامی کے کمرے کی طرف چل پڑتا ہے . . . .
کمرے میں چھوٹی مامی اکیلی بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی . . . .
شیرو دیکھتا ہے کہ مامی کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی ہے کہیں مامی کو کچھ پتہ تو نہیں چل گیا ماما کے بارے میں . . . .
اِس وقت مامی کا چہرہ اُداس تھا مگر پھر بھی کتنا معصوم تھا اب تو شیرو کو اپنے ماما پر غصہ آنے لگا تھا مگر پھر شیرو آگے بڑھتا ہے اور مامی کو آواز دیتا ہے . . . .
شیرو :
کہاں کھوئی ہو مامی میں کب سے آپ کو بلا رہا ہوں اور آپ ہو کہ سن ہی نہیں رہی . . . .
شیرو کی آواز سے ماہرہ اپنی سوچ سے باہر آتی ہے اور ہڑبڑا کر جواب دیتی ہے . . . .
ماہرہ :
کیا . . . کیا کہا تم نے . . . .
شیرو :
میری پیاری مامی کس سوچ میں گم ہو . . .
ماہرہ :
کسی سوچ میں نہیں میں تو بس ایسے ہی بیٹھی ہوں . . .
شیرو :
ویسے مامی آپ مجھ سے تو سب پوچھ لیتی ہو دوستی کے نام پر مگر مجھے کچھ نہیں بتاتی . . . . . اب سچ سچ بتاؤ کیا بات ہے . . .
ماہرہ :
نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں میں بس وہ اپنے امی ابو کے بارے میں سوچ رہی تھی بڑے دن ہوئے ان سے نہ بات ہوئی نہ کوئی خبر . . . .
شیرو سمجھ جاتا ہے بات کچھ اور ہے مامی بات کو ٹال رہی ہے . . .
شیرو :
تو ایسا کریں آپ اپنے میکے چکر لگا آئیں ماما کو ساتھ لے جا کر . . . .
ماہرہ اپنے من میں :
وہ تو اب میری شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے اب تجھے کیا بتاؤں میری تو دنیا ہی اجڑ گئی ہے . . . .
ماہرہ :
وہ کیا ہے نہ تیرے ماما کو بہت کام ہوتا ہے آج کل اس لئے وہ نہیں جا سکتے . . . ،
ویسے بھی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے میکے جانے کی وہ تو بس ایسے ہی آج ان کی یاد آ رہی تھی . . . .
شیرو :
مامی آپ کو میری قسم سچ سچ بتاؤ بات کیا ہے . . . .
ماہرہ :
اپنی قسم مت دے شیرو پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دے . . . .
اتنا کہہ کر چھوٹی مامی رونے لگتی ہے . . . .
شیرو سے ان کا رونا دیکھا نہیں جاتا اور وہ آگے بڑھ کر مامی کو گلے لگا لیتا ہے اور انہیں چُپ کروانے لگتا ہے . . . .
شیرو :
مامی اگر آپ کی نظروں میں میری کوئی قیمت ہے تو پلیز مجھے بتائیں کہ . . . .
آخر کیا بات ہے اگر آپ مجھے واقعی دوست مانتی ہیں تو دوستی کے ناتے ہی سہی بتا دیجیئے . . . . ،
میں آپ کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا پلیز آپ کو میری قسم مجھے بتائیں آخر بات کیا ہے . . . .
ماہرہ : (روتے ہوئے )
میں کیسے بتاؤں تجھے میری تو دنیا ہی اجڑ گئی ہے . . . .
میں ایک بانجھ ہوں بانجھ . . . .
جو ایک بچہ پیدا نہیں کر سکتی میں عورت کے نام پر دھبہ ہوں . . . .
اِس گھر کو ایک وارث تک نہیں دے پائی اور اسی وجہ سے اب تیرے ماما میرے پاس تک نہیں آتے . . . .
وہ اب میری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتے . . . ،
میری زندگی برباد ہو گئی اگر تیرے ماما نے مجھے گھر سے نکال دیا تو میں کہاں جاوں گی میرا کیا ہوگا . . . . ،
میں تو میکے بھی نہیں جا سکتی وہ بےچارے تو پہلے ہی دو وقت کی روٹی مشکل سے کھاتے ہیں میں اپنا منحوس چہرہ لے کر ان کے پاس بھی نہیں جا سکتی . . . . .
یہ کہتے ہوئے مامی اور بھی زیادہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے . . . .
شیرو کا کلیجہ پھٹا جا رہا تھا مامی کی باتوں کو سنتے ہوئے اور اس کی آنکھوں میں خون اُتَر آیا تھا اپنے چھوٹے ماما اور مینا کے نام پر . . .
شیرو :
میرے ہوتے ہوے ایسا کچھ نہیں ہوگا میں دیکھتا ہوں کیسے ماما آپ کو گھر سے نکالتے ہیں . . . ،
اور کون کہتا ہے کہ آپ بانجھ ہو آج کل دنیا میں ہر چیز کا علاج ہے آپ ڈاکٹر کو دیکھائیں دیکھ لینا آپ بھی ماں بن جاو گی . . . ،
آپ تو پڑھی لکھی ہیں پھر بھی آپ ایسی باتوں پر اپنا قصور نکال رہی ہے آپ کل ہی شہر جا کر اپنا ٹیسٹ کروائیں . . . .
ماہرہ کے آنسوں تھامنے لگتے ہیں اور اس کے دماغ میں بھی یہ بات گھس جاتی ہے . . . .
آخر سہی تو کہا تھا شیرو نے آج کل بھلا کس بیماری کا علاج نہیں ہوتا . . . ،
اتنی پڑھی لکھی ہو کر بھی کیسے جاہلوں جیسا سوچنے لگی تھی وہ . . .
ماہرہ : ( آنسوں پونچھتے ہوئے )
تو سہی کہہ رہا ہے میں جاوں گی ڈاکٹر کے پاس یہ بات پہلے کیوں نہیں آئی میرے دماغ میں . . . .
شیرو :
بالکل ابھی آپ رونا بند کرو کیونکہ آپ روتی ہوئی بندریا لگتی ہے . . . .
ماہرہ شیرو کی بات سن کر ہنسنے لگتی ہے اور اسے ہلکے ہاتھ سے مارتے ہوئے . . . .
ماہرہ :
کیا کہا بندریا لگتی ہوں ٹھہر تجھے ابھی بتاتی ہوں میں . . . .
شیرو :
ارے سوری سوری مامی جی سچ تو یہ ہے کہ آپ کے چاند سے چہرے پر یہ آنسوں کسی گرہن کے جیسے لگتے ہیں . . .
آپ بس ہنستی رہا کیجیے جب آپ ہنستی ہے تو لگتا ہے جیسے باغوں میں بہار آ گئی ہو . . . .
پلیز آپ ان آنکھوں میں کبھی آنسو مت لایا کرو میرے لیے آپ ہنستی رہا کرو . . . .
ماہرہ : ( شرما کر )
دھت . . . . ، ایسی باتیں تو صرف مہوش کو سنایا کر . . . ،
میں تیری مامی ہوں گرل فرینڈ نہیں . . . .
شیرو :
ارے مامی اس میں گرل فرینڈ والی بات کہاں سے آ گئی میں نے تو بس وہی کہا جو سچ ہے . . . .
اگر آپ کو اپنی تعریف اچھی نہیں لگی تو دوبارہ سے نہیں کرتا . . . .
ماہرہ :
اپنی تعریف بھلا کسے اچھی نہیں لگتی ایسے تو تیرے ماما نے بھی کبھی میری تعریف نہیں کی . . . .
واقعی میں شیرو تم بہت اچھے ہو آج سے میں اپنی ہر بات تم سے ڈسکس کروں گی تم آج سے میرے بیسٹ فرینڈ ہو . . . . .
پھر دونوں ہاتھ ملاتے ہیں تھوڑی دیر ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد شیرو راجو سے ملنے کا کہہ کر گھر سے نکل جاتا ہے . . . .
شیرو کے جانے کے بعد ماہرہ سوچنے لگتی ہے کہ . . . .
شیرو کتنا اچھا ہے اور کتنا ہینڈسم بھی ہے . . . .
مہوش اگر شیرو سے اتنی امپریس ہے تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں شیرو کی ایسی نیچر اور اخلاق کی وجہ سے کوئی بھی لڑکی کیسے خود کو روک سکتی ہے شیرو کو چاہنے سے . . . ،
شیرو کے بارے میں سوچتے ہوئے من ہی من ماہرہ بھی جیسے شیرو کو اب چاہنے لگی تھی . . .
اُدھر شیرو گھر سے نکل کر راجو کے پاس جاتا ہے اور راجو کو لے کر نہر کے کنارے چلا جاتا ہے . . . .
راجو :
یار کچھ بتائے گا بھی کے بات کیا ہے . . .
شیرو :
کیسے بتاؤں یار بتانے میں بھی شرم آ رہی ہے . . . .
راجو :
ایسی کون سی بات ہے جو تجھے مجھ سے شرم آ رہی ہے . . . .
شیرو :
بات ہی کچھ ایسی ہے . . .
راجو :
دوستوں سے شرمانا اچھی بات نہیں چل سیدھا بات بتا کیا مسلہ ہے . . .
شیرو :
تجھے مینا کا پتہ ہے ؟ . . .
راجو :
کون مینا . . . .
شیرو :
وہی یار جو اپنے کھیتوں کے پاس بنے گھر میں رہتی ہے . . . . ،
جس کا شوہر ہمارے ہی کھیتوں میں مزدوری کرتا ہے . . .
راجو :
وہ سانولی سی . . . جس کی گانڈ باہر کو نکلی رہتی ہے . . ،
تیرا کیا مسلہ ہے اس کے ساتھ . . . .
شیرو :
میرا کیا مسلہ ہوگا اس سے . . . ،
مجھے لگتا ہے وہ چالو قسِم کی عورت ہے اور چھوٹے ماما کو اپنے چکر میں پھنسا کر لوٹ رہی ہے . . . .
راجو :
او تیری تو . . . ،
یہ تو کیا کہہ رہا ہے . . . ،
تجھے کیسے معلوم کیا تو نے کچھ دیکھا ہے . . . .
شیرو :
آج جب ہم نہر کے کنارے گئے تھے تب میں نے اسے ماما کے ساتھ جنگل میں جاتے دیکھا . . . .
اور پھر شیرو ساری بات راجو کو بتا دیتا ہے جو اس نے دیکھا . . . .
راجو کا منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے . . . .
راجو :
کمینی رنڈی پھدی کے راستے پیسہ جمع کر رہی ہے اس کا تو کچھ کرنا پڑے گا . . . .
شیرو :
اور وہ ماما کو بول رہی تھی کہ وہ ماما کے بچے کی ماں بننے والی ہے . . . .
راجو : ( حیرانی سے )
اس کی ماں کی . . . کمینی یہ تو ایسے تمھارے کھیتوں کو اپنے نام کروا لے گی . . .
شیرو :
یہی تو میں بھی سوچ رہا ہوں . . . ،
ماما تو اس کے بھروسے میں ہی سب کچھ دیتا جائے گا اور بےچاری چھوٹی مامی کی زندگی برباد ہو جائے گی . . . .
اور میں جیتے جی یہ سب نہیں ہونے دوں گا . . . .
راجو :
تو بس بول کیا کرنا ہے پھر دیکھتے ہیں اِس رنڈی کو کون بچاتا ہے. . . .
شیرو :
سب سے پہلے تو ایک کام کر آج سے تو مینا پر نظر رکھ اس کی ساری تفصیل پتہ کر اور ہو سکے تو کسی اور سے بھی مدد لے لینا مگر ماما کے بارے میں کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے . . . .
راجو :
تو فکر نہ کر تیرے گھر کی عزت میری عزت ہے میں سب پتہ کرتا ہوں . . . .
شیرو :
مجھے صرف تم پر ہی بھروسہ ہے میرے یار بڑے ماما سے بھی کچھ نہیں کہہ سکتا نہیں تو گھر میں لڑائی جھگڑا ہو جائے گا . . . .
راجو :
میں سب سمجھتا ہوں تو فکر نہ کر میں اس کی پوری تفصیل نکال کر تجھے بتاؤں گا تو بس پریشان نہ ہو . . . .
شیرو اور راجو تھوڑا ادھر اُدھر کی باتیں کر کے گھر لوٹ جاتے ہیں . . . .
ادھر گھر میں ماہرہ بھی نائلہ سے بات کرتی ہے کہ . . . .
وہ ایک بار ڈاکٹر سے اپنا علاج کروانا چاہتی ہے تاکہ وہ بھی ماں بن سکے . . . .
نائلہ ماہرہ کو حامی بھر دیتی ہے اور ماہرہ نائلہ کو اس کے ساتھ کل شہر چلنے کو راضی کر لیتی ہے . . . .
ایسے ہی دن گزر جاتا ہے اور رات كھانا کھانے کے بعد سب اپنے کمروں میں سو جاتے ہیں . . . .
اگلے دن صبح اپنی روٹین کے مطابق شیرو اکھاڑے سے لوٹ کر كھانا کھا کر اسکول چلا جاتا ہے . . . .
اور پیچھے سے نائلہ ماہرہ کے ساتھ شہر چلی جاتی ہے . . . .
اسکول میں مہوش لنچ بریک میں شیرو سے ملتی ہے دونوں الگ الگ کلاس میں تھے اس لئے لنچ بریک میں ہی مل سکتے تھے . . . .
مہوش :
سنو آپ کیا آج مجھے نہر کے کنارے ملے گے دوپہر کو . . . .
شیرو :
کوئی کام تھا کیا . . . ،
یہیں بتا دو . . .
مہوش :
وہ . . . وہ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی
شیرو :
بات تو تم اب بھی بتا سکتی ہو . . . ،
کہو کیا بات ہے . . . .
مہوش :
آپ سمجھیں نہ . . . ،
وہ بات یہاں نہیں بتا سکتی . . .
شیرو :
ایسی کون سی بات ہے جو یہاں نہیں بتا سکتی . . . .
مہوش :
دراصل میں آپ سے اکیلے میں ملنا چاہتی ہوں . . .
شیرو :
تو یہ بات ہے . . . ، مطلب پھر سے مجھے گلے لگنا چاہتی ہو . . .
مہوش شرما جاتی ہے. . . .
شیرو :
میں نہیں آؤں گا ملنے . . . . .
مہوش : ( چونک کر )
کیوں ؟ کیوں نہیں آؤ گے ؟ . . . .
شیرو :
کیوںکہ تم تو وہاں بھی ایسے ہی شرماتی رہو گی تو پھر بات کیا کرو گی. . . . .
مہوش : ( شرما کر )
آپ مجھے تنگ کر رہے ہے نہ . . . .
شیرو :
اچھا اچھا ٹھیک ہے آ جاؤں گا مگر میری ایک شرط ہے . . . .
مہوش :
وہ کیا . . .
شیرو :
مجھے ایک پپی دینی ہوگی تبھی میں آؤں گا . . . .
مہوش : ( شرما کر )
بھلا ایسی بات کرتا ہے کوئی . . . .
شیرو :
منظور ہے تو بولو ورنہ میں نہیں آؤں گا . . . .
مہوش : ( اٹھتے ہوئے )
ٹائم سے آ جانا . . . .
یہ کہہ کر مہوش بھاگ جاتی ہے اور شیرو اس کی معصوم اداؤں کو سوچ کر مسکرانے لگتا ہے . . .
اور اس کے ساتھ ہی لنچ ٹائم ختم ہو جاتا ہے . . . .
چھٹی کے بعد شیرو گھر آتا ہے تو اسے بڑی مامی اور چھوٹی مامی دونوں ہی گھر نظر نہیں آتی تو . . . .
ان کا پوچھنے کے لیے شیرو دیبا مامی کے کمرے میں چلا جاتا ہے دروازہ کھلا تھا اس لئے سیدھا اندر گھس جاتا ہے . . . .
اندر گھوستے ہی شیرو کا منہ کھلا رہ جاتا ہے . . . .
سامنے دیبا مامی اپنے کپڑے بَدَل رہی تھی . . .
اِس وقت ان کے جسم پر صرف شلوار اور بلائوز تھا . . .
دروازے کی طرف اس نے پشت کی ہوئی تھی . . . .
شیرو ابھی اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ دیبا اپنی شلوار کا ناڑا کھول دیتی ہے . . . .
اور شلوار اس کے پاؤں میں گر جاتی ہے . . . .
شلوار کے اندر اس نے لال پینٹی پہنی ہوئی تھی . . . . ،
کیا گانڈ تھی ابھری ہوئی لال پینٹی میں قاتلانہ لگ رہی تھی نیچے گوری گوری رانیں . . . .
شیرو کے نیچلے حصے میں جیسے فائر کرنے کے لیے مزائیل بلکل تیار پوزیشن میں تھا . . . ،
شیرو کا لنڈ تو سامنے کا نظارہ دیکھ کر باہر آنے کو مارا جا رہا تھا . . . .
اور شیرو کی حالت تو ایسی تھی جیسے سانپ سونگھ گیا ہو منہ کھلا تھا آنکھیں باہر . . . .
سامنے دیبا نیچے جھک کر شلوار اُٹھاتی ہے جس سے اس کی گانڈ اور بھی ابھر آتی ہے . . . .
شیرو سے اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا مشکل ہو جاتا ہے اپنی ہمت کو اکھٹا کر کے وہ جلدی سے کمرے سے نکل جاتا ہے . . . .
مگر دیبا کو احساس ہو جاتا ہے کہ ابھی کوئی جیسے کمرے سے بھاگ کر گیا ہو . . .
وہ جھٹ سے باہر نکل کر دیکھتی ہے تو شیرو اسے گھر سے باہر جاتا دِکھ جاتا ہے . . . . .
دیبا : ( من میں )
منحوس حرامی کہیں کا مجھے ننگا دیکھ رہا تھا آج تجھے بتاتی ہوں . . . ،
تیری کھال نہ اتروا دی تو میرا نام دیبا نہیں . . . .
اُدھر شیرو گھر سے بھاگ کر سیدھا نہر کے کنارے پہنچ جاتا ہے . . . .
اس کا دِل جیسے ریل گاڑی سے بھی تیز بھاگ رہا تھا چہرہ پسینے سے بھیگ گیا تھا . . .
اس کی آنکھوں میں ابھی بھی دیبا مامی کی گانڈ اور مخملی رانیں نظر آ رہی تھی . . .
کیا خوبصورت گانڈ تھی . . . ،
اگر تھوڑی دیر اور ٹھہر جاتا تو کیا پتہ مامی پینٹی بھی اُتَار دیتی . . . .
پھر تو آج ہارٹ ہی فیل ہو جانا تھا اس کا کتنی زبردست گانڈ ہے مامی کی . . .
مامی جتنا مجھ سے غصہ رہتی ہے اسے کہیں زیادہ قدرت نے انہیں خوبصورت بنایا ہے . . . .
پتہ نہیں کب تک شیرو اپنے خیالوں میں ہی کھویا تھا کہ . . . .
اچانک اسے کسی نے ہلایا اور وہ جیسے دنیا میں لوٹ آیا . . . .
مہوش :
کیا ہوا آپ کو کب سے آواز دے رہی ہوں آپ جواب ہی نہیں دے رہے . . . .
شیرو :
ک ک ک . . . کچھ بھی تو نہیں . . . .
مہوش :
جھوٹ مت بولو میں کب سے آواز دے رہی تھی آپ سن ہی نہیں رہے تھے . . .
شیرو :
ارے کچھ نہیں میں تو بس تمھارے ہی بارے میں سوچ رہا تھا . . .
مہوش : ( شرما کر )
میرے بارے میں . . . .
شیرو :
ہاں سچ . . .
مہوش :
میرے بارے میں کیا سوچ رہے تھے . . .
شیرو :
یہی کہ آج تم مجھے ہونٹوں پر پپی دو گی تو کتنا مزہ آئے گا . . . .
مہوش :
ہاۓ . . . ، بے شرم جائیں میں نہیں بات کرتی آپ سے میں جا رہی ہوں. . . .
یہ کہہ کر مہوش موڑنے لگتی ہے تو شیرو اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیتا ہے اور اپنے سینے سے لگا لیتا ہے . . .
شیرو :
بس اتنا ہی پیار ہے مجھ سے ایک کس تک نہیں دے سکتی مجھے . . . ،
ٹھیک ہے تو جاؤ میں بھی چلتا ہوں . . .
یہ کہہ کر شیرو مہوش کو چھوڑ کر آگے بڑھنے لگتا ہے تو . . . . .
مہوش شیرو کے پاؤں میں گر جاتی ہے اور کہتی ہے . . .
مہوش : ( نم آنکھوں سے )
میں تو مذاق کر رہی تھی یہ دِل یہ جسم سب آپ کا ہی تو ہے میں آپ کو بھلا کیسے منع کر سکتی ہوں . . .
مہوش کی یہ بات سن کر اور اس کی آنکھوں کی نمی دیکھ کر شیرو پگھل جاتا ہے اور اسے اُٹھا کر گلے سے لگا لیتا ہے . . .
شیرو :
پاگل میں تو مذاق کر رہا تھا تم تو رونے لگی . . .
مہوش :
آپ نہیں جانتے میں آپ کو کتنا پیار کرتی ہوں آپ اگر مجھ سے روٹھ گئے تو میرا کیا ہوگا . . . .
شیرو :
ارے پگلی تم سے بھلا کوئی روٹھ سکتا ہے . . . .
یہ کہہ کر شیرو مہوش کو کس کر اپنے سینے میں بھینچ لیتا ہے . . . .
دونوں یوں ہی کچھ پل ایک دوسرے کے پیار میں ڈوبے ایک دوسرے کے گلے ملے کھڑے رہتے ہیں . . .
شیرو :
تو اب مجھے میرا انعام ملے گا یا نہیں . . .
مہوش :
مجھے شرم آتی ہے آپ ہی لے لیجیے . . . .
شیرو :
پکا لے لوں . . . ،
ناراض تو نہیں ہوگی پھر . . .
مہوش :
بالکل بھی نہیں . . . .
شیرو مہوش کو تھوڑا پیچھے ہٹا کر اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیتا ہے . . .
اور دھیرے دھیرے اپنا چہرہ اس کے چہرے پر جھکانے لگتا ہے . . . .
مہوش کی آنکھیں ابھی بند ہی تھی شیرو کے ہونٹ مہوش کے ہونٹوں کے پاس آتے ہیں . . . .
مہوش کو شیرو کی گرم سانسیں محسوس ہونے لگتی ہیں اور اس کا جسم کانپنے لگتا ہے . . . .
تبھی اسے اپنے ہونٹوں پر شیرو کے گرم ہونٹوں کا احساس ہوتا ہے . . .
یہ اس کے زندگی کی پہلی چومی تھی مہوش تو جیسے ہوا میں اُڑ رہی تھی اسے کچھ احساس ہی نہیں تھا کہ . . . .
وہ کہاں ہے کہاں نہیں وہ تو بس مزے کی وادیوں میں کھوتی جا رہی تھی . . . .
شیرو نے بھی پہلی بار ایسا نرم اور دلکش احساس محسوس کیا تھا مہوش کے ہونٹ جیسے اسٹرابیری کی طرح ملائم اور رسیلے تھے . . . .
شیرو تو بس مزے سے اس کے ہونٹوں کا رس نچوڑنے میں لگا ہوا تھا دونوں تب تک ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے رہے جب تک کی ان کی سانسیں نہیں اُکھاڑ گئی. . . .
جب سانس لینے کے لیے دونوں الگ ہوئے تو جیسے انہیں ہوش آیا . . . ،
مہوش خود کو سنبھلتے ہوئے جلدی سے وہاں سے ہنستی مسکراتی ہوئی بھاگ جاتی ہے. . . .
اور شیرو اسے جاتا ہوا دیکھتا رہتا ہے اور سوچتا ہے. . . .
شیرو :
کتنی بھولی اور چنچل ہے مہوش . . . ،
اس کی معصومیت پر تو سب قربان کر دوں . . . .
پھر شیرو راجو سے ملنے چلا جاتا ہے اور اسے مینا کے کام کے بارے میں پوچھتا ہے . . . .
مگر ابھی کچھ پتہ نہیں چلا تھا . . . .
شام ہونے سے پہلے شیرو گھر لوٹ آتا ہے . . .
گھر آتے ہی دیبا مامی ڈنڈے سے شیرو کی پٹائی شروع کر دیتی ہے گھر پر اِس وقت اور کوئی نہیں تھا . . .
ماما لوگ باہر دوستوں میں تھے اور بڑی مامی اور چھوٹی مامی کہیں باہر گئی تھی . . . .
دیبا تو جیسے آج اگلا پچھلا سارا حساب کر دینا چاہتی تھی . . . . ،
شیرو چیلاتا رہتا ہے مگر دیبا نے اس کی ایک نہیں سنی . . . .
ویسے تو شیرو دیبا سے کہیں زیادہ طاقتور تھا مگر اس کی پرورش اسے جواب دینے نہیں دے رہی تھی . . . .
مگر دیبا تو جیسے اس کی ہڈی پسلی توڑ دینا چاہتی تھی وہ لگاتار مارتی جا رہی تھی . . . .
اور شیرو زور زور سے چیخ رہا تھا . . .
شیرو :
مامی پلیز مت مارو پلیز آخر مار کیوں رہی ہو میں نے ایسی کیا غلطی کر دی مت مارو مامی پلیز مت مارو . . . .
دیبا :
کمینے حرامزادے شرم نہیں آتی مجھے ننگا دیکھتا ہے . . . . حرامی آج تجھے بتاتی ہوں منحوس کہیں کہ . . . .
میری زندگی برباد کر کے رکھ دی ہے تو نے اور اب مجھ پر گندی نظر رکھتا ہے . . . . یہ لے اور لے . . . .
یہ کہہ کر دے دانہ دان پھر سے ڈنڈے سے پیٹنے لگتی ہے . . . ،
دیبا کی باتوں سے شیرو اتنا تو جان گیا تھا کہ . . . مامی کو پتہ چل گیا کہ . . . دوپہر کو میں نے انہیں کپڑے بدلتے دیکھا ہے . . . .
تبھی باہر کا دروازہ کھلتا ہے اور نائلہ اور ماہرہ گھر میں داخل ہوتی ہیں . . .
سامنے کا نظارہ دیکھ کر دونوں کے ہوش اُڑ جاتے ہیں شیرو نیچے زمین پر پڑا تھا اور دیبا ڈنڈے سے اسے ایسے پیٹ رہی تھی جیسے کوئی کپڑے دھوتا ہے ڈنڈے سے . . . .
ماہرہ بھاگ کر دیبا کے ہاتھ روک لیتی ہے . . . . اور نائلہ شیرو کو سینے سے لگا لیتی ہے . . .
ماہرہ : ( غصے سے )
یہ کیا کر رہی ہو باجی . . . ،
دماغ تو ٹھیک ہے آپ کا کیوں مار رہی ہو بےچارے کو . . . .
دیبا : ( غصے میں )
بیچ میں سے ہٹ جا چھوٹی آج میں اس کی کھال ادھیڑ دوں گی . . . ،
یہ بے چارہ نہیں ہوس کا بھوکا بھیڑیا ہے . . .
ماہرہ : ( حیرانی سے )
آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں ؟
آپ ہوش میں تو ہے. . . .
دیبا :
ہاں میں ہوش میں ہوں پوری ہوش میں ہوں پوچھ اس سے مجھے ننگا دیکھ رہا تھا کہ نہیں . . . .
پوچھ اس سے میرے کمرے میں چپ چاپ گھسا تھا کہ نہیں . . . ،
گھر میں اکیلی دیکھ کر پتہ نہیں کیا کرنا چاہتا تھا یہ میرے ساتھ . . . .
ماہرہ :
چُپ کیجیے آپ جو منہ میں آتا ہے بولے جا رہی ہے آپ . . . . ،
شیرو ہمارا بچہ ہے ہم نے تربیت دی ہے اسے . . .
یہ ایسا کچھ سوچ بھی نہیں کر سکتا . . . .
دیبا :
تو کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں . . . ،
تم لوگوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے اس نے تمہیں کہاں نظر آئے گا . . . .
نائلہ : ( روتے ہوئے )
میرا بیٹا ایسا نہیں کر سکتا تم جھوٹ بول رہی ہو . . . .
دیبا :
میں جھوٹ بول رہی ہوں تو پوچھو اس سے یہ میرے کمرے میں آیا تھا کہ نہیں ؟
پوچھو اس سے کہ مجھے ننگا دیکھ رہا تھا کہ نہیں ؟
پوچھو اسے کیا کرنے والا تھا یہ میرے ساتھ . . . .
نائلہ : ( روتے ہوئے )
بتا شیرو سچ کیا ہے تجھے میری قسم بتا تو نے ایسا کیا تھا کیا . . . .
دیبا :
بول کمینے اما کہتا ہے نہ باجی کو . . . ،
کھا اما کی قسم کے تو نے مجھے ننگا دیکھا کہ نہیں دیکھا . . . . .
نائلہ :
بول بیٹا بتا جو یہ پوچھ رہی ہے . . . .
شیرو تو بےچارا قسم میں پھنس گیا تھا اب جھوٹ بول کر قسم نہیں توڑ سکتا تھا . . .
کیوںکہ اسے ماں کا پیار تو بڑی مامی نے ہی دیا تھا . . . .
شیرو :
یہ سچ ہے ماں لیکن . . . .
اسے آگے کچھ کہتا نائلہ نے غصے میں شیرو کے منہ پر تین چار تھپڑ کس کر جڑ دیئے . . .
اور روتی ہوئی اپنے کمرے میں بھاگ گئی . . .
جاری ہے . . . .
0 Comments